تاجر و صنعتکار ملکی معیشت کے اہم ستون
لک میں تجارتی سرگرمیاں بڑھانے اور ٹیکس کلچر کے فروغ کے لیے کام کرنا ضروری ہے
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک کی ترقی کے لیے ناپسندیدہ فیصلے بھی کرنے پڑیں گے، ان خیالات کا اظہار انھوں نے کراچی چیمبر آف کامرس کے وفد سے ملاقات میں کیا۔
وزیراعظم نے تاجروں سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ عہد کر لیں اگلے 5 سال میں برآمدات کو دگنا کرنا ہے، ہماری توجہ ایکسپورٹ بڑھانے پر ہونی چاہیے، کاروباری لوگ آگے بڑھیں، حکومت کا کام انڈسٹری چلانا نہیں، پالیسی بنانا ہے، تاجر پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، تاجروں کی مشاورت سے پالیسی بنائیں گے۔
دوسری جانب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے 29 اپریل کو پاکستان کے دوسرے اقتصادی جائزہ اور ایک ارب دس کروڑ ڈالر کی اگلی قسط کی منظوری دیے جانے کا امکان ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تاجر و صنعتکار پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن ان کے مسائل کی ایک بڑی وجہ بیوروکریسی کا روایتی نظام ہے، جو نئی صنعتوں کے قیام میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے، لہٰذا تاجروں اور صنعتکاروں سے براہ راست ملاقات کے بعد ملکی معیشت کے حوالے سے انتہائی مثبت نتائج سامنے آنے کی توقع ہے۔ تاجر خوشحال ہوں گے تو پاکستان خوشحال ہوگا، ملک میں تجارتی سرگرمیاں بڑھانے اور ٹیکس کلچر کے فروغ کے لیے کام کرنا ضروری ہے۔
مختلف ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں، کاروباری اداروں اور چیمبر کے نمائندوں کو ٹیکس کی ادائیگی میں نمایاں اضافے کی حکمت عملی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ پاکستان ترقی کے راستے پر گامزن ہوچکا ہے، موجودہ حکومت کی مکمل توجہ ملک کو اقتصادی ترقی کا مرکز بنانے کی طرف مرکوز ہے، سعودی عرب، خلیجی ریاستوں اور اب ایران کے ساتھ بھاری بیرونی سرمایہ کاری سے ملکی معیشت مستحکم بنیادوں پر استوار ہوگی، جبکہ افغانستان میں قیام امن کی صورت میں وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ راستے کھلیں گے اور اس کے نتیجے میں تجارت سے پاکستان اور خطہ ترقی کرے گا۔
کسی بھی طرح سے یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ خلیجی ممالک پاکستان سے تعاون کو کس قدر ضروری سمجھتے ہیں اور شاید وہ کبھی دوسروں کو پاکستان پر ترجیح نہ دیں۔ پاکستان نے حال ہی میں ریاض اور دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ اسٹرٹیجک اقتصادی معاہدے کیے ہیں اور سرمایہ کاری، تیل و گیس اور کان کنی کے شعبوں میں طویل مدتی تعاون کی حکمت عملی بھی وضع کی جاچکی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ تسلیم کرنا غیر حقیقی ہے کہ آبنائے ہرمز سے بھارت کے ساحلوں تک کوئی بھی تجارتی رابطہ ایران اور پاکستان کے جغرافیے سے استفادہ کیے بغیر ممکن ہے۔ امریکا اور دیگر ممالک کی چین مخالفت میں کسی بھی انتہا تک جانے سے پہلے اپنی کثیر الجہتی ترقیاتی حکمت عملی میں پاکستان کو شامل کرنے ہی سے کامیابی ممکن ہے۔
عالمی سطح پر ایندھن اور دیگر اجناس کے مہنگا ہونے سے پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے۔ عالمی سطح پر ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ملک کے جاری کھاتوں کے خسارے میں اضافے کا سبب بنے گا جبکہ ملک کو بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے بڑے پیمانے پر زرِمبادلہ کی ضرورت ہے، اگر ایندھن کی قیمت میں کمی ہوتی ہے تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے چار فیصد کی سطح تک آسکتا ہے۔
روس یوکرین جنگ کی وجہ سے گندم کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، کیونکہ دنیا کی گندم کی برآمد میں سب سے بڑا حصہ روس اور یوکرین کا ہے۔ چاول، مکئی اور گندم پاکستان کی بڑی فصلیں ہیں مگر سابقہ حکومت کے دور میں ملک میں آٹے کی قیمت بڑھنے اور ممکنہ قلت کی وجہ سے گندم بڑے پیمانے پر درآمد کی گئی ہے۔ گندم کے موجودہ سیزن میں زیادہ (بمپر) فصل کی توقع ہے اور عالمی سطح پر گندم کی مہنگائی سے پاکستان کو خلیجی ملکوں میں آٹے اور دیگر مصنوعات کو برآمد کرنے کے اچھے مواقع دیکھے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی آبادی تقریباً تین فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔
اس وجہ سے معاشی شرح نمو معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ موجودہ حکومت کو معاشی شرح نمو چھ سے سات فیصد لے جانا ہوگی مگر مصنوعی نہیں بلکہ مستحکم بنیادوں پر۔ ایسا نہ ہوکہ ایک سال معاشی ترقی کے حوالے سے اچھا گزرے اور پھر بعد میں کئی سال اس اچھائی کے اثرات کو برداشت کرنے میں نکل جائیں۔
ورلڈ بینک اور بلوم برگ کی رپورٹس میں پاکستان میں معاشی استحکام کے آثار نمایاں ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔ بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق شرح نمو میں اضافے اور معیشت نے ترقی دکھانا شروع کردی ہے اور آئندہ مالی سال میں شرح نمو میں دُگنا اور بتدریج اضافہ ہوگا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے 16ماہ کی سابقہ حکومت میں ملک کو معاشی ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے مشکل فیصلے کیے تھے، شہباز شریف کی مخلوط حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام بحال کیا، اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے نتیجے میں معاشی استحکام کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
کچھ بات تاجروں کے مسائل کے حوالے سے بھی، کراچی، لاہور، فیصل آباد سمیت ملک کے دیگر تمام چھوٹے بڑے شہروں کی درجنوں مارکیٹیں اپنی نوعیت کے لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل ہیں یہ مارکیٹیں صنعت کے لیے ایک پلیٹ فارم کی حیثیت بھی رکھتی ہیں کیونکہ یہاں سے مال نہ صرف ملک بھر بلکہ بیرون ممالک بھی برآمد کیا جاتا ہے لیکن یہ دیکھ کر بہت پریشانی ہوتی ہے کہ تمام مارکیٹوں میں ایک افراتفری کی سی صورتحال ہے۔
ناجائز تجاوزات کی بھرمار، کئی کئی گھنٹے ٹریفک جام، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، گندگی، امن و امان کی بگڑی ہوئی صورتحال، بجلی کے انتہائی ناقص نظام نے تاجروں کا جینا حرام کررکھا ہے۔ چھوٹی بڑی مارکیٹوں میں ٹریفک گھنٹوں جام رہنا معمول بن چکا ہے جس کی بڑی وجہ ناجائز تجاوزات ہیں۔ ریڑھی اور چھابے والے آدھی آدھی سڑک بلاک کیے ہوئے ہیں۔ مارکیٹوں میں کئی گھنٹے پھنسی رہنے والی ٹریفک کی لمبی لمبی قطاریں تاجروں کی حالتِ زار کی منہ بولتی تصویر ہیں۔
ایسی صورتحال میں خدانخواستہ کوئی آتشزدگی وغیرہ کا سانحہ پیش آجاتا ہے تو بدترین نظام کی وجہ سے کئی گھنٹوں تک فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کے لیے مارکیٹ میں داخل ہونا ہی ممکن نہیں ہوتا جس سے ممکنہ نقصان کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، ٹریفک کی روانی کے لیے بڑی سڑکوں کو سگنل فری بنانا انقلابی اقدامات ہیں لیکن ان مارکیٹوں کی جانب توجہ دینا بھی ضروری ہے جہاں روزانہ اربوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے اور جن سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔
ٹریفک کے مسائل حل کرنے کا واحد ذریعہ پارکنگ پلازے ہیں لہٰذا مارکیٹوں کے قرب و جوار میں پارکنگ پلازے تعمیرکیے جائیں تاکہ ٹریفک جام کی وجہ سے ان مارکیٹوں میں آنے والے گاہکوں اور تاجروں کا قیمتی وقت ضائع نہ ہوسکے۔
کوئی بھی حکومت ہو ، تاجروں کی عادت بن گئی ہے کہ یہ ٹیکس دہندگان میں شامل نہیں ہونا چاہتے یہ کبھی نہیں چاہتے ان کی آمدن ظاہر ہو۔ تاجر بھی ٹیکس چوری کے عادی ہوگئے ہیں۔ ملکی معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اب تاجر برادری کو کاروبار رجسٹرڈ کرانا پڑے گا اور کچی رسیدوں کو چھوڑنا پڑے گا، حکومت کو ریونیو اکٹھا کرنا ہے تاکہ ملکی نظام کو بہتر انداز میں چلایا جا سکے۔
کاروباری افراد کو چاہیے کہ وہ بیرون ملک منڈیوں کو اپنا ہدف بنائیں، جس قدر ٹیکس محصولات میں اضافہ ہوگا اتنا ہی حکومت کی طرف سے سہولتوں کی فراہمی میں اضافہ ہوگا۔ بلاشبہ تاجر برادری ملکی معیشت کو سدھارنے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ تاریخی کامیابی ملک میں مزید بہتر اصلاحات کا پیش خیمہ ہے۔
حکومت نے اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی اور بجلی چوری کیخلاف اقدامات کیے ہیں، جس کے انتہائی مثبت اثرات سامنے آئے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کو سرمایہ کاری کے لیے خوش آمدید کہا جا رہا ہے، ایس آئی ایف سی ملک میں سرمایہ کاری کے لیے خصوصی اقدامات کررہی ہے۔ سمت کی درستگی سے شاندار کامیابیاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔
پاکستان دہشت گردی اور انتہا پسندی کے چیلنج کا کامیابی سے مقابلہ کر کے اب اعتماد کے ساتھ سیاسی اور معاشی استحکام کی شاہراہ پر گامزن ہوگیا ہے۔ ہم سب ایک ایسے خطے میں رہتے ہیں جہاں مضبوط سول سوسائٹیز اور طاقتور میڈیا موجود ہے۔ ہمارے خطے میں غیر جانبدار عدلیہ اور متحرک جمہوریتیں ہیں اور پاکستان خود ان سب کی ایک شاندار مثال ہے۔ پاکستان کو انسانی ترقی، اقتصادی اور سلامتی محاذوں پر خطرناک چیلنجز کا سامنا ہے۔
جمہوریت کی راہ میں بار بار رکاوٹوں اور دہشتگردی کے خلاف بین الاقوامی جنگ میں ایک دہائی سے زیادہ فرنٹ لائن ریاست کے طور پر کردار نے بھی پاکستان پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں مگر اب پاکستان ان سب چیلنجز کا کامیابی سے مقابلہ کرکے اعتماد کے ساتھ سیاسی اور معاشی استحکام کی شاہراہ پر گامزن ہوگیا ہے۔
وزیراعظم نے تاجروں سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ عہد کر لیں اگلے 5 سال میں برآمدات کو دگنا کرنا ہے، ہماری توجہ ایکسپورٹ بڑھانے پر ہونی چاہیے، کاروباری لوگ آگے بڑھیں، حکومت کا کام انڈسٹری چلانا نہیں، پالیسی بنانا ہے، تاجر پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، تاجروں کی مشاورت سے پالیسی بنائیں گے۔
دوسری جانب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے 29 اپریل کو پاکستان کے دوسرے اقتصادی جائزہ اور ایک ارب دس کروڑ ڈالر کی اگلی قسط کی منظوری دیے جانے کا امکان ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تاجر و صنعتکار پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن ان کے مسائل کی ایک بڑی وجہ بیوروکریسی کا روایتی نظام ہے، جو نئی صنعتوں کے قیام میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے، لہٰذا تاجروں اور صنعتکاروں سے براہ راست ملاقات کے بعد ملکی معیشت کے حوالے سے انتہائی مثبت نتائج سامنے آنے کی توقع ہے۔ تاجر خوشحال ہوں گے تو پاکستان خوشحال ہوگا، ملک میں تجارتی سرگرمیاں بڑھانے اور ٹیکس کلچر کے فروغ کے لیے کام کرنا ضروری ہے۔
مختلف ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں، کاروباری اداروں اور چیمبر کے نمائندوں کو ٹیکس کی ادائیگی میں نمایاں اضافے کی حکمت عملی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ پاکستان ترقی کے راستے پر گامزن ہوچکا ہے، موجودہ حکومت کی مکمل توجہ ملک کو اقتصادی ترقی کا مرکز بنانے کی طرف مرکوز ہے، سعودی عرب، خلیجی ریاستوں اور اب ایران کے ساتھ بھاری بیرونی سرمایہ کاری سے ملکی معیشت مستحکم بنیادوں پر استوار ہوگی، جبکہ افغانستان میں قیام امن کی صورت میں وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ راستے کھلیں گے اور اس کے نتیجے میں تجارت سے پاکستان اور خطہ ترقی کرے گا۔
کسی بھی طرح سے یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ خلیجی ممالک پاکستان سے تعاون کو کس قدر ضروری سمجھتے ہیں اور شاید وہ کبھی دوسروں کو پاکستان پر ترجیح نہ دیں۔ پاکستان نے حال ہی میں ریاض اور دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ اسٹرٹیجک اقتصادی معاہدے کیے ہیں اور سرمایہ کاری، تیل و گیس اور کان کنی کے شعبوں میں طویل مدتی تعاون کی حکمت عملی بھی وضع کی جاچکی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ تسلیم کرنا غیر حقیقی ہے کہ آبنائے ہرمز سے بھارت کے ساحلوں تک کوئی بھی تجارتی رابطہ ایران اور پاکستان کے جغرافیے سے استفادہ کیے بغیر ممکن ہے۔ امریکا اور دیگر ممالک کی چین مخالفت میں کسی بھی انتہا تک جانے سے پہلے اپنی کثیر الجہتی ترقیاتی حکمت عملی میں پاکستان کو شامل کرنے ہی سے کامیابی ممکن ہے۔
عالمی سطح پر ایندھن اور دیگر اجناس کے مہنگا ہونے سے پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے۔ عالمی سطح پر ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ملک کے جاری کھاتوں کے خسارے میں اضافے کا سبب بنے گا جبکہ ملک کو بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے بڑے پیمانے پر زرِمبادلہ کی ضرورت ہے، اگر ایندھن کی قیمت میں کمی ہوتی ہے تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے چار فیصد کی سطح تک آسکتا ہے۔
روس یوکرین جنگ کی وجہ سے گندم کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، کیونکہ دنیا کی گندم کی برآمد میں سب سے بڑا حصہ روس اور یوکرین کا ہے۔ چاول، مکئی اور گندم پاکستان کی بڑی فصلیں ہیں مگر سابقہ حکومت کے دور میں ملک میں آٹے کی قیمت بڑھنے اور ممکنہ قلت کی وجہ سے گندم بڑے پیمانے پر درآمد کی گئی ہے۔ گندم کے موجودہ سیزن میں زیادہ (بمپر) فصل کی توقع ہے اور عالمی سطح پر گندم کی مہنگائی سے پاکستان کو خلیجی ملکوں میں آٹے اور دیگر مصنوعات کو برآمد کرنے کے اچھے مواقع دیکھے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی آبادی تقریباً تین فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔
اس وجہ سے معاشی شرح نمو معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ موجودہ حکومت کو معاشی شرح نمو چھ سے سات فیصد لے جانا ہوگی مگر مصنوعی نہیں بلکہ مستحکم بنیادوں پر۔ ایسا نہ ہوکہ ایک سال معاشی ترقی کے حوالے سے اچھا گزرے اور پھر بعد میں کئی سال اس اچھائی کے اثرات کو برداشت کرنے میں نکل جائیں۔
ورلڈ بینک اور بلوم برگ کی رپورٹس میں پاکستان میں معاشی استحکام کے آثار نمایاں ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔ بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق شرح نمو میں اضافے اور معیشت نے ترقی دکھانا شروع کردی ہے اور آئندہ مالی سال میں شرح نمو میں دُگنا اور بتدریج اضافہ ہوگا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے 16ماہ کی سابقہ حکومت میں ملک کو معاشی ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے مشکل فیصلے کیے تھے، شہباز شریف کی مخلوط حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام بحال کیا، اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے نتیجے میں معاشی استحکام کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
کچھ بات تاجروں کے مسائل کے حوالے سے بھی، کراچی، لاہور، فیصل آباد سمیت ملک کے دیگر تمام چھوٹے بڑے شہروں کی درجنوں مارکیٹیں اپنی نوعیت کے لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل ہیں یہ مارکیٹیں صنعت کے لیے ایک پلیٹ فارم کی حیثیت بھی رکھتی ہیں کیونکہ یہاں سے مال نہ صرف ملک بھر بلکہ بیرون ممالک بھی برآمد کیا جاتا ہے لیکن یہ دیکھ کر بہت پریشانی ہوتی ہے کہ تمام مارکیٹوں میں ایک افراتفری کی سی صورتحال ہے۔
ناجائز تجاوزات کی بھرمار، کئی کئی گھنٹے ٹریفک جام، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، گندگی، امن و امان کی بگڑی ہوئی صورتحال، بجلی کے انتہائی ناقص نظام نے تاجروں کا جینا حرام کررکھا ہے۔ چھوٹی بڑی مارکیٹوں میں ٹریفک گھنٹوں جام رہنا معمول بن چکا ہے جس کی بڑی وجہ ناجائز تجاوزات ہیں۔ ریڑھی اور چھابے والے آدھی آدھی سڑک بلاک کیے ہوئے ہیں۔ مارکیٹوں میں کئی گھنٹے پھنسی رہنے والی ٹریفک کی لمبی لمبی قطاریں تاجروں کی حالتِ زار کی منہ بولتی تصویر ہیں۔
ایسی صورتحال میں خدانخواستہ کوئی آتشزدگی وغیرہ کا سانحہ پیش آجاتا ہے تو بدترین نظام کی وجہ سے کئی گھنٹوں تک فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کے لیے مارکیٹ میں داخل ہونا ہی ممکن نہیں ہوتا جس سے ممکنہ نقصان کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، ٹریفک کی روانی کے لیے بڑی سڑکوں کو سگنل فری بنانا انقلابی اقدامات ہیں لیکن ان مارکیٹوں کی جانب توجہ دینا بھی ضروری ہے جہاں روزانہ اربوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے اور جن سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔
ٹریفک کے مسائل حل کرنے کا واحد ذریعہ پارکنگ پلازے ہیں لہٰذا مارکیٹوں کے قرب و جوار میں پارکنگ پلازے تعمیرکیے جائیں تاکہ ٹریفک جام کی وجہ سے ان مارکیٹوں میں آنے والے گاہکوں اور تاجروں کا قیمتی وقت ضائع نہ ہوسکے۔
کوئی بھی حکومت ہو ، تاجروں کی عادت بن گئی ہے کہ یہ ٹیکس دہندگان میں شامل نہیں ہونا چاہتے یہ کبھی نہیں چاہتے ان کی آمدن ظاہر ہو۔ تاجر بھی ٹیکس چوری کے عادی ہوگئے ہیں۔ ملکی معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اب تاجر برادری کو کاروبار رجسٹرڈ کرانا پڑے گا اور کچی رسیدوں کو چھوڑنا پڑے گا، حکومت کو ریونیو اکٹھا کرنا ہے تاکہ ملکی نظام کو بہتر انداز میں چلایا جا سکے۔
کاروباری افراد کو چاہیے کہ وہ بیرون ملک منڈیوں کو اپنا ہدف بنائیں، جس قدر ٹیکس محصولات میں اضافہ ہوگا اتنا ہی حکومت کی طرف سے سہولتوں کی فراہمی میں اضافہ ہوگا۔ بلاشبہ تاجر برادری ملکی معیشت کو سدھارنے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ تاریخی کامیابی ملک میں مزید بہتر اصلاحات کا پیش خیمہ ہے۔
حکومت نے اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی اور بجلی چوری کیخلاف اقدامات کیے ہیں، جس کے انتہائی مثبت اثرات سامنے آئے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کو سرمایہ کاری کے لیے خوش آمدید کہا جا رہا ہے، ایس آئی ایف سی ملک میں سرمایہ کاری کے لیے خصوصی اقدامات کررہی ہے۔ سمت کی درستگی سے شاندار کامیابیاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔
پاکستان دہشت گردی اور انتہا پسندی کے چیلنج کا کامیابی سے مقابلہ کر کے اب اعتماد کے ساتھ سیاسی اور معاشی استحکام کی شاہراہ پر گامزن ہوگیا ہے۔ ہم سب ایک ایسے خطے میں رہتے ہیں جہاں مضبوط سول سوسائٹیز اور طاقتور میڈیا موجود ہے۔ ہمارے خطے میں غیر جانبدار عدلیہ اور متحرک جمہوریتیں ہیں اور پاکستان خود ان سب کی ایک شاندار مثال ہے۔ پاکستان کو انسانی ترقی، اقتصادی اور سلامتی محاذوں پر خطرناک چیلنجز کا سامنا ہے۔
جمہوریت کی راہ میں بار بار رکاوٹوں اور دہشتگردی کے خلاف بین الاقوامی جنگ میں ایک دہائی سے زیادہ فرنٹ لائن ریاست کے طور پر کردار نے بھی پاکستان پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں مگر اب پاکستان ان سب چیلنجز کا کامیابی سے مقابلہ کرکے اعتماد کے ساتھ سیاسی اور معاشی استحکام کی شاہراہ پر گامزن ہوگیا ہے۔