ایرانی صدر کا دورہ اور بھٹو صاحب کی یاد
بیگم نصرت بھٹو ہمارے ملک کے وزیر اعظم کی ملکہ تھیں، میرے لیے یہ شاہی عذر ناقابل قبول تھا
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کا دورہ پاکستان آج کے عالمی حالات کے تناظر میں خاص اہمیت کا حامل ہے ، وہ اس اہم موقع پر پاکستان پہنچے ہیں جب غزہ میں اسرائیل کی جارحیت جاری ہے۔
ایران نے اسرائیل کی فوجی تنصیبات پر حملہ کرکے شام میں اپنے قونصلیٹ پر حملے کا جواب دے دیا ہے ، اسرائیل نے بھی ایران پر جوابی میزائل فائر کیے ہیں جنھیں ناکام بنادیا گیا ہے۔ ایران دنیا امریکا اور یورپی یونین کے لیے پسندیدہ ملک ہے، خصوصاً گزشتہ کئی دہائیوں سے ایران اور امریکا کے درمیان تعلقات خراب ہیں۔ امریکا بہادر نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر ایران کو معاشی طور پر دنیا سے علیحدہ کر رکھا ہے۔ لیکن ایرانی قیادت بھی ڈٹی ہوئی ہے ۔
ایران نے ان عالمی پابندیوں کو اپنے حق میں یوں استعمال کیا ہے کہ مقامی مصنوعات تیار کرنا شروع کیا اور آج یہ عالم ہے کہ عوام اپنی ایرانی مصنوعات کو ترجیح دیتے ہیں بلکہ ان مصنوعات میں سے کچھ اسمگل ہو کر ادھر سرحد پار پاکستان بھی پہنچ جاتی ہیں، ان کی قیمتیں کم جب کہ کوالٹی بہت بہتر ہوتی ہے لیکن چونکہ باقاعدہ تجارت کا کوئی چینل موجود نہیں ہے، اس لیے پاکستان کے عوام تک ایرانی مصنوعات کی رسائی بھی محدود پیمانے پر ہے۔
ایران پاکستان کے ان اولین دوست ممالک میں شامل ہے جنھوں نے پاکستان کے وجود کو سب سے پہلے تسلیم کر لیا تھا ۔ پاکستان اور ایران کے مشترکہ کاروباری مفادات اور جنوبی ایشیا میں تجارت کی راہیں کھولنے کی بات کی جائے تو مستقبل میںدونوں ممالک کااس سلسلے میں اہم ترین کردار ہو گا۔ اسرائیل اگر کسی اسلامی ملک سے خوفزدہ ہے تو وہ ایران ہے جس کے پاس عوامی طاقت کا ایک سمندر ہے اور وہ بطور ایک قوم اپنے ملک کی قیادت کے فیصلوں کے ساتھ ہمیشہ کھڑے نظر آتے ہیں۔
امریکا کی جانب سے اقتصادی پابندیوں نے ایرانی عوام کے درمیان اتحاد و یگانگت کو فروغ دیا ہے اور وہ اپنی قیادت کا ساتھ دیتے ہیں۔ اسرائیل اور ایران تنارعہ میں امریکی کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اگر امریکی مدد و تعاون سے اسرائیل نے ایران پر جنگ مسلط کی اس کے اثرات پوری دنیا پر پڑیں گے۔ تیل کی قیمتوں میں استحکام رکھنا مشکل ہو جائے گا ۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا اسرائیل کو للکارمارنے کی اجازت تو دے سکتا ہے لیکن اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کی اجازت نہیں مل سکتی۔
اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایرانی اور پاکستانی قیادت نے اس اہم موقع پر مل بیٹھنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ ٹائمنگ کے لحاظ سے بہت اہم ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان اچھے تعلقات وقت کی ضرورت اور اس بات کے متقاضی ہیں کہ دونوں ممالک کی سرحدیں ایک دوسرے کے لیے محفوظ ہوں تاکہ دہشت گردوں کو تعلقات خراب کرنے کا موقع نہ مل سکے۔
ایرانی صدر کا ملک کے تینوں بڑے شہروں میں جس طرح گرمجوشی سے پر تپاک اورو الہانہ استقبال کیا گیا ہے انھیںیہ کہنا پڑ گیا ہے کہ پاکستانی عوام کی محبت دیکھ کر ان کا دل کر رہا ہے کہ وہ پاکستانی عوام کے جلسے سے خطاب کریں۔ ایران میںبھٹو صاحب کے استقبال کے حوالے سے ایک واقعہ مجھے بھی یادآیا ہے جس کا ذکر والد صاحب نے ایک کالم میں کیا تھا ۔
ذوالفقار علی بھٹو اقتدار سنبھالتے ہی ایران پہنچے تھے۔ اس دورے میں میرے مرحوم والد جو بھٹو صاحب کے ہم سفر تھے ، لکھتے ہیں،''مرحوم و مغفور ذوالفقار علی بھٹو جیسی بڑی شخصیات اپنے ساتھ موافق اور مخالف لوگوں کے ہجوم اور ان کی مختلف آراء کا ایک انبار رکھتی ہیں۔ ان کی پارٹی نے گزشتہ دنوں ان کی برسی منائی اس موقع پر مشرقی روایت ہے کہ صرف خوبیاں بیان کی جائیں، بطور رپورٹر میرا ان کے ساتھ ایک مستقل تعلق رہا، اتفاق سے جب انھوں نے اقتدار کا حلف اٹھایااور فوراً ہی آٹھ نو مسلمان ملکوں کے دورے پر روانہ ہو گئے تو میں بھی ان کے ہمراہ تھا۔ آٹھ نو روز کا یہ مسلسل سفرجو ایران سے شروع ہوا تھا مغربی افریقا اور مشرق وسطیٰ پر پھیلا ہوا تھا۔
بھٹو صاحب سے اختلاف رائے رکھنے والے صحافیوں میں سے صرف میں ان کے ساتھ ہمراہ تھا اور انھیں یہ معلوم تھا لیکن دوران سفر انھوں نے ایک شاندار اور وضعدار میزبان کی طرح میرا خیال رکھا اور جب بھی آمنا سامنا ہو گیا انھوں نے اس سفر کی تیز رفتاری اور اس کی وجہ سے تکلیف پر معذرت کی۔
یہ سفر بڑا دلچسپ تھا کہ صبح ایک ملک میں اور رات دوسرے ملک میں ، ناشتہ کسی ملک میں تو لنچ اور ڈنر کسی دوسرے ملک میں۔ بیگم صاحبہ بھی ساتھ تھیں اور ان کی وجہ سے اس سفر کی پہلی منزل پر ہی میں شاہ ایران کی میزبانی سے برہم ہو گیا۔ ہوا یوں کہ تہران ائر پورٹ کی شاہی انتظار گاہ میں بھٹو صاحب تو شاہ ایران سے ملاقات کے لیے الگ کمرے میں چلے گئے، دوسرے لوگ ایک بڑے ہال میں بیٹھ گئے ۔
بیگم صاحبہ بھی ایک طرف تشریف فرما تھیں جن سے ملاقات کے لیے ان کی بہن اور بھانجی وہاں پہنچ چکی تھیں، یاد رہے کہ بیگم نصرت بھٹو ایرانی نژاد تھیں۔ میں نے دیکھا، تو مجھے شاہ بانو یعنی ملکہ ایران دکھائی نہ دیں ۔ میں نے ادھر ادھر سے پوچھا تو کوئی معقول جواب نہ ملا جب کہ بیگم صاحبہ کے استقبال کے لیے ان کا آنا رسماً ضروری تھا ۔ میری اس تفتیش کے دوران ایک صاحب سے معلوم ہوا کہ بیگم صاحبہ چونکہ ایرانی ہیں اور اس طرح وہ شاہ کی رعایا میں شمار ہوتی ہیں، اس لیے شاہ بانو ان کے استقبال کے لیے نہیں آئیں ۔ یہ سن کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔
بیگم نصرت بھٹو ہمارے ملک کے وزیر اعظم کی ملکہ تھیں، میرے لیے یہ شاہی عذر ناقابل قبول تھا چنانچہ اس پر میں نے اپنے کالم میں زبردست احتجاج کیا جس پر ایرانی سفارت کاروں نے جوابی احتجاج کیا لیکن میں اپنی اس قوم بے عزتی پر خاموش نہ رہ سکا ۔ افسوس کہ بھٹو صاحب کے ہمراہ ان کے کسی پسندیدہ صحافی نے اس پر کچھ بھی نہ لکھا ۔ شاید ایسا احساس ایک دیہاتی ہی رکھتا ہے''۔