پی او بی ٹرسٹ عالمی سطح پر ساڑھے 3لاکھ افراد کی بینائی ضائع ہونے سے بچا چکا ہے
دنیا بھر میں 2ارب 20کروڑ افراد ناقص بینائی یا مکمل اندھے پن کیساتھ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں
آنکھوں کی بیماریاں اور ان کے نتیجے میں مکمل یا پھر جزوی اندھا پن تیسری دنیا کے ممالک کا ایک بڑا سماجی مسئلہ ہے۔ اس مسئلے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت اس لئے ہے کہ بینائی سے محروم ہوجانے والے لوگوں کی غالب اکثریت اُن افراد کی ہے جنہیں علاج کے ذریعے اس معذوری سے بچایا جاسکتا تھا۔
عالمی سطح پر آنکھوں کی صحت کے حوالے سے 2020 کا سال غیر معمولی اہمیت کا حامل اس لئے رہا کہ اس سال عالمی ادارہ صحت نے 'بینائی کے حق' کے نام سے جن کوششوں کا آغآز کررکھا تھا ان پر گزشتہ دو دہائیوں میں ہونے والے کام کا جائزہ مرتب کیا گیا ہے۔ اس جائزے سے یہ بات صاف ہوئی کہ ویژن 2020 کے تحت 'بینائی کے حق' کے سلسلے میں مقرر کئے گئے اہداف کے حصول میں کس قدر کامیابی حاصل کی جاچکی ہے اور کن چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ابھی باقی ہے۔
اگر کسی شخص کی بینائی جاتی رہے یا اس کے دیکھنے کی صلاحیت میں بگاڑ اور کمی آجائے تو ایسے شخص کی عمومی صحت اور سماجی زندگی کے معیار پر غیر معمولی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آنکھوں کی کوئی بھی معذوری سماجی حیثیت، مالی حالت، کام اور تعلیم حاصل کرنے کے مواقع سمیت ہر چیز کو بُری طرح سے متاثر کرتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 4 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد اندھے پن کی معذوری کا شکار ہیں جبکہ مزید 29 کروڑ 50 لوگ شدید یا جزوی معذوری اور آنکھوں کے دیگر عوارض میں مبتلا ہیں۔
یہاں ہم عالمی ادارہ صحت کے پروگرام کے آغاز سے قبل صرف سال 1990 کے اعداد و شمار سے مثال پیش کی جا رہی ہے جس سے صورت حال کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ اس برس جو لوگ اندھے پن کا شکار ہوئے ان میں سے 80 فیصد وہ تھے جو علاج سے تندرست ہوسکتے تھے، یعنی ان کی بینائی بچائی جا سکتی تھی۔
ان تمام مریضوں میں سے 90 فیصد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے تھا جبکہ ترقی پذیر ملکوں میں سے ایشیاء اور افریقہ کے ممالک سے تعلق رکھنے والے مریض 75 فیصد تھے اور اسی ایشیا میں پاکستان بھی واقع ہے۔ سال 2020 میں اندھے پن کا شکار ہونے والے مریضوں کی تعداد دوگنا ہوچکی ہے۔ عالمی سطح پر جاری کئے جانے والے اعداد و شمار بتاتے ہیں اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں آنکھوں کی شدید بیماریوں میں مبتلا ہو کر بینائی سے محروم ہوجانے والے افراد کی تعداد 20 لاکھ سے زائد ہے اور ان میں سے 80 فیصد مریض ایسے ہیں جو علاج کی مدد سے مکمل طور پر شفایاب ہوسکتے تھے۔
عالمی سطح پر دیکھا جائے تو 2 ارب 20 کروڑ افراد ناقص بینائی یا مکمل اندھے پن کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں اور ان میں سے ایک ارب ایسے مریض ہیں جو علاج سے شفایاب ہوسکتے تھے۔ آنکھوں سے وابستہ چھوٹے بڑے طبی مسائل میں مبتلا پاکستانیوں کی کل تعداد 80 لاکھ سے زائد ہے۔
عالمی سطح پر اس وقت آنکھوں کے علاج معالجے کے لئے جو وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں وہ درکار وسائل سے بہت کم ہیں۔ دنیا بھر میں موتیا اور بینائی کو متاثر کرنے والی دیگر بیماریوں کے علاج کے لئے مزید 24 ارب 80 کروڑ ڈالر درکار ہیں۔ اس وقت دنیا میں روبہ عمل صحت کے نظام کو یہ اضافی رقم فوری طور پر درکار ہے۔ نہ صرف یہ کہ مالی وسائل درکار ہیں بلکہ ان مالی وسائل سے مکمل فائدہ حاصل کرنے کے لئے اعلیٰ درجے کی منصوبہ بندی اور انتظامی ڈھانچے کی بھی ضرورت ہے۔ آج پاکستان اور دنیا کے دیگر حصوں میں جو کروڑوں لوگ بینائی کے نقائص یا پھر مکمل اندھے پن کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں انہیں اگر بروقت علاج معالجے کی سہولتیں میسر آجائیں تو وہ صحت مند زندگی بسر کرسکتے ہیں۔
علاج تک رسائی سے محرومی میں وسائل کی کمی کا سب سے زیادہ عمل دخل ہے۔ طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ اس حوالے سے جو اعداد و شمار میسر ہیں ان سے کہیں زیادہ لوگ بینائی کے نقائص یا مکمل اندھے پن کا شکار ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس وقت جو لوگ جزوی یا مکمل بینائی کی محرومی کو بھگت رہے ہیں، 32 ارب ڈالر خرچ کرکے انہیں اس حالت میں پہنچنے سے بچایا جاسکتا تھا۔
اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انسانی جسم کی اس اہم ترین صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لئے حکومتوں سے ہٹ کر خود معاشرے اور اس میں بسنے والے ہر انسان پر کتنی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ پاکستان میں موجود لاکھوں بے وسیلہ مریضوں کو اندھیرے میں ڈوبنے سے بچانے کے لئے لوگوں کی طرف سے اُن اداروں کی مدد کے ذریعے غیر معمولی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے جو پاکستان کے کمزور اور بے وسیلہ لوگوں کو آنکھوں کے علاج کی مفت سہولیات فراہم کررہے ہیں۔
پاکستان کے اندر غرباء اور بے وسیلہ لوگوں کی مدد کے بہت سے ایسے منصوبے کام کر رہے ہیں جنہیں مثالی قرار دیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے سب سے پسماندہ صوبہ بلوچستان میں زیارت کے مقام پر 'الہجرہ ریزڈینشل اسکول اینڈ کالج' کے نام سے ایک ادارہ کام کر رہا ہے جو صوبہ کے ہرضلع سے مقابلے کے امتحان کے ذریعے غریب ترین گھرانوں کے دو دو طلب علموں کا انتخاب کرتا ہے اور پھر ان طالب علموں کی تمام ضروریات کو اس اقامتی درسگاہ میں ہی پورا کیا جاتا ہے۔ اس ادارے سے نکلنے والے طالب علم سرکاری اور نجی سطح پر کلیدی عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔
زیارت میں اس کالج نے 2004 میں کام شروع کیا تھا۔ اب گزشتہ برس 2023 میں کالج کی دوسری شاخ نے ڈیرہ غازی خان میں بھی کام کا آغاز کردیا ہے۔ اس سلسلے میں 'اخوت فاؤنڈیشن' کی مثال دی جاسکتی ہے، جس نے بے وسیلہ لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے اپنے پروگرام میں غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ غربت کے خاتمے کے ان منصوبوں کے تحت ملک کے بے وسیلہ لوگوں کو 2001 میں فاؤنڈیشن کے قیام سے لے کر آج تک قرضہ حسنہ کی صورت میں 157 ارب روپے فراہم کئے جا چکے ہیں۔ اسی طرح پی او بی ٹرسٹ (Prevention of Blindness Trust)کے نام سے کام کرنے والی تنظیم ملک اور بیرون ملک اُن لوگوں کی موثر انداز میں مدد کر رہی ہے جو مالی اعتبار سے اس قابل نہیں کہ اپنی آنکھوں کا علاج کراسکیں۔ یہ ٹرسٹ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کا منصوبہ ہے جسے جولائی 2007 میں ٹرسٹ ایکٹ کے تحت رجسٹر کیا گیا۔
پی او بی ملک میں رضاکارانہ بنیادوں پر بینائی کی بحالی اور تحفظ کے مقصد کے تحت کام کر رہی ہے اور آنکھوں کے مفت علاج کے حوالے سے ملک کی سب سے بڑی تنظیم ہونے کا امتیاز رکھتی ہے۔ یہ ٹرسٹ نہ صرف یہ کہ علاج کی مفت سہولیات فراہم کر رہا ہے بلکہ بینائی کے نقائص اور اندھے پن کی روک تھام کی حکمت عملی کی تشکیل میں بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ پی او بی ٹرسٹ ویژن 2020 کے تحت 'بینائی کا حق' پروگرام کیلئے 'The International Agency for the Prevenation of Blindness' کا بھی رُکن ہے۔
پی او بی ٹرسٹ پاکستان اور دنیا کے غریب ملکوں میں مفت آئی کیمپس کا انعقاد کرتا ہے۔ ٹرسٹ کے تحت آنکھوں کے آپریشن کی تربیت کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ اسکولوں میں بچوں کی آنکھوں کے معائنے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے اور ایسے بچوں کا فوری علاج کیا جاتا ہے جنہیں اس کی ضرورت ہو۔ قدرتی آفات کی صورت میں ہنگامی امدادی سرگرمیوں کا انتظام کیا جاتا ہے۔ جیلوں میں سزا کاٹنے والے افراد کے معائنے اور علاج کا اہتمام، سماجی خدمات کی فراہمی، اندھے پن کے شکار افراد کی بحالی کا کام بھی مستقل بنیادوں پر کیا جا رہا ہے۔
ٹرسٹ کے زیر انتظام جڑانوالہ اور کھاریاں میں کمیونٹی سنٹرز کام کر رہے ہیں۔ لاہور اور کراچی میں ٹرسٹ کے آئی ہسپتال پہلے سے کام کر رہے ہیں۔ جبکہ لاہور میں ایک نیا ہسپتال زیر تعمیر ہے اس کے علاوہ آنکھوںکی حفاظت اور علاج کے لئے آگاہی کے پروگرام بھی چلائے جاتے ہیں۔ ٹرسٹ اب تک ملک اور بیرون ملک 'بالخصوص افریقہ کے غریب ممالک میں' آنکھوں کے علاج کے لئے 950 مفت کیمپوں کا انعقاد کرچکا ہے جن میں سفید اور کالا موتیہ سمیت مختلف عوارض کے علاج کے لئے ساڑھے تین لاکھ سے زائد مریضوں کے آپریشن کئے جا چکے ہیں۔
مزید براں ٹرسٹ کے ہسپتالوں اور کیمپوں میں اب تک 21 لاکھ مریضوں کا معائنہ اور انہیں فوری علاج کی سہولت فراہم کی جاچکی ہے۔ ٹرسٹ کے تحت 65 ہزار طلباء و طالبات کی آنکھوں کا معائنہ کرکے انہیں فوری علاج اور جہاں ضرورت تھی وہاں نظر کی عینکوں کی فراہمی کا انتظام کیا گیا۔ ٹرسٹ کے زیر انتظام طبی سہولتوں کے ذریعے ہر ماہ 30 ہزار افراد کو آنکھوں کے معائنے اور علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔
لاہور میں آنکھوں کے مفت علاج کے لئے ٹرسٹ کا نیا ہسپتال تکمیل کے آکری مراحل میں ہے۔ یہ ہسپتال 7 کلو میٹر رائے ونڈ روڈ کے مقام پر تعمیر کیا جا رہا ہے ۔ تقریباً پانچ کنال کے رقبے پر تعمیر ہونے والا یہ ہسپتال آئیندہ چار، پانچ ماہ میں کام کا آغاز کر دے گا۔ ٹرسٹ کے ذرائع کے مطابق ہسپتال کی تعمیر کی تکمیل کے لئے مزید 25 کروڑ روپے کی رقم درکار ہے جو عطیات کے ذریعے حاصل کی جا رہی ہے۔ یہ ہسپتال جب کام شروع کرے گا تو ابتدائی طور پر روزانہ 500 سے 1000 مریضوں کے معائنے اور علاج معالجے کی سہولت میسر ہوگی۔ ہسپتال کے آپریشن تھیٹر ہر ماہ آنکھوں کے 500 آپریشن کرنے کے قابل ہوں گے اور بعد میں یہ تعداد دوگنا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
یہ ہسپتال ڈاکٹروں کو تربیت فراہم کرنے کا ذریعہ بھی ثابت ہو گا۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ملک کے اندر اور بیرون ملک علاج معالجے کی جن سہولیات کا اہتمام کیا جاتا ہے اس میں حصہ لینے والے تمام ڈاکٹر اور دیگر عملہ اللہ کی خوشنودی کے لئے بغیر کسی مالی منفعت کے یہ خدمت انجام دیتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کی یہ اجتماعی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوامی خدمت کے ایسے منصوبوں کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کریں تاکہ خیر کے کاموں کا سلسلہ مزید وسعت اختیار کرے۔
عالمی سطح پر آنکھوں کی صحت کے حوالے سے 2020 کا سال غیر معمولی اہمیت کا حامل اس لئے رہا کہ اس سال عالمی ادارہ صحت نے 'بینائی کے حق' کے نام سے جن کوششوں کا آغآز کررکھا تھا ان پر گزشتہ دو دہائیوں میں ہونے والے کام کا جائزہ مرتب کیا گیا ہے۔ اس جائزے سے یہ بات صاف ہوئی کہ ویژن 2020 کے تحت 'بینائی کے حق' کے سلسلے میں مقرر کئے گئے اہداف کے حصول میں کس قدر کامیابی حاصل کی جاچکی ہے اور کن چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ابھی باقی ہے۔
اگر کسی شخص کی بینائی جاتی رہے یا اس کے دیکھنے کی صلاحیت میں بگاڑ اور کمی آجائے تو ایسے شخص کی عمومی صحت اور سماجی زندگی کے معیار پر غیر معمولی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آنکھوں کی کوئی بھی معذوری سماجی حیثیت، مالی حالت، کام اور تعلیم حاصل کرنے کے مواقع سمیت ہر چیز کو بُری طرح سے متاثر کرتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 4 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد اندھے پن کی معذوری کا شکار ہیں جبکہ مزید 29 کروڑ 50 لوگ شدید یا جزوی معذوری اور آنکھوں کے دیگر عوارض میں مبتلا ہیں۔
یہاں ہم عالمی ادارہ صحت کے پروگرام کے آغاز سے قبل صرف سال 1990 کے اعداد و شمار سے مثال پیش کی جا رہی ہے جس سے صورت حال کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ اس برس جو لوگ اندھے پن کا شکار ہوئے ان میں سے 80 فیصد وہ تھے جو علاج سے تندرست ہوسکتے تھے، یعنی ان کی بینائی بچائی جا سکتی تھی۔
ان تمام مریضوں میں سے 90 فیصد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے تھا جبکہ ترقی پذیر ملکوں میں سے ایشیاء اور افریقہ کے ممالک سے تعلق رکھنے والے مریض 75 فیصد تھے اور اسی ایشیا میں پاکستان بھی واقع ہے۔ سال 2020 میں اندھے پن کا شکار ہونے والے مریضوں کی تعداد دوگنا ہوچکی ہے۔ عالمی سطح پر جاری کئے جانے والے اعداد و شمار بتاتے ہیں اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں آنکھوں کی شدید بیماریوں میں مبتلا ہو کر بینائی سے محروم ہوجانے والے افراد کی تعداد 20 لاکھ سے زائد ہے اور ان میں سے 80 فیصد مریض ایسے ہیں جو علاج کی مدد سے مکمل طور پر شفایاب ہوسکتے تھے۔
عالمی سطح پر دیکھا جائے تو 2 ارب 20 کروڑ افراد ناقص بینائی یا مکمل اندھے پن کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں اور ان میں سے ایک ارب ایسے مریض ہیں جو علاج سے شفایاب ہوسکتے تھے۔ آنکھوں سے وابستہ چھوٹے بڑے طبی مسائل میں مبتلا پاکستانیوں کی کل تعداد 80 لاکھ سے زائد ہے۔
عالمی سطح پر اس وقت آنکھوں کے علاج معالجے کے لئے جو وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں وہ درکار وسائل سے بہت کم ہیں۔ دنیا بھر میں موتیا اور بینائی کو متاثر کرنے والی دیگر بیماریوں کے علاج کے لئے مزید 24 ارب 80 کروڑ ڈالر درکار ہیں۔ اس وقت دنیا میں روبہ عمل صحت کے نظام کو یہ اضافی رقم فوری طور پر درکار ہے۔ نہ صرف یہ کہ مالی وسائل درکار ہیں بلکہ ان مالی وسائل سے مکمل فائدہ حاصل کرنے کے لئے اعلیٰ درجے کی منصوبہ بندی اور انتظامی ڈھانچے کی بھی ضرورت ہے۔ آج پاکستان اور دنیا کے دیگر حصوں میں جو کروڑوں لوگ بینائی کے نقائص یا پھر مکمل اندھے پن کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں انہیں اگر بروقت علاج معالجے کی سہولتیں میسر آجائیں تو وہ صحت مند زندگی بسر کرسکتے ہیں۔
علاج تک رسائی سے محرومی میں وسائل کی کمی کا سب سے زیادہ عمل دخل ہے۔ طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ اس حوالے سے جو اعداد و شمار میسر ہیں ان سے کہیں زیادہ لوگ بینائی کے نقائص یا مکمل اندھے پن کا شکار ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس وقت جو لوگ جزوی یا مکمل بینائی کی محرومی کو بھگت رہے ہیں، 32 ارب ڈالر خرچ کرکے انہیں اس حالت میں پہنچنے سے بچایا جاسکتا تھا۔
اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انسانی جسم کی اس اہم ترین صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لئے حکومتوں سے ہٹ کر خود معاشرے اور اس میں بسنے والے ہر انسان پر کتنی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ پاکستان میں موجود لاکھوں بے وسیلہ مریضوں کو اندھیرے میں ڈوبنے سے بچانے کے لئے لوگوں کی طرف سے اُن اداروں کی مدد کے ذریعے غیر معمولی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے جو پاکستان کے کمزور اور بے وسیلہ لوگوں کو آنکھوں کے علاج کی مفت سہولیات فراہم کررہے ہیں۔
پاکستان کے اندر غرباء اور بے وسیلہ لوگوں کی مدد کے بہت سے ایسے منصوبے کام کر رہے ہیں جنہیں مثالی قرار دیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے سب سے پسماندہ صوبہ بلوچستان میں زیارت کے مقام پر 'الہجرہ ریزڈینشل اسکول اینڈ کالج' کے نام سے ایک ادارہ کام کر رہا ہے جو صوبہ کے ہرضلع سے مقابلے کے امتحان کے ذریعے غریب ترین گھرانوں کے دو دو طلب علموں کا انتخاب کرتا ہے اور پھر ان طالب علموں کی تمام ضروریات کو اس اقامتی درسگاہ میں ہی پورا کیا جاتا ہے۔ اس ادارے سے نکلنے والے طالب علم سرکاری اور نجی سطح پر کلیدی عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔
زیارت میں اس کالج نے 2004 میں کام شروع کیا تھا۔ اب گزشتہ برس 2023 میں کالج کی دوسری شاخ نے ڈیرہ غازی خان میں بھی کام کا آغاز کردیا ہے۔ اس سلسلے میں 'اخوت فاؤنڈیشن' کی مثال دی جاسکتی ہے، جس نے بے وسیلہ لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے اپنے پروگرام میں غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ غربت کے خاتمے کے ان منصوبوں کے تحت ملک کے بے وسیلہ لوگوں کو 2001 میں فاؤنڈیشن کے قیام سے لے کر آج تک قرضہ حسنہ کی صورت میں 157 ارب روپے فراہم کئے جا چکے ہیں۔ اسی طرح پی او بی ٹرسٹ (Prevention of Blindness Trust)کے نام سے کام کرنے والی تنظیم ملک اور بیرون ملک اُن لوگوں کی موثر انداز میں مدد کر رہی ہے جو مالی اعتبار سے اس قابل نہیں کہ اپنی آنکھوں کا علاج کراسکیں۔ یہ ٹرسٹ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کا منصوبہ ہے جسے جولائی 2007 میں ٹرسٹ ایکٹ کے تحت رجسٹر کیا گیا۔
پی او بی ملک میں رضاکارانہ بنیادوں پر بینائی کی بحالی اور تحفظ کے مقصد کے تحت کام کر رہی ہے اور آنکھوں کے مفت علاج کے حوالے سے ملک کی سب سے بڑی تنظیم ہونے کا امتیاز رکھتی ہے۔ یہ ٹرسٹ نہ صرف یہ کہ علاج کی مفت سہولیات فراہم کر رہا ہے بلکہ بینائی کے نقائص اور اندھے پن کی روک تھام کی حکمت عملی کی تشکیل میں بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ پی او بی ٹرسٹ ویژن 2020 کے تحت 'بینائی کا حق' پروگرام کیلئے 'The International Agency for the Prevenation of Blindness' کا بھی رُکن ہے۔
پی او بی ٹرسٹ پاکستان اور دنیا کے غریب ملکوں میں مفت آئی کیمپس کا انعقاد کرتا ہے۔ ٹرسٹ کے تحت آنکھوں کے آپریشن کی تربیت کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ اسکولوں میں بچوں کی آنکھوں کے معائنے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے اور ایسے بچوں کا فوری علاج کیا جاتا ہے جنہیں اس کی ضرورت ہو۔ قدرتی آفات کی صورت میں ہنگامی امدادی سرگرمیوں کا انتظام کیا جاتا ہے۔ جیلوں میں سزا کاٹنے والے افراد کے معائنے اور علاج کا اہتمام، سماجی خدمات کی فراہمی، اندھے پن کے شکار افراد کی بحالی کا کام بھی مستقل بنیادوں پر کیا جا رہا ہے۔
ٹرسٹ کے زیر انتظام جڑانوالہ اور کھاریاں میں کمیونٹی سنٹرز کام کر رہے ہیں۔ لاہور اور کراچی میں ٹرسٹ کے آئی ہسپتال پہلے سے کام کر رہے ہیں۔ جبکہ لاہور میں ایک نیا ہسپتال زیر تعمیر ہے اس کے علاوہ آنکھوںکی حفاظت اور علاج کے لئے آگاہی کے پروگرام بھی چلائے جاتے ہیں۔ ٹرسٹ اب تک ملک اور بیرون ملک 'بالخصوص افریقہ کے غریب ممالک میں' آنکھوں کے علاج کے لئے 950 مفت کیمپوں کا انعقاد کرچکا ہے جن میں سفید اور کالا موتیہ سمیت مختلف عوارض کے علاج کے لئے ساڑھے تین لاکھ سے زائد مریضوں کے آپریشن کئے جا چکے ہیں۔
مزید براں ٹرسٹ کے ہسپتالوں اور کیمپوں میں اب تک 21 لاکھ مریضوں کا معائنہ اور انہیں فوری علاج کی سہولت فراہم کی جاچکی ہے۔ ٹرسٹ کے تحت 65 ہزار طلباء و طالبات کی آنکھوں کا معائنہ کرکے انہیں فوری علاج اور جہاں ضرورت تھی وہاں نظر کی عینکوں کی فراہمی کا انتظام کیا گیا۔ ٹرسٹ کے زیر انتظام طبی سہولتوں کے ذریعے ہر ماہ 30 ہزار افراد کو آنکھوں کے معائنے اور علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔
لاہور میں آنکھوں کے مفت علاج کے لئے ٹرسٹ کا نیا ہسپتال تکمیل کے آکری مراحل میں ہے۔ یہ ہسپتال 7 کلو میٹر رائے ونڈ روڈ کے مقام پر تعمیر کیا جا رہا ہے ۔ تقریباً پانچ کنال کے رقبے پر تعمیر ہونے والا یہ ہسپتال آئیندہ چار، پانچ ماہ میں کام کا آغاز کر دے گا۔ ٹرسٹ کے ذرائع کے مطابق ہسپتال کی تعمیر کی تکمیل کے لئے مزید 25 کروڑ روپے کی رقم درکار ہے جو عطیات کے ذریعے حاصل کی جا رہی ہے۔ یہ ہسپتال جب کام شروع کرے گا تو ابتدائی طور پر روزانہ 500 سے 1000 مریضوں کے معائنے اور علاج معالجے کی سہولت میسر ہوگی۔ ہسپتال کے آپریشن تھیٹر ہر ماہ آنکھوں کے 500 آپریشن کرنے کے قابل ہوں گے اور بعد میں یہ تعداد دوگنا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
یہ ہسپتال ڈاکٹروں کو تربیت فراہم کرنے کا ذریعہ بھی ثابت ہو گا۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ملک کے اندر اور بیرون ملک علاج معالجے کی جن سہولیات کا اہتمام کیا جاتا ہے اس میں حصہ لینے والے تمام ڈاکٹر اور دیگر عملہ اللہ کی خوشنودی کے لئے بغیر کسی مالی منفعت کے یہ خدمت انجام دیتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کی یہ اجتماعی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوامی خدمت کے ایسے منصوبوں کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کریں تاکہ خیر کے کاموں کا سلسلہ مزید وسعت اختیار کرے۔