ماڈل نہیں رول ماڈل
کہتے ہیں ایک تصویر ہزار لفظوں سے بہتر ہوتی ہے۔ وہ ایک تصویر، جی ہاں ایک تصویر نے ہی آج قلم اٹھانے پر مجبور کیا ہے۔ یہ تصویر کسی اور کی نہیں پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ مریم نواز کی ہے۔ مریم نواز صاحبہ نے پنجاب پولیس کی لیڈی کانسٹیبلز کی چوہنگ میں ہونے والی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرنا تھی۔
وہ تقریب کو رونق بخشنے کے لیے جب وہاں تشریف لائیں تو انھوں نے لیڈی کانسٹیبل کی وردی پہنی ہوئی تھی سلامی کے چبوترے پر گارڈ آف آنر اور آئی جی پنجاب سے پولیس کی سٹک لیتے ہوئے ان کی یہ تصویر دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ لوگوں کے دلچسپ کمنٹس کے ساتھ ساتھ میمز کی بھرمار ہو گئی۔
لوگوں کو ان کے والد اور اس ملک کے تین بار وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف کی گزشتہ صدی کی ایک تصویر یاد آ گئی اور پلک جھپکتے ہی وہ بھی وائرل کر دی گئی۔ قائد نے اس تصویر میں رضاکاروں والی وردی پہنی ہوئی ہے اور وہ اپنے پہلے سیاسی گرو جنرل جیلانی مرحوم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سوشل میڈیا کا وہ کون سا پلیٹ فارم ہے جس پر یہ دونوں تصویریں موجود نہیں ہیں۔
پاسنگ آؤٹ پریڈ کی تقریب میں وزیراعلیٰ کے ساتھ ان کی انتہائی قریبی ساتھی، ہم نام اور سینئر وزیر مریم اورنگزیب بھی موجود تھیں۔ مریم نواز نے صوبے کی چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے اس تقریب میں شرکت کر کے بہت اچھا کیا۔ ان کی موجودگی نے لیڈی کانسٹیبلز کو بڑا حوصلہ دیا ہو گا۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ انھوں نے اس موقع پر یہ وردی زیب تن کرنا کیوں ضروری سمجھا۔ اس اوتارکا خیال انھیں خود آیا، ایسا نہیں ہوا تو پھر کسی مشیر باتدبیر نے انھیں یہ مشورہ دیا۔ وہ اس ملک کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ کا اعزاز رکھتی ہیں۔ ان کے ہر ایکشن پر لوگوں کی نظر ہوتی ہے۔ سیاستدان پبلک پراپرٹی ہوتے ہیں۔
ان کے فیصلے ہر زاویے سے پرکھے جاتے ہیں۔ عوام ان کے اچھے فیصلوں کی تعریف کرنے میں شاید کنجوسی کر جائیں لیکن کسی غلطی پر معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اگر یہ وردی پہننے کا فیصلہ ان کا اپنا تھا تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ آیندہ کسی تقریب میں جانے سے پہلے جب وہ اپنا ڈریس فائنل کرنے سے پہلے کسی سمجھدار سے مشورہ ضرور کریں۔ اگر یہ مشورہ اپنے کسی ''عقل مند'' مشیر نے دیا تھا تو سب سے پہلے اس مشیر کو خود سے دور کریں۔ انھیں روزانہ کئی تقریبات میں شرکت کرنی ہوتی ہے۔ اگر اس طرح کی ڈریسنگ کے چکر میں پڑ گئیں تو پھر فینسی ڈریس شو کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
وزیراعلیٰ صاحبہ آپ پر تنقید اس لیے بھی زیادہ ہوئی کہ آپ نے جس فورس کا یونیفارم پہنا پنجاب کے عام لوگ اس کے ستائے ہوئے ہیں۔ پنجاب پولیس ان کے نزدیک ایک ظالم فورس ہے۔ وہ مظلوم کا ساتھ نہیں دیتی، اس کا کام صرف طاقتور کو تحفظ دینا ہے۔ آپ کے ساتھ جو آئی جی صاحب کھڑے ہیں ان کا امیج بھی مثالی نہیں۔ چاہت فتح علی خان کے چاہنے والے کے ذوق کا اندازہ لگالیں۔ انھوں نے سروں کے بے تاج دشمن کو انوائیٹ بھی کیا اور انھیں شیلڈ بھی پیش کی۔
آپ خاتون وزیراعلیٰ ہیں اور آپ نے جس فورس کی وردی پہنی، خواتین پر ظلم کے حوالے سے بھی اس کا ریکارڈ بدترین ہے۔ چادر اور چاردیواری کی پامالی کے لیے ریکارڈ قائم کرنے والی بھی یہی فورس ہے۔ آپ کی تصویر کے ساتھ سب سے زیادہ تذکرہ بہاولنگر تھانے کا ہو رہا ہے۔ بہاولنگر پولیس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ افسوسناک تھا لیکن لوگ اس پر خوش ہوئے۔ وہاں بڑی طاقت نے چھوٹی طاقت کے ساتھ جو سلوک کیا اس سے عوام چھوٹی طاقت کے اس لیے خلاف تھے کہ اس نے جبروتشدد کی انتہا کر دی تھی۔ وردی پہننا آپ کی مجبوری نہیں لیکن ان وردی والوں کو ٹھیک کرنا آپ کی ذمے داری ہے۔
آپ کو کسی اوتار کی ضرورت نہیں، ویڑن کی ضرورت ہے جو اس صوبے اور عوام کی بہتری کے نئے ریکارڈ قائم کرے۔ آپ نے ایک ایسی فورس کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے جو طاقتور کا ہر جائز اور ناجائز کام آنکھیں بند کر کے کرتی ہے اور کسی عامی کا سوفیصد جائز کام بھی کھلی آنکھوں کے ساتھ کرنے سے صاف انکار کر دیتی ہے۔ مظلوم کا سہارا بننے کے بجائے اس کا سہارا چھین لیتی ہے۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا جب اس کے بعض افسروں اور اہلکاروں نے لوگوں کے گھروں میں گھس کر تخریب کاروں کی طرح توڑ پھوڑ اور ڈاکوؤں کی طرح لوٹ مار کی۔ قارئین کو یقیناً یاد ہو گا کہ پولیس کی یونیفارم پہن کر پرفارم کرنے والی بے شمار ٹک ٹاکرز پر مقدمے بنے اور گرفتاریاں بھی ہوئیں۔
عام خاتون وردی پہنے تو آئی جی کی فورس اس پر مقدمہ بناتی اور گرفتار کر لیتی ہے۔ اس طرح کے کام ٹک ٹاکرز کو کرنے دیں تو بہتر ہے۔ انھیں مقبولیت حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے آپ کے لیے یہ مسئلہ نہیں ہے۔ اظہار یکجہتی کرنا ہے تو ان محکموں اور اداروں کے ساتھ کریں جو عوام کی بہتری کے لیے کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں۔ آپ کو اقتدار اور اختیار مل گیا ہے تو اسے ایسے کاموں میں استعمال کریں کہ لوگ یاد رکھیں اور مثالیں دیں کہ ایک ایسی وزیراعلیٰ بھی آئی تھی جس نے ہماری فلاح کے لیے اقدامات کیے۔ آپ لوگوں کے لیے مثالی بنیں، بری مثال نہیں۔ اس صوبے کی خواتین آپ کے ساتھ سب سے زیادہ امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں، ان کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کریں۔
عامر بن علی کا ایک شعر پیش خدمت ہے ؎
حسن اور حکومت سے کون جیت سکتا ہے
یہ بتاؤ دونوں کی عمر کتنی ہوتی ہے
بچپن میں ہماری کچھ خواہشات ہوتی ہیں۔ والدین ہماری خواہش پوری کرنے کے لیے کبھی اسکول یونیفارم کے ساتھ ساتھ کسی فورس کا یونیفارم بھی بنوا دیتے ہیں۔ والدین اپنے شوق کی تکمیل کے لیے کسی بچے کا نام جج یا وکیل بھی رکھ دیتے ہیں۔ لیکن یہ سب بچپن کی باتیں ہیں۔
آخر میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ آپ رول ماڈل بننے کی کوشش کریں، ماڈل نہیں ،ماڈلنگ کے لیے ہمارے پاس بہترین ٹیلنٹ موجود ہے۔
وہ تقریب کو رونق بخشنے کے لیے جب وہاں تشریف لائیں تو انھوں نے لیڈی کانسٹیبل کی وردی پہنی ہوئی تھی سلامی کے چبوترے پر گارڈ آف آنر اور آئی جی پنجاب سے پولیس کی سٹک لیتے ہوئے ان کی یہ تصویر دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ لوگوں کے دلچسپ کمنٹس کے ساتھ ساتھ میمز کی بھرمار ہو گئی۔
لوگوں کو ان کے والد اور اس ملک کے تین بار وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف کی گزشتہ صدی کی ایک تصویر یاد آ گئی اور پلک جھپکتے ہی وہ بھی وائرل کر دی گئی۔ قائد نے اس تصویر میں رضاکاروں والی وردی پہنی ہوئی ہے اور وہ اپنے پہلے سیاسی گرو جنرل جیلانی مرحوم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سوشل میڈیا کا وہ کون سا پلیٹ فارم ہے جس پر یہ دونوں تصویریں موجود نہیں ہیں۔
پاسنگ آؤٹ پریڈ کی تقریب میں وزیراعلیٰ کے ساتھ ان کی انتہائی قریبی ساتھی، ہم نام اور سینئر وزیر مریم اورنگزیب بھی موجود تھیں۔ مریم نواز نے صوبے کی چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے اس تقریب میں شرکت کر کے بہت اچھا کیا۔ ان کی موجودگی نے لیڈی کانسٹیبلز کو بڑا حوصلہ دیا ہو گا۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ انھوں نے اس موقع پر یہ وردی زیب تن کرنا کیوں ضروری سمجھا۔ اس اوتارکا خیال انھیں خود آیا، ایسا نہیں ہوا تو پھر کسی مشیر باتدبیر نے انھیں یہ مشورہ دیا۔ وہ اس ملک کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ کا اعزاز رکھتی ہیں۔ ان کے ہر ایکشن پر لوگوں کی نظر ہوتی ہے۔ سیاستدان پبلک پراپرٹی ہوتے ہیں۔
ان کے فیصلے ہر زاویے سے پرکھے جاتے ہیں۔ عوام ان کے اچھے فیصلوں کی تعریف کرنے میں شاید کنجوسی کر جائیں لیکن کسی غلطی پر معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اگر یہ وردی پہننے کا فیصلہ ان کا اپنا تھا تو یہی کہہ سکتا ہوں کہ آیندہ کسی تقریب میں جانے سے پہلے جب وہ اپنا ڈریس فائنل کرنے سے پہلے کسی سمجھدار سے مشورہ ضرور کریں۔ اگر یہ مشورہ اپنے کسی ''عقل مند'' مشیر نے دیا تھا تو سب سے پہلے اس مشیر کو خود سے دور کریں۔ انھیں روزانہ کئی تقریبات میں شرکت کرنی ہوتی ہے۔ اگر اس طرح کی ڈریسنگ کے چکر میں پڑ گئیں تو پھر فینسی ڈریس شو کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
وزیراعلیٰ صاحبہ آپ پر تنقید اس لیے بھی زیادہ ہوئی کہ آپ نے جس فورس کا یونیفارم پہنا پنجاب کے عام لوگ اس کے ستائے ہوئے ہیں۔ پنجاب پولیس ان کے نزدیک ایک ظالم فورس ہے۔ وہ مظلوم کا ساتھ نہیں دیتی، اس کا کام صرف طاقتور کو تحفظ دینا ہے۔ آپ کے ساتھ جو آئی جی صاحب کھڑے ہیں ان کا امیج بھی مثالی نہیں۔ چاہت فتح علی خان کے چاہنے والے کے ذوق کا اندازہ لگالیں۔ انھوں نے سروں کے بے تاج دشمن کو انوائیٹ بھی کیا اور انھیں شیلڈ بھی پیش کی۔
آپ خاتون وزیراعلیٰ ہیں اور آپ نے جس فورس کی وردی پہنی، خواتین پر ظلم کے حوالے سے بھی اس کا ریکارڈ بدترین ہے۔ چادر اور چاردیواری کی پامالی کے لیے ریکارڈ قائم کرنے والی بھی یہی فورس ہے۔ آپ کی تصویر کے ساتھ سب سے زیادہ تذکرہ بہاولنگر تھانے کا ہو رہا ہے۔ بہاولنگر پولیس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ افسوسناک تھا لیکن لوگ اس پر خوش ہوئے۔ وہاں بڑی طاقت نے چھوٹی طاقت کے ساتھ جو سلوک کیا اس سے عوام چھوٹی طاقت کے اس لیے خلاف تھے کہ اس نے جبروتشدد کی انتہا کر دی تھی۔ وردی پہننا آپ کی مجبوری نہیں لیکن ان وردی والوں کو ٹھیک کرنا آپ کی ذمے داری ہے۔
آپ کو کسی اوتار کی ضرورت نہیں، ویڑن کی ضرورت ہے جو اس صوبے اور عوام کی بہتری کے نئے ریکارڈ قائم کرے۔ آپ نے ایک ایسی فورس کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے جو طاقتور کا ہر جائز اور ناجائز کام آنکھیں بند کر کے کرتی ہے اور کسی عامی کا سوفیصد جائز کام بھی کھلی آنکھوں کے ساتھ کرنے سے صاف انکار کر دیتی ہے۔ مظلوم کا سہارا بننے کے بجائے اس کا سہارا چھین لیتی ہے۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا جب اس کے بعض افسروں اور اہلکاروں نے لوگوں کے گھروں میں گھس کر تخریب کاروں کی طرح توڑ پھوڑ اور ڈاکوؤں کی طرح لوٹ مار کی۔ قارئین کو یقیناً یاد ہو گا کہ پولیس کی یونیفارم پہن کر پرفارم کرنے والی بے شمار ٹک ٹاکرز پر مقدمے بنے اور گرفتاریاں بھی ہوئیں۔
عام خاتون وردی پہنے تو آئی جی کی فورس اس پر مقدمہ بناتی اور گرفتار کر لیتی ہے۔ اس طرح کے کام ٹک ٹاکرز کو کرنے دیں تو بہتر ہے۔ انھیں مقبولیت حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے آپ کے لیے یہ مسئلہ نہیں ہے۔ اظہار یکجہتی کرنا ہے تو ان محکموں اور اداروں کے ساتھ کریں جو عوام کی بہتری کے لیے کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں۔ آپ کو اقتدار اور اختیار مل گیا ہے تو اسے ایسے کاموں میں استعمال کریں کہ لوگ یاد رکھیں اور مثالیں دیں کہ ایک ایسی وزیراعلیٰ بھی آئی تھی جس نے ہماری فلاح کے لیے اقدامات کیے۔ آپ لوگوں کے لیے مثالی بنیں، بری مثال نہیں۔ اس صوبے کی خواتین آپ کے ساتھ سب سے زیادہ امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں، ان کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کریں۔
عامر بن علی کا ایک شعر پیش خدمت ہے ؎
حسن اور حکومت سے کون جیت سکتا ہے
یہ بتاؤ دونوں کی عمر کتنی ہوتی ہے
بچپن میں ہماری کچھ خواہشات ہوتی ہیں۔ والدین ہماری خواہش پوری کرنے کے لیے کبھی اسکول یونیفارم کے ساتھ ساتھ کسی فورس کا یونیفارم بھی بنوا دیتے ہیں۔ والدین اپنے شوق کی تکمیل کے لیے کسی بچے کا نام جج یا وکیل بھی رکھ دیتے ہیں۔ لیکن یہ سب بچپن کی باتیں ہیں۔
آخر میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ آپ رول ماڈل بننے کی کوشش کریں، ماڈل نہیں ،ماڈلنگ کے لیے ہمارے پاس بہترین ٹیلنٹ موجود ہے۔