سیاست
سیاست میں وہ کشش ہے جو کسی اور میدان میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے نامی گرامی کھلاڑیوں نے اس کی طرف رخ کیا ہے
پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے 76سال ہوچکے ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ اتنی طویل مدت گزر جانے کے بعد ہم جہاں تھے وہیں کھڑے ہوئے ہیں بلکہ سچ پوچھیے تو ہم بہت پیچھے جا چکے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ملک کا مشرقی بازوگنوا دینے کے باوجود ہم ہوش میں نہیں آئے۔
دنیا کے کئی ممالک جنھوں نے اپنے سفرکا آغاز ہمارے بعد کیا تھا، ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے بہت دور نکل چکے ہیں۔ چین اورکوریا کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں اور تو اور ویتنام جیسا ملک جس کے پاس وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں اور جسے امریکا نے تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی، ترقی کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔
دیگر ممالک کی بات چھوڑیے بنگلہ دیش جو ہمارا ٹوٹا ہوا بازو ہے، ترقی کی دوڑ میں ہم سے آگے نکل چکا ہے۔ ہمارے پڑوسی بھارت کو ہی دیکھ لیجیے جو چاند تک پہنچ گیا ہے اور ہمارا حال یہ ہے کہ زمیں جنبد نہ جنبد، گل محمد۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہماری اس نا گفتہ بہ صورتحال کی وجہ کیا ہے۔ اس کا سیدھا سادہ اور مختصر جواب یہ ہے کہ ہمارے ہاں اہل اور مخلص قیادت کا فقدان ہے۔ بزبان غالب :
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
ہم 76 سال سے ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ :
زندگی ایسی کہ جس کا کوئی حاصل بھی نہیں
چل رہے ہیں رات دن اور کوئی منزل بھی نہیں
'' کریلا اوپر سے نیم چڑھا '' کی مثل ہم پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔ ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے جنھیں رہنما سمجھا تھا وہ رہزن نکلے۔بیچارے عوام کی حالت لمحہ بہ لمحہ غیر سے غیر ہوتی جا رہی ہے اور انھیں بار بار تسلی دی جا رہی ہے کہ روٹی سستی کی جا رہی ہے اور دوسری جانب تندور والے یہ واویلا کررہے ہیں کہ مہنگائی نے ان کا ناک میں دم کیا ہوا ہے اور ان کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنا کاروبار چلا سکیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ غریبوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور وہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے دو وقت کی روٹی سے بھی محتاج ہورہے ہیں اور نقار خانے میں کسی کو ان کی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ ہماری سیاست کیا ہے میوزیکل چئیرزکا گیم ہے۔ اقتدار کی کرسی پر کبھی کوئی آ بیٹھتا ہے اور کبھی کوئی اور، مقصد سب کا ایک ہی ہے اور وہ ہے باری باری سے اقتدارکی کرسی سنبھالنا۔ اول توکسی کا کوئی منشور ہی نہیں اور اگرکچھ ہے بھی تو وہ الفاظ کی ہیرا پھیری کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
عام آدمی کی مالی حالت یہ ہے کہ وہ بیچارہ نمونیہ جیسی بیماری کا علاج بھی افورڈ نہیں کرسکتا جب کہ لیڈر کو اگر چھینک بھی آجائے تو وہ اس کا علاج کرانے کے لیے فوراً بیرون ملک روانہ ہوجاتا ہے۔ قوم کا غم بیچارے لیڈر کے سر پر بری طرح سوار رہتا ہے اور اس کی حالت یہ ہے کہ بقول اکبر الہٰ آبادی ؎
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ
فیض صاحب اگر حیات ہوتے تو شاید ہم انھیں اپنے اس مشہور شعر میں یوں ترمیم کرنے کی جسارت کرتے۔
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ سیاست کا کاروبار چلے
سیاست میں وہ کشش ہے جو کسی اور میدان میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے نامی گرامی کھلاڑیوں نے اس کی طرف رخ کیا ہے اور اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ میدان صحافت کے چیمپئن بھی اس کی مقناطیسی کشش سے متاثر ہوکر اس سے وابستہ ہو رہے ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ یہ اتنا منافع بخش پیشہ ہے کہ مختصر ترین عرصے تک اس سے جڑے رہنے کے صلے میں اتنی کمائی ہوجاتی ہے کہ کم سے کم سات پشتیں بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہ کر عیش کرسکتی ہیں۔
سب سے دلچسپ اور قابل غور بات یہ ہے کہ اس میں شمولیت کے لیے نہ کسی کوائلی فیکیشن کی ضرورت ہے اور نہ کوئی تجربہ درکار ہے۔ نہ ہلدی لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا ہی چوکھا۔
دنیا کے کئی ممالک جنھوں نے اپنے سفرکا آغاز ہمارے بعد کیا تھا، ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے بہت دور نکل چکے ہیں۔ چین اورکوریا کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں اور تو اور ویتنام جیسا ملک جس کے پاس وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں اور جسے امریکا نے تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی، ترقی کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔
دیگر ممالک کی بات چھوڑیے بنگلہ دیش جو ہمارا ٹوٹا ہوا بازو ہے، ترقی کی دوڑ میں ہم سے آگے نکل چکا ہے۔ ہمارے پڑوسی بھارت کو ہی دیکھ لیجیے جو چاند تک پہنچ گیا ہے اور ہمارا حال یہ ہے کہ زمیں جنبد نہ جنبد، گل محمد۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہماری اس نا گفتہ بہ صورتحال کی وجہ کیا ہے۔ اس کا سیدھا سادہ اور مختصر جواب یہ ہے کہ ہمارے ہاں اہل اور مخلص قیادت کا فقدان ہے۔ بزبان غالب :
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
ہم 76 سال سے ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ :
زندگی ایسی کہ جس کا کوئی حاصل بھی نہیں
چل رہے ہیں رات دن اور کوئی منزل بھی نہیں
'' کریلا اوپر سے نیم چڑھا '' کی مثل ہم پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔ ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے جنھیں رہنما سمجھا تھا وہ رہزن نکلے۔بیچارے عوام کی حالت لمحہ بہ لمحہ غیر سے غیر ہوتی جا رہی ہے اور انھیں بار بار تسلی دی جا رہی ہے کہ روٹی سستی کی جا رہی ہے اور دوسری جانب تندور والے یہ واویلا کررہے ہیں کہ مہنگائی نے ان کا ناک میں دم کیا ہوا ہے اور ان کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنا کاروبار چلا سکیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ غریبوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور وہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے دو وقت کی روٹی سے بھی محتاج ہورہے ہیں اور نقار خانے میں کسی کو ان کی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ ہماری سیاست کیا ہے میوزیکل چئیرزکا گیم ہے۔ اقتدار کی کرسی پر کبھی کوئی آ بیٹھتا ہے اور کبھی کوئی اور، مقصد سب کا ایک ہی ہے اور وہ ہے باری باری سے اقتدارکی کرسی سنبھالنا۔ اول توکسی کا کوئی منشور ہی نہیں اور اگرکچھ ہے بھی تو وہ الفاظ کی ہیرا پھیری کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
عام آدمی کی مالی حالت یہ ہے کہ وہ بیچارہ نمونیہ جیسی بیماری کا علاج بھی افورڈ نہیں کرسکتا جب کہ لیڈر کو اگر چھینک بھی آجائے تو وہ اس کا علاج کرانے کے لیے فوراً بیرون ملک روانہ ہوجاتا ہے۔ قوم کا غم بیچارے لیڈر کے سر پر بری طرح سوار رہتا ہے اور اس کی حالت یہ ہے کہ بقول اکبر الہٰ آبادی ؎
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ
فیض صاحب اگر حیات ہوتے تو شاید ہم انھیں اپنے اس مشہور شعر میں یوں ترمیم کرنے کی جسارت کرتے۔
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ سیاست کا کاروبار چلے
سیاست میں وہ کشش ہے جو کسی اور میدان میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے نامی گرامی کھلاڑیوں نے اس کی طرف رخ کیا ہے اور اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ میدان صحافت کے چیمپئن بھی اس کی مقناطیسی کشش سے متاثر ہوکر اس سے وابستہ ہو رہے ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ یہ اتنا منافع بخش پیشہ ہے کہ مختصر ترین عرصے تک اس سے جڑے رہنے کے صلے میں اتنی کمائی ہوجاتی ہے کہ کم سے کم سات پشتیں بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہ کر عیش کرسکتی ہیں۔
سب سے دلچسپ اور قابل غور بات یہ ہے کہ اس میں شمولیت کے لیے نہ کسی کوائلی فیکیشن کی ضرورت ہے اور نہ کوئی تجربہ درکار ہے۔ نہ ہلدی لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا ہی چوکھا۔