پاکستان کو درپیش داخلی اور خارجی چیلنجز
پاکستان کے مالیاتی خسارے اور بڑھتے ہوئے عوامی قرضوں نے اس کے اقتصادی استحکام کو متاثرکیا ہے
پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ کے درمیان نئے قرض پروگرام پر اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، آئی ایم ایف نے چھ سے آٹھ ارب ڈالر کے نئے بیل آؤٹ پیکیج کے لیے پاکستان کی درخواست منظورکر لی ہے۔ نیا قرض پروگرام تین سال سے زائد مدت کے لیے ہونے کا امکان ہے۔
دوسری جانب امریکا نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے تعاون اور سامان فراہم کرنے کے الزام میں چارکمپنیوں پر پابندی عائد کر دی ہے، ان میں سے تین چینی اور بیلا روس کی ایک کمپنی شامل ہے، پاکستان نے ان پابندیوں کو مسترد کردیا ہے۔
بلاشبہ آئی ایم ایف سے تین سالہ نئے قرض پروگرام کے حوالے سے یہ خبر انتہائی خوش آیند ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سابقہ نگران اور موجودہ نومنتخب حکومت نے ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جن سے آئی ایم ایف کا اعتماد بحال ہوا ہے، جب کہ بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے نمایاں پیش رفت سامنے آئی ہے۔
سادہ سی بات ہے کہ ملکی معیشت بحالی کی امید ہوچلی ہے، معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے ہمیں انسانی وسائل کو بھی ترقی دینا ہوگی،کیونکہ ایک جانب ملکی معیشت کی بہتری کے دعوے ہیں اور دوسری جانب عوام شدید مہنگائی اور بے روزگاری کی اندھی گلی میں دیواروں سے ٹکریں مار رہے ہیں۔ وہ ایسا پاکستان بننے کے شدت سے منتظر ہیں جس میں عوام کو آسودگی ملے، مہنگائی اور بے روزگاری ختم ہو، ملک سیاسی انتشار کی دلدل سے نکلے اور عوام اطمینان کا سانس لیں۔
قرضوں کا بھاری بوجھ، دہشت گردی، آسمان کو چھوتی مہنگائی، بے روزگاری، اقربا پروری اور بدعنوانی، جیسے مسائل نے ملک کے لیے مشکلات پیدا کردی ہیں۔
ملین ڈالرز کا سوال یہ ہے کہ کیا ہم مسائل کی اس دلدل سے نکلنے میں کامیاب ہوجائیں گے؟ آج اگر پاکستان میں ابتری، انتشار اور بے یقینی کی کیفیت ہے تو اس کے ذمے دار عوام بھیہیں، لیکن اندرون اور بیرون ملک سے درپیش چیلنجز ہمیں یہ چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ اب ہمیں بہت تیزی سے اپنی اصلاح کرنی ہو گی، کیوں کہ اب جو طوفان ہماری جانب اُمڈ رہے ہیں وہ پہلے کی طرح تنکوں سے ٹلنے والے نہیں ہیں۔
پاکستان کو درپیش اہم چیلنجز میں سے ایک توانائی کا بحران ہے۔ بجلی اورگیس کی لوڈ شیڈنگ نے صنعتی پیداوارکو متاثرکیا ہے اور معاشی ترقی کی رفتارکو سست کردیا ہے۔ بے روزگاری کی بلند سطح اور کم روزگار کے مواقعے اقتصادی ترقی کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ ہیں۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ، روزگار کی منڈی ملازمت کے متلاشی نوجوانوں کی آمد کو جذب کرنے سے قاصر ہے۔ ہنر مندی کی نشوونما کا فقدان اور معیاری تعلیم تک محدود رسائی اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتی ہے۔
پاکستان کے مالیاتی خسارے اور بڑھتے ہوئے عوامی قرضوں نے اس کے اقتصادی استحکام کو متاثرکیا ہے۔ بجٹ کا بہت بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے مختص کیا جاتا ہے، جس سے صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے جیسے اہم شعبوں کے لیے کم وسائل رہ جاتے ہیں۔ عوامی فنڈز کی بدانتظامی اور بدعنوانی نے چیلنجز کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سڑکوں، بندرگاہوں اور توانائی کی سہولتوں سمیت ناکافی انفرا اسٹرکچر، غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور بین الاقوامی تجارت میں مشغول ہونے کی ملک کی صلاحیت کو روکتا ہے۔
بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں ناکافی سرمایہ کاری بھی گھریلو رابطوں اور اقتصادی سرگرمیوں میں رکاوٹ ہے۔ توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے توانائی کے بنیادی ڈھانچے میں قابل ذکر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، بہ شمول قابل تجدید توانائی کے ذرایع، جیسے شمسی اور ہوا سے حاصل کی جانے والی توانائی کے۔ توانائی کے آمیزے کو متنوع بنانا اور توانائی کی کارکردگی کو فروغ دینا صنعتی ترقی کو متحرک کرتے ہوئے زیادہ قابل اعتماد اور پائے دار توانائی کی فراہمی کا باعث بن سکتا ہے۔
تعلیم اور ہنر کی ترقی کو ترجیح دینا بے روزگاری سے نمٹنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ ٹیکس جمع کرنیکا موثر طریقہ کار نافذ کرنا، فضول خرچی کو کم کرنا اور بدعنوانی کا مقابلہ کرنا معیشت کو مستحکم کرنے اور ضروری شعبوں کے لیے وسائل پیدا کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ حقیقت میں خطرات کا دائرہ خِطے کے اور عالمی حالات کے سیاق وسباق میں کثیر جہتی اندیشوں سے عبارت ہے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کی وجہ سے پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپوں نے دوبارہ سر اُٹھایا ہے اور پاکستان کو دہشت گردی کی وجہ سے بھاری جانی اور مالی نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ پاکستانی طالبان، ان کے اتحادیوں اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کے باعث ریاست کی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔
تیزی سے تبدیل ہوتی علاقائی، جغرافیائی سیاست کے بہ راہِ راست اثرات ہماری قومی سلامتی پر پڑ رہے ہیں۔ مغربی سرحد پر بڑھتے ہوئے دباؤ نے ہماری قومی سلامتی سے متعلق خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ غیر قانونی طور پر مقیم افغان تارکینِ وطن کے انخلا اور پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغان سرزمین استعمال ہونے کے الزامات کے باعث اسلام آباد اور کابل کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔
چین کے علاوہ خطے کے زیادہ تر ممالک سے پاکستان کے روابط کوئی زیادہ اچھے نہیں کہے جاسکتے۔ ان ممالک میں افغانستان، ایران، بھارت اور بنگلا دیش شامل ہیں۔ یہ درست ہے کہ خلیجی ممالک پاکستانی تارکینِ وطن کو روزگار فراہم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ رہے ہیں، لیکن اب وہاں ہر شعبے میں بھارتی تارکینِ وطن غلبہ حاصل کر رہے ہیں اور پاکستانیوں کے لیے روزگارکے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت نے عرب ممالک کے ساتھ بڑے بڑے تجارتی اور اقتصادی معاہدے کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔
ادھر جو چہرہ امریکا کا اب سامنے آیا ہے اور سب دیکھ رہے ہیں، وہ بہت مختلف ہے۔ امریکا کا مسئلہ صرف پاکستان ہی کے ساتھ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے ساتھ ہے۔ جس طرح سے امریکا اب اپنے آپ کو دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے وہ پہلے سے بہت مختلف ہے۔ پہلے وہ سپر پاور ہونے کے ناتے دنیا کے ایشوزکو سنبھالتا اور انھیں نمٹاتا تھا، لیکن اب وہ خود ایشوز بنا رہا ہے اور پہلے سے موجود مسائل کو گمبھیر بنا رہا ہے یا ان میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتا۔
پاکستان کے لیے فائدہ اس میں ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ ایک حد تک تعلقات کو باہمی احترام کے تحت برقرار رکھے، کیوں کہ یہ ہمارے حق میں بہتر نہیں ہوگا کہ ہمارے تعلقات امریکا کے ساتھ خراب ہوں۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت، پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے کمر بستہ ہے، وہ ہمیں دہشت گردی کے زمرے میں لپیٹنا چاہتا ہے۔ اس نے مقبوضہ کشمیرکو ہڑپ کر کے اسے کشمیریوں کے لیے جیل خانہ بنا دیا ہے۔
مودی کی حکومت بھارت کو تیزی سے ہندو توا کے فلسفے کی راہ پر لے جارہی ہے۔ اس نے متعصبانہ قوانین اور دیگر انتہا پسندانہ اقدامات کے ذریعے مسلمانوں کے گرد ہندو انتہا پسندوں کا گھیرا مزید تنگ کردیا ہے۔ تمام تر تلخیوں اور بری یادوں کے باوجود بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کے دروازے بالکل کھل سکتے ہیں، لیکن یہ عمل دوطرفہ کوششوں کا متقاضی ہے نہ کہ یک طرفہ۔ مذاکرات کے ذریعے اس سے بڑے بڑے مسئلے دنیا میں حل ہوچکے ہیں، اگر کشمیریوں کی امنگوں اور خواہشات کو مد نظر رکھیں تو ہمارے لیے یہ مسئلہ حل کرنا مشکل نہیں ہے۔
امریکا، اس کے اتحادیوں اور چین کے درمیان طاقت کے توازن کی نسبت میں کوئی بنیادی تبدیلی ہوتی نظر نہیں آرہی۔ ان کے درمیان جاری تزویراتی مقابلہ، اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں اور ان کی وجہ سے جنوب مشرقی ایشیا کی راہ میں حائل رکاوٹیں بھی شاید پہلے ہی کی طرح رہیں گی۔ امریکا اور چین پہلے ہی کی طرح با اثر علاقائی کردار رہیں گے جنھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، تاہم دونوں میں باہمی اعتماد میں کمی آچکی ہے۔
ماہرین کے مطابق چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کی کامیابی کے لیے افغانستان کا استحکام ضروری ہے، جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کا ایک اہم منصوبہ ہے۔
ایک مستحکم افغانستان سی پیک کے لیے ایک گیٹ وے کی سی اہمیت رکھتا ہے، جو چین کو بحیرہ عرب، مشرق وسطیٰ اور افریقا کی منڈیوں تک بہ راہ راست راستہ فراہم کر ے گا۔ بیرونی خطرات کے ضمن میں ہمیں اصل خطرہ خراب سفارت کاری سے ہے، جسے ہمیں لازماً بہتر بنانا ہوگا، ورنہ ہم عالمی برادری کے سامنے جیتے ہوئے کیسز بھی ہار جائیں گے۔
ہمارا دنیا اور اس خطے میں ایک جیو پولیٹیکل مقام ہے۔ ہمیں ترکی اور ملائیشیا سے تعلقات بڑھانے کے ضمن میں بھی یہ نکتہ ذہن نشین رکھنا چاہیے اور ان ممالک کے ساتھ تعلقات کی نئی منزلیں چڑھنا چاہیے۔
حکومت پر لازم ہے کہ وہ ملک کی خارجہ پالیسی کو ذمے دارانہ طریقے سے چلائے اور دنیا کو باورکرائے کہ پاکستان ایسا ملک ہے جو نہ صرف اپنے ہاں امن چاہتا ہے بلکہ خِطے میں بھی، اور خاص طور پر افغانستان میں مثبت کردار ادا کرسکتا ہے اور اس کا خواہش مند بھی ہے۔
دوسری جانب امریکا نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے تعاون اور سامان فراہم کرنے کے الزام میں چارکمپنیوں پر پابندی عائد کر دی ہے، ان میں سے تین چینی اور بیلا روس کی ایک کمپنی شامل ہے، پاکستان نے ان پابندیوں کو مسترد کردیا ہے۔
بلاشبہ آئی ایم ایف سے تین سالہ نئے قرض پروگرام کے حوالے سے یہ خبر انتہائی خوش آیند ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سابقہ نگران اور موجودہ نومنتخب حکومت نے ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جن سے آئی ایم ایف کا اعتماد بحال ہوا ہے، جب کہ بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے نمایاں پیش رفت سامنے آئی ہے۔
سادہ سی بات ہے کہ ملکی معیشت بحالی کی امید ہوچلی ہے، معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے ہمیں انسانی وسائل کو بھی ترقی دینا ہوگی،کیونکہ ایک جانب ملکی معیشت کی بہتری کے دعوے ہیں اور دوسری جانب عوام شدید مہنگائی اور بے روزگاری کی اندھی گلی میں دیواروں سے ٹکریں مار رہے ہیں۔ وہ ایسا پاکستان بننے کے شدت سے منتظر ہیں جس میں عوام کو آسودگی ملے، مہنگائی اور بے روزگاری ختم ہو، ملک سیاسی انتشار کی دلدل سے نکلے اور عوام اطمینان کا سانس لیں۔
قرضوں کا بھاری بوجھ، دہشت گردی، آسمان کو چھوتی مہنگائی، بے روزگاری، اقربا پروری اور بدعنوانی، جیسے مسائل نے ملک کے لیے مشکلات پیدا کردی ہیں۔
ملین ڈالرز کا سوال یہ ہے کہ کیا ہم مسائل کی اس دلدل سے نکلنے میں کامیاب ہوجائیں گے؟ آج اگر پاکستان میں ابتری، انتشار اور بے یقینی کی کیفیت ہے تو اس کے ذمے دار عوام بھیہیں، لیکن اندرون اور بیرون ملک سے درپیش چیلنجز ہمیں یہ چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ اب ہمیں بہت تیزی سے اپنی اصلاح کرنی ہو گی، کیوں کہ اب جو طوفان ہماری جانب اُمڈ رہے ہیں وہ پہلے کی طرح تنکوں سے ٹلنے والے نہیں ہیں۔
پاکستان کو درپیش اہم چیلنجز میں سے ایک توانائی کا بحران ہے۔ بجلی اورگیس کی لوڈ شیڈنگ نے صنعتی پیداوارکو متاثرکیا ہے اور معاشی ترقی کی رفتارکو سست کردیا ہے۔ بے روزگاری کی بلند سطح اور کم روزگار کے مواقعے اقتصادی ترقی کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ ہیں۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ، روزگار کی منڈی ملازمت کے متلاشی نوجوانوں کی آمد کو جذب کرنے سے قاصر ہے۔ ہنر مندی کی نشوونما کا فقدان اور معیاری تعلیم تک محدود رسائی اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتی ہے۔
پاکستان کے مالیاتی خسارے اور بڑھتے ہوئے عوامی قرضوں نے اس کے اقتصادی استحکام کو متاثرکیا ہے۔ بجٹ کا بہت بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے مختص کیا جاتا ہے، جس سے صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے جیسے اہم شعبوں کے لیے کم وسائل رہ جاتے ہیں۔ عوامی فنڈز کی بدانتظامی اور بدعنوانی نے چیلنجز کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سڑکوں، بندرگاہوں اور توانائی کی سہولتوں سمیت ناکافی انفرا اسٹرکچر، غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور بین الاقوامی تجارت میں مشغول ہونے کی ملک کی صلاحیت کو روکتا ہے۔
بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں ناکافی سرمایہ کاری بھی گھریلو رابطوں اور اقتصادی سرگرمیوں میں رکاوٹ ہے۔ توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے توانائی کے بنیادی ڈھانچے میں قابل ذکر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، بہ شمول قابل تجدید توانائی کے ذرایع، جیسے شمسی اور ہوا سے حاصل کی جانے والی توانائی کے۔ توانائی کے آمیزے کو متنوع بنانا اور توانائی کی کارکردگی کو فروغ دینا صنعتی ترقی کو متحرک کرتے ہوئے زیادہ قابل اعتماد اور پائے دار توانائی کی فراہمی کا باعث بن سکتا ہے۔
تعلیم اور ہنر کی ترقی کو ترجیح دینا بے روزگاری سے نمٹنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ ٹیکس جمع کرنیکا موثر طریقہ کار نافذ کرنا، فضول خرچی کو کم کرنا اور بدعنوانی کا مقابلہ کرنا معیشت کو مستحکم کرنے اور ضروری شعبوں کے لیے وسائل پیدا کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ حقیقت میں خطرات کا دائرہ خِطے کے اور عالمی حالات کے سیاق وسباق میں کثیر جہتی اندیشوں سے عبارت ہے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کی وجہ سے پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپوں نے دوبارہ سر اُٹھایا ہے اور پاکستان کو دہشت گردی کی وجہ سے بھاری جانی اور مالی نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ پاکستانی طالبان، ان کے اتحادیوں اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کے باعث ریاست کی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔
تیزی سے تبدیل ہوتی علاقائی، جغرافیائی سیاست کے بہ راہِ راست اثرات ہماری قومی سلامتی پر پڑ رہے ہیں۔ مغربی سرحد پر بڑھتے ہوئے دباؤ نے ہماری قومی سلامتی سے متعلق خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ غیر قانونی طور پر مقیم افغان تارکینِ وطن کے انخلا اور پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغان سرزمین استعمال ہونے کے الزامات کے باعث اسلام آباد اور کابل کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔
چین کے علاوہ خطے کے زیادہ تر ممالک سے پاکستان کے روابط کوئی زیادہ اچھے نہیں کہے جاسکتے۔ ان ممالک میں افغانستان، ایران، بھارت اور بنگلا دیش شامل ہیں۔ یہ درست ہے کہ خلیجی ممالک پاکستانی تارکینِ وطن کو روزگار فراہم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ رہے ہیں، لیکن اب وہاں ہر شعبے میں بھارتی تارکینِ وطن غلبہ حاصل کر رہے ہیں اور پاکستانیوں کے لیے روزگارکے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت نے عرب ممالک کے ساتھ بڑے بڑے تجارتی اور اقتصادی معاہدے کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔
ادھر جو چہرہ امریکا کا اب سامنے آیا ہے اور سب دیکھ رہے ہیں، وہ بہت مختلف ہے۔ امریکا کا مسئلہ صرف پاکستان ہی کے ساتھ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے ساتھ ہے۔ جس طرح سے امریکا اب اپنے آپ کو دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے وہ پہلے سے بہت مختلف ہے۔ پہلے وہ سپر پاور ہونے کے ناتے دنیا کے ایشوزکو سنبھالتا اور انھیں نمٹاتا تھا، لیکن اب وہ خود ایشوز بنا رہا ہے اور پہلے سے موجود مسائل کو گمبھیر بنا رہا ہے یا ان میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتا۔
پاکستان کے لیے فائدہ اس میں ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ ایک حد تک تعلقات کو باہمی احترام کے تحت برقرار رکھے، کیوں کہ یہ ہمارے حق میں بہتر نہیں ہوگا کہ ہمارے تعلقات امریکا کے ساتھ خراب ہوں۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت، پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے کمر بستہ ہے، وہ ہمیں دہشت گردی کے زمرے میں لپیٹنا چاہتا ہے۔ اس نے مقبوضہ کشمیرکو ہڑپ کر کے اسے کشمیریوں کے لیے جیل خانہ بنا دیا ہے۔
مودی کی حکومت بھارت کو تیزی سے ہندو توا کے فلسفے کی راہ پر لے جارہی ہے۔ اس نے متعصبانہ قوانین اور دیگر انتہا پسندانہ اقدامات کے ذریعے مسلمانوں کے گرد ہندو انتہا پسندوں کا گھیرا مزید تنگ کردیا ہے۔ تمام تر تلخیوں اور بری یادوں کے باوجود بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کے دروازے بالکل کھل سکتے ہیں، لیکن یہ عمل دوطرفہ کوششوں کا متقاضی ہے نہ کہ یک طرفہ۔ مذاکرات کے ذریعے اس سے بڑے بڑے مسئلے دنیا میں حل ہوچکے ہیں، اگر کشمیریوں کی امنگوں اور خواہشات کو مد نظر رکھیں تو ہمارے لیے یہ مسئلہ حل کرنا مشکل نہیں ہے۔
امریکا، اس کے اتحادیوں اور چین کے درمیان طاقت کے توازن کی نسبت میں کوئی بنیادی تبدیلی ہوتی نظر نہیں آرہی۔ ان کے درمیان جاری تزویراتی مقابلہ، اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں اور ان کی وجہ سے جنوب مشرقی ایشیا کی راہ میں حائل رکاوٹیں بھی شاید پہلے ہی کی طرح رہیں گی۔ امریکا اور چین پہلے ہی کی طرح با اثر علاقائی کردار رہیں گے جنھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، تاہم دونوں میں باہمی اعتماد میں کمی آچکی ہے۔
ماہرین کے مطابق چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کی کامیابی کے لیے افغانستان کا استحکام ضروری ہے، جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کا ایک اہم منصوبہ ہے۔
ایک مستحکم افغانستان سی پیک کے لیے ایک گیٹ وے کی سی اہمیت رکھتا ہے، جو چین کو بحیرہ عرب، مشرق وسطیٰ اور افریقا کی منڈیوں تک بہ راہ راست راستہ فراہم کر ے گا۔ بیرونی خطرات کے ضمن میں ہمیں اصل خطرہ خراب سفارت کاری سے ہے، جسے ہمیں لازماً بہتر بنانا ہوگا، ورنہ ہم عالمی برادری کے سامنے جیتے ہوئے کیسز بھی ہار جائیں گے۔
ہمارا دنیا اور اس خطے میں ایک جیو پولیٹیکل مقام ہے۔ ہمیں ترکی اور ملائیشیا سے تعلقات بڑھانے کے ضمن میں بھی یہ نکتہ ذہن نشین رکھنا چاہیے اور ان ممالک کے ساتھ تعلقات کی نئی منزلیں چڑھنا چاہیے۔
حکومت پر لازم ہے کہ وہ ملک کی خارجہ پالیسی کو ذمے دارانہ طریقے سے چلائے اور دنیا کو باورکرائے کہ پاکستان ایسا ملک ہے جو نہ صرف اپنے ہاں امن چاہتا ہے بلکہ خِطے میں بھی، اور خاص طور پر افغانستان میں مثبت کردار ادا کرسکتا ہے اور اس کا خواہش مند بھی ہے۔