قرض کی مے
عالمی بینک کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان اخراجات زندگی کے مسلسل بحران سے دوچار ملک ہے
موجودہ حکومت اپنے تمام تر دعوؤں اور وعدوں کے باوجود غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے بوجھ تلے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے بجائے انھیں مزید گرانی کے دلدل میں دھکیل رہی ہے۔ وزارت خزانہ کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق حکومت نے حالیہ دنوں میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ کر دیا ۔ پٹرول کی قیمت پر 4.53 روپے، ڈیزل کی قیمت میں 8.14 روپے، لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 6.54 اور مٹی کے تیل کی قیمت میں 6.69 روپے فی لیٹر اضافہ کردیا گیا ۔
یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جب بھی اضافہ ہوتا ہے تو مہنگائی کی ایک نئی لہر اٹھتی ہے جو عوام کی مشکلات میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ ایک جانب تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو دوسری طرف ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھا دیے جاتے ہیں۔ لامحالہ پیداواری اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے جس کے منفی اثرات اشیا ضرورت کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔
حکومت وقفے وقفے سے بجلی وگیس کی قیمتوں میں بھی اضافے کے اعلانات کرتی رہتی ہے جو پیداواری اخراجات اور روزمرہ ضرورت کی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ مہنگائی بڑھتی ہے اور لوگوں کی قوت خرید بری طرح متاثر ہوتی ہے، یوں ہر طرف ہاہاکار مچ جاتی ہے۔
ملک ان دنوں شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ ہرگزرنے والے دن کے ساتھ قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پرانے قرضے چکانے کے لیے نئے قرضے لینا حکومت کی مجبوری بن چکا ہے۔ نئے قرضوں کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے دست سوال درازکرنا پڑتا ہے جو قرض کی منظوری کے لیے ایسی کڑی شرائط عائد کرتا ہے کہ مانے بغیر چارہ نہیں ہے جو قرض حاصل کیا جاتا ہے، اس سے پرانے قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کے بعد اتنا کچھ نہیں بچ پاتا کہ عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں پر خرچ کیا جاسکے۔
تعلیم، صحت اور سماجی بہبود کے دیگر درجنوں کاموں کے لیے سرمائے کی کمیابی کے باعث یہ شعبے بری طرح متاثر اور زوال کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق وطن عزیز انسانی ترقی کی عالمی فہرست میں افریقی ممالک ہیٹی اور زمبابوے سے بھی بہت پیچھے ہے۔ مذکورہ فہرست میں 119 سے 160 ویں نمبر پر آنے والے ممالک کو درمیانی درجے کا حامل سمجھا جاتا ہے، بدقسمتی دیکھیے کہ اس سے بھی نیچے 164 ویں نمبر پر ہے۔
ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ پاکستان جس تیزی سے قرضوں کی دلدل میں اترتا جا رہا ہے تو متذکرہ فہرست میں پاکستان مزید نیچے جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام کے پاکستان میں نمایندہ سیموئل زرک کا موقف ہے کہ پاکستان کا شمار کم ترین آمدنی والے ممالک میں ہوتا ہے، جب کہ یہاں انسانی مساوات کے حوالے سے ترقی بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
پاکستان قدرتی وسائل اور انسانی صلاحیتوں سے مالا مال ملک ہے، آپ اس کی ابتدا دیکھیے تو خوش حالی کا دور دورہ تھا، قرضوں کا بوجھ صفر تھا، مہنگائی کا نام نہیں تھا، آمدنی کم تھی لیکن غربت نہیں تھی، لوگ مطمئن اور پرسکون تھے۔ اگرچہ سیاسی افراتفری اول دن سے ہی رہی لیکن معاشی ابتری نہیں تھی۔ پاکستان دوسرے ممالک کی معاونت کرنے والا ملک گردانا جاتا تھا، لیکن گزشتہ نصف صدی کے دوران برسر اقتدار آنے والے حکمرانوں کے ادوار میں ملکی خزانے اور قومی وسائل کی لوٹ مار کا جو سلسلہ شروع ہوا، جو اب تک جاری ہے۔ اس نے ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔
عالمی بینک کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان اخراجات زندگی کے مسلسل بحران سے دوچار ملک ہے۔ غذائی عدم تحفظ بڑھتا جا رہا ہے جب کہ تعلیم و صحت کی خدمات تک فراہمی میں کمی ہوتی جا رہی ہے ۔ سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے 43 اضلاع میں شدید غذائی عدم تحفظ 29 سے بڑھ کر 32 فی صد تک پہنچنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد ڈھائی کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔
ملک کے نوجوانوں کی اکثریت بے روزگاری کا شکار ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ 25 کروڑ کی آبادی والے ملک میں 10 کروڑ کے قریب لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن حکمران طبقے کی عیاشیاں جاری ہیں۔ الللے تللے بڑھتے جا رہے ہیں، بھوکے، ننگے اور فاقہ کش عوام کی انھیں کوئی فکر نہیں۔ قرضوں پر شاہ خرچیاں کرنے والے حکمران سمجھتے ہیں کہ بقول غالب:
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جب بھی اضافہ ہوتا ہے تو مہنگائی کی ایک نئی لہر اٹھتی ہے جو عوام کی مشکلات میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ ایک جانب تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو دوسری طرف ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھا دیے جاتے ہیں۔ لامحالہ پیداواری اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے جس کے منفی اثرات اشیا ضرورت کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔
حکومت وقفے وقفے سے بجلی وگیس کی قیمتوں میں بھی اضافے کے اعلانات کرتی رہتی ہے جو پیداواری اخراجات اور روزمرہ ضرورت کی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ مہنگائی بڑھتی ہے اور لوگوں کی قوت خرید بری طرح متاثر ہوتی ہے، یوں ہر طرف ہاہاکار مچ جاتی ہے۔
ملک ان دنوں شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ ہرگزرنے والے دن کے ساتھ قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پرانے قرضے چکانے کے لیے نئے قرضے لینا حکومت کی مجبوری بن چکا ہے۔ نئے قرضوں کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے دست سوال درازکرنا پڑتا ہے جو قرض کی منظوری کے لیے ایسی کڑی شرائط عائد کرتا ہے کہ مانے بغیر چارہ نہیں ہے جو قرض حاصل کیا جاتا ہے، اس سے پرانے قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کے بعد اتنا کچھ نہیں بچ پاتا کہ عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں پر خرچ کیا جاسکے۔
تعلیم، صحت اور سماجی بہبود کے دیگر درجنوں کاموں کے لیے سرمائے کی کمیابی کے باعث یہ شعبے بری طرح متاثر اور زوال کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق وطن عزیز انسانی ترقی کی عالمی فہرست میں افریقی ممالک ہیٹی اور زمبابوے سے بھی بہت پیچھے ہے۔ مذکورہ فہرست میں 119 سے 160 ویں نمبر پر آنے والے ممالک کو درمیانی درجے کا حامل سمجھا جاتا ہے، بدقسمتی دیکھیے کہ اس سے بھی نیچے 164 ویں نمبر پر ہے۔
ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ پاکستان جس تیزی سے قرضوں کی دلدل میں اترتا جا رہا ہے تو متذکرہ فہرست میں پاکستان مزید نیچے جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام کے پاکستان میں نمایندہ سیموئل زرک کا موقف ہے کہ پاکستان کا شمار کم ترین آمدنی والے ممالک میں ہوتا ہے، جب کہ یہاں انسانی مساوات کے حوالے سے ترقی بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
پاکستان قدرتی وسائل اور انسانی صلاحیتوں سے مالا مال ملک ہے، آپ اس کی ابتدا دیکھیے تو خوش حالی کا دور دورہ تھا، قرضوں کا بوجھ صفر تھا، مہنگائی کا نام نہیں تھا، آمدنی کم تھی لیکن غربت نہیں تھی، لوگ مطمئن اور پرسکون تھے۔ اگرچہ سیاسی افراتفری اول دن سے ہی رہی لیکن معاشی ابتری نہیں تھی۔ پاکستان دوسرے ممالک کی معاونت کرنے والا ملک گردانا جاتا تھا، لیکن گزشتہ نصف صدی کے دوران برسر اقتدار آنے والے حکمرانوں کے ادوار میں ملکی خزانے اور قومی وسائل کی لوٹ مار کا جو سلسلہ شروع ہوا، جو اب تک جاری ہے۔ اس نے ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔
عالمی بینک کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان اخراجات زندگی کے مسلسل بحران سے دوچار ملک ہے۔ غذائی عدم تحفظ بڑھتا جا رہا ہے جب کہ تعلیم و صحت کی خدمات تک فراہمی میں کمی ہوتی جا رہی ہے ۔ سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے 43 اضلاع میں شدید غذائی عدم تحفظ 29 سے بڑھ کر 32 فی صد تک پہنچنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد ڈھائی کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔
ملک کے نوجوانوں کی اکثریت بے روزگاری کا شکار ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ 25 کروڑ کی آبادی والے ملک میں 10 کروڑ کے قریب لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن حکمران طبقے کی عیاشیاں جاری ہیں۔ الللے تللے بڑھتے جا رہے ہیں، بھوکے، ننگے اور فاقہ کش عوام کی انھیں کوئی فکر نہیں۔ قرضوں پر شاہ خرچیاں کرنے والے حکمران سمجھتے ہیں کہ بقول غالب:
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن