دہشت گردی اور اسمگلنگ معیشت کا نقصان


Editorial April 27, 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک و قوم کے لیے دی جانیوالی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی، دہشت گردی اور اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے پوری قوم یکسو ہے۔ اداروں سے مل کر اسمگلنگ کے ناسور کو جڑ سے ختم کیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے کسٹم آفیسر کی رہائش گاہ پر ان کے لواحقین سے گفتگو اور امدادی چیک پیش کرتے ہوئے کیا۔

بلاشبہ اسمگلنگ ملکی اقتصادیات کے لیے ناسور سے کم نہیں، اسمگلنگ کے ناسور نے ملکی معیشت کو بھاری نقصان پہنچایا ہے، لائق تحسین ہیں قانون نافذ کرنیوالے ادارے اور محکمہ کسٹم جن کے افسر و جوان اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کر رہے ہیں۔ اسمگل شدہ سامان کے بہاؤ کو روکنے کے لیے حکومتی اقدامات بہت اہم ہیں کیونکہ اسمگلنگ مقامی صنعت اور کاروبار کے لیے سنگین خطرہ ہے، سب سے بڑا خطرہ سرحد پار سے منشیات کی اسمگلنگ کا ہے۔

اسمگلنگ سے حاصل ہونے والا منافع دہشت گردی کے لیے سرمایہ فراہم کر رہا ہے۔ دہشت گرد گروہوں نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے کیونکہ یہ بہت سے جائز کاروباروں میں کامیاب رہتا ہے اور ہمارے بینکرز، تاجروں اور مقامی تاجروں نے اس کا غلط استعمال کیا ہے۔ ان گروہوں کو زیادہ تر آمدنی غیر قانونی ذرایع سے ہوتی ہے، یعنی بدعنوانی، ہتھیاروں اور منشیات کی اسمگلنگ ، جوا اور دیگر مجرمانہ سرگرمیاں۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک طویل سفر طے کیا ہے، مسلح افواج نے قوم کی حمایت سے ہر قسم کے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن کیا ہے۔

آرمی چیف نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ دہشت گردوں کی جانب سے اپنی بقا کے لیے کی جانے والی مایوس کن کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ مختلف فنڈنگ گروپس جیسے فلاحی تنظیمیں، این جی او اور دیگر نقدی معیشت کی وجہ سے بے حساب ہو جاتے ہیں اور ہمیں دہشت گردی کی مالی معاونت کا شکار بنا دیتے ہیں، جب کہ ہنڈی/حوالہ کا نظام پاکستان، بھارت اور مشرق وسطیٰ میں کئی دہائیوں سے قائم ہے۔ یہ اتنے لمبے عرصے سے دہشت گردی کی مالی معاونت سمیت ہر طرح کے کالے دھن کو لانڈرنگ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

تعلیمی اداروں کے نصاب پر بھی توجہ دی جانے چاہیے، کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جہاد افغانستان میں بہتر معاونت کے لیے خاص تعلیمی نصاب تشکیل دیا گیا ، تعلیمی نصاب ملک وقوم کی ترقی کے لیے ہونا چاہیے نہ کہ کسی عالمی ایجنڈے کا حصہ ہو۔بلوچستان میں تربت سے کوئٹہ جو گاڑیاں تیل لے کر آتی ہیں، ان سے حکام بھاری رشوت لیتے ہیں۔

اس میں ہر طرح کے سرکاری ادارے شامل ہیں ، لٰہذا یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ ایران کے ساتھ سرحدی غیرقانونی تجارت کئی عشروں سے چل رہی ہے، دراصل ممالک کے درمیان تجارت حکومتی سطح پر ہوتی ہے اور اس کی کسٹم ڈیوٹی اور دوسرے ٹیکسز لگتے ہیں۔ اس حوالے سے ایسا کچھ نہیں۔ تو یہ کیسے قانونی ہو سکتا ہے؟

افغان طالبان حکومت کے قیام کے بعد صورتحال سنگین ترین ہوچکی ہے، کیونکہ ہتھیار بند دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں افغانستان میں موجود ہیں اور افغان حکومت ان کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔ پاک افغان سرحد ڈھائی ہزار کلومیٹر سے زائد طویل ہے، پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود اس سرحد پر دوستانہ ماحول نہیں رہا۔ ناہموار سرحد کی وجہ سے دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوجاتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ اس سرحد سے غیر قانونی تجارت، آمدورفت اور اسمگلنگ عروج پر رہتی ہے۔

پاکستان کی ضیاء حکومت اور اس کے بعد ضیاء باقیات کی حکومت نے افغان مہاجرین کو پورے ملک میں ہر جگہ آنے جانے اور کاروبار کرنے کی کھلی آزادی دیے رکھی۔ 2017 میں پاکستان نے غیر قانونی تجارت اور دہشت گردی کے سدباب کے لیے پاک افغان سرحد پر پچاس کروڑ ڈالرز سے سیکیورٹی باڑ لگائی۔

یہ باڑ پاکستان کے ایریا میں لگائی گئی ہے لیکن افغانستان نے اس باڑ کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی،2021 میں امریکی فورسز کے انخلا کے بعد کابل میں طالبان کی حکومت دوبارہ قائم ہوئی، تو اس وقت کی پاکستانی حکومت اور ایک مخصوص طبقے نے خوشی کا اظہار کیا، پاکستان میں یہ پراپیگنڈہ کیا گیا کہ امریکا شکست کھا کر بھاگ گیا، طالبان فتح یاب ہوگئے۔ غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئیں، افغانستان پر پاکستان کے ہمدردوں کا اقتدار قائم ہوگیا ہے، اب افغانستان میں دہشت گردوں کے اڈے ختم ہوجائیں گے، لیکن یہ سب کچھ شیخ چلی کا خواب ثابت ہوا۔ افغانستان کی عبوری حکومت میں شامل مختلف طالبان دھڑوں کے الگ الگ مفادات اور سوچ کھل کر سامنے آگئی۔

پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کی شرح غیر معمولی حد تک بڑھ گئی، ٹی ٹی پی کی زیر زمین قیادت منظر عام پر آگئی اور افغانستان میں آزادانہ نقل و حرکت کرنے لگی۔ انھی خطرات کو مدنظر رکھ کر پاکستان نے حالیہ چند ماہ کے دوران ایک دستاویزی نظام کے ذریعے پاکستان اور افغانستان کے درمیان کراسنگ کو ریگولرائز کرنے کا فیصلہ کیا ۔ نئی بارڈر کراسنگ پالیسی کے نفاذ کے بعد چمن میں بارڈر حکام نے پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر دونوں جانب سے کسی کو بھی پاک افغان سرحد عبور کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے، یعنی پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر کسی کو پاکستان میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پاکستان ایسے قوانین بنانے اور انھیں نافذ کرنے کا پورا حق رکھتا ہے۔

اس پر کسی کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ شمال مغربی سرحد نرم ہونے کی وجہ سے پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، لہٰذا پاکستان کی قومی سلامتی اور معاشی سلامتی کے لیے شمال مغربی سرحدوں کو محفوظ بنانے کی ضرورت وقت کا اہم ترین تقاضا اور ضرورت ہے۔

بلوچستان میں ایرانی پٹرول، ڈیزل اور دیگر سامان کی اسمگلنگ کا حجم کئی ارب روپے سالانہ تک پہنچ چکا ہے، پاک افغان سرحد پاکستان کے لیے دو دھاری تلوار بن گئی ہے۔ افغانستان سے روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں، ہزاروں کی تعداد میں لوگ بلا روک ٹوک اور بغیر کسی ٹھوس قانونی دستاویز سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں، پاکستان کے اسپتالوں میں علاج کراتے ہیں۔

عالمی دہشت گردی اور عالمی سطح پر منشیات کا کاروبار بظاہر دو مختلف مگر درحقیقت باہم جڑے ہوئے جرائم ہیں، یہ دونوں ایک دوسرے کی تقویت کا باعث بنتے ہیں۔ منشیات کا دھندہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کو ممکن بناتا ہے تو منشیات کے اسمگلرز ہتھیاروں کی غیر قانونی نقل و حرکت میں دہشت گردوں کو مدد فراہم کرتے ہیں۔

دہشت گرد گروہ منشیات فروشوں کے لیے مخالف اسمگلر گروہوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لڑنے کے لیے افرادی قوت اور ہتھیار فراہم کرتے ہیں تو دوسری طرف منشیات کے بیوپاری ان دہشت گرد گروہوں کے لڑنے والوں کو بے خوف اور احساسات سے عاری کر دینے والی ادویات فراہم کرتے ہیں۔ ان دونوں کا یہ باہمی میل ایک الگ طرح کی دہشت گردی کا باعث ہے جسے ماہرین '' نارکو ٹیرر'' (Narcoterror) کانام دیتے ہیں۔

آسان زبان میں یہ وہ دہشت گردی ہے جو کہ منشیات سے کمائے منافع سے کی یا کروائی جاتی ہے جس کا مقصد معاشرے یا ریاست میں رائج چند قوانین کو تبدیل کروانا، ریاستی ڈھانچے کو کمزور کرنا یا پھر معاشرے کو خوف میں مبتلا کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ نارکو ٹیرر ایک ایسا عمل ہے جس میں ہم اسمگلنگ جیسے عام جرائم اور دہشت گردی جیسے عفریت کو باہم ہاتھ ملاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ نارکو ٹیرر پاکستان کی سلامتی کو لاحق ایک سنگین خطرہ ہے۔

منشیات فروشی خود بھی معاشرے میں ایک عرصہ دراز سے ناسور کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ دہشت گردوں کے ساتھ منشیات فروشوں کا گٹھ جوڑ ایک ایسا چیلنج ہے جس کی نشان دہی تو ہو چکی ہے مگر اس کے لیے ٹھوس اقدامات سامنے لانے کی ضرورت ہے کیونکہ نارکو ٹیرر ایک عالمی مسئلہ ہے اور پاکستان اس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ صنعتی عمل کو فروغ دینے کی حکومتی کوششوں کو بارآور بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اسمگلنگ کے ناسور پر موثر طریقے سے قابو پایا جائے۔ قرضوں کی دلدل سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ جہاں ایک طرف زراعت کو ترقی دی جائے وہاں دوسری طرف صنعتی شعبے کو بھی فروغ دیا جائے جس کے لیے ضروری ہے کہ اسمگل شدہ اشیا کی درآمد اور خرید و فروخت کی یکسر روک تھام کی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں