غزوۂ احد ایک معرکۂ عظیم
رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’احد ہم کو محبوب رکھتا ہے اور ہم احد کو۔‘‘
غزوۂ بدر کے اگلے ہی سال شوال المکرم 3 ہجری میں یہ غزوہ وقوع پذیر ہُوا اور اسے غزوۂ احد کے نام سے موسوم کیا گیا۔
غزوہ کے معنی وہ جنگ جس میں حضور ﷺ نے بہ نفس نفیس شرکت فرمائی ہو اور ''احد'' ایک پہاڑ کا نام ہے جو مدینہ سے دو میل بعض جگہ تین میل لکھا ہے کہ فاصلہ پر ہے۔
اس مقدس پہاڑ کا ذکر قرآن اور حدیث میں موجود ہے۔ چناں چہ قرآن میں سورۂ آلعمران میں جہاں غزوہ احد کا ذکر آیا ہے وہاں اس کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے اور حدیث کا مفہوم ہے: ''احد ہم کو محبوب رکھتا ہے اور ہم احد کو۔''
ایک دوسری حدیث کا مفہوم ہے: ''تم جب جبل احد پر آؤ تو اس کے درخت کے پھل ضرور کھاؤ اگرچہ درخت خاردار ہی ہو۔'' محدثین فرماتے ہیں کہ احد پہاڑ کے درختوں سے کچھ کھا لینا مستحب ہے۔ یہ پہاڑ آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے سورج کی کرنیں جب اس کے پتھر اور ذرات پر پڑتی ہیں تو وہ سرخی مائل دکھائی دیتے ہیں۔
معرکہ بدر میں کفار مکہ کو شکست کی عزیمت کا سامان کرنا پڑا تھا جس میں انہیں زبردست مالی و جانیں نقصان ہُوا تھا۔ انتقام کی آگ ان کے سینوں میں بھڑک رہی تھی وہ ہر قیمت پر مسلمانوں سے بدلہ لینا چاہتے تھے وہ اس کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ کسی طرح لڑائی کے انتظامات مکمل کر لیے جائیں انہوں نے خاص طور پر تجارتی طبقے سے مالی اعانت کی درخواست کی تھی کہ کسی بھی طرح سامان حرب خرید لیا جائے۔
چناں چہ 3 ہجری شوال کے مہینے میں مدینے کے مسلمانوں اور کفار مکہ کے درمیان یہ معرکۂ حق و باطل ظہور پذیر ہُوا۔ یہ معرکہ اپنی تفصیلات و جزئیات میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس غزوہ کی مکمل تفصیل کتب حدیث و سیرت اور تفاسیر قرآن میں مکمل طور پر مذکور ہیں تاہم اس مضمون میں ان کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔ جس کی بناء پر یہ عظیم معرکہ رونما ہُوا۔
اسباب: غزوۂ بدر میں کفار مکہ کے ستّر افراد جہنم واصل ہو ئے تھے ان میں ان کا سردار اور اسلام کا سب سے بڑا دشمن ابوجہل بھی تھا، اس لیے انتقام ایک فطری عمل تھا اور ویسے بھی عرب اس وقت مقتولین کا بدلہ لیا کرتے تھے اس لیے اس انتظام کو انہوں نے اپنے پر فرض عین جانا۔ بدر کے اُن ستّر مقتولین کے لیے ابوسفیان نے منت مانی تھی کہ جب تک ان مقتولین کا بدلہ نہ لے لوں گا غسل نہ کروں گا۔
بالوں میں تیل نہیں لگاؤں گا اور نہ ہی کپڑے بدلوں گا۔ اس جنگ کا بنیادی سبب بھی کفر و اسلام کی باہمی رنجش تھا قریش مکہ قریش اسلام کو صفحۂ ہستی سے نیست و نابود کرنے کے عزائم رکھتے تھے اس لیے وہ مدینہ کے مسلمانوں سے نبردآزما ہوئے۔ ستّر افراد کے مارے جانے کی وجہ سے مکہ کے ہر گھر اور ہر خاندان میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی اور انتقامی آگ ہر سینے میں بھڑک رہی تھی چناں چہ یہی انتقامی چنگاری غزوۂ احد کا سبب بھی بنی۔
(بہ حوالہ: تاریخ اسلام)
محمد بن اسحاق سے منقول ہے: ''اﷲ تعالیٰ نے غزوۂ احد کی شان میں قرآن حکیم کی سورہ آل عمران میں ساٹھ آیتیں نازل فرمائی ہیں۔ اور ابن ابی حاتم نے بہ طریق مسور بن مخرمہ روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے عرض کیا: ''آپ غزوہ احد کا اپنا قصہ بیان فرمائیں۔'' انہوں نے فرمایا: ''تم سورہ آل عمران کی آیات 121تا153تک پڑھ لو تم کو سارا واقعہ معلوم ہو جائے گا۔ ''
ابتدائی آیات کا مفہوم: ''اور جب کہ تم صبح سویرے اپنے گھر سے نکلے تھے (احد کے میدان میں) لڑائی کے لیے مورچوں پر مسلمانوں کو بٹھا رہے تھے اور اﷲ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ پھر جب ایسا ہُوا تھا کہ تم میں سے دو جماعتوں نے ارادہ کیا تھا کہ ہمت ہار دیں حالاں کہ اﷲ مددگار تھا اور جو ایمان رکھنے والے ہیں ان کو چاہیے کہ ہر حال میں اﷲ پر بھروسا رکھیں۔ اور دیکھو! ہمت نہ ہارو اور نہ ہی غمگین ہو، تم ہی سب سے برتر اور اعلیٰ ہو بہ شرط یہ کہ تم سچے مومن ہو، اگر تم نے (احد میں) زخم اٹھایا ہے تو دوسروں کو بھی (بدر میں) ویسے ہی زخم لگے ہیں دراصل یہ (ہار جیت) کے اوقات ہیں جنہیں ہم انسانوں میں ادھر ادھر پھراتے رہتے ہیں، علاوہ بریں یہ اس لیے تھا تاکہ اس بات کی آزمائش ہو جائے کون سچا ایمان رکھنے والا ہے کون نہیں، اور اس لیے کہ تم میں سے ایک گروہ کو شاہد حال بنادے اور یہ ظاہر ہے اﷲ ظلم کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔'' (سورہ آل عمران)
حضورؐ کو جب ابُوسفیان کی تیاری کا علم ہوا تو صحابہ کرامؓ سے مشورہ فرمایا ۔ عمر رسیدہ اور تجربہ کار صحابہ ؓنے مشورہ دیا کہ ہم مدینہ کے اندر رہتے ہوئے دشمن کا مقابلہ کریں گے ہمارے اس طرز عمل سے دشمن کو یہ جرأت ہی نہیں ہوگی کہ وہ مدینہ پر حملہ آور ہو اور اگر اس نے پھر بھی حملہ کیا تو شکست فاش کھا کر راہ فرار اختیار کرے گا۔ یہی رائے عبداﷲ بن ابی کی بھی تھی جو غزوۂ بدر کے بعد اسلام لایا تھا اور اب منافقوں کا سردار تھا۔
دوسری رائے دینے والوں میں وہ اصحاب بھی شامل تھے جو کسی وجہ سے جنگ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے اور کچھ ایسے نوجوان بھی شامل تھے جو جنگی عزائم سے سرشار تھے اب ان کی اکثریتی رائے ہوگئی تھی جو یہ تھی کہ مدینہ سے باہر نکل کر دشمنان اسلام کا مقابلہ کیا جائے۔ حضورؐ نے جب اکثریت کا یہ رحجان پایا تو صاد فرما کر حجرہ مبارک میں تشریف لے گئے۔
تجربہ کار اور اکابر صحابہ نے اصاغر کو ان کی رائے پر ملامت کی کہ انہوں نے نبی اکرمؐ کے رحجان کے خلاف اپنی آزادانہ رائے سے آپؐ کو پریشان کیا۔ چناں چہ جب آپؐ حجرے سے باہر تشریف لائے تو ان نوجوانوں نے آپؐ سے اظہار ندامت کیا اور عرض کیا کہ آپؐ مدینے میں رہ کر ہی دشمن کا مقابلہ کریں۔ یہ سن کر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ یہ ''نبی کی شان کے خلاف ہے کہ جب خدا کی راہ میں ہتھیار سجا کر تیار ہوجائے تو پھر معرکہ حق و باطل کے بغیر ہی ان کو اتار دے اب خدا کا نام لے کر میدان میں نکلو۔'' حضورؐ اپنے ساتھ 1000کا لشکر لے کر مدینہ سے نکلے عبداﷲ بن ابی جو دل سے اسلام نہ لایا تھا راستہ ہی سے اپنے تین سو افراد لے کر نکل گیا کہ حضور ؐ نے میری رائے پر نوجوانوں کی رائے کو سبقت دی ہے۔ اس لیے ہم اپنی جانوں کو کیوں ہلاکت میں ڈالیں۔
منافقین کے اس عمل سے مسلمانوں کو وقتی طور پر ایک دھچکا تو ضرور لگا مگر ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی اور ان کے شو ق جہاد کو دو آتشہ کرکے منافقین کے مقاصد کو سبوتاژ کردیا۔ دوسری جانب ابُوسفیان کی قیادت میں تین ہزار کا لشکر ہتھیار سے لیس کم زور اور ناتواں مسلمانوں کے مقابلے پر نکلا، اس لشکر جرار کے ساتھ20 مرثیہ گانے والی عورتیں بھی دف بجا کر اپنے بدر کے مقتولین کی موت پر اشعار گا کر کہ فوج کے حوصلہ کو بلند کر رہی تھیں۔ مسلمان نوجوان اور بچوں کا جذبہ قابل دید اور تحسین تھا۔ جب مدینہ سے باہر نکل کر حضورؐ نے فوج کا ایک مرتبہ پھر جائزہ لیا لشکر اسلام میں 700 افراد میں صغیرالسن بھی تھے۔
آپؐ نے ان لڑکوں کو واپسی کا حکم دیا تو رافع نے جو خدیج کے بیٹے تھے پنجوں کے بل کھڑے ہو کر اپنی دراز قدی کا ثبت پیش کرکے جنگ میں شامل رہنے کا جواز فراہم کیا اور جب سمرہ بن جندب کو صغیر سن شمار کیا تو وہ رونے لگے اور عرض کیا: یا رسول اﷲ ﷺ! اگر رافع شریک جنگ ہو رہا ہے تو مجھے کیوں جنگ سے خارج کیا جا رہا ہے جب کہ میں کشتی میں رافع کو پچھاڑ سکتا ہوں۔ اس طرح ان دونوں کی کشتی کروائی گئی اور سمرہ نے رافع کو پچھاڑ کر جنگ میں شریک ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ اسی جنگ میں مسلمانوں کے دو قبیلے بنو سلمہ اور بنو حارث میں کچھ بددلی سی پیدا ہوگئی تھی مگر مسلمانوں کے اس جوش اور ولولے کو دیکھ کر ان کی ہمت اور عزائم بلند ہوگئے۔
7 شوال کو مسلمانوں کا لشکر شوق جہاد اور ولولہ انگیز قیادت میں احد پہنچا اور دونوں صفیں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوگئیں۔ آپؐ نے پچاس تیر اندازوں کا ایک دستہ حضرت عبداﷲ ابن جبیرؓ کی قیادت میں پہاڑ کی گھاٹی پر متعین کیا ا ور حکم دیا کہ فتح و شکست ہر حال میں اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ تاکہ پشت سے کوئی حملہ نہ کرسکے۔ اور اپنی تلوار حضرت ابُودجانہ ؓ کو مرحمت فرمائی۔
قریش کی تین ہزار تعداد میں دو سو سوار تھے ان کے میمنہ پر خالد بن ولید اور میسرہ پر عکرمہ بن ابوجہل تھے۔ سواروں کے دستہ پر عبداﷲ بن ربیعہ کو متعین کیا گیا تھا۔ جوانب سے حملہ کا آغاز ہُوا مسلمانوں نے بڑی جرأت کے ساتھ دشمنوں پر یلغار کی، حضرت حمزہؓ حضورؐ کے چچا اور دودھ شریک بھائی تھے انہوں نے ابودجانہؓ اور شیبہؓ کے ساتھ بہادری کے جوہر دکھائے اور دشمنوں کی صفوں میں گھس کر انہیں پسپا ہونے پر مجبور کر دیا اس دوران یہ تینوں افراد شہید ہو چکے تھے۔ انصار نے بھی خوب جم کر مقابلہ کیا اور چند نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔
کفار بھاگنے لگے تو مسلمانوں کا تیرانداز دستہ مال غنیمت سمیٹنے کے لیے دوڑا تو حضرت عبداﷲ بن جبیرؓ نے انہیں منع کیا کہ حضورؐ نے فرمایا تھا کہ اپنی جگہ سے نہ ہٹنا مگر وہ فتح کے جذبہ سے سرشار آگے بڑھ کر مال غنیمت سمیٹتے رہے۔ خالد بن ولید نے جب مسلمانوں کی یہ حالت دیکھی تو پشت کی جانب سے ڈھائی میل کا چکر کاٹتے ہوئے اپنے دستے کو لائے اور مسلمانوں پر بھرپور حملہ کردیا جس سے مسلمانوں میں پژمردگی پھیل گئی اور مسلمانوں کی فتح شکست میں تبدیل ہونے لگی، اس موقع پر مسلمانوں پر اس شدت سے تیر انداز ی ہوئی کہ مسلمانوں میں ابتری پھیل گئی حضرت مصعب بن عمیرؓ نے مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اس دوران دشمن نے سنگ باری شروع کردی۔
روایت میں آتا ہے کہ عمرو بن قمیّہ کا پھینکا ہُوا ایک پتھر حضورؐ کے چہرہ انور پر لگا جس سے آپؐ کے دائیں طرف نیچے کا ایک دانت شہید ہوگیا اس دوران حنظلہؓ نے ابُوسفیان پر حملہ کیا لیکن شداد بن اسود نے پلٹ کر وار کیا جس سے آپؓ موقع پر شہید ہوگئے۔ دشمن کے اس حملہ کے وقت حضرات ابوبکرؓ ، عمرؓ، علیؓ، طلحہ ؓ، زبیرؓ جیسے فدا کا ر ڈھال کی شکل میں آپؐ کی حفاظت کر رہے تھے لیکن پتھراؤ اتنا شدید تھا کہ حصار ٹوٹ گیا اور آپؐ ایک گڑھے میں گرتے ہوئے بچے، حضرت علیؓ اور حضرت طلحہؓ نے بروقت سنبھالا۔ گرنے کی وجہ سے خؤد سر میں گھس گیا اور زرہ کی کڑیوں سے چہرہ مبارک اور بازو پر بھی ہلکے زخم آئے۔
مالک بن سنانؓ اور ابوعبیدہ ؓ نے زخموں کو صاف کیا۔ دشمنوں کی جانب سے مسلمانوں پر مسلسل تیراندازی ہو رہی تھی، حضرت طلحہؓ حضور ﷺ کی جانب آنے والا تیر اپنی ڈھال پر روکتے رہے کہ ناگہاں آپؓ کے ہاتھ سے ڈھال گر پڑی اسے اٹھانے کا موقع بھی نہ ملا آپؓ وہ تیر اپنے بازو پر روکتے رہے جس سے آپؓ کا یہ ہاتھ شل ہوگیا پھر یہ ہاتھ سوکھ کر ہمیشہ کے لیے نا کارہ ہوگیا تھا، آپؓ اس ہاتھ پر بڑا فخر کرتے تھے کہ غزوۂ احد میں اس ہاتھ سے حضورؐ کی حفاظت کی تھی۔
ایک اور واقعہ یہ کہ حضرت ابوطلحہؓ انصاری نے جو خود بھی بڑے تیرانداز تھے حضور ؐ کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے اور ایک بھی تیر حضورؐ کی طرف نہیں آنے دیا۔ آپؐ نے کفار کی جمعیت دیکھنے کے لیے ڈھال کے پیچھے سے ذرا گردن اٹھا کر دیکھنا چاہا تو ابوطلحہ ؓ انصاری نے ان الفاظ سے روکا: ''میرے ماں باپ آپؐ پر قربان آپ گردن اٹھا کر نہ دیکھیے کہیں کوئی تیر آپؐ کو نہ لگ جائے میرا گلہ آپؐ کے گلے سے پہلے ہے۔ ''
احد کے میدان میں70 اکابر صحابہ ؓ نے شہادت پائی جن میں حضرت حمزہؓ آپؐ کے عزیز چچا تھے اور عبداﷲ بن جحش یاسرؓ اور ابودجانہؓ جیسے اکابرین شامل تھے۔ غرض مدینہ کے ہر گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی اس موقع پر بھی عبداﷲ ابن ابی سردار منافقین نے گھر گھر جا کر حضورؐ اور اس معرکہ سے متعلق زہرافشانی کی، وہ کہہ رہا تھا کہ اوس اور خزرج کا کیسا بھاری نقصان ہُوا ہے ہماری طرح لوٹ آتے تو یہ مالی اور جانیں نقصان نہ ہوتا۔
شیدائیان رسولؐ اور جذبۂ شہادت سے سر شار شمع رسالت کے پروانوں نے ایسا منہ توڑ جواب منافقین کو دیا کہ وہ ایسی شکستہ حالت میں مشرکین مکہ کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد،ؔ رسول رحمت ﷺ میں لکھتے ہیں: حضورؐ نے اپنے زخمی صحابہؓ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ''مسلمانوں ہمارا دشمن میدان سے بھاگ کھڑا ہُوا ہے ہم ان کے تعاقب میں جائیں گے اور دیکھو! اس مہم میں صرف اسی شخص کو شرکت کا حق ہوگا جو احد کے میدان میں ہمارے ساتھ تھا۔ تمام مجروحین نے ایک آواز ہو کر کہا: لبیک یارسول اﷲ ﷺ! ہم حاضر ہیں۔''
لوگوں نے اپنے زخموں پر پٹیاں باندھیں اپنے ہتھیار درست کیے اپنے شہداء کے غم کا پتھر دل پر رکھا اور رسول اﷲ ﷺ کے پیچھے ہولیے مدینہ سے آٹھ میل تک اسی حالت میں مشرکین مکہ کا پیچھا کرتے رہے کہ پٹیوں کی وجہ سے اکثر کی شناخت بھی مشکل ہو رہی تھی تاکہ دنیا دیکھ لے کہ مسلمانوں نے اپنے نبیؐ کی قیادت میں کسی غزوہ میں نقصان بھلے ہی اٹھایا لیکن شکست نہیں کھائی۔ یہ غزوہ احد مشرکین مکہ سے دوسری اور آخری معرکہ آرائی نہ تھی بل کہ یہ ایک اور بڑی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی جس میں اور دیگر قبائل نے بھی حصہ لیا۔
غزوہ کے معنی وہ جنگ جس میں حضور ﷺ نے بہ نفس نفیس شرکت فرمائی ہو اور ''احد'' ایک پہاڑ کا نام ہے جو مدینہ سے دو میل بعض جگہ تین میل لکھا ہے کہ فاصلہ پر ہے۔
اس مقدس پہاڑ کا ذکر قرآن اور حدیث میں موجود ہے۔ چناں چہ قرآن میں سورۂ آلعمران میں جہاں غزوہ احد کا ذکر آیا ہے وہاں اس کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے اور حدیث کا مفہوم ہے: ''احد ہم کو محبوب رکھتا ہے اور ہم احد کو۔''
ایک دوسری حدیث کا مفہوم ہے: ''تم جب جبل احد پر آؤ تو اس کے درخت کے پھل ضرور کھاؤ اگرچہ درخت خاردار ہی ہو۔'' محدثین فرماتے ہیں کہ احد پہاڑ کے درختوں سے کچھ کھا لینا مستحب ہے۔ یہ پہاڑ آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے سورج کی کرنیں جب اس کے پتھر اور ذرات پر پڑتی ہیں تو وہ سرخی مائل دکھائی دیتے ہیں۔
معرکہ بدر میں کفار مکہ کو شکست کی عزیمت کا سامان کرنا پڑا تھا جس میں انہیں زبردست مالی و جانیں نقصان ہُوا تھا۔ انتقام کی آگ ان کے سینوں میں بھڑک رہی تھی وہ ہر قیمت پر مسلمانوں سے بدلہ لینا چاہتے تھے وہ اس کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ کسی طرح لڑائی کے انتظامات مکمل کر لیے جائیں انہوں نے خاص طور پر تجارتی طبقے سے مالی اعانت کی درخواست کی تھی کہ کسی بھی طرح سامان حرب خرید لیا جائے۔
چناں چہ 3 ہجری شوال کے مہینے میں مدینے کے مسلمانوں اور کفار مکہ کے درمیان یہ معرکۂ حق و باطل ظہور پذیر ہُوا۔ یہ معرکہ اپنی تفصیلات و جزئیات میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس غزوہ کی مکمل تفصیل کتب حدیث و سیرت اور تفاسیر قرآن میں مکمل طور پر مذکور ہیں تاہم اس مضمون میں ان کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔ جس کی بناء پر یہ عظیم معرکہ رونما ہُوا۔
اسباب: غزوۂ بدر میں کفار مکہ کے ستّر افراد جہنم واصل ہو ئے تھے ان میں ان کا سردار اور اسلام کا سب سے بڑا دشمن ابوجہل بھی تھا، اس لیے انتقام ایک فطری عمل تھا اور ویسے بھی عرب اس وقت مقتولین کا بدلہ لیا کرتے تھے اس لیے اس انتظام کو انہوں نے اپنے پر فرض عین جانا۔ بدر کے اُن ستّر مقتولین کے لیے ابوسفیان نے منت مانی تھی کہ جب تک ان مقتولین کا بدلہ نہ لے لوں گا غسل نہ کروں گا۔
بالوں میں تیل نہیں لگاؤں گا اور نہ ہی کپڑے بدلوں گا۔ اس جنگ کا بنیادی سبب بھی کفر و اسلام کی باہمی رنجش تھا قریش مکہ قریش اسلام کو صفحۂ ہستی سے نیست و نابود کرنے کے عزائم رکھتے تھے اس لیے وہ مدینہ کے مسلمانوں سے نبردآزما ہوئے۔ ستّر افراد کے مارے جانے کی وجہ سے مکہ کے ہر گھر اور ہر خاندان میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی اور انتقامی آگ ہر سینے میں بھڑک رہی تھی چناں چہ یہی انتقامی چنگاری غزوۂ احد کا سبب بھی بنی۔
(بہ حوالہ: تاریخ اسلام)
محمد بن اسحاق سے منقول ہے: ''اﷲ تعالیٰ نے غزوۂ احد کی شان میں قرآن حکیم کی سورہ آل عمران میں ساٹھ آیتیں نازل فرمائی ہیں۔ اور ابن ابی حاتم نے بہ طریق مسور بن مخرمہ روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے عرض کیا: ''آپ غزوہ احد کا اپنا قصہ بیان فرمائیں۔'' انہوں نے فرمایا: ''تم سورہ آل عمران کی آیات 121تا153تک پڑھ لو تم کو سارا واقعہ معلوم ہو جائے گا۔ ''
ابتدائی آیات کا مفہوم: ''اور جب کہ تم صبح سویرے اپنے گھر سے نکلے تھے (احد کے میدان میں) لڑائی کے لیے مورچوں پر مسلمانوں کو بٹھا رہے تھے اور اﷲ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ پھر جب ایسا ہُوا تھا کہ تم میں سے دو جماعتوں نے ارادہ کیا تھا کہ ہمت ہار دیں حالاں کہ اﷲ مددگار تھا اور جو ایمان رکھنے والے ہیں ان کو چاہیے کہ ہر حال میں اﷲ پر بھروسا رکھیں۔ اور دیکھو! ہمت نہ ہارو اور نہ ہی غمگین ہو، تم ہی سب سے برتر اور اعلیٰ ہو بہ شرط یہ کہ تم سچے مومن ہو، اگر تم نے (احد میں) زخم اٹھایا ہے تو دوسروں کو بھی (بدر میں) ویسے ہی زخم لگے ہیں دراصل یہ (ہار جیت) کے اوقات ہیں جنہیں ہم انسانوں میں ادھر ادھر پھراتے رہتے ہیں، علاوہ بریں یہ اس لیے تھا تاکہ اس بات کی آزمائش ہو جائے کون سچا ایمان رکھنے والا ہے کون نہیں، اور اس لیے کہ تم میں سے ایک گروہ کو شاہد حال بنادے اور یہ ظاہر ہے اﷲ ظلم کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔'' (سورہ آل عمران)
حضورؐ کو جب ابُوسفیان کی تیاری کا علم ہوا تو صحابہ کرامؓ سے مشورہ فرمایا ۔ عمر رسیدہ اور تجربہ کار صحابہ ؓنے مشورہ دیا کہ ہم مدینہ کے اندر رہتے ہوئے دشمن کا مقابلہ کریں گے ہمارے اس طرز عمل سے دشمن کو یہ جرأت ہی نہیں ہوگی کہ وہ مدینہ پر حملہ آور ہو اور اگر اس نے پھر بھی حملہ کیا تو شکست فاش کھا کر راہ فرار اختیار کرے گا۔ یہی رائے عبداﷲ بن ابی کی بھی تھی جو غزوۂ بدر کے بعد اسلام لایا تھا اور اب منافقوں کا سردار تھا۔
دوسری رائے دینے والوں میں وہ اصحاب بھی شامل تھے جو کسی وجہ سے جنگ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے اور کچھ ایسے نوجوان بھی شامل تھے جو جنگی عزائم سے سرشار تھے اب ان کی اکثریتی رائے ہوگئی تھی جو یہ تھی کہ مدینہ سے باہر نکل کر دشمنان اسلام کا مقابلہ کیا جائے۔ حضورؐ نے جب اکثریت کا یہ رحجان پایا تو صاد فرما کر حجرہ مبارک میں تشریف لے گئے۔
تجربہ کار اور اکابر صحابہ نے اصاغر کو ان کی رائے پر ملامت کی کہ انہوں نے نبی اکرمؐ کے رحجان کے خلاف اپنی آزادانہ رائے سے آپؐ کو پریشان کیا۔ چناں چہ جب آپؐ حجرے سے باہر تشریف لائے تو ان نوجوانوں نے آپؐ سے اظہار ندامت کیا اور عرض کیا کہ آپؐ مدینے میں رہ کر ہی دشمن کا مقابلہ کریں۔ یہ سن کر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ یہ ''نبی کی شان کے خلاف ہے کہ جب خدا کی راہ میں ہتھیار سجا کر تیار ہوجائے تو پھر معرکہ حق و باطل کے بغیر ہی ان کو اتار دے اب خدا کا نام لے کر میدان میں نکلو۔'' حضورؐ اپنے ساتھ 1000کا لشکر لے کر مدینہ سے نکلے عبداﷲ بن ابی جو دل سے اسلام نہ لایا تھا راستہ ہی سے اپنے تین سو افراد لے کر نکل گیا کہ حضور ؐ نے میری رائے پر نوجوانوں کی رائے کو سبقت دی ہے۔ اس لیے ہم اپنی جانوں کو کیوں ہلاکت میں ڈالیں۔
منافقین کے اس عمل سے مسلمانوں کو وقتی طور پر ایک دھچکا تو ضرور لگا مگر ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی اور ان کے شو ق جہاد کو دو آتشہ کرکے منافقین کے مقاصد کو سبوتاژ کردیا۔ دوسری جانب ابُوسفیان کی قیادت میں تین ہزار کا لشکر ہتھیار سے لیس کم زور اور ناتواں مسلمانوں کے مقابلے پر نکلا، اس لشکر جرار کے ساتھ20 مرثیہ گانے والی عورتیں بھی دف بجا کر اپنے بدر کے مقتولین کی موت پر اشعار گا کر کہ فوج کے حوصلہ کو بلند کر رہی تھیں۔ مسلمان نوجوان اور بچوں کا جذبہ قابل دید اور تحسین تھا۔ جب مدینہ سے باہر نکل کر حضورؐ نے فوج کا ایک مرتبہ پھر جائزہ لیا لشکر اسلام میں 700 افراد میں صغیرالسن بھی تھے۔
آپؐ نے ان لڑکوں کو واپسی کا حکم دیا تو رافع نے جو خدیج کے بیٹے تھے پنجوں کے بل کھڑے ہو کر اپنی دراز قدی کا ثبت پیش کرکے جنگ میں شامل رہنے کا جواز فراہم کیا اور جب سمرہ بن جندب کو صغیر سن شمار کیا تو وہ رونے لگے اور عرض کیا: یا رسول اﷲ ﷺ! اگر رافع شریک جنگ ہو رہا ہے تو مجھے کیوں جنگ سے خارج کیا جا رہا ہے جب کہ میں کشتی میں رافع کو پچھاڑ سکتا ہوں۔ اس طرح ان دونوں کی کشتی کروائی گئی اور سمرہ نے رافع کو پچھاڑ کر جنگ میں شریک ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ اسی جنگ میں مسلمانوں کے دو قبیلے بنو سلمہ اور بنو حارث میں کچھ بددلی سی پیدا ہوگئی تھی مگر مسلمانوں کے اس جوش اور ولولے کو دیکھ کر ان کی ہمت اور عزائم بلند ہوگئے۔
7 شوال کو مسلمانوں کا لشکر شوق جہاد اور ولولہ انگیز قیادت میں احد پہنچا اور دونوں صفیں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوگئیں۔ آپؐ نے پچاس تیر اندازوں کا ایک دستہ حضرت عبداﷲ ابن جبیرؓ کی قیادت میں پہاڑ کی گھاٹی پر متعین کیا ا ور حکم دیا کہ فتح و شکست ہر حال میں اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ تاکہ پشت سے کوئی حملہ نہ کرسکے۔ اور اپنی تلوار حضرت ابُودجانہ ؓ کو مرحمت فرمائی۔
قریش کی تین ہزار تعداد میں دو سو سوار تھے ان کے میمنہ پر خالد بن ولید اور میسرہ پر عکرمہ بن ابوجہل تھے۔ سواروں کے دستہ پر عبداﷲ بن ربیعہ کو متعین کیا گیا تھا۔ جوانب سے حملہ کا آغاز ہُوا مسلمانوں نے بڑی جرأت کے ساتھ دشمنوں پر یلغار کی، حضرت حمزہؓ حضورؐ کے چچا اور دودھ شریک بھائی تھے انہوں نے ابودجانہؓ اور شیبہؓ کے ساتھ بہادری کے جوہر دکھائے اور دشمنوں کی صفوں میں گھس کر انہیں پسپا ہونے پر مجبور کر دیا اس دوران یہ تینوں افراد شہید ہو چکے تھے۔ انصار نے بھی خوب جم کر مقابلہ کیا اور چند نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔
کفار بھاگنے لگے تو مسلمانوں کا تیرانداز دستہ مال غنیمت سمیٹنے کے لیے دوڑا تو حضرت عبداﷲ بن جبیرؓ نے انہیں منع کیا کہ حضورؐ نے فرمایا تھا کہ اپنی جگہ سے نہ ہٹنا مگر وہ فتح کے جذبہ سے سرشار آگے بڑھ کر مال غنیمت سمیٹتے رہے۔ خالد بن ولید نے جب مسلمانوں کی یہ حالت دیکھی تو پشت کی جانب سے ڈھائی میل کا چکر کاٹتے ہوئے اپنے دستے کو لائے اور مسلمانوں پر بھرپور حملہ کردیا جس سے مسلمانوں میں پژمردگی پھیل گئی اور مسلمانوں کی فتح شکست میں تبدیل ہونے لگی، اس موقع پر مسلمانوں پر اس شدت سے تیر انداز ی ہوئی کہ مسلمانوں میں ابتری پھیل گئی حضرت مصعب بن عمیرؓ نے مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اس دوران دشمن نے سنگ باری شروع کردی۔
روایت میں آتا ہے کہ عمرو بن قمیّہ کا پھینکا ہُوا ایک پتھر حضورؐ کے چہرہ انور پر لگا جس سے آپؐ کے دائیں طرف نیچے کا ایک دانت شہید ہوگیا اس دوران حنظلہؓ نے ابُوسفیان پر حملہ کیا لیکن شداد بن اسود نے پلٹ کر وار کیا جس سے آپؓ موقع پر شہید ہوگئے۔ دشمن کے اس حملہ کے وقت حضرات ابوبکرؓ ، عمرؓ، علیؓ، طلحہ ؓ، زبیرؓ جیسے فدا کا ر ڈھال کی شکل میں آپؐ کی حفاظت کر رہے تھے لیکن پتھراؤ اتنا شدید تھا کہ حصار ٹوٹ گیا اور آپؐ ایک گڑھے میں گرتے ہوئے بچے، حضرت علیؓ اور حضرت طلحہؓ نے بروقت سنبھالا۔ گرنے کی وجہ سے خؤد سر میں گھس گیا اور زرہ کی کڑیوں سے چہرہ مبارک اور بازو پر بھی ہلکے زخم آئے۔
مالک بن سنانؓ اور ابوعبیدہ ؓ نے زخموں کو صاف کیا۔ دشمنوں کی جانب سے مسلمانوں پر مسلسل تیراندازی ہو رہی تھی، حضرت طلحہؓ حضور ﷺ کی جانب آنے والا تیر اپنی ڈھال پر روکتے رہے کہ ناگہاں آپؓ کے ہاتھ سے ڈھال گر پڑی اسے اٹھانے کا موقع بھی نہ ملا آپؓ وہ تیر اپنے بازو پر روکتے رہے جس سے آپؓ کا یہ ہاتھ شل ہوگیا پھر یہ ہاتھ سوکھ کر ہمیشہ کے لیے نا کارہ ہوگیا تھا، آپؓ اس ہاتھ پر بڑا فخر کرتے تھے کہ غزوۂ احد میں اس ہاتھ سے حضورؐ کی حفاظت کی تھی۔
ایک اور واقعہ یہ کہ حضرت ابوطلحہؓ انصاری نے جو خود بھی بڑے تیرانداز تھے حضور ؐ کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے اور ایک بھی تیر حضورؐ کی طرف نہیں آنے دیا۔ آپؐ نے کفار کی جمعیت دیکھنے کے لیے ڈھال کے پیچھے سے ذرا گردن اٹھا کر دیکھنا چاہا تو ابوطلحہ ؓ انصاری نے ان الفاظ سے روکا: ''میرے ماں باپ آپؐ پر قربان آپ گردن اٹھا کر نہ دیکھیے کہیں کوئی تیر آپؐ کو نہ لگ جائے میرا گلہ آپؐ کے گلے سے پہلے ہے۔ ''
احد کے میدان میں70 اکابر صحابہ ؓ نے شہادت پائی جن میں حضرت حمزہؓ آپؐ کے عزیز چچا تھے اور عبداﷲ بن جحش یاسرؓ اور ابودجانہؓ جیسے اکابرین شامل تھے۔ غرض مدینہ کے ہر گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی اس موقع پر بھی عبداﷲ ابن ابی سردار منافقین نے گھر گھر جا کر حضورؐ اور اس معرکہ سے متعلق زہرافشانی کی، وہ کہہ رہا تھا کہ اوس اور خزرج کا کیسا بھاری نقصان ہُوا ہے ہماری طرح لوٹ آتے تو یہ مالی اور جانیں نقصان نہ ہوتا۔
شیدائیان رسولؐ اور جذبۂ شہادت سے سر شار شمع رسالت کے پروانوں نے ایسا منہ توڑ جواب منافقین کو دیا کہ وہ ایسی شکستہ حالت میں مشرکین مکہ کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد،ؔ رسول رحمت ﷺ میں لکھتے ہیں: حضورؐ نے اپنے زخمی صحابہؓ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ''مسلمانوں ہمارا دشمن میدان سے بھاگ کھڑا ہُوا ہے ہم ان کے تعاقب میں جائیں گے اور دیکھو! اس مہم میں صرف اسی شخص کو شرکت کا حق ہوگا جو احد کے میدان میں ہمارے ساتھ تھا۔ تمام مجروحین نے ایک آواز ہو کر کہا: لبیک یارسول اﷲ ﷺ! ہم حاضر ہیں۔''
لوگوں نے اپنے زخموں پر پٹیاں باندھیں اپنے ہتھیار درست کیے اپنے شہداء کے غم کا پتھر دل پر رکھا اور رسول اﷲ ﷺ کے پیچھے ہولیے مدینہ سے آٹھ میل تک اسی حالت میں مشرکین مکہ کا پیچھا کرتے رہے کہ پٹیوں کی وجہ سے اکثر کی شناخت بھی مشکل ہو رہی تھی تاکہ دنیا دیکھ لے کہ مسلمانوں نے اپنے نبیؐ کی قیادت میں کسی غزوہ میں نقصان بھلے ہی اٹھایا لیکن شکست نہیں کھائی۔ یہ غزوہ احد مشرکین مکہ سے دوسری اور آخری معرکہ آرائی نہ تھی بل کہ یہ ایک اور بڑی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی جس میں اور دیگر قبائل نے بھی حصہ لیا۔