لوڈ شیڈنگ کے ختم نہ ہونے والے عذاب
کے ای ایس سی پر فیول بچانے کے لیے اپنی بجلی پیدا نہ کرنے کے الزامات لگاتے تھے۔۔۔
بجلی و پانی کے وزیر مملکت عابد شیر علی نے کراچی میں بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ پر نوٹس لیتے ہوئے کے الیکٹرک سے جواب طلب کر لیا ہے اور نیپرا نے بھی کے الیکٹرک کو این ٹی ڈی سی سے کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔ نیپرا نے یہ اقدام 650 میگاواٹ سے زائد بجلی لینے پر کیا ہے اور کے الیکٹرک کا جواب ملنے پر اس معاملے کی سماعت ہو گی اور الزام ثابت ہونے پر کارروائی کی جائے گی۔
اس سے قبل بھی کے الیکٹرک پر مقررہ مقدار سے زائد بجلی لینے کا الزام لگا چکے ہیں جس کی کے الیکٹرک نے تردید کی تھی۔ نیپرا کی طرف سے کہا گیا ہے کہ کے الیکٹرک این ٹی ڈی سی کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر عمل نہیں کر رہی اور خود بجلی پیدا کرکے شہر کی ضرورت پوری کرنے کی بجائے 650 میگاواٹ سے زیادہ بجلی استعمال کر رہی ہے۔ کے ای ایس سی پر سابق پی پی دور میں بھی کڑی تنقید ہوتی تھی۔ ارکان اسمبلی اور سیاسی رہنما کے ای ایس سی کو سرکاری تحویل میں لینے کا مطالبہ کیا کرتے تھے۔
کے ای ایس سی پر فیول بچانے کے لیے اپنی بجلی پیدا نہ کرنے کے الزامات لگاتے تھے مگر کوئی بھی کے ای ایس سی کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ ان دنوں کہا جاتا تھا کہ کے ای ایس سی کو ملک کی اعلیٰ ترین سیاسی شخصیات کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس لیے سندھ حکومت بے بس تھی اور پیپلز پارٹی اور متحدہ کے رہنماؤں کے بیانات کے باوجود کوئی بھی کے ای ایس سی کے خلاف کچھ نہ کر سکا تھا نہ اب کوئی اس ادارے کے خلاف کچھ کر سکے گا۔
ابھی دو ماہ قبل ہی گرمی کی شدت بڑھی ہے اور گرمی اور مون سون میں تین چار ماہ باقی ہیں اور کے ای ایس سی نے شہریوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ کراچی میں نہ صرف بارہ بارہ گھنٹے تک بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے بلکہ بعض علاقوں سے کئی کئی روز تک بجلی کی فراہمی مکمل بند ہونے کی بھی شکایات ہیں اور اب ان علاقوں میں بھی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ بڑھ گئی ہے جہاں پہلے کبھی اتنی لوڈشیڈنگ نہیں ہوا کرتی تھی۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات کے الیکٹرک کے خلاف عوام کے احتجاج، مظاہروں اور ہنگامہ آرائی کی خبروں سے بھرے پڑے ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ جب بجٹ تقریر کر رہے تھے تو کے الیکٹرک نے سندھ اسمبلی کو بھی نہیں بخشا اور ایوان کو تاریکی میں دھکیل دیا جس پر ارکان بھی چیخ پڑے ہیں۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فیفا عالمی کپ دنیا کا سب سے بڑا اسپورٹس ایونٹ ہے،4 ارب سے زاید شائقین فٹ بال یہ میچز دیکھ رہے ہیں مگر کراچی میں لوڈ شیڈنگ کی انتہا ہو گئی ہے۔ لیاری کے لوگ جو فٹ بال ورلڈ کپ کے لیے 4 سال انتظار کرتے ہیں فٹ بال میچز دیکھنے کو ترس رہے ہیں، 9 بجے سے رات ایک بجے تک بجلی غائب یا بار بار بجلی کی آنکھ مچولی سے کھیل کا لطف تباہ ہو جاتا ہے۔ کہیں لو وولٹیج ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ مگر سنا ہے کے الیکٹرک اتنا خودمختار ادارہ بن چکا ہے جس کا سندھ حکومت اور نیپرا تو کیا وفاقی حکومت بھی کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔
بتایا جاتا ہے کہ کے الیکٹرک نے بجلی کا انتظام سنبھالتے ہی اخراجات میں بچت کے نام پر فرنس آئل کے ذریعے کی گئی پیداوار کو کم سے کم رکھنے کی جو پالیسی اختیار کی تھی اس میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں بجلی کی طلب 2850 میگاواٹ سے بڑھ گئی ہے جس کے بعد کے الیکٹرک نے بجلی کی پیداوار میں اضافے کی بجائے شہر میں سات سو میگاواٹ کی بدترین لوڈشیڈنگ سخت گرمی میں شروع کر رکھی ہے اور بجلی کمپنی کا سارا انحصار نیشنل گرڈ اور قدرتی گیس سے پیدا کی جانے والی بجلی پر ہے اور اپنی بچت پالیسی کے باعث شہری بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہیں۔
مگر کے الیکٹرک معاہدے کے مطابق اپنی بجلی پیدا نہیں کر رہی جس کے نتیجے میں شہر کی 80 فیصد سے زائد آبادی کے الیکٹرک کی بے رحمانہ لوڈشیڈنگ کا نشانہ بن رہی ہے جو غریب اور متوسط طبقے پر مشتمل ہے۔کے الیکٹرک نے بااثر اور خوشحال طبقے کے علاقوں کو لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف کے الیکٹرک کروڑوں روپے بچا رہی ہے بلکہ لوڈشیڈنگ کے باعث جنریٹر اور یو پی ایس بنانیوالوں کی بھی چاندی ہو چکی ہے اور ڈیزل اور پٹرول کا استعمال بھی بڑھ چکا ہے جس پر حکومت کثیر زرمبادلہ خرچ کرتی ہے۔
شہر میں لوڈشیڈنگ سے بجلی کمپنی انتظامیہ، جنریٹر بنانے اور مرمت کرنیوالوں اور یوپی ایس بنانے اور مرمت کرنیوالوں کو فائدہ پہنچا ہے جب کہ حکومت اور بلدیاتی اداروں کے ساتھ بے گناہ شہریوں کی املاک کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے متاثرہ شہریوں کی طرف سے کے الیکٹرک کے خلاف احتجاج معمول بن چکا ہے اور وہ سڑکوں پر ٹائر ودیگر سامان جلاکر سڑکوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں جن کی تعمیر پر مختلف اداروں کے کروڑوں روپے خرچ ہوئے ہیں مگر آگ لگا کے احتجاج کے باعث سڑکیں تباہ ہو رہی ہیں۔ شہری احتجاج تو کے الیکٹرک کے خلاف کرتے ہیں مگر سزا دوسروں کو مل رہی ہے۔
احتجاج کے دوران سڑک بلاک کر کے گاڑیوں پر پتھراؤ کیا جاتا ہے جس سے گزرنے والے بے گناہ شہری زخمی ہوتے ہیں اور ٹریفک کی آمد و رفت معطل ہو جاتی ہے۔ کے ای ایس سی کے سابق سربراہ تابش گوہر کھلے عام شہریوں کو بجلی چور قرار دیتے تھے جب کہ بجلی کی چوری کو فروغ دینے اور چوری کرانے میں خود کے ای ایس سی کا عملہ ملوث رہا ہے۔ بہت سے اہلکاروں نے کچی آبادیوں میں ایسی جگہیں حاصل کر رکھی ہیں جہاں بیٹھ کر وہ لوگوں کو میٹر لگوا کر بجلی استعمال کرنے کی بجائے ان سے ملی بھگت کر کے چوری کی بجلی استعمال کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
کے الیکٹرک کے افسران اور نچلے اہلکار خود بجلی چوری میں ملوث ہیں اور انھوں نے بجلی چوری کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے مگر کے الیکٹرک نے اپنے بدعنوان عملے کے خلاف کبھی کارروائی نہیں کی بلکہ ان کی غلط رپورٹوں پر ان صارفین کو زیادہ رقم کے بل بھیجے جو بل باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں اور چوری کی بجلی استعمال نہیں کرتے۔ زائد بلنگ کی شکایات عام ہیں جن کے بل درست کرنے کی بجائے کے الیکٹرک انھیں قسطیں کروا کر بل ادا کرنے کا کہتی ہے اور ایسا نہ کرنے پر بجلی کاٹنے اور گرفتار کرانے کی دھمکی دیتی ہے کہ وہ بجلی چوری میں ملوث ہیں۔
اس الزام کی بھی تحقیقات ہونا چاہیے کہ کے الیکٹرک نے ارکان اسمبلی اور سیاسی رہنماؤں کے عزیزوں اور بیٹوں کو لاکھوں روپے تنخواہ پر ملازمتیں دے رکھی ہیں جس کی وجہ سے بااثر افراد کے الیکٹرک کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور اس کے غیر قانونی کاموں کا تحفظ کرتے ہیں اور محض دکھاوے کے لیے بیان بازی کرتے ہیں۔اوور بلنگ سے عوام کو لوٹا جا رہا ہے اور این ٹی ڈی سی کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی ہو رہی ہے ، خود بجلی پیدا نہیں کر رہی اور نمائشی اقدامات کے ذریعے حکومت اور شہریوں کو دھوکہ دیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے بجلی کا بحران شدید ہو گیا ہے مگر کے الیکٹرک بے خوف ہے اور اسے پتہ ہے کہ بجلی کا نظام سرکاری تحویل میں لینے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ عوام اذیت سے دوچار ہیں۔