آئی جی صاحب ایک نظر اپنے شہریوں پر بھی

کراچی کے پوش علاقوں سے لے کر کچی آبادیوں تک سب ہی میں لوگ غیر محفوظ ہیں


شہریار شوکت April 22, 2024
کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں عوام محفوظ ہوں۔ (فوٹو: فائل)

ملک میں بدامنی پھیلانے والے عناصر ہر دور میں اپنی کوششیں جاری رکھتے ہیں، ان افراد اور گروہوں کا مقصد پاکستان کو نقصان پہنچانا اور دنیا بھر میں پرامن پاکستان کے امیج کو خراب کرنا ہوتا ہے۔ ملک کی تاریخ سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کی بھی ان عناصر کے خلاف قربانیوں سے بھری ہوئی ہے۔


گزشتہ دنوں کراچی کے علاقے مانسہرہ کالونی میں دہشتگردوں نے غیر ملکی مہمانوں کی گاڑی پر حملہ کیا۔ پولیس کے جوانوں نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حملے کو ناکام بنا دیا۔ حملہ کرنے والے دہشتگرد موقع پر ہلاک ہوگئے۔ بعد ازاں سندھ کے نئے آئی جی غلام نبی میمن نے ملیر پولیس کی ٹیم کو ایس ایس پی ملیر طارق مستوئی کے ہمراہ سینٹرل پولیس آفس کراچی میں مدعو کیا جہاں کانسٹیبل قاسم حبیب کو پانچ لاکھ انعام دیا گیا اور ان کےلیے قائداعظم پولیس میڈل کی سفارش بھی کی گئی، جبکہ باقی ٹیم کے اہلکاروں کو بھی نقد انعام اور تعریفی سرٹیفکیٹ دیے گئے۔


آئی جی سندھ غلام نبی میمن کا یہ اقدام قابل تعریف ہے۔ انہوں نے غیر ملکی مہمانوں کی اپنی جان پر کھیل کر حفاظت کرنے والوں کی کارکردگی کو سراہا اور ان کے ایس ایس پی کی بھی تعریف کی۔ اس بہترین اقدام کے بعد آئی جی سندھ سے گزارش ہے کہ کراچی میں کئی پاکستانی شہری بھی آباد ہیں، ان پاکستانی شہریوں کی حفاظت بھی انہی پولیس اہلکاروں کی ذمے داری ہے جنہوں نے یہ بہترین کارنامہ سرانجام دے کر ملک کا نام روشن کیا۔


آئی جی صاحب ذرا باقی کراچی سے ہٹ کر قابل تعریف ایس ایس پی ملیر کے ضلع کا ہی احوال لے لیجیے۔ کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں عوام محفوظ ہوں۔ روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں افراد اپنی موٹر سائیکلوں، گاڑیوں، نقدی اور موبائل سے محروم ہورہے ہیں۔ یہ حال صرف ملیر کا نہیں بلکہ کراچی کے پوش علاقوں سے لے کر کچی آبادیوں تک سب ہی میں لوگ غیر محفوظ ہیں۔ کچی آبادیوں کے تذکرے سے آپ کو کچے کے حالات تو یاد آہی گئے ہوں گے؟ آئی جی سندھ صاحب کچا تو کچا، پکے علاقوں میں بھی لوگ اے ٹی ایم سے کیش نکلواتے ہوئے لٹ رہے ہیں۔


محنت مزدوری کرنے والے مڈل کلاس نوجوان تنخواہیں لے کر نکلیں تو یہ علم نہیں ہوتا کہ تنخواہ ان کے بچوں کی خوشیوں کی وجہ بنے گی یا غم کی؟ کیوں کہ اس شہر میں تو کئی ایسے واقعات بھی ہوچکے ہیں کہ گھر کی دہلیز پر ہی لوگوں کو اسٹریٹ کرمنلز نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ شہری اپنا دفاع کریں تو کیسے؟ کیا ایک عام شہری جائز طریقے سے اسلحہ لائسنس بنوا سکتا ہے؟ کیا ایک عام شہری اسلحہ خرید سکتا ہے؟ اب کراچی میں زندہ رہنے کےلیے شہری اپنے گھروں کا سامان فروخت کرکے اسلحہ لائسنس بنوا بھی لیں اور پھر اسلحہ بھی خرید لیں، لیکن کیا انہیں سیلف ڈیفنس کا حق حاصل ہے؟ اگر سیلف ڈیفنس میں ان سے کوئی اسٹریٹ کرمنل خدانخواستہ زخمی ہی ہوگیا تو انہیں اس قانون سے کون بچائے گا؟


آئی جی صاحب سنا ہے آپ نے ایک نجی محفل میں فرمایا تھا کہ کراچی میں وارداتیں ہیں لیکن اتنی نہیں جتنی میڈیا دکھاتا ہے۔ سر کیا آپ جانتے ہیں کہ رپورٹ شدہ وارداتوں اور میڈیا رپورٹس کی تعداد میں اتنا فرق کیوں ہے؟ اس لیے کہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اکثر افراد کی پکی رپورٹ کاٹی ہی نہیں جاتی، انہیں کہہ دیا جاتا ہے کہ رپورٹ کٹی تو ملنے والی موٹر سائیکل یا موبائل کورٹ سے لینا پڑے گا لہٰذا روزنامچے پر لکھ دیا ہے ملا تو اطلاع کردیں گے اور پھر ملازمت پیشہ بدنصیب کراچی کے بدنصیب باشندے کو تھانے کے اتنے چکر لگوائے جاتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی واردات کو بھول کر ملازمت پر ہی چل پڑتا ہے۔ محترم آئی جی سندھ صاحب پولیس کے محکمے کو اور حالات کو ٹھیک کرنا یقینی طور پر آپ کےلیے مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔ اپنے افسران سے رپورٹ لینے کے ساتھ ساتھ شہریوں سے بھی رپورٹ ضرور لیں پھر آپ کو حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوجائے گا۔


امید ہے کہ نئے آئی جی اگر کوشش کریں اور انہیں وقت دیا جائے تو شہر کے حالات بہتر ہوں گے لیکن پولیس کے ساتھ ساتھ اب شہریوں کو بھی اپنے جان مال کی حفاظت خود کرنا ہوگی۔ کراچی میں اس وقت محلہ کمیٹیوں کی اشد ضرورت ہے۔ شہری اپنے طور پر قانون کو ہاتھ میں نہ لیں لیکن چھوٹی بڑی مارکیٹوں اور علاقوں میں حفاظتی کمیٹیاں قائم کی جائیں۔ یہ کمیٹیاں گلی محلے میں آنے جانے والوں پر نظر رکھیں، ساتھ ہی مارکیٹوں میں موجود دکانیں یا محلوں میں موجود گھر آپس میں فنڈ جوڑ کر گارڈ کا انتظام ضرور کریں۔ یہی واحد حل ہے جس سے اب آپ کی جان و مال مکمل طور پر تو نہیں لیکن کسی حد تک ضرور محفوظ ہوجائیں گے۔


یہ بھی یاد رکھیں کہ کراچی کا پوش علاقہ ہو یا مڈل کلاس علاقہ، ہر ہی علاقے کے ساتھ یا ان علاقوں کے خالی پلاٹوں پر جھگیاں اور کچی آبادیاں موجود ہیں۔ ان آبادیوں میں رہنے والے اکثر افراد کا ڈیٹا کسی بھی ادارے کے پاس موجود ہی نہیں ہوتا۔ ان آبادیوں میں آباد لوگ آج یہاں تو کل کہیں اور جاکر آباد ہوجاتے ہیں، ان افراد میں سے بھی کئی جرائم میں ملوث ہیں۔ شہری حکومت کو پولیس کے ساتھ مل کر سب سے پہلے ان آبادیوں کا شہر سے خاتمہ کرنا ہوگا۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں