پاکستان کی اہم پیش رفت
زندگی کا کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات کو برتری حاصل نہ ہو
ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کا حالیہ دورہ پاکستان دونوں برادر ممالک کے درمیان باہمی تعاون کے فروغ کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جیسا کہ سب کو معلوم ہے دونوں ممالک کے تعلقات کی جڑیں تاریخی اور ثقافتی پس منظر کے لحاظ سے بہت گہری ہیں۔دونوں ممالک کے درمیان انتہائی قربتوں میں اضافہ وقت کا بہت بڑا تقاضہ ہے۔
اس سے بڑی بات بھلا اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایران دنیا کا وہ ملک ہے جس نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد اسے سب سے پہلے تسلیم کیا تھا۔دونوں ممالک مذہب کے اٹوٹ بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ماضی میں آر سی ڈی تنظیم سے وابستگی نے بھی دونوں ممالک کو معاشی اعتبار سے قریب سے قریب تر کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔
موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد مملکت ایران کے سربراہ کے اس دورہ کو غیر معمولی پیش رفت کہا جاسکتا ہے۔ ایرانی صدر کی اسلام آباد آمد پر ان کا انتہائی گرمجوشی سے استقبال کیا گیا اور پاک ایران دوستی کے نعروں سے فضا گونج اٹھی۔ اس موقعے پر عوام کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ ایرانی صدر جب لاہور پہنچے تو شہریوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ زندہ دلان لاہور فرش راہ بن گئے۔
انھوں نے مزار اقبال پر حاضری دی اور پھولوں کی چادر چڑھائی۔ علامہ اقبال کو ایران میں نہایت عقیدت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور ان کی فارسی شاعری کی مقبولیت کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اور لاہور میں ان کے قیام کی وجہ سے انہیں اقبال لاہوری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ایرانی صدر اور خاتون اول سے پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے ملاقات کی اور لاہور آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
ایرانی صدر کا سہ روزہ سرکاری دورہ ہر لحاظ سے کامیاب رہا۔ انھوں نے وزیر اعظم اور صدر پاکستان سے ملاقاتوں کے علاوہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر سے بھی ملاقات کی جس کے دوران انھوں نے باہمی دلچسپی کے اہم امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ صدر رئیسی نے اپنے دورہ کے آخری مرحلے میں پاکستان کے صنعتی اور کاروباری عروس البلاد کراچی کا بھی دورہ کیا جہاں انھوں نے پاکستان کی صنعتی اور تجارتی اہم شخصیات سے تبادلہ خیال کیا۔ کسی سربراہ مملکت کا کئی دہائیوں بعد کراچی کا یہ پہلا دورہ تھا۔
ایرانی صدر نے بانی پاکستان قائد اعظم کے مزار پر بھی حاضری دی، پھولوں کی چادر چڑھائی اور فاتحہ خانی کی۔ ایرانی صدر کی وزیر اعلیٰ ہاؤس میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری اور وزیر اعلیٰ سندھ سے خصوصی ملاقات بھی ہوئی۔ گورنر سندھ نے صدر ابراہیم رئیسی کو جامعہ کراچی کی جانب سے اعزازی پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی دی۔
حکومت سندھ کی جانب سے ایرانی صدر کے اعزاز میں ان کے شایان شان استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ ایران سے پاکستان تک گیس پائپ لائن بچھائی جانے کے منصوبہ کے تعطل کا معاملہ بھی زیر غور آیا جو امریکی دباؤ کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ اس منصوبے کی تکمیل سے دونوں ممالک کو زبردست فائدہ ہوگا۔ دونوں ممالک کی جانب سے اعادہ کیا گیا کہ اس منصوبہ کو جلد از جلد پایہ تکمیل کو پہنچایا جائے گا۔
ایرانی صدر کا دورہ اس نازک موقع پر ہوا ہے جب اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں۔ایران وہ واحد اسلامی ملک ہے جس نے ہمت و جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے صیہونی استعمار کو انتہائی دلیری کے ساتھ للکارا ہے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
پاکستانی میڈیا نے ایرانی صدر کے دورہ کو خصوصی اہمیت دی ہے اور اس کی نہایت دلچسپی کے ساتھ کوریج کی ہے۔
پاکستان آج کل عالمی خبروں کا محور بنا ہوا ہے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا کہ سعودی عرب کے ایک وفد نے جس کی سربراہی سعودی عرب کے وزیر خارجہ پرنس فرحان کر رہے تھے پاکستان کے اہم سرکاری دورہ پر آیا تھا جس کے دوران دونوں ممالک کے درمیان باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔پاکستان کے ساتھ مختلف شعبوں بشمول کان کنی اور تجارت کو فروغ دینے جیسے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔
مسلم ممالک میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی نوعیت سب سے مختلف اور الگ ہے۔ مشکل کی ہر گھڑی میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں۔ دفاع کے شعبہ میں پاکستان اور سعودی عرب یکجان دو قالب رہے ہیں۔ شاہ فیصل کے دورہ حکمرانی میں یہ تعلقات باہمی عروج پر تھے اور دونوں ممالک کے مخالفین اور بدخواہوں کی آنکھوں میں یہ تعلقات کانٹے کی طرح کھٹکتے تھے۔
اسلام آباد کی تاریخی فیصل مسجد ان تعلقات کی بہترین علامت ہے۔ پاکستان میں چاہے کسی کی بھی حکومت ہو ان تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ان تعلقات کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ لاہور میں منعقدہ اسلامی ممالک کی سب سے بڑی کانفرنس میں تمام مسلم ممالک کے سربراہوں میں شاہ فیصل کا مقام سب سے بلند تھا۔ شاہ فیصل شہید کو پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ ایک قلبی لگاؤ تھا۔ ان کی شہادت پر پاکستان سے بڑھ کر کسی اور ملک کو اتنا شدید صدمہ نہیں ہوا تھا۔ پاکستانی عوام کے دلوں کی دھڑکنیں شاہ فیصل شہید کا نام آتے ہی آج بھی تیز ہوجاتی ہیں۔
زندگی کا کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات کو برتری حاصل نہ ہو۔پاکستانی عوام پاسبان حرمین شریفین کو تہہ دل سے عظیم رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف ابھی حال ہی میں عمرہ کرنے کے لیے سعودی عرب کے دورہ پر گئے تھے جس کے دوران ان کی سعودی عرب کے فرماں روا محمد بن سلمان سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں باہمی دلچسپی کے اہم امور پر تبادلہ خیال ہوا۔
توقع کی جارہی ہے کہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف 28 اپریل کو سعودی عرب کے سرکاری دورہ پر جائیں گے جہاں وہ پاکستان میں سرمایہ کاری سے متعلق سعودی حکام سے ملاقات کریں گے۔ امید کی جارہی ہے کہ سعودی سربراہ مملکت وزیر اعظم پاکستان کی دعوت پر اپنی پہلی فرصت میں پاکستان تشریف لائیں گے۔
دریں اثنا سعودی عرب نے پاکستان میں وسیع پیمانہ پر سرمایہ کاری کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ پاکستان کے موجودہ مالی بحران کو حل کرنے میں بھی سعودی عرب کی دلچسپی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی قوت ہونے کے لحاظ سے ایسی اہمیت رکھتا ہے جس کا کسی بھی ملک سے کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔
اس سے بڑی بات بھلا اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایران دنیا کا وہ ملک ہے جس نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد اسے سب سے پہلے تسلیم کیا تھا۔دونوں ممالک مذہب کے اٹوٹ بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ماضی میں آر سی ڈی تنظیم سے وابستگی نے بھی دونوں ممالک کو معاشی اعتبار سے قریب سے قریب تر کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔
موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد مملکت ایران کے سربراہ کے اس دورہ کو غیر معمولی پیش رفت کہا جاسکتا ہے۔ ایرانی صدر کی اسلام آباد آمد پر ان کا انتہائی گرمجوشی سے استقبال کیا گیا اور پاک ایران دوستی کے نعروں سے فضا گونج اٹھی۔ اس موقعے پر عوام کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ ایرانی صدر جب لاہور پہنچے تو شہریوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ زندہ دلان لاہور فرش راہ بن گئے۔
انھوں نے مزار اقبال پر حاضری دی اور پھولوں کی چادر چڑھائی۔ علامہ اقبال کو ایران میں نہایت عقیدت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور ان کی فارسی شاعری کی مقبولیت کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اور لاہور میں ان کے قیام کی وجہ سے انہیں اقبال لاہوری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ایرانی صدر اور خاتون اول سے پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے ملاقات کی اور لاہور آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
ایرانی صدر کا سہ روزہ سرکاری دورہ ہر لحاظ سے کامیاب رہا۔ انھوں نے وزیر اعظم اور صدر پاکستان سے ملاقاتوں کے علاوہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر سے بھی ملاقات کی جس کے دوران انھوں نے باہمی دلچسپی کے اہم امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ صدر رئیسی نے اپنے دورہ کے آخری مرحلے میں پاکستان کے صنعتی اور کاروباری عروس البلاد کراچی کا بھی دورہ کیا جہاں انھوں نے پاکستان کی صنعتی اور تجارتی اہم شخصیات سے تبادلہ خیال کیا۔ کسی سربراہ مملکت کا کئی دہائیوں بعد کراچی کا یہ پہلا دورہ تھا۔
ایرانی صدر نے بانی پاکستان قائد اعظم کے مزار پر بھی حاضری دی، پھولوں کی چادر چڑھائی اور فاتحہ خانی کی۔ ایرانی صدر کی وزیر اعلیٰ ہاؤس میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری اور وزیر اعلیٰ سندھ سے خصوصی ملاقات بھی ہوئی۔ گورنر سندھ نے صدر ابراہیم رئیسی کو جامعہ کراچی کی جانب سے اعزازی پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی دی۔
حکومت سندھ کی جانب سے ایرانی صدر کے اعزاز میں ان کے شایان شان استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ ایران سے پاکستان تک گیس پائپ لائن بچھائی جانے کے منصوبہ کے تعطل کا معاملہ بھی زیر غور آیا جو امریکی دباؤ کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ اس منصوبے کی تکمیل سے دونوں ممالک کو زبردست فائدہ ہوگا۔ دونوں ممالک کی جانب سے اعادہ کیا گیا کہ اس منصوبہ کو جلد از جلد پایہ تکمیل کو پہنچایا جائے گا۔
ایرانی صدر کا دورہ اس نازک موقع پر ہوا ہے جب اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں۔ایران وہ واحد اسلامی ملک ہے جس نے ہمت و جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے صیہونی استعمار کو انتہائی دلیری کے ساتھ للکارا ہے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
پاکستانی میڈیا نے ایرانی صدر کے دورہ کو خصوصی اہمیت دی ہے اور اس کی نہایت دلچسپی کے ساتھ کوریج کی ہے۔
پاکستان آج کل عالمی خبروں کا محور بنا ہوا ہے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا کہ سعودی عرب کے ایک وفد نے جس کی سربراہی سعودی عرب کے وزیر خارجہ پرنس فرحان کر رہے تھے پاکستان کے اہم سرکاری دورہ پر آیا تھا جس کے دوران دونوں ممالک کے درمیان باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔پاکستان کے ساتھ مختلف شعبوں بشمول کان کنی اور تجارت کو فروغ دینے جیسے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔
مسلم ممالک میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی نوعیت سب سے مختلف اور الگ ہے۔ مشکل کی ہر گھڑی میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں۔ دفاع کے شعبہ میں پاکستان اور سعودی عرب یکجان دو قالب رہے ہیں۔ شاہ فیصل کے دورہ حکمرانی میں یہ تعلقات باہمی عروج پر تھے اور دونوں ممالک کے مخالفین اور بدخواہوں کی آنکھوں میں یہ تعلقات کانٹے کی طرح کھٹکتے تھے۔
اسلام آباد کی تاریخی فیصل مسجد ان تعلقات کی بہترین علامت ہے۔ پاکستان میں چاہے کسی کی بھی حکومت ہو ان تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ان تعلقات کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ لاہور میں منعقدہ اسلامی ممالک کی سب سے بڑی کانفرنس میں تمام مسلم ممالک کے سربراہوں میں شاہ فیصل کا مقام سب سے بلند تھا۔ شاہ فیصل شہید کو پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ ایک قلبی لگاؤ تھا۔ ان کی شہادت پر پاکستان سے بڑھ کر کسی اور ملک کو اتنا شدید صدمہ نہیں ہوا تھا۔ پاکستانی عوام کے دلوں کی دھڑکنیں شاہ فیصل شہید کا نام آتے ہی آج بھی تیز ہوجاتی ہیں۔
زندگی کا کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات کو برتری حاصل نہ ہو۔پاکستانی عوام پاسبان حرمین شریفین کو تہہ دل سے عظیم رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف ابھی حال ہی میں عمرہ کرنے کے لیے سعودی عرب کے دورہ پر گئے تھے جس کے دوران ان کی سعودی عرب کے فرماں روا محمد بن سلمان سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں باہمی دلچسپی کے اہم امور پر تبادلہ خیال ہوا۔
توقع کی جارہی ہے کہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف 28 اپریل کو سعودی عرب کے سرکاری دورہ پر جائیں گے جہاں وہ پاکستان میں سرمایہ کاری سے متعلق سعودی حکام سے ملاقات کریں گے۔ امید کی جارہی ہے کہ سعودی سربراہ مملکت وزیر اعظم پاکستان کی دعوت پر اپنی پہلی فرصت میں پاکستان تشریف لائیں گے۔
دریں اثنا سعودی عرب نے پاکستان میں وسیع پیمانہ پر سرمایہ کاری کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ پاکستان کے موجودہ مالی بحران کو حل کرنے میں بھی سعودی عرب کی دلچسپی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی قوت ہونے کے لحاظ سے ایسی اہمیت رکھتا ہے جس کا کسی بھی ملک سے کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔