موت کو سمجھے ہےغافل اختتامِ زندگی۔۔۔

’’بے شک! قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوتی ہے یا جہنّم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔‘‘

فوٹو : فائل

''اور ان کے آگے اس دن تک ایک پردہ (حائل) ہے (جس دن) وہ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے۔''

ایک پردہ ہے، یعنی برزخ ، برزخ کے معنی ہیں دو چیزوں میں حد اور رکاوٹ۔

مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے یعنی قیام قیامت تک کا زمانہ عالم برزخ کہلاتا ہے۔ عالم برزخ کون سا عالم ہے ؟ اور کہاں ہے؟ کیا برزخ سب کے لیے ہے یا خاص گروہ کے لیے ہے؟ ہر انسانی ذہن ان باتوں کے بارے میں تجسس رکھتا ہے۔

زندگی کے تین ادوار ہیں:

حیاتِ دنیوی۔ حیاتِ برزخی۔ حیاتِ اخروی

دنیاوی زندگی کا انداز الگ ہے، اس کے اپنے لوازمات ہیں، پھر حیاتِ برزخی ہے اس کا انداز و معاملہ اور طرح کا ہے، پھر حیاتِ اخروی ہے اس کے اپنے لوازمات و احکام ہیں۔

علمائے کرام فرماتے ہیں انسان کے مرنے کے بعد اس کا تعلق ایک اور عالم سے ہوجاتا ہے، جس کو عالمِ برزخ اور عرفِ عام میں عالمِ قبر کہتے ہیں۔ اب جو کچھ اس پر گزرتا ہے وہ دنیوی عالم میں نہیں، اس دوسرے عالم میں ہوتا ہے، دنیا میں جیسی عملی زندگی گزاری ہوتی ہے، اس اعتبار سے عالمِ برزخ کی زندگی ہوتی ہے، سزا اور جزا ہوتی ہے، رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:

''بے شک! قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوتی ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہوتی ہے۔'' (سنن ترمذی)

اس دوسرے عالم کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی حکمتِ بالغہ سے عام انسانوں سے مخفی رکھا ہُوا ہے، اس کا اس دنیا میں مشاہدہ عام طور پر نہیں ہوتا، مردہ ہمارے سامنے ہوتا ہے اور اس پر عذاب یا راحت کا معاملہ ہوتا ہے، مگر اس کے باوجود چوں کہ یہ معاملہ عالمِ برزخ کاہے، اس لیے ہمیں محسوس نہیں ہوتا۔

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مدینے کی یہودی بوڑھی عورتوں میں سے دو بوڑھی خواتین میرے گھر آئیں اور انھوں نے کہا: قبر والوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جاتا ہے۔ میں نے ان دونوں کی تصدیق کے لیے ہاں نہ کیا، وہ چلی گئیں اور رسول اﷲ ﷺ میرے پاس تشریف لائے، تو میں نے آپؐ سے کہا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! میرے پاس مدینے کی یہودی عورتوں میں سے دو بوڑھیاں آئی تھیں، ان کا خیال تھا کہ قبر والوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جاتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ''ان دونوں نے سچ کہا تھا۔ ان کو ایسا عذاب ہوتا ہے کہ اسے سب مویشی سنتے ہیں۔'' اس کے بعد میں نے آپؐ کو دیکھا کہ آپؐ ہر نماز میں قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے تھے۔ (بخاری و مسلم)

حضرت عبداﷲ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ دو قبروں پر سے گذرے۔ پس آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور انہیں ایسی چیز میں عذاب نہیں دیا جا رہا کہ جس سے بچنا ان کے لیے کوئی بڑی بات تھی بل کہ ان میں سے ایک تو پیشاب سے بچاؤ اختیار نہیں کرتا تھا اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ وہ پیشاب کی چھینٹوں سے اپنے آپ کو دور نہیں رکھتا تھا۔ اور دوسرا چغل خور ی کیا کرتا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے کھجور کی ایک تر ٹہنی لی اور اسے درمیان میں سے دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پھر آپ ﷺ نے ان کو دونوں قبروں پر گاڑ دیا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہو جائیں اس وقت تک اﷲ تعالیٰ ان کے عذاب میں تخفیف کر دے گا۔'' (بخاری و مسلم)

عالمِ برزخ میں نیک مسلمان مرحومین کو اپنے رشتے داروں کے انتقال کی ناصرف یہ کہ خبر ملتی ہے، بل کہ ان سے ملاقات بھی ہوتی ہے۔ اس بات کی وضاحت مندرجہ بالا حدیث سے ہوتی ہے، حضرت ابُو ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: جب مومن کی روح قبض کی جاتی ہے، تو خدا کے مرحوم بندے (جن کا پہلے انتقال ہو گیا تھا) اس سے آگے بڑھ کر اس طرح ملتے ہیں، جیسے دنیا میں کسی خوش خبری لانے والے سے ملا کرتے ہیں، پھر (ان میں سے بعض) کہتے ہیں: ذرا اس کو مہلت دو کہ دم لے لے، کیوں کہ یہ (دنیا میں) بڑے کرب میں تھا، اس کے بعد اس سے پوچھنا شروع کرتے ہیں کہ فلاں شخص کا کیا حال ہے؟ کیا اس نے نکاح کرلیا ہے؟ پھر اگر ایسے شخص کا حال پوچھتے ہیں، جو اس شخص سے پہلے مر چکا ہے، اور اس نے کہہ دیا کہ وہ تو مجھ سے پہلے مر چکا ہے، تو ''اناﷲ وانا الیہ راجعون'' پڑھ کر کہتے ہیں کہ بس اس کو اس کے ٹھکانے یعنی دوزخ طرف لے جایا گیا ہے، وہ تو جانے کی بھی بُری جگہ ہے، اور رہنے کی بھی بُری جگہ ہے۔


آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے اعمال تمہارے ان رشتے داروں اور خاندان والوں کے سامنے، جو آخرت (عالم برزخ) میں ہیں، پیش کیے جاتے ہیں، اگر نیک عمل ہو، تو وہ خوش اور بشاش ہوتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اے اﷲ! آپ کا فضل اور رحمت ہے، پس اپنی یہ نعمت اس پر پوری کیجیے، اور اسی پر اس کو موت دیجیے، اور ان پر گناہ گار شخص کا عمل بھی پیش ہوتا ہے، تو کہتے ہیں کہ اے اﷲ! اس کے دل میں نیکی ڈال دے، جو تیری رضا اور قرب کا سبب ہو جائے۔ (طبرانی)

شہداء کے متعلق 'سورہ البقرہ' اور 'آلعمران' میں دو مختلف احکام فرما کر اس بات سے آگاہ کیا گیا ہے۔

''اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بل کہ وہ زندہ ہیں ہاں! تمہیں خبر نہیں۔''

''اور جو اﷲ کی راہ میں مارے گئے ہرگز انہیں مردہ نہ خیال کرنا بل کہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں۔''

یعنی سورۃ البقرہ میں کہا گیا کہ ان کو مردہ نہ کہنا اور آل عمران میں کہا گیا کہ ان کو مردہ نہ سمجھنا بل کہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کی بارگاہ سے رزق کو پاتے ہیں۔

اﷲ رب العزت نے ان شہداء کے متعلق مزید فرمایا، مفہوم:

''شاد ہیں اس پر جو اﷲ نے انہیں اپنے فضل سے دیا اور خوشیاں منارہے ہیں اپنے پچھلوں کی جو ابھی ان سے نہ ملے کہ ان پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ کچھ غم۔'' (آلعمران)

یعنی شہداء اپنی قبور میں اﷲ تعالیٰ کے عطا کیے ہوئے انعام ''نہ کچھ اندیشہ اور نہ غم'' پہ خوشیاں مناتے ہیں کیوں کہ اﷲ تعالیٰ کبھی بھی مومنین کے اجر کو ضایع نہیں فرماتا۔

حضرت ابُوہریرہؓ کی روایت میں ہے کہ جب منکر نکیر اِس میت سے پوچھتے ہیں: ''تو اس عظیم شخص ( نبی کریم ﷺ کے بارے میں کیا کہا کرتا تھا ؟ وہ کہتا ہے: ''وہ اﷲ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بے شک! حضرت محمد (ﷺ) اﷲ کے (خاص) بندے اور رسول ہیں۔'' پھر اس کی قبر کو ستّر ستّر گز طولاً عرضاً وسیع کر دیا جاتا ہے۔ پھر اُس کے لیے اس میں نور بھر دیا جاتا ہے پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ (آرام سے) سو جا پس وہ کہتا ہے میں واپس جا کر اپنے گھر والوں کو بتا آؤں۔ وہ فرشتے کہتے ہیں: سو جا! دلہن کی طرح سوجا جس کو گھر والوں میں سے محبوب ترین شخص ہی اٹھاتا ہے۔'' (سنن ترمذی)

جب بندۂ مومن اپنی قبر میں جاتا ہے تو وہاں وہ عذاب کا سامنا نہیں کرتا بل کہ اس کے لیے قبر کی رات شبِ عروس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو اﷲ کے نیک بندے ہیں، موت ان کے لیے اﷲ کے قرب کا ذریعہ ہے۔

موت کو سمجھے ہے غافل اختتامِ زندگی

ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگی
Load Next Story