پارلیمان میدان اور پہاڑ

ہم یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کر رہے ہیں کہ ہم پہلے مصلحتوں کے شکار ہوئے اور نہ آئندہ ہوں گے

ashfaqkhan@express.com.pk

بلاشبہ پاکستان کلمہ طیب کی بنیاد پر ایک جمہوری عمل کے نتیجے میں حاصل کیا گیا مگر یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ آٹھ دہائیاں گزرنے کے باوجود یہاں اسلام نافذ ہوا، نہ جمہوریت کو اس کے قریب پھٹکنے دیا گیا۔ بالادست اور طاقتور طبقات نے جمہوریت کے نام پر یہاں جو نظام مسلط کر رکھا ہے اس کا جمہوریت اور اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں، مفادات کے اسیر ٹولے کے تحفظ کے لیے بالا دست طبقات نے اسے جمہوریت کا نام دے دیا ہے جو اس کے سب سے بڑے بینیفشری ہیں۔

جمہوریت کی مغربی تعریف کو چھوڑ کر بات کرتے ہیں کیونکہ شریعت مطہرہ اور ہمارے عقیدے ودستور وآئین کے مطابق حاکمیت اللہ رب العزت کے لیے خاص ہے اور عوام کو اپنے نمایندے جو ملکی معاملات کو آئین و دستور کے مطابق چلانے کے لیے چناؤ کا حق حاصل ہے مگر افسوس کہ عوامی مینڈیٹ کو ہر بار پاؤں تلے روندا جاتا ہے صرف پاؤں اور روندنے کا انداز بدل جاتا ہے۔ عوام کے حقیقی نمایندوں کو کبھی ایوانوں تک پہنچنے نہیں دیا گیا۔ اس نظام کے تحت ایسے لوگوں کو مسلط کیا جاتا ہے جو بالادست قوتوں کے نسل در نسل ہرکارے ہوتے ہیں۔

آج تک اس ملک میں شفاف اور غیر جانبدار انتخابات نہیں ہوئے، 2018 کے انتخابات تاریخ کے متنازع ترین انتخابات تھے جن کے خلاف ملک کی تیرہ سیاسی جماعتوں نے مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں احتجاج کیا، لیکن فروری 2024 کے انتخابات نے تو 2018کے الیکشن کا بھی ریکارڈ توڑ دیا۔ صرف کردار اور لاڈلے بدل گئے باقی عوامی مینڈیٹ پر ڈاکا مارنے کا انداز وہی پرانا ہے۔

اگر نہیں بدلا تو وہ مولانا فضل الرحمن کا موقف نہیں بدلا، 2018کے دھاندلی زدہ الیکشن کے بعد بھی سب سے پہلی آواز مولانا فضل الرحمن کی تھی اور 2024کے انتخابات میں تاریخی دھاندلے کے خلاف بھی انھوں نے سب سے پہلے اعلائے کلمۃ الحق بلند کیا۔ مولانا کے گھر کی چوکھٹ پر سب نے باری باری حاضری دی، حکومت میں شمولیت کی پرکشش پیش کش کی گئی مگر مولانا نے سب کچھ ٹھکرایا، اپنے حلیفوں کا ساتھ چھوڑدیا لیکن نہیں چھوڑا تو اصولی موقف نہیں چھوڑا۔

الیکشن کے بعد مولانا نے نتائج مسترد کرکے ایوان کے بجائے میدان کا انتخاب کرلیا تھا تاہم ماہ رمضان کی وجہ سے انھوں نے فوری طور پر تحریک کا آغا نہیں کیا جس سے حکومت اور اس کے سرپرست مطمئن نظر آنے لگے کہ شاید مولانا نے نرمی اختیار کر لی ہے لیکن پشین کی تاریخی عوامی اسمبلی اور اس اعلان نے کہ عوامی اسمبلیوں کا یہ سلسلہ اب حقیقی عوامی اسمبلیوں کے قیام تک جاری رہے گا، نے بڑے بڑے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اور بڑوں بڑوں کی نیندیں اڑ گئیں، مولانا نے دھاندلی زدہ الیکشن کے خلاف اپنی تحریک کا آغاز سنگلاخ چٹانوں کی سرزمین اس بلوچستان سے کیا ہے ۔

جہاں ایٹمی دھماکے کرکے دشمن کو یہ بات باور کرائی گئی تھی کہ پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہے، آج مولانا نے ان ہی سنگلاخ چٹانوں کی سرزمین سے دھاندلی زدہ الیکشن کے خلاف اور حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریک کا آغاز '' عوامی اسمبلی کے سیاسی ایٹم بم'' سے کرکے جعلی جمہوریت کے علمبرداروں اور بینیفشریوں کو باور کرا دیا ہے کہ اب جمہوریت کے نام پر قوم مزید دھوکا نہیں کھائے گی۔

ہفتہ کو پشین میں عوامی طاقت کا یہ مظاہرہ دن کی روشنی میں کیا گیا تاکہ حکومت اور اس کے سرپرست کھلی آنکھوں سے عوام کا سمندر دیکھ اور زبان خلق کو نقارہِ خدا سمجھ کر اپنا قبلہ درست کر لیں۔ عینی شاہدین اور سیاسی مبصرین کی رائے میں یہ پشین کی تاریخ کا سب سے بڑا عوامی شو تھا۔ خطاب کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ اب ملک بھر میں براہ راست عوامی اسمبلیاں لگیں گی۔ بلوچستان اسمبلی ہو یا دوسرے پارلیمنٹ، اسمبلیوں میں بیٹھے افراد عوام کے نہیں اسٹیبلشمنٹ کے نمایندے اور جعلی نمایندوں کو بے نقاب کرنا پڑے گا۔


ہم یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کر رہے ہیں کہ ہم پہلے مصلحتوں کے شکار ہوئے اور نہ آیندہ ہوں گے۔ اب قوم کو جعلی اور بیساکھیوں پر کھڑی پارلیمان کی ضرورت نہیں عوام براہ راست میدانوں میں عوامی اسمبلیاں منعقدکریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2024 میں 2018 سے بڑی دھاندلی ہوئی ہے۔ ہم اس جعلی حکومت کو چلنے نہیں دیں گے نہ ان کے معماروں کو آرام سے بیٹھنے دینگے۔ ہم نے 2018 کی دھاندلی کو برداشت نہیں کیا 2024 میں تو پوری کی پوری اسمبلیاں بیچی اور خریدی گئی ہیں، یہ کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟

انھوں نے سوال کیا کہ بتاؤ! بلوچستان کی اسمبلی کتنے میں خریدی؟ دھاندلی کے خلاف پہلے بھی آگے تھے اور اب بھی آگے رہیں گے۔ مولانا کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں سے جو تحریک اٹھی ہے یہ ان چٹانوں کی طرح سخت جان ہوگی پوری استقامت اور ایمانی قوت کے ساتھ پورے ملک میں چلے گی۔ بہت جلد ہم جعلی حکومت کو چلتا کریں گے ان شاء اللہ، اس عوامی تحریک کو اب کوئی نہیں روک سکتا، اگر بالادست حلقے آئین اور اسمبلیوں کو روندیں گے تو ہم بھی پہاڑ کی طرح کھڑے رہیں گے۔

انھوں نے سیاست دانوں کو مشورہ دیا کہ آپس میں نہ لڑیں۔ کل سیٹ نہیں دی تھی تو دھاندلی تھی، آج سیٹ دی گئی تو دھاندلی نہیں ہوئی۔ انھوں نے سیاستدانوں کو سیٹوں پر نہ بکنے کا بھی مشورہ دیا، اسپیکر عوامی اسمبلی (صدر جلسہ ) کی اجازت سے شرکا سے ہاتھ اٹھوا کر یہ قرارداد پاس کروائی کہ '' اس عوامی اسمبلی کے شرکاء 8 فروری کے نتائج کو مسترد کرتے ہیں''۔

مولانا نے دھاندلی زدہ الیکشن کے خلاف "جنگ" کا بگل بجا دیا ہے، انھوں نے پشین کے جلسے میں سب سے خطرناک بات جو کہی وہ یہ تھی کہ '' آج ہم میدان میں کھڑے ہیں اور اگر رویہ نہ بدلا گیا تو کل سامنے والے پہاڑ پر ہوں گے''۔ یہ مولانا کی تقریر کی پنچ لائن ہے، جسے نظر انداز کرنا بہت بڑی حماقت ہوگی کیونکہ اگر مولانا نے ووٹ کی سیاست کو خیر آباد کہہ کر پہاڑوں پر جانے کا فیصلہ کیا تو الامان الحفیظ، پہلے سے پریشان ریاست اس کی متحمل نہیں ہو سکے گی۔

یاد رکھیں 2018 کی طرح مولانا ایک بار پھر تنہا ڈٹ کر کھڑے ہوگئے ہیں لیکن لگتا ایسا ہے کہ وہ اکیلے نہیں رہیں گے، جی ڈی اے دیگر سیاسی جماعتیں جو عام انتخابات پر شدید تحفظات کا شکار ہیں وہ بھی مولانا کے جھنڈے تلے جمع ہوں گی ، پی ٹی آئی میں موجود بغض مولانا میں مبتلا چند ناعاقبت اندیش اور چھتری پر اترے حادثاتی لیڈران کے علاوہ پوری پی ٹی آئی اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ بات مولانا کے بغیر نہیں بنے گی، لگتا ہے کہ ایک بار پھر مولانا "میر کارواں" ہوں گے۔ موجودہ صورتحال میں حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشی مولانا کے واضح اور دوٹوک موقف کو دیکھ کر مجھے ایک واقعہ یاد آیا ہے، ایک جہاندیدہ حکیم کے پاس پیٹ کے درد کی شکایت کے ساتھ ایک مریض آیا۔

حکیم صاحب نے پوچھا کہ درد کب سے ہو رہا ہے مریض نے کہا کہ کھانا کھانے کے بعد سے درد ہو رہا ہے۔ حکیم صاحب نے پوچھا کہ کیا کھایا تھا؟ مریض نے کہا کہ بہت زیادہ بھوک لگی تھی جلدی میں جلی ہوئی روٹی کھا لی۔ حکیم صاحب نے ان کو ایک محلول دیا کہ اسے آنکھوں میں روزانہ چار چار قطرے ڈالا کریں۔ مریض نے کہا کہ حکیم صاحب درد پیٹ میں ہورہا ہے اور آپ نے دوائی آنکھوں میں ڈالنے کے لیے دے دی۔ حکیم صاحب نے کہا کہ آنکھوں کے علاج سے مسئلہ حل ہوگا کیوں کہ آنکھیں ٹھیک ہوتی توآپ جلی ہوئی روٹی نہ کھاتے اگر آنکھیں ٹھیک ہوگئی تو آیندہ پیٹ میں کبھی درد نہیں ہوگا۔

مولانا نے اقتدار کی بھوک کی وجہ سے پیٹ کے درد میں مبتلا سیاستدانوں کو آنکھوں کے علاج کا مشورہ دیا تاکہ مرض کا مکمل خاتمہ ہوسکے۔ اگر اس بار بھی اسمبلیوں میں بیٹھ کر صرف سیاسی پیٹ کے درد کا علاج کرنے کی کوشش ہوگی تو وقتی طور پر شاید افاقہ ہوجائے مگر پانج سال بعد یہ درد ایک نئی شکل اور کسی دوسرے سیاست دان کے پیٹ میں نمودار ہوگا اور سلسلہ چلتا رہے گا۔

لہٰذا عوامی اسمبلیوں والی محلول سے سیاسی آنکھوں کا علاج کرکے اس مرض کو جڑ سے اکھاڑ دیں ورنہ پیٹ کے درد کی یہ باریاں لگتی رہے گی۔ یہی جہاندیدہ جمہوری حکیم مولانا کا نسخہ اکسیر ہے، ایک مر تبہ آنکھوں کا مکمل علاج ہوجائے تو یہ قوم پیٹ کے درد میں مبتلا ہوئے بغیر جمہوریت کے اس ذائقے سے پہلی بار لطف اندوز ہو گی جسکا ذائقہ کبھی اسے چکھنے ہی نہیں دیا گیا۔
Load Next Story