گاہ میری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود
فرماتے ہیں خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری۔ وگرنہ شعر میرا کیا اور شاعری کیا ہے
اپریل کا مہینہ اس حوالے سے بہت خاص ہے کہ اس مہینے میں دو عظیم ترین شاعروں میں سے ایک کا یومِ ولادت اور ایک کی برسی ہے۔ولیم شیکسپیئر 16اپریل کو پیدا ہوئے اور حضرت علامہ اقبال 21اپریل کو اس دارِ فانی کو چھوڑ گئے۔
شیکسپیئر بہت خوش قسمت رہا کہ اس کے دنیا سے رخصت ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد اس کی قوم نے انتہائی قوت سے انگڑائی لی۔پہلے اس نے یورپ میں اپنے آپ کو منوایا اور پھر دنیا بھر میں کئی ممالک کو نو آبادی بنا لیا اور شیکسپیئر کو متعارف کروا دیا۔دنیا کے تمام ادبا اور شعراء میں سے اگر کوئی شاعر عالمی سطح پر سب سے زیادہ جانا پہچانا جاتا ہے تو وہ ولیم شیکسپیئر ہے۔
ڈاکٹر جانسن کے مطابق شیکسپیئر کا تعلق کسی ایک عہد سے نہیں بلکہ ہر عہد سے ہے۔وہ انگریزی زبان کا واحد شاعر اور ڈرامہ نویس ہے جسے پوری دنیا جانتی ہے اور جسے ہر کہیں پڑھا جاتا ہے۔ اس کی عظمت کے سبھی قائل ہیں۔
بہت بڑے بڑے لکھنے والوں کی رائے میں انسانی زندگی کے دکھ سکھ کا جتنا احاطہ شیکسپیئر نے کیا ہے اتنا شاید ہی کسی اور لکھنے والے کے حصے میں آیا ہو۔دنیا کی شاید ہی کوئی ایسی بڑی لائبریری ہو جس میں اس کے ڈرامے موجود نہ ہوں۔
شیکسپیئر سے پہلے کرسٹوفر مارلو نے اپنے مشہور ڈرامے ڈاکٹر فاسٹس میں بلینک ورس کو استعمال کیا لیکن بعد میں لکھتے ہوئے شیکسپیئر نے اس صنف کو اوجِ کمال پر پہنچا دیا۔ٹی ایس ایلیٹ کا بھی یہی خیال ہے کہ شیکسپیئر صرف اپنے عہد کا نہیں بلکہ ہر عہد کا بڑا شاعر اور ڈرامہ نویس ہے۔
شیکسپیئر نے کل 37 ڈرامے قلمبند کئے۔ اس کے المیہ ڈرامے، دنیائے ادب کے چند بہترین ڈرامے ہیں خاص کر ہیملٹ،کنگ لیئر اور میک بتھ۔ شیکسپیئر کے ڈراموں کے کردار بہت جاندار ہیں اور ذہنوں پر چھا جاتے ہیں۔شیکسپیئر نے اپنے لازوال ڈراموں کے علاوہ نظمیں بھی لکھیں جو سانٹ Sonnetفارم میں ہیں۔ایسی نظموں کی تعداد 154ہے۔شیکسپیئر انسان کی زندگی کو اپنے ڈراموں کا موضوع بناتا ہے یوں وہ خالص ادب تخلیق کرتا ہے کیونکہ ادب زندگی سے ہی متعلق ہے۔
شیکسپیئر ڈرامہ لکھتے ہوئے کرداروں پر اپنے فیصلے صادر نہیں کرتا۔ اُس نے کوئی اصلاحی تحریک نہیں چلائی اور نہ ہی وہ مبلغ بنا۔وہ تو اپنے کرداروں کو خوش ہوتے،دکھ سہتے، ہنستے گاتے اور روتے دکھاتا ہے۔وہ انسانوں کو ان کی برائیوں،دغابازیوں اور کمینگیوں کے باوصف ہمدردی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ زندگی کا ڈرامہ نویس ہے۔
اپریل کے تیسرے ہفتے میں21اپریل 1938 کا دن تھا جب ہمارے عظیم مفکر اور شاعر حضرت علامہ اقبال اس دارِ فانی کو چھوڑگئے۔ ہم علامہ اقبال کو بنیادی طور پر ایک شاعر کی حیثیت میں دیکھتے ہیں اور اپنی تحریروں اور تقریروں میں ان کے اشعار کے حوالے لاتے ہیں لیکن جس طرح غالب نے کہا کہ کچھ شاعری ذریعہ ء عزت نہیں مجھے،بالکل اسی طرح علامہ اقبال کو اپنی شاعری پر چندے ناز نہیں تھا۔یہ ان کی قلبی واردات تھی جس نے صفحہ شہود پر شاعری کے ذریعے آنا تھا۔شاعری صرف اظہار کا ایک ذریعہ رہا،جبکہ وہ اپنے آپ کو ایک قلندر سمجھتے تھے اور اسی پر نازاں تھے۔
فرماتے ہیں خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری۔ وگرنہ شعر میرا کیا اور شاعری کیا ہے۔وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ان کی قلندری کا فیض جاری ہونا چاہیئے۔ بالِ جبریل کی آٹھویں غزل میں فرماتے ہیں، تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند، اب مناسب ہے ترا فیض عام ہو اے ساقی۔اقبال یہ بھی سمجھتے تھے کہ مومن اپنی ذات میں پوری کائنات ہوتا ہے۔
فرماتے ہیں،کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے۔مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق۔جہاں ہے تیرے لئے،تو نہیں جہاں کے لئے۔اقبال مومن کو ایک بحرِ بے کراں سمجھتے تھے۔فرماتے ہیں، تو اے شرمندہ ء ساحل اچھل کر بے کراں ہو جا۔ ان پر یہ واردات کیونکر ہوتی ہے،اس کو یوں بیان کرتے ہیں،میں صورتِ گل دستِ صبا کا نہیں محتاج۔ کرتا ہے میرا جوشِ جنوں میری قبا چاک۔
کسی بھی شاعر،مفکر یا ادیب کی عظمت کی ایک بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ Sublimity رفعت و بلندی کو چھو لے یہ معیار حاصل کرنے کے لیے فکر و خیال کی بلندی،گرینڈ ڈکشن،وجدان،وسیع اور گہرا مطالعہ و مسلسل محنت درکار ہوتی ہے۔ اگر اقبال کی فکری اساس کی بات کریں تو بقول سید مودودی قرآن ہی اقبال کی فکری اساس ہے اور قرآن سے بلند،ارفع و اعلیٰ کوئی دوسری اساس ہو ہی نہیں سکتی۔سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں کہ اقبال کی شخصیت میں جو جامعیت، بلندی ء فکر و خیال،سوز و گداز اور بے انتہا جاذبیت پائی جاتی ہے اس کا تعلق اقبال کی زندگی کے اس رخ سے ہے جسے ہم یقین و ایمان کہتے ہیں۔
اقبال کی ڈکشن اتنی گرینڈ ہے کہ ہزاروں اشعار میں اقبال کا شعر اپنی پہچان خود کرواتا ہے۔موضوعات کا تنوع ہر ایک کو حیران کر دیتا ہے۔قاری دم بخود رہ جاتا ہے کہ ان موضوعات کے لیے کتنا وسیع مطالعہ درکار ہے۔نیچر کی منظر نگاری ہو۔فطرت کے تقاضے یا پھر من کی دولت، ہر کہیں اقبال بے مثال ہے۔
انسانی قوت و ہمت کیا کر سکتی ہے اور ذہن پراگندہ ہو جائے تو کیا ہوتا ہے، فرماتے ہیں۔گاہ میری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود۔ گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں۔ایران کے ملک الشعراء محمد تقی بہار خراسانی نے کہا کہ یہ عہد اقبال کے لیے مخصوص ہو گیا،گویا ہم عہدِ اقبال میں جی رہے ہیں۔
شیکسپیئر کی قوم نے اسے ساری دنیا میں متعارف کروا کے عظیم ترین شاعر اور ڈرامہ نویس بنا دیا لیکن علامہ اقبال تو ایک کمزور قوم میں پیدا ہوئے۔ حضرت علامہ کا یومِ ولادت ہو یا یومِ وصال، اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر لگ جاتی ہے اور ٹی وی چینلز معمولی سا ذکر دن میں دو تین بار کر دیتے ہیں۔
بعض اوقات تو عظیم شاعر کا ذکر اتنا بے جان ہوتا ہے کہ نوٹس میں ہی نہیں آتا۔قومیں اپنے بڑے شاعروں اور ادیبوں کو کس طرح متعارف کرواتی اور ان کی عزت و تکریم میں اضافہ کرواتی ہیں،اس کا ایک چھوٹا سا نمونہ دیکھئے۔میں 2013میں پاکستان اکیڈمی ادبیات میں تعینات تھا۔
ایک دن آذربائیجان کے سفیرِ محترم کا فون آیا۔وہ اکیڈمی تشریف لانا چاہتے تھے۔وقت طے ہوا اور وہ دو دن بعد تشریف لائے۔انھوں نے مجھے دعوت دی کہ میں حضرت نظامی گنجوی کی برسی کی سات سو سالہ تقریبات میں شرکت کروں۔انھوں نے نظامی گنجوی کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ آذربائیجانیوں کے لیے نظامی گنجوی کی وہی حیثیت ہے جو پاکستان میں علامہ اقبال کی ہے۔انھوں نے بتایا کہ نظامی گنجوی کا پورا نام جمال الدین ابو محمد الیاس یوسف تھا۔
آپ 1241میں پیدا ہوئے اور 1209میں وفات پائی۔ آپ کا شمار فارسی زبان کے عظیم رومانی رزمیہ شاعروں میں ہوتا ہے۔آذر بائیجان کے سفیرِ محترم نے بتایا کہ برسی کی تقریبات شروع ہو چکی ہیں اور ان تقریبات کے اختتام پر نظامی گنجوی کی یاد میں ایک بین الاقوامی ادبی ریفرنس منعقد ہوگی۔
مجھے دعوت دی گئی کہ میں اس چار روزہ ادبی ریفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کروں۔میں باکو پہنچا تو دیکھا کہ تین ممالک کے وزرائے اعظم بھی شریک ہیں۔ آذربائیجان کے ڈپٹی وزیرِ اعظم چار دن کے لیے کل وقتی طور پر ہمارے ساتھ رہے۔باکو سے ہمیں آذربائیجان کے دوسرے بڑے شہر اور نظامی کی جائے پیدائش گنجا ایک خصوصی طیارے میں لے جایا گیا۔
اگلے تین دن گنجا کے گورنر بھی ہمارے ساتھ رہے۔چوتھے دن باکو واپس آنا ہوا جہاں ادبی ریفرنس کا اختتامی اجلاس ہوا۔اس اجلاس میں صدرِ آذربائیجان بھی شریک ہوئے۔آپ جان سکتے ہیں کہ آذربائیجان والے اپنے بڑے شاعر کو دنیا سے متعارف کروانے کے لیے کس قدر زور لگا رہے تھے لیکن ہم پاکستانی اپنے سرخیل شاعر سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
میں نے پچھلے کئی برس سے نہیں سنا کہ ہماری وفاقی کابینہ نے حضرت علامہ اقبال کا ذکر کیا ہو یا کوئی ایسا پروگرام ترتیب دیا ہو جس سے دنیا میں اقبال آگاہی ہو پھر بھی مجھے امید ہے کہ 2038میں علامہ اقبال کی صد سالہ برسی کی تقریبات بہت بڑے پیمانے پر منائی جائیں گی اور ان کے لیے ابھی سے ایک با اختیار کمیٹی بنا کر کام کیا جائے گا۔
شیکسپیئر بہت خوش قسمت رہا کہ اس کے دنیا سے رخصت ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد اس کی قوم نے انتہائی قوت سے انگڑائی لی۔پہلے اس نے یورپ میں اپنے آپ کو منوایا اور پھر دنیا بھر میں کئی ممالک کو نو آبادی بنا لیا اور شیکسپیئر کو متعارف کروا دیا۔دنیا کے تمام ادبا اور شعراء میں سے اگر کوئی شاعر عالمی سطح پر سب سے زیادہ جانا پہچانا جاتا ہے تو وہ ولیم شیکسپیئر ہے۔
ڈاکٹر جانسن کے مطابق شیکسپیئر کا تعلق کسی ایک عہد سے نہیں بلکہ ہر عہد سے ہے۔وہ انگریزی زبان کا واحد شاعر اور ڈرامہ نویس ہے جسے پوری دنیا جانتی ہے اور جسے ہر کہیں پڑھا جاتا ہے۔ اس کی عظمت کے سبھی قائل ہیں۔
بہت بڑے بڑے لکھنے والوں کی رائے میں انسانی زندگی کے دکھ سکھ کا جتنا احاطہ شیکسپیئر نے کیا ہے اتنا شاید ہی کسی اور لکھنے والے کے حصے میں آیا ہو۔دنیا کی شاید ہی کوئی ایسی بڑی لائبریری ہو جس میں اس کے ڈرامے موجود نہ ہوں۔
شیکسپیئر سے پہلے کرسٹوفر مارلو نے اپنے مشہور ڈرامے ڈاکٹر فاسٹس میں بلینک ورس کو استعمال کیا لیکن بعد میں لکھتے ہوئے شیکسپیئر نے اس صنف کو اوجِ کمال پر پہنچا دیا۔ٹی ایس ایلیٹ کا بھی یہی خیال ہے کہ شیکسپیئر صرف اپنے عہد کا نہیں بلکہ ہر عہد کا بڑا شاعر اور ڈرامہ نویس ہے۔
شیکسپیئر نے کل 37 ڈرامے قلمبند کئے۔ اس کے المیہ ڈرامے، دنیائے ادب کے چند بہترین ڈرامے ہیں خاص کر ہیملٹ،کنگ لیئر اور میک بتھ۔ شیکسپیئر کے ڈراموں کے کردار بہت جاندار ہیں اور ذہنوں پر چھا جاتے ہیں۔شیکسپیئر نے اپنے لازوال ڈراموں کے علاوہ نظمیں بھی لکھیں جو سانٹ Sonnetفارم میں ہیں۔ایسی نظموں کی تعداد 154ہے۔شیکسپیئر انسان کی زندگی کو اپنے ڈراموں کا موضوع بناتا ہے یوں وہ خالص ادب تخلیق کرتا ہے کیونکہ ادب زندگی سے ہی متعلق ہے۔
شیکسپیئر ڈرامہ لکھتے ہوئے کرداروں پر اپنے فیصلے صادر نہیں کرتا۔ اُس نے کوئی اصلاحی تحریک نہیں چلائی اور نہ ہی وہ مبلغ بنا۔وہ تو اپنے کرداروں کو خوش ہوتے،دکھ سہتے، ہنستے گاتے اور روتے دکھاتا ہے۔وہ انسانوں کو ان کی برائیوں،دغابازیوں اور کمینگیوں کے باوصف ہمدردی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ زندگی کا ڈرامہ نویس ہے۔
اپریل کے تیسرے ہفتے میں21اپریل 1938 کا دن تھا جب ہمارے عظیم مفکر اور شاعر حضرت علامہ اقبال اس دارِ فانی کو چھوڑگئے۔ ہم علامہ اقبال کو بنیادی طور پر ایک شاعر کی حیثیت میں دیکھتے ہیں اور اپنی تحریروں اور تقریروں میں ان کے اشعار کے حوالے لاتے ہیں لیکن جس طرح غالب نے کہا کہ کچھ شاعری ذریعہ ء عزت نہیں مجھے،بالکل اسی طرح علامہ اقبال کو اپنی شاعری پر چندے ناز نہیں تھا۔یہ ان کی قلبی واردات تھی جس نے صفحہ شہود پر شاعری کے ذریعے آنا تھا۔شاعری صرف اظہار کا ایک ذریعہ رہا،جبکہ وہ اپنے آپ کو ایک قلندر سمجھتے تھے اور اسی پر نازاں تھے۔
فرماتے ہیں خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری۔ وگرنہ شعر میرا کیا اور شاعری کیا ہے۔وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ان کی قلندری کا فیض جاری ہونا چاہیئے۔ بالِ جبریل کی آٹھویں غزل میں فرماتے ہیں، تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند، اب مناسب ہے ترا فیض عام ہو اے ساقی۔اقبال یہ بھی سمجھتے تھے کہ مومن اپنی ذات میں پوری کائنات ہوتا ہے۔
فرماتے ہیں،کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے۔مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق۔جہاں ہے تیرے لئے،تو نہیں جہاں کے لئے۔اقبال مومن کو ایک بحرِ بے کراں سمجھتے تھے۔فرماتے ہیں، تو اے شرمندہ ء ساحل اچھل کر بے کراں ہو جا۔ ان پر یہ واردات کیونکر ہوتی ہے،اس کو یوں بیان کرتے ہیں،میں صورتِ گل دستِ صبا کا نہیں محتاج۔ کرتا ہے میرا جوشِ جنوں میری قبا چاک۔
کسی بھی شاعر،مفکر یا ادیب کی عظمت کی ایک بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ Sublimity رفعت و بلندی کو چھو لے یہ معیار حاصل کرنے کے لیے فکر و خیال کی بلندی،گرینڈ ڈکشن،وجدان،وسیع اور گہرا مطالعہ و مسلسل محنت درکار ہوتی ہے۔ اگر اقبال کی فکری اساس کی بات کریں تو بقول سید مودودی قرآن ہی اقبال کی فکری اساس ہے اور قرآن سے بلند،ارفع و اعلیٰ کوئی دوسری اساس ہو ہی نہیں سکتی۔سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں کہ اقبال کی شخصیت میں جو جامعیت، بلندی ء فکر و خیال،سوز و گداز اور بے انتہا جاذبیت پائی جاتی ہے اس کا تعلق اقبال کی زندگی کے اس رخ سے ہے جسے ہم یقین و ایمان کہتے ہیں۔
اقبال کی ڈکشن اتنی گرینڈ ہے کہ ہزاروں اشعار میں اقبال کا شعر اپنی پہچان خود کرواتا ہے۔موضوعات کا تنوع ہر ایک کو حیران کر دیتا ہے۔قاری دم بخود رہ جاتا ہے کہ ان موضوعات کے لیے کتنا وسیع مطالعہ درکار ہے۔نیچر کی منظر نگاری ہو۔فطرت کے تقاضے یا پھر من کی دولت، ہر کہیں اقبال بے مثال ہے۔
انسانی قوت و ہمت کیا کر سکتی ہے اور ذہن پراگندہ ہو جائے تو کیا ہوتا ہے، فرماتے ہیں۔گاہ میری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود۔ گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں۔ایران کے ملک الشعراء محمد تقی بہار خراسانی نے کہا کہ یہ عہد اقبال کے لیے مخصوص ہو گیا،گویا ہم عہدِ اقبال میں جی رہے ہیں۔
شیکسپیئر کی قوم نے اسے ساری دنیا میں متعارف کروا کے عظیم ترین شاعر اور ڈرامہ نویس بنا دیا لیکن علامہ اقبال تو ایک کمزور قوم میں پیدا ہوئے۔ حضرت علامہ کا یومِ ولادت ہو یا یومِ وصال، اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر لگ جاتی ہے اور ٹی وی چینلز معمولی سا ذکر دن میں دو تین بار کر دیتے ہیں۔
بعض اوقات تو عظیم شاعر کا ذکر اتنا بے جان ہوتا ہے کہ نوٹس میں ہی نہیں آتا۔قومیں اپنے بڑے شاعروں اور ادیبوں کو کس طرح متعارف کرواتی اور ان کی عزت و تکریم میں اضافہ کرواتی ہیں،اس کا ایک چھوٹا سا نمونہ دیکھئے۔میں 2013میں پاکستان اکیڈمی ادبیات میں تعینات تھا۔
ایک دن آذربائیجان کے سفیرِ محترم کا فون آیا۔وہ اکیڈمی تشریف لانا چاہتے تھے۔وقت طے ہوا اور وہ دو دن بعد تشریف لائے۔انھوں نے مجھے دعوت دی کہ میں حضرت نظامی گنجوی کی برسی کی سات سو سالہ تقریبات میں شرکت کروں۔انھوں نے نظامی گنجوی کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ آذربائیجانیوں کے لیے نظامی گنجوی کی وہی حیثیت ہے جو پاکستان میں علامہ اقبال کی ہے۔انھوں نے بتایا کہ نظامی گنجوی کا پورا نام جمال الدین ابو محمد الیاس یوسف تھا۔
آپ 1241میں پیدا ہوئے اور 1209میں وفات پائی۔ آپ کا شمار فارسی زبان کے عظیم رومانی رزمیہ شاعروں میں ہوتا ہے۔آذر بائیجان کے سفیرِ محترم نے بتایا کہ برسی کی تقریبات شروع ہو چکی ہیں اور ان تقریبات کے اختتام پر نظامی گنجوی کی یاد میں ایک بین الاقوامی ادبی ریفرنس منعقد ہوگی۔
مجھے دعوت دی گئی کہ میں اس چار روزہ ادبی ریفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کروں۔میں باکو پہنچا تو دیکھا کہ تین ممالک کے وزرائے اعظم بھی شریک ہیں۔ آذربائیجان کے ڈپٹی وزیرِ اعظم چار دن کے لیے کل وقتی طور پر ہمارے ساتھ رہے۔باکو سے ہمیں آذربائیجان کے دوسرے بڑے شہر اور نظامی کی جائے پیدائش گنجا ایک خصوصی طیارے میں لے جایا گیا۔
اگلے تین دن گنجا کے گورنر بھی ہمارے ساتھ رہے۔چوتھے دن باکو واپس آنا ہوا جہاں ادبی ریفرنس کا اختتامی اجلاس ہوا۔اس اجلاس میں صدرِ آذربائیجان بھی شریک ہوئے۔آپ جان سکتے ہیں کہ آذربائیجان والے اپنے بڑے شاعر کو دنیا سے متعارف کروانے کے لیے کس قدر زور لگا رہے تھے لیکن ہم پاکستانی اپنے سرخیل شاعر سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
میں نے پچھلے کئی برس سے نہیں سنا کہ ہماری وفاقی کابینہ نے حضرت علامہ اقبال کا ذکر کیا ہو یا کوئی ایسا پروگرام ترتیب دیا ہو جس سے دنیا میں اقبال آگاہی ہو پھر بھی مجھے امید ہے کہ 2038میں علامہ اقبال کی صد سالہ برسی کی تقریبات بہت بڑے پیمانے پر منائی جائیں گی اور ان کے لیے ابھی سے ایک با اختیار کمیٹی بنا کر کام کیا جائے گا۔