علامہ اقبال بحیثیت طالب علم اور استاد
پروفیسر آرنلڈ 11فروری 1898کو گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے استاد مقرر ہوئے
علّامہ اقبال نے ایف اے تک سیالکوٹ میں تعلیم حاصل کی مگرسیالکوٹ میں بی اے کی تعلیم کا انتظام نہ تھا، اس لیے انھوں نے مزید تعلیم کے لیے لاہور جانے کا ارادہ کرلیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور برّصغیر کا سب سے اعلیٰ اور معیاری تعلیمی ادارہ سمجھا جاتا تھا،اس لیے انھوں نے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔
انھیں پہلے سال ہوسٹل میں داخلہ نہ ملا، 1896 میں جب وہ بی اے کے سال دوم میں تھے تو انھیں کواڈرینگل ہوسٹل میں رہنے کے لیے کمرہ الاٹ کیا گیا۔ بعد میں اس ہوسٹل کو ان کے بلند مقام اور مرتبے کے پیشِ نظر انھی کے نام سے موسوم کردیا گیا۔ اقبال ہوسٹل کا وہ کمرہ (جہاں علامہ اقبال رہائش پذیر تھے) ہوسٹل کے چیف پریفیکٹ کے لیے مخصوص کردیا گیا ہے۔
بی اے میں ان کے مضامین انگریزی، فلسفہ اور عربی زبان وادب تھے۔ چونکہ گورنمنٹ کالج میں عربی کی تدریس کا الگ انتظام نہ تھا، اس لیے وہ اورینٹل کالج کی عربی کلاسوں میں شریک ہوتے تھے۔ اس زمانے میں اورئینٹل کالج، گورنمنٹ کالج ہی کی عمارت میں چل رہا تھا۔ 1897میں انھوں نے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ عربی میں اول آنے پر طلائی تمغہ بھی حاصل کیا۔
ایم اے کے لیے انھوں نے نسبتاً مشکل مضمون فلسفے کا انتخاب کیا۔ غالباً اس لیے کہ وہ فلسفے کی جانب ایک طبعی رجحان رکھتے تھے۔ بی اے اور ایم اے کے زمانۂ طالب علمی میں انھیں متعدد نامور اور قابل اساتذہ سے اکتسابِ علم کا موقع ملا۔ گورنمنٹ کالج میں اقبال کو نہایت قابل اور شریف النفس اساتذہ سے تحصیلِ ِ علم کا موقع ملا، مثلاً لالہ جیارام جن کا ذکر اقبال نے ایک جگہ فرطِ عقیدت سے اس طرح کیا ہے ''اُستادی جناب قبلہ لالہ جیارم صاحب''۔ اسی طرح مولانا محمد دین فوقی کشمیری ایسے فاضل جو سیرت النبیؐ، فقہ، عربی ادب اور منطق وفلسفہ جیسے علوم پر متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔
اسی طرح مولانا ابو سعید محمد شعیب جو ڈاکٹر اسٹراٹن (پرنسپل اورئینٹل کالج) کے بقول A Splendid Fellow (ایک نفیس انسان) تھے۔ لیکن اقبال نے سب سے زیادہ اکتسابِ علم اس عظیم استاد سے کیا، جس کا نام نامی تھا: پروفیسر تھامس واکر آرنلڈ، اگر چہ ان کی شاگردی کا موقع اقبال کو ایم اے کے آخری سال (1898-99) میں فقط چند ماہ تک ہی ملا تاہم آرنلڈ جیسے ''شفیق اور کردار ساز استاد'' سے کسبِ فیض کا یہ مختصر زمانہ بھی اقبال کے لیے ایک یادگار سرمایۂ افتخار ثابت ہوا۔
پروفیسر آرنلڈ 11فروری 1898کو گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے استاد مقرر ہوئے۔ اس سے پہلے وہ علی گڑھ کالج میں معلّم رہے تھے، جہاں وہ ایک مسلم دوست عالم اور منصف مزاج مستشرق کی حیثیت سے معروف تھے، ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی لکھتے ہیں، ''آرنلڈ میں ایک طرف تو انسانی خوبیاں، دوست داری، محبت وہمدردی پائی جاتی تھی، دوسری طرف وہ ایک بے مثال علمی لگن رکھتے تھے۔ ان کی مشرقیّت،سادگی اور انکسار نے علی گڑھ کے تعلیمی اور علمی حلقوں میں انھیں بہت عزت بخشی تھی اور طلبہ واساتذہ میں محترم اور مقبول بنادیا تھا۔
پروفیسر آرنلڈ ایک خالص علمی مزاج کے حامل شخص تھے۔ اقبال سے ان کا برتاؤ استاد کے ساتھ ساتھ ایک دوست کی سطح کا بھی تھا۔ بقولِ شیخ عبدالقادر وہ علمی جستجو اور تلاش کے طریقِ جدید سے خوب واقف تھے۔ انھوں نے چاہا کہ اپنے شاگرد کو اپنے مذاق اور طرزِ عمل سے حصہ دیں اور اس ارادے میں بہت کچھ کامیاب بھی ہوئے۔
انھوں نے اقبال جیسے جوہرِ قابل کو اس طرح چمکایا کہ خود آرنلڈ کو کہنا پڑا کہ ایسا شاگرد، استاد کو محقق اور محقق کو محقق تر بنا دیتا ہے۔ اورئینٹل کالج میں بھی انھیں آرنلڈ کی علمی صحبت میسر رہی اور پھر انگلستان کے زمانۂ قیام میں بھی آرنلڈ سے ان کا رابطہ برابر قائم رہا اور جیسا کہ شیخ عبدلقادر نے بانگِ درا کے دیباچے میں لکھا ہے کہ اس زمانے میں اقبال نے شاعری ترک کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا تھا مگر اپنے استاد پروفیسر آرنلڈ کے کہنے پر انھوں نے ترکِ شعر کا ارادہ ترک کردیا۔ قیامِ یورپ کے آخری سال لندن یونیورسٹی میں اقبال کو چھ ماہ تک آرنلڈ کی جگہ عربی پروفیسر کے طور پر تدریس کا موقع بھی ملا۔
ایم اے کا نتیجہ آنے کے تین ہفتے بعد 13 مئی 1899کو علامہ اقبال اورینٹل کالج میں میکلوڈ عریبک ریڈ مقرر ہوگئے۔ تنخواہ 72 روپے، 14 آنے مقرّر ہوئی۔ اس زمانے میں یہ ایک معقول رقم تھی۔ بنیادی طور پر یہ تدریسی منصب نہ تھا، تاہم ریڈر کو تحقیق، تصنیف وتالیف اور ترجمے کے علاوہ تدریسی کام بھی کرنا پڑتا تھا۔ حسنِ اتفاق سے اس زمانے میں پروفیسر آرنلڈ اورینٹل کالج کے قائم مقام پرنسپل تھے۔ شاگرد اور استاد، دونوں کے لیے یہ تقرر باعثِ مسرّت وطمانیت تھا۔
میکلوڈ عریبک ریڈر کے طور پر اقبال تقریباً چار سال تک کالج سے وابستہ رہے۔ اس دوران میں وہ کئی بار رخصت لے کر گورنمنٹ کالج لاہور مین ایڈیشنل پروفیسر اور اسسٹنٹ پروفیسر کی عارضی اسامیوں پر کام کرتے رہے۔ ان کی مدّتِ ملازمت میں مسلسل توسیع ہوتی رہی۔ گورنمنٹ کالج میں ان کی تنخواہ پہلے دو سو روپے تھی، پھر 250 روپے ہوگئی۔ اورئینٹل کالج میں وہ فلسفہ، منطق، اقتصادیات اور تاریخ کے مضامین پڑھاتے تھے۔
گورنمنٹ کالج میں وہ انگریزی کے مضامین پڑھاتے رہے۔ انگریزی کی تدریس ان کے لیے آسان تھی لیکن معاشیات اور تاریخ پر ہر روز لیکچر دینے کے لیے اقبال کو اچھی خاصی تیاری کرنی پڑتی تھی۔ وہ تدریس کے مقدّس مشن کا پورا ادراک رکھتے تھے اور انتہائی محنتی اور کامیاب اساتذہ کی طرح لیکچر کے اشارات (notes) تیار اور مرتب کرتے تھے۔
جی سی میں علامہ اقبال کے ایک شاگرد اور معروف ناول نگارایم اسلم 1983-1885 لکھتے ہیں ''ان کے پڑھانے کا طریقہ اتنا دل کش تھا کہ غالباً ان کے پیریڈ میں تمام اساتذہ کے مقابلے میں زیادہ حاضری ہوتی جو ان کی مقبولیت اور لیاقت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ وہ پنجابی طلبہ کی کمزوریوں سے پوری طرح واقف تھے اس لیے انگریزی الفاظ کی ادائیگی میں بہت احتیاط برتتے تھے جس سے ایک ایک لفظ آسانی سے سمجھ میں آجاتا۔ ان کے پڑھانے کا طریقہ اتنا موثر ہوتا کہ سبق کلاس ہی میں یاد ہوجاتا''۔ خلیفہ شجاع الدین 1887-1955 اسلامیہ کالج لاہور میں اقبال کے شاگرد رہے۔ ان کا بیان ہے کہ ''اسلامیہ کالج کی چند روز کی پروفیسری نے ہی آپ کی تبحّرِ علمی کا سکّہ بٹھادیا''۔
12 نومبر 1899کو علّامہ اقبال کو انجمنِ حمایتِ اسلام کی مجلس منتظمہ کا رُکن منتخب کرلیا گیا۔ انجمن کے دیرینہ بزرگوں کی فرمائش پر اقبال نے 24 فروری 1900کو پہلی مرتبہ انجمن حمایتِ اسلام کے پلیٹ فارم سے ایک طویل نظم ''نالۂ یتیم'' پیش کی جسے سن کر ڈپٹی نذیر احمد دہلوی نے اقبال کو ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا ''میں نے ان کانوں سے انیس اور دبیر کے مرثیے بھی سنے، مگر جس پائے کی نظم آج سننے میں آئی اور جو اثر اس نے میرے دل پر کیا، وہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا''۔
ابتداء میں تو اقبال یہ نظمیں تحت اللّفظ سناتے تھے۔ لیکن جب ان کی خوش الحانی کا چرچہ ہوا تو وہ ترنم سے پڑھنے لگے۔ اقبال کا ترنّم دل گداز، ان کی آواز پرسوز تھی۔ اس کے علاوہ وہ نظم کے لیے ہر بار موضوع ایسا منتخب کرتے تھے جو پوری قوم کے دل کی آواز ہوتا تھا۔ چنانچہ دس دس ہزار کا مجمع، ان کی نظمیں سن کر سر دھنتا۔ یوں ان منظومات کی وجہ سے اقبال نے عوام وخواص سے بے پناہ خراجِ تحسین پایا۔
1905میں علّامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ روانہ ہوگئے اور وہاں کیمرج یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ اقبال لاہور سے چلے تو بمبئی کو دیکھ کر بہت حیران ہوئے تھے۔ اب لندن پہنچ کر اس کی گہما گہمی اور چکاچوند کو دیکھ کر اور بھی حیران ہوئے ہوں گے، مگر انھیں ہمدم دیرینہ شیخ عبدالقادر کی موجودگی کی وجہ سے اس اجنبی ماحول اور دیار غیر میں درپیش مسائل سے عہدہ برآمد ہونے میں بہت مدد ملی بلکہ خاصی سہولت رہی۔ جہاں تک تعلیمی امور ومسائل کا تعلق ہے، اس ضمن میں پروفیسر آرنلڈ ہی اُن کے مشیر اور راہ نما تھے، بلکہ بقول ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی ''پروفیسر آرنلڈ نے ان کی آمدسے پہلے ان کی تعلیم کا سارا منصوبہ طے کردیا تھا۔
اقبال نے اس موقع پر یقیناً آرنلڈ سے بھی مشاورت کی ہوگی۔ بہرحال لندن میں دو تین روز ٹھہر کر وہ کیمبرج چلے گئے۔ یکم اکتوبر 1905کو انھوں نے Advanced student (یعنی ایسا طالبِ علم جس کے پاس پہلے سے کسی اور یونیورسٹی کی بی اے یا یم اے کی ڈگری ہو) کے طور پر کیمبرج کے ٹرینیٹی کالج میں داخلہ لے لیا، مگر اُس وقت اقبال کے نزدیک سفرِ انگلستان کی اصل غایت تو بیرسٹری کی سند کا حصول تھا اس لیے اگلے ماہ اقبال لندن آئے اور 4 نومبر کو قانون کی تعلیم کے معروف ادارے ''لِنکنز اِن'' میں داخلہ لے لیا۔ (جاری ہے)
نوٹ: اس کالم کے لیے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتابوں سے استفادہ کیا گیاہے۔
انھیں پہلے سال ہوسٹل میں داخلہ نہ ملا، 1896 میں جب وہ بی اے کے سال دوم میں تھے تو انھیں کواڈرینگل ہوسٹل میں رہنے کے لیے کمرہ الاٹ کیا گیا۔ بعد میں اس ہوسٹل کو ان کے بلند مقام اور مرتبے کے پیشِ نظر انھی کے نام سے موسوم کردیا گیا۔ اقبال ہوسٹل کا وہ کمرہ (جہاں علامہ اقبال رہائش پذیر تھے) ہوسٹل کے چیف پریفیکٹ کے لیے مخصوص کردیا گیا ہے۔
بی اے میں ان کے مضامین انگریزی، فلسفہ اور عربی زبان وادب تھے۔ چونکہ گورنمنٹ کالج میں عربی کی تدریس کا الگ انتظام نہ تھا، اس لیے وہ اورینٹل کالج کی عربی کلاسوں میں شریک ہوتے تھے۔ اس زمانے میں اورئینٹل کالج، گورنمنٹ کالج ہی کی عمارت میں چل رہا تھا۔ 1897میں انھوں نے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ عربی میں اول آنے پر طلائی تمغہ بھی حاصل کیا۔
ایم اے کے لیے انھوں نے نسبتاً مشکل مضمون فلسفے کا انتخاب کیا۔ غالباً اس لیے کہ وہ فلسفے کی جانب ایک طبعی رجحان رکھتے تھے۔ بی اے اور ایم اے کے زمانۂ طالب علمی میں انھیں متعدد نامور اور قابل اساتذہ سے اکتسابِ علم کا موقع ملا۔ گورنمنٹ کالج میں اقبال کو نہایت قابل اور شریف النفس اساتذہ سے تحصیلِ ِ علم کا موقع ملا، مثلاً لالہ جیارام جن کا ذکر اقبال نے ایک جگہ فرطِ عقیدت سے اس طرح کیا ہے ''اُستادی جناب قبلہ لالہ جیارم صاحب''۔ اسی طرح مولانا محمد دین فوقی کشمیری ایسے فاضل جو سیرت النبیؐ، فقہ، عربی ادب اور منطق وفلسفہ جیسے علوم پر متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔
اسی طرح مولانا ابو سعید محمد شعیب جو ڈاکٹر اسٹراٹن (پرنسپل اورئینٹل کالج) کے بقول A Splendid Fellow (ایک نفیس انسان) تھے۔ لیکن اقبال نے سب سے زیادہ اکتسابِ علم اس عظیم استاد سے کیا، جس کا نام نامی تھا: پروفیسر تھامس واکر آرنلڈ، اگر چہ ان کی شاگردی کا موقع اقبال کو ایم اے کے آخری سال (1898-99) میں فقط چند ماہ تک ہی ملا تاہم آرنلڈ جیسے ''شفیق اور کردار ساز استاد'' سے کسبِ فیض کا یہ مختصر زمانہ بھی اقبال کے لیے ایک یادگار سرمایۂ افتخار ثابت ہوا۔
پروفیسر آرنلڈ 11فروری 1898کو گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے استاد مقرر ہوئے۔ اس سے پہلے وہ علی گڑھ کالج میں معلّم رہے تھے، جہاں وہ ایک مسلم دوست عالم اور منصف مزاج مستشرق کی حیثیت سے معروف تھے، ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی لکھتے ہیں، ''آرنلڈ میں ایک طرف تو انسانی خوبیاں، دوست داری، محبت وہمدردی پائی جاتی تھی، دوسری طرف وہ ایک بے مثال علمی لگن رکھتے تھے۔ ان کی مشرقیّت،سادگی اور انکسار نے علی گڑھ کے تعلیمی اور علمی حلقوں میں انھیں بہت عزت بخشی تھی اور طلبہ واساتذہ میں محترم اور مقبول بنادیا تھا۔
پروفیسر آرنلڈ ایک خالص علمی مزاج کے حامل شخص تھے۔ اقبال سے ان کا برتاؤ استاد کے ساتھ ساتھ ایک دوست کی سطح کا بھی تھا۔ بقولِ شیخ عبدالقادر وہ علمی جستجو اور تلاش کے طریقِ جدید سے خوب واقف تھے۔ انھوں نے چاہا کہ اپنے شاگرد کو اپنے مذاق اور طرزِ عمل سے حصہ دیں اور اس ارادے میں بہت کچھ کامیاب بھی ہوئے۔
انھوں نے اقبال جیسے جوہرِ قابل کو اس طرح چمکایا کہ خود آرنلڈ کو کہنا پڑا کہ ایسا شاگرد، استاد کو محقق اور محقق کو محقق تر بنا دیتا ہے۔ اورئینٹل کالج میں بھی انھیں آرنلڈ کی علمی صحبت میسر رہی اور پھر انگلستان کے زمانۂ قیام میں بھی آرنلڈ سے ان کا رابطہ برابر قائم رہا اور جیسا کہ شیخ عبدلقادر نے بانگِ درا کے دیباچے میں لکھا ہے کہ اس زمانے میں اقبال نے شاعری ترک کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا تھا مگر اپنے استاد پروفیسر آرنلڈ کے کہنے پر انھوں نے ترکِ شعر کا ارادہ ترک کردیا۔ قیامِ یورپ کے آخری سال لندن یونیورسٹی میں اقبال کو چھ ماہ تک آرنلڈ کی جگہ عربی پروفیسر کے طور پر تدریس کا موقع بھی ملا۔
ایم اے کا نتیجہ آنے کے تین ہفتے بعد 13 مئی 1899کو علامہ اقبال اورینٹل کالج میں میکلوڈ عریبک ریڈ مقرر ہوگئے۔ تنخواہ 72 روپے، 14 آنے مقرّر ہوئی۔ اس زمانے میں یہ ایک معقول رقم تھی۔ بنیادی طور پر یہ تدریسی منصب نہ تھا، تاہم ریڈر کو تحقیق، تصنیف وتالیف اور ترجمے کے علاوہ تدریسی کام بھی کرنا پڑتا تھا۔ حسنِ اتفاق سے اس زمانے میں پروفیسر آرنلڈ اورینٹل کالج کے قائم مقام پرنسپل تھے۔ شاگرد اور استاد، دونوں کے لیے یہ تقرر باعثِ مسرّت وطمانیت تھا۔
میکلوڈ عریبک ریڈر کے طور پر اقبال تقریباً چار سال تک کالج سے وابستہ رہے۔ اس دوران میں وہ کئی بار رخصت لے کر گورنمنٹ کالج لاہور مین ایڈیشنل پروفیسر اور اسسٹنٹ پروفیسر کی عارضی اسامیوں پر کام کرتے رہے۔ ان کی مدّتِ ملازمت میں مسلسل توسیع ہوتی رہی۔ گورنمنٹ کالج میں ان کی تنخواہ پہلے دو سو روپے تھی، پھر 250 روپے ہوگئی۔ اورئینٹل کالج میں وہ فلسفہ، منطق، اقتصادیات اور تاریخ کے مضامین پڑھاتے تھے۔
گورنمنٹ کالج میں وہ انگریزی کے مضامین پڑھاتے رہے۔ انگریزی کی تدریس ان کے لیے آسان تھی لیکن معاشیات اور تاریخ پر ہر روز لیکچر دینے کے لیے اقبال کو اچھی خاصی تیاری کرنی پڑتی تھی۔ وہ تدریس کے مقدّس مشن کا پورا ادراک رکھتے تھے اور انتہائی محنتی اور کامیاب اساتذہ کی طرح لیکچر کے اشارات (notes) تیار اور مرتب کرتے تھے۔
جی سی میں علامہ اقبال کے ایک شاگرد اور معروف ناول نگارایم اسلم 1983-1885 لکھتے ہیں ''ان کے پڑھانے کا طریقہ اتنا دل کش تھا کہ غالباً ان کے پیریڈ میں تمام اساتذہ کے مقابلے میں زیادہ حاضری ہوتی جو ان کی مقبولیت اور لیاقت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ وہ پنجابی طلبہ کی کمزوریوں سے پوری طرح واقف تھے اس لیے انگریزی الفاظ کی ادائیگی میں بہت احتیاط برتتے تھے جس سے ایک ایک لفظ آسانی سے سمجھ میں آجاتا۔ ان کے پڑھانے کا طریقہ اتنا موثر ہوتا کہ سبق کلاس ہی میں یاد ہوجاتا''۔ خلیفہ شجاع الدین 1887-1955 اسلامیہ کالج لاہور میں اقبال کے شاگرد رہے۔ ان کا بیان ہے کہ ''اسلامیہ کالج کی چند روز کی پروفیسری نے ہی آپ کی تبحّرِ علمی کا سکّہ بٹھادیا''۔
12 نومبر 1899کو علّامہ اقبال کو انجمنِ حمایتِ اسلام کی مجلس منتظمہ کا رُکن منتخب کرلیا گیا۔ انجمن کے دیرینہ بزرگوں کی فرمائش پر اقبال نے 24 فروری 1900کو پہلی مرتبہ انجمن حمایتِ اسلام کے پلیٹ فارم سے ایک طویل نظم ''نالۂ یتیم'' پیش کی جسے سن کر ڈپٹی نذیر احمد دہلوی نے اقبال کو ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا ''میں نے ان کانوں سے انیس اور دبیر کے مرثیے بھی سنے، مگر جس پائے کی نظم آج سننے میں آئی اور جو اثر اس نے میرے دل پر کیا، وہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا''۔
ابتداء میں تو اقبال یہ نظمیں تحت اللّفظ سناتے تھے۔ لیکن جب ان کی خوش الحانی کا چرچہ ہوا تو وہ ترنم سے پڑھنے لگے۔ اقبال کا ترنّم دل گداز، ان کی آواز پرسوز تھی۔ اس کے علاوہ وہ نظم کے لیے ہر بار موضوع ایسا منتخب کرتے تھے جو پوری قوم کے دل کی آواز ہوتا تھا۔ چنانچہ دس دس ہزار کا مجمع، ان کی نظمیں سن کر سر دھنتا۔ یوں ان منظومات کی وجہ سے اقبال نے عوام وخواص سے بے پناہ خراجِ تحسین پایا۔
1905میں علّامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ روانہ ہوگئے اور وہاں کیمرج یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ اقبال لاہور سے چلے تو بمبئی کو دیکھ کر بہت حیران ہوئے تھے۔ اب لندن پہنچ کر اس کی گہما گہمی اور چکاچوند کو دیکھ کر اور بھی حیران ہوئے ہوں گے، مگر انھیں ہمدم دیرینہ شیخ عبدالقادر کی موجودگی کی وجہ سے اس اجنبی ماحول اور دیار غیر میں درپیش مسائل سے عہدہ برآمد ہونے میں بہت مدد ملی بلکہ خاصی سہولت رہی۔ جہاں تک تعلیمی امور ومسائل کا تعلق ہے، اس ضمن میں پروفیسر آرنلڈ ہی اُن کے مشیر اور راہ نما تھے، بلکہ بقول ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی ''پروفیسر آرنلڈ نے ان کی آمدسے پہلے ان کی تعلیم کا سارا منصوبہ طے کردیا تھا۔
اقبال نے اس موقع پر یقیناً آرنلڈ سے بھی مشاورت کی ہوگی۔ بہرحال لندن میں دو تین روز ٹھہر کر وہ کیمبرج چلے گئے۔ یکم اکتوبر 1905کو انھوں نے Advanced student (یعنی ایسا طالبِ علم جس کے پاس پہلے سے کسی اور یونیورسٹی کی بی اے یا یم اے کی ڈگری ہو) کے طور پر کیمبرج کے ٹرینیٹی کالج میں داخلہ لے لیا، مگر اُس وقت اقبال کے نزدیک سفرِ انگلستان کی اصل غایت تو بیرسٹری کی سند کا حصول تھا اس لیے اگلے ماہ اقبال لندن آئے اور 4 نومبر کو قانون کی تعلیم کے معروف ادارے ''لِنکنز اِن'' میں داخلہ لے لیا۔ (جاری ہے)
نوٹ: اس کالم کے لیے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتابوں سے استفادہ کیا گیاہے۔