آسکر ایوارڈ اور چراغ تلے اندھیرا
شرمین عبید چنائے کو اس دستاویزی فلم بنانے کی تحریک اس پلاسٹک سرجن نے دی، جس کا کام تیزاب سے
سب سے پہلے ایک غلط فہمی دور کرلی جائے کہ پاکستان کے لیے پہلا آسکر ایوارڈ، جسے اکادمی ایوارڈ بھی کہا جاتا ہے، یہ ایوارڈ ''شرمین عبید چنائے'' حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی شہری نہیں ہیں۔ شرمین ایک دستاویزی فلمیں بنانے والی ہدایتکارہ ہیں۔ انھوں نے ایک ادارہ ''شرمین عبید فلمز'' قائم کیا ہے جس کے ذریعے یہ اس طرح کی فلمیں بناتی اور فروخت کرتی ہیں اور ان کے ساتھ بہت سارے لوگ کام کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے، شرمین عبید چنائے کی فلم ''سیونگ فیس'' کو 2012ء میں جو آسکر ایوارڈ ملا، وہ مشترکہ ایوارڈ تھا، جس میں شرمین کے علاوہ ''ڈینیئل جونگ'' بھی شامل تھا، جسے یہ اعزاز دیا گیا۔ ڈینیئل کا دستاویزی فلمیں بنانے کا ایک وسیع پس منظر ہے، جس کا پاکستانی میڈیا نے برائے نام ذکر کیا، اس انعام یافتہ دستاویزی فلم کا وہ مرکزی ہدایت کار تھا۔
شرمین عبید چنائے کو اس دستاویزی فلم بنانے کی تحریک اس پلاسٹک سرجن نے دی، جس کا کام تیزاب سے مسخ شدہ ان چہروں کی پیوند کاری کرنا تھا۔ کئی برسوں تک یہ دستاویزی فلم شرمین صاحبہ مختلف جگہوں پر دکھاتی رہیں اور ایک دن خبر آئی کہ انھیں آسکر ایوارڈ مل گیا ہے۔ پاکستانی میڈیا بھی شتر بے مہار ہے، تھوڑی سی تحقیق کر لی جائے تو اس میں کیا حرج ہے۔ یہ خبریں بھی اخبارات کی زینت بنتی رہیں، جن اداکاروں نے اس دستاویزی فلم میں کام کیا، بالخصوص مرکزی کردار نبھانے والی خاتون، ان کو معاوضہ بھی نہیں دیا گیا۔ نہ جانے اس بات میں کتنی صداقت ہے، لیکن کوئی بات تو ہوتی ہے جو ذکر نکلتا ہے۔
''سیونگ فیس'' کے نام پر پاکستان کا مسخ شدہ چہرہ دکھا کر داد وصول کر لینا تو کوئی معرکہ نہیں ہے۔ معاملہ یہیں تک ہوتا تو کوئی بات تھی، پھر اس خاتون نے ایک کمیٹی بنائی، جس کے تحت پاکستان میں بننے والی فیچر فلموں کو آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا جائے گا اور یہ دستاویزی فلمیں بنانے والی خاتون پاکستان کی فیچر فلموں کا مستقبل طے کرنے لگیں۔ یہیں تک بس نہیں کیا، آج کل ایک چینل پر ہمارے سماجی معاملات سلجھا رہی ہیں، جس میں پاکستان سنسر بورڈ کے چیئرمین اور معروف پاپ گلوکار فخر عالم بھی شریک محفل ہوتے ہیں، یہ پروگرام بھی پڑوسی ملک میں عامر خان کے شو کا چربہ ہے۔
مجھے شرمین عبید چنائے اور اس کے آسکر ایوارڈ حاصل کرنے سے کوئی حسد نہیں ہے، لیکن شرمین عبید نے یہ وضاحت کرنے کی کوشش نہیں کی کہ یہ آسکر ایوارڈ حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی شہری نہیں ہیں۔ پہلا پاکستانی شہری جس نے آسکر ایوارڈ حاصل کیا، اس کا نام میر ظفر علی ہے، جس کا تعلق پاکستان کے شہر کراچی سے ہے اور اس نے ایک نہیں تین آسکر ایوارڈ حاصل کیے ہیں اور پہلا آسکر ایوارڈ اسے 2007ء میں دیا گیا ۔2011ء میں ''دی ایکسپریس ٹریبیون'' نے اس نوجوان کے حوالے سے ایک اسٹوری شایع کی اور انٹرویو بھی کیا، اس کے علاوہ کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ پاکستانیوں کو حقایق بتاتا۔ ایسے حقیقی ہنرمندوں کی ستائش ہونی چاہیے۔ پاکستانیوں کو پتہ چلنا چاہیے کہ ان کے حقیقی ہیروز کون ہیں۔
میر ظفر علی ہالی ووڈ کی فلموں میں ویژوول ایفیکٹس کے ماہر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ فلموں میں کمپیوٹر گرافکس کے ذریعے مناظر کو فلمانے میں انھیں ملکہ حاصل ہے، یہ اب تک کئی شہرہ آفاق فلموں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ پاکستان میں ویژوول اسٹڈیز کرنے والوں کے لیے یہ ایک مثال ہیں۔ اگر آپ کے خواب سچے اور کھرے ہیں، آپ محنتی ہیں تو آپ دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعت ہالی ووڈ کے کامیاب آرٹسٹ بن سکتے ہیں، جس طرح میر ظفر علی نے اپنی کامیابی کا سفر طے کیا، یہ ہم سب کے لیے روشن مثال ہے۔
ہم اکثر یہ سوچتے ہیں کہ لوگ ڈگریاں لے کر فالتو پھرتے ہیں، اچھی ملازمتیں نہیں ملتیں یا پھر آگے بڑھنے کے مواقع ہمارے جیسے ملک میں کم ہیں، جہاں دہشت گردی، مہنگائی، معاشی بدحالی اور ناکارہ فلمی صنعت کا (کچھ لوگوں کو چھوڑ کر) دور دورہ ہے۔ ایسے ماحول میں کوئی سوچ سکتا ہے کہ وہ ہالی ووڈ میں نہ صرف کام کرے گا، بلکہ تین تین آسکر ایوارڈ بھی جیت لے گا۔ اس کام کو میر ظفر علی نے ممکن کیا اور آپ بھی ہنر کی اس بلندی کو پا سکتے ہیں، چاہت اور محنت شرط ہے۔
میر ظفر علی نے ہالی ووڈ میں اپنے کیرئیر کا آغاز ''دی ڈے آفٹر ٹومارو The Day After Tomorrow'' سے کیا، اس کے بعد انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ان کو پہلا آسکر ایوارڈ 2007ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''دی گولڈن کمپاس The Golden Compass'' پر دیا گیا۔ اسی برس دیگر جن فلموں میں انھوں نے کام کر کے شہرت حاصل کی، ہالی ووڈ کے فلم بینوں سمیت شائقین نے بھی ان کے کام کو سراہا اور میرظفر علی کے کام کی پہچان جو فلمیں بنیں ان میں 2007ء میں ''گھوسٹ رائڈر Ghost Rider'' اور ''اسپائیڈر مین تھریSpider-Man 3'' جیسی فلمیں شامل ہیں۔
2008ء میں ''دی انکریڈیبل ہلک The Incredible Hulk'' اور ''دی ممی The Mummy'' میں انھوں نے اپنے فن کا جادو جگایا اور ایسے حیرت انگیز مناظر تخلیق کیے کہ شائقین نے اپنی انگلیاں دانتوں تلے دبالیں۔ 2009ء میں ''آئی لینڈ آف دی لوسٹ Island of the Lost'' جیسی فلم میں ویژوول ایفیکٹس سے فلم کی کہانی میں حقیقی جان ڈال دی۔2011ء میں ''ایکس مین فرسٹ کلاس X-Men: First Class'' جیسی فلم میں اپنا ہنر پیش کیا۔ 2012ء میں ''لائف آف پی Life of Pi'' میں کام کر کے اپنے کیرئیر کا دوسرا آسکر ایوارڈ حاصل کیا۔
2013ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''فروزن Frozen'' میں ایک مرتبہ پھر بہترین کام کرنے پر تیسری مرتبہ آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا، مگر ہمارے میڈیا کو کراچی کا یہ نوجوان نظر نہیں آیا، جس نے یکے بعد دیگرے کئی اکادمی ایوارڈ جیت کر حقیقی معنوں میں ملک کا نام روشن کیا۔میرظفر علی نے اپنے مختصر کیرئیر میں بہترین انداز میں کام کر کے ہالی ووڈ کے فلمی پنڈتوں اور شائقین کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے۔ اینی میشن، ویژوول ایفیکٹس اور گرافکس کے حوالے سے ہالی ووڈ میں یہ نام جانا پہچانا ہے۔ یورپ اور امریکی ممالک میں اس ہنرمند کا ڈنکا بجتا ہے، صرف ہم ہی لوگ اپنے اس ہنرمند نوجوان سے بے خبر ہیں۔
میر ظفر علی کراچی میں پیدا ہوئے اور یہیں پلے بڑھے۔ نجی یونیورسٹی سے سافٹ ویئر انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ انڈس ویلی اسکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر سے بھی کچھ عرصہ پڑھا۔ آرٹ اور ڈیزائننگ کی مختلف مقامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں سائنس فکشن اور طلسماتی فلمیں دیکھنے کا شوق بھی تھا۔ اس میں انھیں تخلیقی کشش محسوس ہوتی تھی، یہی کشش انھیں اس فن کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکا لے گئی، جہاں انھوں نے نجی کالج میں مزید آرٹ اور ڈیزائن کی تعلیم حاصل کی۔
میر ظفر علی اب تک ہالی ووڈ کی تقریباً 20 بہترین فلموں میں اینی میشن اور گرافکس کے جوہر دکھا چکے ہیں۔ دیگر فلموں کی تعداد ان کے علاوہ ہے۔ ہالی ووڈ والوں کو پہلی مرتبہ ضرور حیرت ہوئی تھی کہ کوئی پاکستانی کیسے آسکر ایوارڈ جیت سکتا ہے، مگر اب وہ عادی ہو گئے ہیں کہ ہالی ووڈ کے ویژوول اور ڈیزائن کے شعبے میں ایک ایسا پاکستانی نوجوان ہے، جو اپنے فن سے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے، ہمیں اس لائق نوجوان کی خبر نہیں جو ہمارا حقیقی تکنیکی اور ڈیجیٹل ہیرو اور ہنرمند میر ظفر علی ہے، جس کا فن مثبت ہے اور سوچ میں ندرت بھی۔ چراغ تلے اندھیرا بہت دنوں تک رہا، مگر اب ہم اس نوجوان کو جان گئے ہیں، یہ فلمیں جن کے میں نے نام لکھے ہیں، دیکھیے اور اس کو داد دیجیے۔
یہی وجہ ہے، شرمین عبید چنائے کی فلم ''سیونگ فیس'' کو 2012ء میں جو آسکر ایوارڈ ملا، وہ مشترکہ ایوارڈ تھا، جس میں شرمین کے علاوہ ''ڈینیئل جونگ'' بھی شامل تھا، جسے یہ اعزاز دیا گیا۔ ڈینیئل کا دستاویزی فلمیں بنانے کا ایک وسیع پس منظر ہے، جس کا پاکستانی میڈیا نے برائے نام ذکر کیا، اس انعام یافتہ دستاویزی فلم کا وہ مرکزی ہدایت کار تھا۔
شرمین عبید چنائے کو اس دستاویزی فلم بنانے کی تحریک اس پلاسٹک سرجن نے دی، جس کا کام تیزاب سے مسخ شدہ ان چہروں کی پیوند کاری کرنا تھا۔ کئی برسوں تک یہ دستاویزی فلم شرمین صاحبہ مختلف جگہوں پر دکھاتی رہیں اور ایک دن خبر آئی کہ انھیں آسکر ایوارڈ مل گیا ہے۔ پاکستانی میڈیا بھی شتر بے مہار ہے، تھوڑی سی تحقیق کر لی جائے تو اس میں کیا حرج ہے۔ یہ خبریں بھی اخبارات کی زینت بنتی رہیں، جن اداکاروں نے اس دستاویزی فلم میں کام کیا، بالخصوص مرکزی کردار نبھانے والی خاتون، ان کو معاوضہ بھی نہیں دیا گیا۔ نہ جانے اس بات میں کتنی صداقت ہے، لیکن کوئی بات تو ہوتی ہے جو ذکر نکلتا ہے۔
''سیونگ فیس'' کے نام پر پاکستان کا مسخ شدہ چہرہ دکھا کر داد وصول کر لینا تو کوئی معرکہ نہیں ہے۔ معاملہ یہیں تک ہوتا تو کوئی بات تھی، پھر اس خاتون نے ایک کمیٹی بنائی، جس کے تحت پاکستان میں بننے والی فیچر فلموں کو آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا جائے گا اور یہ دستاویزی فلمیں بنانے والی خاتون پاکستان کی فیچر فلموں کا مستقبل طے کرنے لگیں۔ یہیں تک بس نہیں کیا، آج کل ایک چینل پر ہمارے سماجی معاملات سلجھا رہی ہیں، جس میں پاکستان سنسر بورڈ کے چیئرمین اور معروف پاپ گلوکار فخر عالم بھی شریک محفل ہوتے ہیں، یہ پروگرام بھی پڑوسی ملک میں عامر خان کے شو کا چربہ ہے۔
مجھے شرمین عبید چنائے اور اس کے آسکر ایوارڈ حاصل کرنے سے کوئی حسد نہیں ہے، لیکن شرمین عبید نے یہ وضاحت کرنے کی کوشش نہیں کی کہ یہ آسکر ایوارڈ حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی شہری نہیں ہیں۔ پہلا پاکستانی شہری جس نے آسکر ایوارڈ حاصل کیا، اس کا نام میر ظفر علی ہے، جس کا تعلق پاکستان کے شہر کراچی سے ہے اور اس نے ایک نہیں تین آسکر ایوارڈ حاصل کیے ہیں اور پہلا آسکر ایوارڈ اسے 2007ء میں دیا گیا ۔2011ء میں ''دی ایکسپریس ٹریبیون'' نے اس نوجوان کے حوالے سے ایک اسٹوری شایع کی اور انٹرویو بھی کیا، اس کے علاوہ کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ پاکستانیوں کو حقایق بتاتا۔ ایسے حقیقی ہنرمندوں کی ستائش ہونی چاہیے۔ پاکستانیوں کو پتہ چلنا چاہیے کہ ان کے حقیقی ہیروز کون ہیں۔
میر ظفر علی ہالی ووڈ کی فلموں میں ویژوول ایفیکٹس کے ماہر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ فلموں میں کمپیوٹر گرافکس کے ذریعے مناظر کو فلمانے میں انھیں ملکہ حاصل ہے، یہ اب تک کئی شہرہ آفاق فلموں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ پاکستان میں ویژوول اسٹڈیز کرنے والوں کے لیے یہ ایک مثال ہیں۔ اگر آپ کے خواب سچے اور کھرے ہیں، آپ محنتی ہیں تو آپ دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعت ہالی ووڈ کے کامیاب آرٹسٹ بن سکتے ہیں، جس طرح میر ظفر علی نے اپنی کامیابی کا سفر طے کیا، یہ ہم سب کے لیے روشن مثال ہے۔
ہم اکثر یہ سوچتے ہیں کہ لوگ ڈگریاں لے کر فالتو پھرتے ہیں، اچھی ملازمتیں نہیں ملتیں یا پھر آگے بڑھنے کے مواقع ہمارے جیسے ملک میں کم ہیں، جہاں دہشت گردی، مہنگائی، معاشی بدحالی اور ناکارہ فلمی صنعت کا (کچھ لوگوں کو چھوڑ کر) دور دورہ ہے۔ ایسے ماحول میں کوئی سوچ سکتا ہے کہ وہ ہالی ووڈ میں نہ صرف کام کرے گا، بلکہ تین تین آسکر ایوارڈ بھی جیت لے گا۔ اس کام کو میر ظفر علی نے ممکن کیا اور آپ بھی ہنر کی اس بلندی کو پا سکتے ہیں، چاہت اور محنت شرط ہے۔
میر ظفر علی نے ہالی ووڈ میں اپنے کیرئیر کا آغاز ''دی ڈے آفٹر ٹومارو The Day After Tomorrow'' سے کیا، اس کے بعد انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ان کو پہلا آسکر ایوارڈ 2007ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''دی گولڈن کمپاس The Golden Compass'' پر دیا گیا۔ اسی برس دیگر جن فلموں میں انھوں نے کام کر کے شہرت حاصل کی، ہالی ووڈ کے فلم بینوں سمیت شائقین نے بھی ان کے کام کو سراہا اور میرظفر علی کے کام کی پہچان جو فلمیں بنیں ان میں 2007ء میں ''گھوسٹ رائڈر Ghost Rider'' اور ''اسپائیڈر مین تھریSpider-Man 3'' جیسی فلمیں شامل ہیں۔
2008ء میں ''دی انکریڈیبل ہلک The Incredible Hulk'' اور ''دی ممی The Mummy'' میں انھوں نے اپنے فن کا جادو جگایا اور ایسے حیرت انگیز مناظر تخلیق کیے کہ شائقین نے اپنی انگلیاں دانتوں تلے دبالیں۔ 2009ء میں ''آئی لینڈ آف دی لوسٹ Island of the Lost'' جیسی فلم میں ویژوول ایفیکٹس سے فلم کی کہانی میں حقیقی جان ڈال دی۔2011ء میں ''ایکس مین فرسٹ کلاس X-Men: First Class'' جیسی فلم میں اپنا ہنر پیش کیا۔ 2012ء میں ''لائف آف پی Life of Pi'' میں کام کر کے اپنے کیرئیر کا دوسرا آسکر ایوارڈ حاصل کیا۔
2013ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''فروزن Frozen'' میں ایک مرتبہ پھر بہترین کام کرنے پر تیسری مرتبہ آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا، مگر ہمارے میڈیا کو کراچی کا یہ نوجوان نظر نہیں آیا، جس نے یکے بعد دیگرے کئی اکادمی ایوارڈ جیت کر حقیقی معنوں میں ملک کا نام روشن کیا۔میرظفر علی نے اپنے مختصر کیرئیر میں بہترین انداز میں کام کر کے ہالی ووڈ کے فلمی پنڈتوں اور شائقین کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے۔ اینی میشن، ویژوول ایفیکٹس اور گرافکس کے حوالے سے ہالی ووڈ میں یہ نام جانا پہچانا ہے۔ یورپ اور امریکی ممالک میں اس ہنرمند کا ڈنکا بجتا ہے، صرف ہم ہی لوگ اپنے اس ہنرمند نوجوان سے بے خبر ہیں۔
میر ظفر علی کراچی میں پیدا ہوئے اور یہیں پلے بڑھے۔ نجی یونیورسٹی سے سافٹ ویئر انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ انڈس ویلی اسکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر سے بھی کچھ عرصہ پڑھا۔ آرٹ اور ڈیزائننگ کی مختلف مقامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں سائنس فکشن اور طلسماتی فلمیں دیکھنے کا شوق بھی تھا۔ اس میں انھیں تخلیقی کشش محسوس ہوتی تھی، یہی کشش انھیں اس فن کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکا لے گئی، جہاں انھوں نے نجی کالج میں مزید آرٹ اور ڈیزائن کی تعلیم حاصل کی۔
میر ظفر علی اب تک ہالی ووڈ کی تقریباً 20 بہترین فلموں میں اینی میشن اور گرافکس کے جوہر دکھا چکے ہیں۔ دیگر فلموں کی تعداد ان کے علاوہ ہے۔ ہالی ووڈ والوں کو پہلی مرتبہ ضرور حیرت ہوئی تھی کہ کوئی پاکستانی کیسے آسکر ایوارڈ جیت سکتا ہے، مگر اب وہ عادی ہو گئے ہیں کہ ہالی ووڈ کے ویژوول اور ڈیزائن کے شعبے میں ایک ایسا پاکستانی نوجوان ہے، جو اپنے فن سے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے، ہمیں اس لائق نوجوان کی خبر نہیں جو ہمارا حقیقی تکنیکی اور ڈیجیٹل ہیرو اور ہنرمند میر ظفر علی ہے، جس کا فن مثبت ہے اور سوچ میں ندرت بھی۔ چراغ تلے اندھیرا بہت دنوں تک رہا، مگر اب ہم اس نوجوان کو جان گئے ہیں، یہ فلمیں جن کے میں نے نام لکھے ہیں، دیکھیے اور اس کو داد دیجیے۔