سندھ میں معاملات یوں ہی رہیں گے
سندھ کی حالت بہت بری ہے جہاں گڈ گورننس کا وجود ہے نہ امن و امان کی حالت اچھی ہے
پیپلز پارٹی ملکی اقتدار میں یہ منفرد ریکارڈ قائم کرچکی ہے جس نے اپنے قیام کے 57 سالوں میں سندھ میں سب سے زیادہ ہی نہیں بلکہ مسلسل 16سال حکومت کی ہے اور 2008 کے بعد سے سندھ میں مسلسل پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔
ملک کے حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی نے تیسری پوزیشن حاصل کی مگر اس نے سندھ میں چوتھی بار واضح اکثریت کے ساتھ حکومت بنائی جو سندھ میں اس کی تنہا بنائی گئی تیسری حکومت ہے جس کے لیے اس نے کسی اور پارٹی کو اپنے ساتھ شریک اقتدار نہیں کیا کیونکہ اس کے پاس اپنی ہی اکثریت تھی اور اسے کسی کی حمایت کی ضرورت بھی نہیں تھی۔
2008 میں آصف زرداری نے ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شامل کیا تھا جس پر ان کے قریبی اور بااعتماد پرانے ساتھی ڈاکٹر ذوالفقار مرزا خوش نہیں تھے جو سندھ کے سینئر بااثر و بااختیار وزیر داخلہ بھی تھے جنھوں نے کھل کر ایم کیو ایم کی مخالفت کی اور انتہائی قدم اٹھا کر وزارت چھوڑ دی تھی اور اپنے قریبی دوست آصف زرداری سے بھی راہیں جدا کر لی تھیں مگر ان کی اہلیہ پی پی دور میں قومی اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے پر برقرار رہی تھیں، جس کے بعد سے وہ بھی پی پی کے مخالفین کے ساتھ چلی آ رہی ہیں اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے ساتھ جی ڈی اے میں شامل ہیں مگر مرزا گروپ اس بار بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکا اور 2008 کے بعد پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم سے اپنی راہیں جدا کر رکھی ہیں دونوں پارٹیوں میں سیاسی اختلافات نہ صرف برقرار ہیں بلکہ مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
ایم کیو ایم نے سندھ میں بدامنی کا ذمے دار پیپلز پارٹی کی حکومت کو قرار دیتے ہوئے پہلے سندھ میں فوج بلانے کا مطالبہ کیا اور اب وہ مطالبہ کر رہی ہے کہ کراچی کو وفاق کے حوالے کیا جائے۔ سندھ میں کچھ اور سیاسی پارٹیاں بھی پیپلز پارٹی اور اس کی سندھ حکومت کے خلاف ہیں اور ان کا موقف ہے کہ 8 فروری کے الیکشن میں سندھ میں دھاندلی کروا کر واضح کامیابی حاصل کی گئی ہے۔
سندھ میں ایم کیو ایم، پی ٹی آئی، جی ڈی اے اور جماعت اسلامی کو سندھ اسمبلی میں اپنے لوگ منتخب کرانے کا موقعہ ضرور ملا مگر حیران کن طور پر جے یو آئی کو ایک نشست بھی نہیں ملی جب کہ جے یو آئی کے پاس اس بار سندھ میں مضبوط امیدوار بھی تھے اور جے یو آئی نے سندھ میں پہلے سے زیادہ امیدوار کھڑے کیے تھے جنھیں ٹھیک ٹھاک ووٹ بھی ملا مگر وہ کوئی نشست حاصل نہ کرسکی جب کہ مولانا فضل الرحمن نے سندھ میں انتخابی جلسے بھی کیے تھے مگر جے یو آئی، جی ڈی اے، پی ٹی آئی۔
جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (ن) نے اپنے طور پر الیکشن لڑا تھا مگر پی پی کے خلاف سب نے متحد ہو کر کوئی اتحاد نہیں بنایا تھا اور (ن) لیگ سندھ میں انتخابی مہم چلانے کی پوزیشن میں نہیں تھی جس کا حسب سابق سیاسی فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوا جس نے بھرپور کامیابی حاصل کی اور نہ صرف سندھ میں چوتھی بار حکومت بنائی بلکہ پہلی بار وفاق میں پی پی حکومت نہ ہونے کے باوجود ملک کا سب سے بڑا صدر مملکت کا آئینی عہدہ، سینیٹ کی چیئرمین شپ اور قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ بھی حاصل کرلیا جب کہ سندھ کے بعد بلوچستان میں بھی پی پی کی اتحادی حکومت ہے۔
اتنی بڑی کامیابی پیپلز پارٹی کوکبھی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی موجودگی میں بھی نہیں ملی تھی اور پیپلز پارٹی ملک کی واحد پارٹی ہے جس نے سندھ میں مسلسل چوتھی بار اپنی مضبوط حکومت بنا رکھی ہے اور اس بار سندھ میں ایم کیو ایم کو گورنری دینے کے بھی حق میں نہیں ہے جب کہ (ن) لیگ سے معاہدے کے مطابق سندھ و بلوچستان میں گورنرکا عہدہ مسلم لیگ (ن) کو ملنا ہے اور پنجاب و کے پی کے جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت نہیں وہاں گورنر شپ پیپلز پارٹی کو ملنی ہے۔ پی پی نے وفاق میں کوئی وزارت نہیں لی مگر پی پی وفاق میں اپنی مرضی کے فیصلے کرا رہی ہے اور (ن) لیگی وفاقی حکومت وفاق میں اقتدارکے لیے مکمل طور پر پیپلز پارٹی کی محتاج ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے وفاق سے زیادہ بااختیار ہیں اور بعض معاملات میں وفاق صوبوں کی ڈیمانڈ پوری کرنے کا پابند ہے۔ وفاقی حکومت کے پی حکومت کی بات مانے یا نہ مانے مگر وہ اتنی طاقتور نہیں ہے کہ سندھ و بلوچستان حکومتوں کے سلسلے میں پیپلز پارٹی کا مطالبہ مسترد یا تاخیر کرسکے۔
سندھ کی حالت بہت بری ہے جہاں گڈ گورننس کا وجود ہے نہ امن و امان کی حالت اچھی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ نے سندھ حکومت کو ایک ماہ میں امن و امان کی بہتری کا حکم دیا ہے جب کہ وفاقی حکومت، سندھ حکومت کو صوبے میں امن و امان کے لیے کوئی بھی ہدایت دینے یا مشورہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے سندھ میں اپوزیشن بے شک بڑے بڑے جلسے کرکے حکومتی دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک چلا لے اور ایم کیو ایم کراچی اور سندھ کے بلدیاتی اداروں کو اختیارات دینے کا مطالبہ کرتی رہے۔ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی مل کر سندھ حکومت سے اپنا کوئی مطالبہ نہیں منوا سکتیں۔
سندھ کی تمام اپوزیشن جماعتیں پی پی کی سندھ حکومت کے خلاف اتحاد کر لیں مگر سب مل کر سندھ حکومت سے اپنا کوئی مطالبہ منوا سکتی ہیں اور نہ ہی وفاقی حکومت میں اتنی طاقت ہے کہ وہ سندھ کی اپوزیشن کا کوئی ایک مطالبہ خود پورا کرسکے یا سندھ حکومت سے منوا سکے۔ سندھ میں کچھ بھی ہو جائے سندھ کے معاملات یوں ہی رہیں گے کیونکہ پیپلز پارٹی ان تمام اپوزیشن پارٹیوں پر حاوی اور بااختیار ہے۔ اپوزیشن مطالبے کرتی رہے یا متحد ہو کر سڑکوں پر آ جائے کچھ نہیں ہونے والا یہی اس نام نہاد جمہوریت کا حسن ہے۔