بولتے حروف

آنکھوں کی روشنی سے محروم افراد تعلیم جیسی بنیادی سہولت سے بھی محروم ہیں


عائشہ صغیر April 24, 2024
بیس لاکھ نابینا افراد تعلیم حاصل کرکے ملک کے کارآمد شہری بن سکتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

علم کی روشنی سے منور ہونا ہر پاکستانی کا حق ہے، مگر بدقسمتی سے آنکھوں کی روشنی سے محروم افراد تعلیم جیسی بنیادی سہولت سے بھی محروم ہیں۔


غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں نابینا افراد کی تعداد بیس لاکھ سے زائد ہے، مگر ان کےلیے بریل جیسے رسم الخط میں درسی کتب بھی موجود نہیں، جس میں کاغذ پر اُبھرا ہوا ہر نقش نابینا افراد کےلیے کوئی نہ کوئی معنی رکھتا ہے اور وہ انگلیوں سے چھو کر اُسے پڑھ سکتے ہیں اور جو بہت تھوڑی بریل بکس موجود ہیں وہ اتنی مہنگی ہیں کہ عام شخص اسے خریدنے کی سکت نہیں رکھتا۔


پاکستان میں نابینا بچوں کے اسکول میں صرف ایک استاد کے پاس بریل بک ہوتی ہے جبکہ بچے استاد سے سن کر بریل میں نوٹس بنانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ نوٹس بنانے کےلیے بچوں کو نوکیلے قلم کی ضرورت ہوتی ہے جس کی وجہ سے بچوں کے ہاتھ بری طرح سے زخمی ہوجاتے ہیں۔


برٹش کونسل کے مطابق پاکستان میں نوے فیصد نابینا افراد اپنی تعلیم مکمل نہیں کرپاتے جس کی بڑی وجہ بریل بک کا نہ ہونا ہے۔ اسی وجہ سے نابینا افراد معاشی طور پر خودمختار ہونے کے بجائے دوسروں پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ نابینا افراد کی اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے کراچی کے شہری شیخ عمر فاروق نے ایک ایسا منفرد سافٹ ویئر تیار کیا ہے جس سے نہ صرف بریل کتب کا مسئلہ حل ہوگیا ہے بلکہ اس بات کا بھی خیال رکھا گیا کہ نابینا افراد سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے نہ رہیں۔ اس ہونہار نوجوان نے یہ سافٹ ویئر لاہور ایکسپو سینٹر میں ایک نمائش میں ڈسپلے کیا۔


بولتے حروف نامی سافٹ ویئر بنانے کا مقصد نابینا افراد کےلیے بریل کتب کی فراہمی کو آسان اور یقینی بنانا اور موجودہ بریل کتب سے کم قیمت پر بریل کتب فراہم کرنا ہے۔ ان بریل بکس کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ یہ بینا اور نابینا دونوں افراد کےلیے یکساں فائدہ مند ہیں یعنی بولتے حروف کی طبع شدہ بریل کتب میں بریل کے ساتھ ساتھ تحریری لکھائی میں بھی مضامین کو شامل کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے کتب کو نابینا افراد کے ساتھ ساتھ بینا افراد بھی باآسانی پڑھ سکتے ہیں۔ اس طرح سے نابینا افراد کے اساتذہ کرام، والدین اور بہن بھائی بریل سیکھے بغیر نابینا افراد کو پڑھنے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔


ایکسپریس ٹریبیون سے بات چیت کرتے ہوئے شیخ عمر فاروق نے بتایا کہ وہ چالیس سالہ ایسے نابینا شخص سے ملے جس کو یہ تک معلوم نہیں تھا کہ کتے کی چار ٹانگیں ہوتی ہیں، اسی لیے ہم نے اپنی بریل کتب میں جانوروں کی تصاویر بھی شامل کی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ دینی علوم کو بھی اپنی خاص ٹیکنالوجی کے ذریعے بریل میں منتقل کیا اور قرآنِ مجید کے ساتھ ساتھ نورانی قاعدہ بھی طبع کیا۔ نورانی قاعدہ بنانے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ اکثر نابینا حافظ قرآن ض اور ظ میں فرق نہیں جانتے تھے۔


شیخ عمر فاروق نے بتایا کہ ان کی کمپنی نے مختلف بینکوں کے ساتھ مل کر بینک سے متعلقہ ضروری کاغذات بھی بنائے، جیسا کہ اب کوئی نابینا شخص اپنا اکاؤنٹ کھلوانے جائے گا تو اس کو بریل میں بھی کاغذات ملیں گے۔ جس سے یہ فائدہ ہوگا کہ نابینا افراد بینک کی شرائط و ضوابط سے آگاہ ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ بینا افراد کی طرح نابینا افراد کا بھی حق ہے کہ وہ جان سکیں کہ وہ کن کاغذات پر کن شرائط پر دستخظ کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا اب ان کا اگلا ٹارگٹ پراپرٹی کے کاغذات بھی بریل میں بنانے کا ہے۔ عمر فاروق کے مطابق دنیا بھر میں نارمل اسکولوں میں ہر کلاس میں تین سے چار اسپیشل بچے بھی ہوتے ہیں جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مختلف صلاحیتیں رکھنے والے یہ بچے نارمل اسکول میں نارمل ماحول میں پروان چڑھیں اور یہ بچے نارمل محسوس کریں۔ ہماری بنائی گئی بریل بکس سے حکومت پاکستان کو انکلیسو ایجوکیشن کا مشن پروان چڑھانے میں آسانی ہوگی کیونکہ 'بولتے حروف' کی بکس سے بریل سے ناواقف استاد بھی نابینا بچوں کو پڑھا سکیں گے۔


یہ بیس لاکھ نابینا افراد ملک کے کارآمد شہری بن سکتے ہیں اگر ان کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے اور بولتے حروف کا یہی مشن ہے کہ ہم نے ملک کے بیس لاکھ نابینا افراد کو نہ صرف علم کی روشنی سے منور کرنا ہے بلکہ معاشی طور پر خودمختار بھی بنانا ہے تاکہ یہ بیس لاکھ آبادی ملک پر بوجھ بننے کے بجائے ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔



تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں