فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
ووٹر ٹرن آؤٹ کی شرح 8 فروری کے مقابلے میں کم رہی، خواتین کی شرح میں 12 اور مردوں کی شرح میں 9 فیصد کمی آئی، فافن
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے حالیہ ضمنی انتخابات پر اپنی جائزہ رپورٹ جاری کردی، جس میں کہا گیا ہے کہ ووٹوں کی گنتی سمیت انتخابی عمل بڑی حد تک مناسب طریقہ کار کے مطابق تھا تاہم چند ایک حلقوں میں تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔
فافن کی جانب سے 21 اپریل کو منعقدہ ضمنی انتخابات پر جاری ابتدائی جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ضمنی انتخابات کے دوران ووٹر ٹرن آؤٹ 8 فروری کے جنرل الیکشن کی نسبت تبدیل ہوتا ہوا نظر آیا۔
ٹرن آؤٹ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ لاہور میں تو ووٹر ٹرن آوٹ واضح طور پر کم ہوا، گجرات، خضدار اور قلعہ عبداللہ میں ووٹرن آوٹ میں شرح بلند ہوئی،گنتی سے خارج ووٹوں کی تعداد بھی آدھی ہوگئی۔
فافن نے بتایا کہ وزیر آباد اور تلہ گنگ میں کہیں کہیں آزاد جائزہ کاری میں رکاوٹ اور تشدد رونما ہونے کے واقعات دیکھے گئے، نتائج کی شفافیت اور بیلٹ پیپرز کے اجرا کے عمل میں بے ضابطگیوں کے کچھ واقعات بھی مشاہدے میں آئے۔
جائزہ رپورٹ میں کہا کہ ووٹر ٹرن آؤٹ کی شرح تقریباً 36 فیصد رہی، جو 8 فروری کے انتخابات کے مقابلے میں کم تھی، خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح میں 12 فیصد اور مردوں کی شرح میں 9 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔
یہ بھی پڑھیں: ضمنی انتخابات میں (ن) لیگ نے میدان مار لیا، 2 قومی اور 9 صوبائی نشستیں جیت لیں
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مجموعی طور پر رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں 75 ہزار 640 کا اضافہ ہوا، 8 فروری کے عام انتخابات میں ان حلقوں میں 72 ہزار 472 ووٹ گنتی سے خارج ہوئے تھے اور ضمنی انتخابات میں 35 ہزار 574 ووٹ خارج ہوئے۔
فافن نے بتایا کہ4 حلقوں میں خارج شدہ ووٹوں کی تعداد جیتنے والے امیدواروں کے مارجن سے زیادہ تھی جبکہ8 فروری کو ایسا کوئی حلقہ نہیں تھا جہاں خارج ووٹوں کی تعداد فتح کے مارجن سے زیادہ ہو ۔
ابتدائی جائزہ رپورٹ کے مطابق پی پی-36 وزیر آباد اور پی پی-93 بھکر کے علاوہ جماعتوں نے عام انتخابات کے دوران اپنی جیتی گئی نشستیں برقرار رکھیں، ان دو حلقوں میں 8 فروری کو بالترتیب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ آزاد اور دیگر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے جبکہ ضمنی انتخاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کامیاب ہوئے۔
فافن کے مطابق پی پی-36 وزیر آباد اور پی پی-93 بھکر میں کامیاب اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کے درمیان جیت کا فرق مارجن سے کم ہوا تاہم ضمنی انتخابات کے دیگر تمام حلقوں میں جیت کے مارجن میں اضافہ دیکھا کیا گیا۔
ضمنی انتخابات کی شفافیت پر بتایا گیا کہ پولنگ کا عملہ، پولنگ اسٹیشنز کا قیام، ووٹرز کی شناخت، بیلٹ پیپرز کا اجرا اور ووٹوں کی گنتی، بڑی حد تک مناسب طریقہ کار کے مطابق تھی۔
مزید بتایا گیا کہ زیر مشاہدہ تقریباً14 فیصد پولنگ اسٹیشنز پر اسسٹنٹ پریزائیڈنگ افسروں کی طرف سے بیلٹ جاری کرنے کی کچھ درکار ضروریات سے اجتناب کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے، پولنگ ایجنٹس اور مجاز مبصرین کو ووٹنگ اور گنتی کے عمل تک رسائی حاصل رہی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں پہلے سے بیلٹ باکس بھرے ہوئے تھے، چیئرمین پی ٹی آئی
فافن نے کہا کہ وزیر آباد میں پی پی-36 اور چکوال کم تلہ گنگ پی پی-22 آزادانہ مشاہدے پر پابندیاں دیکھنے میں آئیں،19 پولنگ اسٹیشنز پر سیکیورٹی حکام یا پریذائیڈنگ افسران نے فافن کے مبصرین کو انتخابی عمل کے مشاہدے سے روکا۔
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-207 شہید بینظیر آباد اور پی پی-80 دادو میں بلا مقابلہ ہونے کا اعلان کیا گیا۔
فافن نے بلا مقابلہ جیت کی حوصلہ شکنی اور برابری سطح کے میدان کے اصول کو برقرار رکھنے کے لیے انتخابی امیدواروں کی طرف سے دستبرداری اور استعفوں کی دفعات پر نظرثانی کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
خیال رہے کہ 21 اپریل کو منعقدہ ضمنی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ(ن) سب سے زیادہ 16 نشستیں حاصل کیں اور دیگر نشستیں پی پی پی، پی ٹی آئی اور آزاد امیدواروں کے حصے میں آئی تھیں۔
فافن کی جانب سے 21 اپریل کو منعقدہ ضمنی انتخابات پر جاری ابتدائی جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ضمنی انتخابات کے دوران ووٹر ٹرن آؤٹ 8 فروری کے جنرل الیکشن کی نسبت تبدیل ہوتا ہوا نظر آیا۔
ٹرن آؤٹ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ لاہور میں تو ووٹر ٹرن آوٹ واضح طور پر کم ہوا، گجرات، خضدار اور قلعہ عبداللہ میں ووٹرن آوٹ میں شرح بلند ہوئی،گنتی سے خارج ووٹوں کی تعداد بھی آدھی ہوگئی۔
فافن نے بتایا کہ وزیر آباد اور تلہ گنگ میں کہیں کہیں آزاد جائزہ کاری میں رکاوٹ اور تشدد رونما ہونے کے واقعات دیکھے گئے، نتائج کی شفافیت اور بیلٹ پیپرز کے اجرا کے عمل میں بے ضابطگیوں کے کچھ واقعات بھی مشاہدے میں آئے۔
جائزہ رپورٹ میں کہا کہ ووٹر ٹرن آؤٹ کی شرح تقریباً 36 فیصد رہی، جو 8 فروری کے انتخابات کے مقابلے میں کم تھی، خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح میں 12 فیصد اور مردوں کی شرح میں 9 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔
یہ بھی پڑھیں: ضمنی انتخابات میں (ن) لیگ نے میدان مار لیا، 2 قومی اور 9 صوبائی نشستیں جیت لیں
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مجموعی طور پر رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں 75 ہزار 640 کا اضافہ ہوا، 8 فروری کے عام انتخابات میں ان حلقوں میں 72 ہزار 472 ووٹ گنتی سے خارج ہوئے تھے اور ضمنی انتخابات میں 35 ہزار 574 ووٹ خارج ہوئے۔
فافن نے بتایا کہ4 حلقوں میں خارج شدہ ووٹوں کی تعداد جیتنے والے امیدواروں کے مارجن سے زیادہ تھی جبکہ8 فروری کو ایسا کوئی حلقہ نہیں تھا جہاں خارج ووٹوں کی تعداد فتح کے مارجن سے زیادہ ہو ۔
ابتدائی جائزہ رپورٹ کے مطابق پی پی-36 وزیر آباد اور پی پی-93 بھکر کے علاوہ جماعتوں نے عام انتخابات کے دوران اپنی جیتی گئی نشستیں برقرار رکھیں، ان دو حلقوں میں 8 فروری کو بالترتیب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ آزاد اور دیگر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے جبکہ ضمنی انتخاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کامیاب ہوئے۔
فافن کے مطابق پی پی-36 وزیر آباد اور پی پی-93 بھکر میں کامیاب اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کے درمیان جیت کا فرق مارجن سے کم ہوا تاہم ضمنی انتخابات کے دیگر تمام حلقوں میں جیت کے مارجن میں اضافہ دیکھا کیا گیا۔
ضمنی انتخابات کی شفافیت پر بتایا گیا کہ پولنگ کا عملہ، پولنگ اسٹیشنز کا قیام، ووٹرز کی شناخت، بیلٹ پیپرز کا اجرا اور ووٹوں کی گنتی، بڑی حد تک مناسب طریقہ کار کے مطابق تھی۔
مزید بتایا گیا کہ زیر مشاہدہ تقریباً14 فیصد پولنگ اسٹیشنز پر اسسٹنٹ پریزائیڈنگ افسروں کی طرف سے بیلٹ جاری کرنے کی کچھ درکار ضروریات سے اجتناب کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے، پولنگ ایجنٹس اور مجاز مبصرین کو ووٹنگ اور گنتی کے عمل تک رسائی حاصل رہی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں پہلے سے بیلٹ باکس بھرے ہوئے تھے، چیئرمین پی ٹی آئی
فافن نے کہا کہ وزیر آباد میں پی پی-36 اور چکوال کم تلہ گنگ پی پی-22 آزادانہ مشاہدے پر پابندیاں دیکھنے میں آئیں،19 پولنگ اسٹیشنز پر سیکیورٹی حکام یا پریذائیڈنگ افسران نے فافن کے مبصرین کو انتخابی عمل کے مشاہدے سے روکا۔
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-207 شہید بینظیر آباد اور پی پی-80 دادو میں بلا مقابلہ ہونے کا اعلان کیا گیا۔
فافن نے بلا مقابلہ جیت کی حوصلہ شکنی اور برابری سطح کے میدان کے اصول کو برقرار رکھنے کے لیے انتخابی امیدواروں کی طرف سے دستبرداری اور استعفوں کی دفعات پر نظرثانی کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
خیال رہے کہ 21 اپریل کو منعقدہ ضمنی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ(ن) سب سے زیادہ 16 نشستیں حاصل کیں اور دیگر نشستیں پی پی پی، پی ٹی آئی اور آزاد امیدواروں کے حصے میں آئی تھیں۔