آئی ایم ایف کے وزیراعظم آفس افسروں کو 4 اضافی تنخواہوں 24 ارب کی ضمنی گرانٹ پر اعتراضات

شہباز شریف فیصلہ واپس لینے کے موڈ میں نہیں،آئی ایم ایف کی مداخلت پر فیصلہ واپس لینا توہین آمیز ہوگا،حکام وزارت خزانہ

وزیراعظم کو درست بریفنگ نہ دی گئی،کابینہ رکن،آئی ایم ایف نے ضمنی گرانٹ سے روکا (فوٹو فائل)

آئی ایم ایف نے پاکستان کی جانب سے وزیراعظم آفس کے افسروں کو 4اضافی تنخواہیں دینے اور معاشی بحران کے دوران 24 ارب روپے کی ضمنی گرانٹ کی منظوری پر اعتراضات کردیے۔

حکومتی ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ عالمی مالیاتی ادارے نے وزارت خزانہ کے ساتھ خط و کتابت میں یہ سوالات اٹھائے، آئی ایم ایف نے اقتصادی رابطہ کمیٹی سے 24 ارب روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری اور وزیراعظم آفس کے افسروں کی اضافی تنخواہوں کے حوالے سے استفسار کیا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے اعتراضات مذکورہ فنڈنگ کے ذرائع کے بارے میں تھے،آئی ایم ایف کی پاکستان میں نمائندہ ایستھر پیریز نے 2ہفتے گزرنے پر بھی اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا،ان سے کہا گیا تھا کہ وہ وزیر اعظم آفس کے ملازمین کی اضافی تنخواہوں سے متعلق پیش رفت اور آئی ایم ایف کے مؤقف کی تصدیق کریں،اس معاملے میں آئی ایم ایف کی مداخلت کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب مالیاتی طور پر قابل اعتراض فیصلے کو واپس لینے کے موڈ میں نہیں ہیں۔

وزارت خزانہ کے حکام کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کا آئی ایم ایف کی مداخلت پر فیصلہ واپس لینا توہین آمیز ہو گا لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہو گا کہ وزیر اعظم آئی ایم ایف کے اعتراض پر اپنا فیصلہ واپس لیں،پی ڈی ایم کی حکومت نے آئی ایم ایفکے اعتراضات کے باعث جون 2023 کے بجٹ میں تبدیلیاں کی تھیں،سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ اعلان کے باوجود بجلی بلوں کی معافی یا قسطوں میں وصولی کیلیے آئی ایم ایف کی منظوری حاصل نہ کر سکے تھے۔


کابینہ کے ایک رکن نے دعویٰ کیا کہ وزیراعظم کو فیصلے کے مالی اثرات پر درست بریفنگ نہیں دی گئی تھی تاہم مستقبل میں ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔

ایکسپریس ٹریبیون نے دو ہفتے قبل رپورٹ کیا تھا کہ ڈیفالٹ سے بچنے کیلیے آئی ایم ایف سے نئے بیل آؤٹ پیکج کے حصول کی درخواست سے چند روز قبل وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے وزیر اعظم دفتر کے افسروں کیلیے بطور انعام چار اضافی تنخواہوں کی منظوری دی تھی۔

وزیر اعظم نے موجودہ سنگین معاشی صورتحال کے پیش نظر وفاقی کابینہ کی تنخواہوں میں کٹوتی کی تھی،تاہم وزیراعظم نے اپنے دفتر میں کام کرنے والے بیوروکریٹس کو خوش کرنے کیلیے عوام کی جیب پر بوجھ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔

ذرئع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے حکومتی واجبات کی ادائیگی اور غیرموزوں گرانٹس سے پیدا خلا ختم کرنے کیلیے ضمنی گرانٹس کے طور پر 24 ارب روپے کی منظوری کے ای سی سی کے فیصلے پر بھی سوال اٹھایا،معاملے کو خفیہ رکھنے کیلیے وزارت خزانہ نے ای سی سی اجلاس کے بعد پریس ریلیز جاری نہیں کی تھی، تاہم ایکسپریس ٹریبیون نے ای سی سی اجلاس میں مذکورہ ضمنی گرانٹس کی منظوری کی خبر دی تھی، آئی ایم ایف نے دوسرے جائزہ مذاکرات کے دوران پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ تکنیکی ضمنی گرانٹس کے اجرا سے بھی گریز کرے جس کا مقصد رواں مالی سال جی ڈی پی کا 0.4 فیصد اضافی بجٹ کا ہدف حاصل کرنا ہے۔

پاکستان رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران یہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا،تاہم آئی ایم ایف نے پاکستان کو 70 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی قسط دینے کیلئے اس کی چھوٹ دی تھی،ورلڈ بینک نے رواں ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ امکان ہے کہ پاکستان مالی سال کے آخر تک اضافی بجٹ کے آئی ایم ایف کے بنیادی ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہے گا۔
Load Next Story