شمالی ہند سے کے پی کے کا سفر

رواں ہفتے ایران کے صدر پاکستان کے تین روزہ دورے پر آئے۔ موقع کی مناسبت سے ایران اور پاکستان بلکہ قبل از تقسیم ہند کے ساتھ تاریخی اور تہذیبی تعلقات کا بہت چرچا رہا۔ ایرانی صدر کی ایران کے بے شمار اہل علم و تصوف کے روحانی مرشد اقبال لاہوری کے مزار پر خصوصی حاضری کا بھی خوب چرچا رہا۔

تاریخ بہت دلچسپ مضمون ہے۔ انسان اپنے گردو پیش کو اپنے وقت اور زمانے کی عینک سے دیکھتا ہے۔ تاریخ کی عینک سے دیکھیں تو صدیوں اور زمانوں کی مسافت کے مناظر ایک فلم کی طرح سامنے آتے ہیں۔

ہم آج کی جغرافیائی سرحدوں کی زمانی ترتیب سے دنیا کو جانتے اور پرکھتے ہیں لیکن صدیوں کے انسانی سفر میں یہ سرحدیں پھیلتی اور سکڑتی رہیں، مختلف نام پاتی رہیں۔ زیادہ تر نام تو کب کے تاریخ کے اوراق میں ساکت ہوکر انجام کو پہنچے۔ یہی حال مشہور عالم شہروں کا رہا جن کا ایک زمانے میں چار دانگ شہرہ تھا ، یہ شہر مجمع خلائق تھے، علم و فضل اور سلطنتوں کا منبع تھے لیکن زیادہ تر شہر بھی تاریخ کے حافظے میں حنوط ہو کر آسودہ ء انجام ہوئے۔

مذاہب اور تہذیبوں کے سفر اور ملاپ کا ہمیں ایک دلچسپ مشاہدہ چند سال قبل ہوا۔ جنوبی کوریا کے سفر میں حسن اتفاق سے پاکستان کے سفیر اور کمرشل کونسلر نے کمال عنایت سے ہمارے لیے چند احباب کے ساتھ ڈنر کا اہتمام کیا۔ ان میں ایک کورین یونیورسٹی پروفیسر بھی تھے۔ کھانے کے بعد مذاہب پر گفتگو ہونے لگی۔

کہنے لگے ہم شمالی ہند بالخصوص پاکستان کے شمالی علاقوں کے سپاس گذار ہیں کہ ان کی وساطت سے ہمیں بدھ مت ملا۔ ہماری بے خبری کہ اس حقیقت سے ناآشنا تھے ، سو طالب علمانہ وضاحت کے لیے گذارش کی۔ وہ ہماری کم علمی پر مسکرائے اور تفصیل سے سمجھانے کی کوشش کی۔

بدھ مت کو 372 ء کے لگ بھگ کوریا میں متعارف کرایا گیا تھا، مہاتما بدھ کی موت کے تقریباً 800 سال بعد۔ تاریخ میں تین راہبوں کا ریکارڈ ملتا ہے جو چوتھی صدی میں کوریا میں بدھ مت کی تعلیم یا دھرم لانے والے پہلے لوگوں میں شامل تھے: ملانتا - ایک ہندوستانی بدھ راہب جو جنوبی چین کے سیرینڈین علاقے سے آیا تھا۔ مشرقی جن خاندان اور 384 عیسوی میں جنوبی کوریا کے جزیرہ نما میں Baekje کے بادشاہ Chimnyu کے پاس بدھ مت لایا، کوریا میں چودھویں صدی تک بدھ مت کا غالب اثرو رسوخ رہا لیکن بعد ازاں دوسرے مذاہب کا اثر بڑھنا شروع ہوا۔

آج کے صوبہ خیبر پختونخوا میں کئی ایسے اہم مقامات شامل ہیں جو اپنے وقت میں بدھ مت کے عروج کے زمانے میں ایک عالم میں مشہور تھے۔ پشاور، تخت بائی، صوابی سمیت بہت سے ایسے مقامات ہیں جن کے آثار آج بھی موجود ہیں۔

ہمیں چند سال قبل کے پی کے لیے سیاحت کی پالیسی کے خدو خال تشکیل دینے والی ایک ٹیم کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ پشاور میوزیم جانے کا اتفاق ہوا تو بدھ مت کے آثار کا ایک انوکھا جہان دیکھا۔ اور ساتھ ہی یہ علم ہوا کہ ہفتوں شاذ ہی کوئی مقامی سیاح ان نوادرات کو دیکھنے آتا ہے۔ اکا دکا جاپانی، کورین یا دیگر غیر ملکی البتہ کبھی کبھار آ جاتے تھے۔ میوزیم پر عدم توجہی کا یہ عالم پایا کہ چار ہزار سے زائد نوادرات تہہ خانے میں اسٹور کیے ہوئے تھے کہ کب مناسب انداز میں انھیں پیش کرنے کی جگہ اور سہولیات میسر ہو۔


یہ واقعات ہمیں اس لیے یاد آئے کہ حال ہی میں ہمیں ایک شاندار اور معلوماتی کتاب پڑھنے کا موقع ملا: پھر چلا مسافر- خیبرپختونخواہ دلیر اور بہادر لوگوں کی سرزمین ( جمہوری پبلشرز لاہور)۔ کتاب کے مصنف ڈاکٹر محمد مشتاق مانگٹ ہیں۔ تعلیم اور پیشے کے اعتبار سے ٹیکسٹائلز سے وابستہ رہے اور ہیں۔

تاہم بعد ازاں ایم بی اے ، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔کاروباری مصروفیات کے ساتھ ساتھ کئی فلاحی اداروں سے منسلک ہیں۔اس کتاب کا مواد بھی ان کے مختلف اسفار پر مبنی ہے جو انھوں نے فلاحی اداروں کے ساتھ مختلف پروجیکٹس کے سلسلے میں کے پی کے، کے طول و عرض میں کیے۔ انھوں نے اپنے اسفار کی روداد اور تاریخی حوالوں کے ساتھ کے پی، کے آثار قدیمہ اور تہذیب و تمدن کا نہ صرف مشاہداتی احوال بیان کیا بلکہ انھیں تاریخی حوالوں سے کھنگالا اور سمجھنے کی کوشش بھی کی۔

کالم کی ابتداء میں ہوئی گفتگو کے تسلسل میں ان کی کتاب سے چند اقتباسات قارئین کی نذر ہیں۔

گور کھتری اور بدھ مت کی باقیات کے ضمن میں لکھتے ہیں؛ مسلمانوں کی پشاور آمد انفرادی طور پر کب شروع ہوئی؟ یہ تو معلوم نہیں لیکن بڑی تعداد میں مسلمان یہاں اس وقت آباد ہوئے جب محمود غزنوی نے 1001ء میں جے پال کو شکست دے کر پشاور میں اپنی حکومت قائم کی۔

اس وقت کے ہندوستان کے تین بڑے مذاہب تھے: ہندو مت , بدھ مت اور جین مت۔گور کھتری کا ترجمہ ہے جنگجو لوگوں کا مقبرہ۔ ہندومت کے مطابق کھتری جنگ اور کاروبار کرتے تھے جب کہ برہمن صرف پوجا پاٹ کے لیے تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر احمد حسن دانی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اندرون پشاور میں اس گورکھتری میدان میں ہندوستانی بادشاہ کنشک عظیم کے دیو ہیکل اسٹوپا کی جگہ دریافت کی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ جگہ بھی ہے جہاں کبھی بدھ پیالے کا مشہور مینار تھا۔

ڈی آئی خان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ملک سہراب دووائی نے ڈی آئی خان کی بنیاد رکھی۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ تین صدیاں قبل مسیح یہ علاقے ہندوستان کی ایک بڑی ریاست نندا کے زیر اثر تھے۔ پھر اس پر چندر گپت موریا نے کنٹرول حاصل کر لیا، بعد ازاں اس پر شونگا حکمران بھی قابض رہے۔ اس وقت تک اس علاقے میں ہندو یا بدھ مت مذہب عام نہیں تھا۔

سندھ تہذیب کے خاتمے کے بعد اس علاقے پر شمالی اور وسطی ہندوستان سے لوگوں نے آ کر حکومت کی اور یہاں اپنے مذہب کی ترویج کی۔ یہ سلسلہ ساتویں صدی تک چلتا رہا۔بعد میں عرب، ایرانی اور وسط ایشیا سے آنے والے مسلمان اس علاقے کے حاکم بن گئے اور مقامی لوگ بھی اسلام لے آئے۔ بعد ازاں باہر سے آنے والے پختون اور بلوچ بھی یہاں آن بسے۔ یہ علاقے بدھ مت کے حکمران کنشک عظیم کے دور میں بدھ مت کے بڑے مراکز مانے جاتے تھے۔ گپتا سلطنت کے دور میں بھی علاقے میں ہندو اور بدھ فن تعمیر کو فروغ ملا۔

کے پی کے ،کے ایک اور تاریخی شہر صوابی کا ذکر یوں کیا؛ صوابی میں گندھارا تہذیب کے کافی آثار ملے ہیں. جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علاقہ کبھی گندھارا سلطنت کا حصہ تھا. ہنڈ کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ یہ شہر 300 سال سے زائد عرصے تک ہندو اور ترک شاہی کا صدر مقام رہا. اس علاقے میں ہندو مت کے ماننے والوں کے مطابق ان کے کئی مقدس مقامات بھی تھے۔

تاریخ و تہذیب کے عمدہ شعور سے گندھے اس سفرنامے نے بہت سے تاریخی یادیں اور واقعات کو تازہ کر دیا۔ آج کا کے پی کے بہت مختلف ہے لیکن شمالی ہند سے کے پی کے کا سفر بھی تو کئی صدیوں اور زمانوں پر مشتمل ہے۔ رہے نام اللہ کا۔
Load Next Story