سعودی سرمایہ کاری خوش آیند
توقع ہے کہ سعودی ولی عہد جب مئی کے مہینے میں پاکستان کا دورہ کریں گے تو اس وقت کئی اہم معاہدوں پر دستخط ہوں گے
www.facebook.com/shah Naqvi
سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے اپنے حالیہ دورے میں کہا ہے کہ پاکستان کی معاشی و اقتصادی ترقی میں کردار ادا کریں گے کیونکہ پاکستان میں بے شمار معاشی امکانات اور سرمایہ کاری بڑھانے کے مواقع ہیں۔ چند ماہ میں سرمایہ کاری شروع ہو جائے گی۔ ہم باہمی اقتصادی خوش حالی و علاقائی سالمیت کے لیے ملکر کام کرنا جاری رکھیں گے۔
پاکستانی وزیر خارجہ کے ہمراہ مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ مجھے توقع ہے کہ آیندہ چند ماہ کے دوران ہم اس سلسلے میں نمایاں پیش رفت کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ فی الحال کسی شعبے کا ذکر نہیں کروں گا کیونکہ ہمیں ایس آئی ایف سی کے فارمیٹ سے جو بریفنگ دی گئی وہ بہت وسیع تھی۔ سعودی وزیر خارجہ نے اپنے دورے کے دوران وزیر اعظم، صدر اور آرمی چیف سے ملاقاتوں کو انتہائی نتیجہ خیز قرار دیا۔ سعودی عرب کا پاکستانی معیشت میں کتنا اہم کردار ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ سعودی عرب میں اس وقت تک پاکستانی تارکین وطن کی کل تعداد25لاکھ ہے اور پوری دنیا سے موصول ہونے والی ترسیلات زر کا 25 فیصد حصہ صرف سعودی عرب سے موصول ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ سعودی عرب کی گرانٹس خیرات اور نرم قرض کی شکل میں امداد کی مالیت 129ارب ڈالر ہو گئی ہے۔ سعودی امداد سے مستعفیض ہونے والوں میں 5ممالک سرفہرست ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ امداد لینے والا ملک مصر ہے۔ جس نے 32ارب ڈالر امداد موصول کی۔ 26ارب ڈالر کے ساتھ یمن دوسرے نمبر پر ہے۔ تیسرے نمبر پر پاکستان ہے جسے تقریباً 13ارب ڈالر فراہم کیے گئے۔ یاد رہے کہ ان تینوں ممالک کی معاشی حالت انتہائی خراب ہے۔ پاکستان اس وقت جس معاشی کساد بازاری سے گزر رہا ہے اس کے نتیجے میں غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی نئے قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔
سعودی عرب اس وقت خلیج کی سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے جس کی جی ڈی پی 2022میں گیارہ ٹریلین یعنی 11ہزار ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ سعودی وفد کا یہ دورہ وزیر اعظم کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے بعد ہوا ہے۔ پاکستان نے سعودی عرب کے لیے 32ارب ڈالر سرمایہ کاری کے 25منصوبوں کی پیش کش کی ہے جس میں ریکوڈک منصوبہ، گوادر، بھاشا ڈیم، ٹرانسمیشن لائنز ،سیمی کنڈیکٹر چپ بنانے، گرین فیلڈ ریفائنری کارپوریٹ فارمنگ، توانائی، آئی ٹی، معدنیات، ٹرانسپورٹ، ماحولیات اور صنعتیں وغیرہ شامل ہیں۔ توقع ہے کہ سعودی ولی عہد جب مئی کے مہینے میں پاکستان کا دورہ کریں گے تو اس وقت کئی اہم معاہدوں پر دستخط ہوں گے۔
اگرچہ یہ سب کچھ بہت خوش آیند ہے لیکن دوسری طرف ورلڈ بینک کی تازہ رپورٹ پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے جس میں پاکستان کو اخراجات زندگی کے مسلسل بحران سے دو چار ملک قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں غذائی عدم تحفظ بڑھ گیا ہے جب کہ تعلیم و صحت کی خدمات کی فراہمی میں کمی واقع ہوئی ہے۔
سندھ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے 43اضلاع میں غذائی عدم تحفظ انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات میں اضافے سے اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ یہ تعداد اس وقت ڈھائی کروڑ ہے۔ 2022سے اب تک شدید بارشوں اور سیلابوں کے باعث متاثرہ علاقوں میں معمولات زندگی تاحال بحال نہیں ہو سکے۔ نیز مہنگائی کی نہ رکنے والی لہر غریب اور عام آدمی کو بری طرح اپنی لپٹ میں لیے ہوئے ہے۔
شام میں ایران کے قونصل خانے پر اسرائیلی حملے اور اس کے بعد ایران کے اسرائیل پر جوابی حملے سے دنیا کے خاص طور پر خطے کے حالات انتہائی خطرناک ہو گئے ہیں۔ دعا کرنی چاہیے کہ ایران اسرائیل تنازعہ آگے نہ بڑھے۔ خدانخواستہ اگر ایسا ہو گیا تو غیر ملکی سرمایہ کاری محض خواب ہی بن کر رہ جائے گی۔
معاشی بحران میں سب کچھ ڈوب جائے گا۔ اردن نے اپنی فضائی حدود سے ایرانی ڈرونز کو اسرائیل پہنچنے سے روک دیا۔ ہمارے ایک سینئر کالم نگار نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے۔ "ایران کے حملے کو شک کی نظر سے دیکھنے والوں کو صرف اتنا کہوں گا کہ ایران کی بہادری نقلی ہو سکتی ہے مگر باقی 56اسلامی ممالک کی بزدلی 100فیصد خالص اور اصلی ہے"۔ہزاروں سال قدیم ویدک اسڑالوجی کے مطابق دنیا بڑی تیزی سے ایک بہت بڑی تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔
اسرائیل کے مزید جوابی حملے کے حوالے سے فوری طور پر اہم تاریخیں 23-22 اپریل اور 28-27-26-25اپریل ہیں۔