پی ٹی آئی جلسہ سندھ ہائیکورٹ کی انتظامیہ کو اجازت نہ دینے کی معقول وجہ بتانے کی ہدایت
بات یہ ہے کہ آپ لوگوں نے انہیں جلسہ کرنے نہیں دینا اور یہی ان کا بھی گمان ہے، چیف جسٹس کے ریمارکس
تحریک انصاف کو 28 اپریل کو باغ جناح میں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں مل سکی، سندھ ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کی جلسے کی اجازت سے متعلق درخواست پر انتظامیہ کو اجازت نہ دینے کی معقول وجہ بتانے کی ہدایت کر دی۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس عقیل احمد عباسی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو پی ٹی آئی کی جلسے کی اجازت نہ ملنے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی۔
ڈپٹی کمشنر ضلع شرقی نے رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ جلسے کی اجازت سے انکار پولیس رپورٹ کی روشنی میں کیا گیا۔ پولیس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ شہر میں دہشتگردی کی واردات ہوچکی ہیں اور مزید دہشتگردی کے الرٹس ہیں، اس لیے عوامی اجتماعات کی اجازت نہ دی جائے۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے جلسہ کرنے کی اجازت دے دی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل راؤ سیف اللہ نے موقف دیا کہ دہشتگردی کے خطرات ہیں اور ایس ایس پی ایسٹ کی رپورٹ بھی آئی ہے، ملیر میں ایک دھماکا بھی ہو چکا ہے اور مزید تھریٹس بھی ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رپورٹ دیکھ کر مزہ نہیں آیا، بات یہ ہے کہ آپ لوگوں نے انہیں جلسہ کرنے نہیں دینا اور یہی ان کا بھی گمان ہے۔ کب تک یہ معاملات بہتر ہو جائیں گے اور آپ انہیں جلسے کی اجازت دیں گے؟
سرکاری وکیل نے موقف دیا کہ ایک مہینہ کا وقت بتایا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ابھی حال ہی میں شہر میں کوئی جلسہ ہوا ہے؟ بیرسٹر علی طاہر نے موقف اپنایا کہ 2 روز پہلے مرکزی مسلم لیگ نے شاہراہ قائدین پر جلسہ کیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ ہم نے کسی کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔
چیف جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس دیے کہ ان کو بھی بغیر اجازت جلسہ کرنے دیں، اللہ جانے یہ جانیں، آپ اپنے دفاتر میں بیٹھیں۔ آپ بتائیں اجازت کے بغیر جلسہ کرنے پر آپ نے کیا کارروائی کی، کیا ڈنڈے برسائے، رینجرز کا استعمال کیا۔ اپنے بڑوں سے بات کریں، اتنا ظلم نہ کریں، ہم آپ کا حصہ نہیں بن سکتے۔ اجازت نہ دینے کی کوئی معقول وجہ بتائیں تو ہم آپ کا ساتھ دیں۔ یہ نہ ہو کہ کل آپ معاملات کو سنبھال نہ سکیں۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ آپ لوگ بھی احتیاط کریں، یہ نہ ہو کہ کوئی واقعہ ہو جائے تو یہ آپ کے کھاتے میں ڈال دیں گے۔ ہم آپ کے حق میں آرڈر بھی کر دیں تو کل آپ کے لیے مسئلہ بن جائے گا۔ آپ بھی ضد نہ کریں اور ایک ہفتہ مزید دیکھ لیں۔ عدالت نے تحریک انصاف کی درخواست کی سماعت 6 مئی تک ملتوی کر دی۔
سماعت کے بعد گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ نے کہا کہ انتظامیہ کی جانب سے جلسے میں تاخیر کرائی جارہی ہے لیکن جلسہ ضرور ہوگا، یہ ہمارا آئینی حق ہے۔ عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں لینے والے ہی انہیں حقوق سے محروم کر رہے ہیں۔ سیکیورٹی فراہم کرنے کے ذمہ دار سیکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔
حلیم عادل شیخ نے کہا کہ حکومت سندھ اور دیگر اداروں کو اس کارکردگی پر شرم آنا چاہیے، ہم نے پہلے 21 مارچ کو درخواست جمع کرائی لیکن جلسے کی اجازت نہیں ملی، پھر ہم نے 3 اپریل کو درخواست دی لیکن ابھی تک اجازت نہیں ملی۔ 5 مئی کو تحفظ آئین مہم کا جلسہ ہے، پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت اور دیگر جماعتوں کے رہنما بھی شریک ہوں گے۔ ہم اجازت اس لیے لینا چاہتے ہیں کہ ہمارے جلسوں میں فیملیز شرکت کرتی ہیں۔ گزشتہ سماعت پر انتظامیہ نے موقف اختیار کیا تھا کہ جناح گراؤنڈ مزار قائد کا حصہ ہے۔
حلیم عادل شیخ نے کہا کہ مزار قائد کے تقدس کے پیش نظر سیاسی سرگرمیاں نہیں ہوسکتیں۔ جب وہ موقف ناکام ہوگیا تو دہشتگردی کے خطرات کا بہانہ کر رہے ہیں۔ ڈی سی، ایس ایس پی کیا اپنے دفتروں میں بیٹھ کر چھولے بیچ رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون اور انصاف اندھا ہوسکتا ہے، لیکن ججز اندھے نہیں۔ عدلیہ انتظامیہ کا ضمیر جگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بیوروکریسی کا ضمیر ٹرانسفر پوسٹنگ کے ساتھ منسلک ہے۔ عوام پر جوش اور جنون میں ہیں۔ حکومت سندھ، بلاول بھٹو، مراد علی شاہ کی کانپیں ٹانگ رہی ہیں۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس عقیل احمد عباسی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو پی ٹی آئی کی جلسے کی اجازت نہ ملنے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی۔
ڈپٹی کمشنر ضلع شرقی نے رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ جلسے کی اجازت سے انکار پولیس رپورٹ کی روشنی میں کیا گیا۔ پولیس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ شہر میں دہشتگردی کی واردات ہوچکی ہیں اور مزید دہشتگردی کے الرٹس ہیں، اس لیے عوامی اجتماعات کی اجازت نہ دی جائے۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے جلسہ کرنے کی اجازت دے دی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل راؤ سیف اللہ نے موقف دیا کہ دہشتگردی کے خطرات ہیں اور ایس ایس پی ایسٹ کی رپورٹ بھی آئی ہے، ملیر میں ایک دھماکا بھی ہو چکا ہے اور مزید تھریٹس بھی ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رپورٹ دیکھ کر مزہ نہیں آیا، بات یہ ہے کہ آپ لوگوں نے انہیں جلسہ کرنے نہیں دینا اور یہی ان کا بھی گمان ہے۔ کب تک یہ معاملات بہتر ہو جائیں گے اور آپ انہیں جلسے کی اجازت دیں گے؟
سرکاری وکیل نے موقف دیا کہ ایک مہینہ کا وقت بتایا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ابھی حال ہی میں شہر میں کوئی جلسہ ہوا ہے؟ بیرسٹر علی طاہر نے موقف اپنایا کہ 2 روز پہلے مرکزی مسلم لیگ نے شاہراہ قائدین پر جلسہ کیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ ہم نے کسی کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔
چیف جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس دیے کہ ان کو بھی بغیر اجازت جلسہ کرنے دیں، اللہ جانے یہ جانیں، آپ اپنے دفاتر میں بیٹھیں۔ آپ بتائیں اجازت کے بغیر جلسہ کرنے پر آپ نے کیا کارروائی کی، کیا ڈنڈے برسائے، رینجرز کا استعمال کیا۔ اپنے بڑوں سے بات کریں، اتنا ظلم نہ کریں، ہم آپ کا حصہ نہیں بن سکتے۔ اجازت نہ دینے کی کوئی معقول وجہ بتائیں تو ہم آپ کا ساتھ دیں۔ یہ نہ ہو کہ کل آپ معاملات کو سنبھال نہ سکیں۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ آپ لوگ بھی احتیاط کریں، یہ نہ ہو کہ کوئی واقعہ ہو جائے تو یہ آپ کے کھاتے میں ڈال دیں گے۔ ہم آپ کے حق میں آرڈر بھی کر دیں تو کل آپ کے لیے مسئلہ بن جائے گا۔ آپ بھی ضد نہ کریں اور ایک ہفتہ مزید دیکھ لیں۔ عدالت نے تحریک انصاف کی درخواست کی سماعت 6 مئی تک ملتوی کر دی۔
سماعت کے بعد گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ نے کہا کہ انتظامیہ کی جانب سے جلسے میں تاخیر کرائی جارہی ہے لیکن جلسہ ضرور ہوگا، یہ ہمارا آئینی حق ہے۔ عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں لینے والے ہی انہیں حقوق سے محروم کر رہے ہیں۔ سیکیورٹی فراہم کرنے کے ذمہ دار سیکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔
حلیم عادل شیخ نے کہا کہ حکومت سندھ اور دیگر اداروں کو اس کارکردگی پر شرم آنا چاہیے، ہم نے پہلے 21 مارچ کو درخواست جمع کرائی لیکن جلسے کی اجازت نہیں ملی، پھر ہم نے 3 اپریل کو درخواست دی لیکن ابھی تک اجازت نہیں ملی۔ 5 مئی کو تحفظ آئین مہم کا جلسہ ہے، پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت اور دیگر جماعتوں کے رہنما بھی شریک ہوں گے۔ ہم اجازت اس لیے لینا چاہتے ہیں کہ ہمارے جلسوں میں فیملیز شرکت کرتی ہیں۔ گزشتہ سماعت پر انتظامیہ نے موقف اختیار کیا تھا کہ جناح گراؤنڈ مزار قائد کا حصہ ہے۔
حلیم عادل شیخ نے کہا کہ مزار قائد کے تقدس کے پیش نظر سیاسی سرگرمیاں نہیں ہوسکتیں۔ جب وہ موقف ناکام ہوگیا تو دہشتگردی کے خطرات کا بہانہ کر رہے ہیں۔ ڈی سی، ایس ایس پی کیا اپنے دفتروں میں بیٹھ کر چھولے بیچ رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون اور انصاف اندھا ہوسکتا ہے، لیکن ججز اندھے نہیں۔ عدلیہ انتظامیہ کا ضمیر جگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بیوروکریسی کا ضمیر ٹرانسفر پوسٹنگ کے ساتھ منسلک ہے۔ عوام پر جوش اور جنون میں ہیں۔ حکومت سندھ، بلاول بھٹو، مراد علی شاہ کی کانپیں ٹانگ رہی ہیں۔