مسلم لیگ ن کی حکومت کی کامیابی اور مستقبل کے خدشات

tauceeph@gmail.com

قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات میں پنجاب میں مسلم لیگ ن نے واضح کامیابی حاصل کر لی۔ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی شریک جماعت سنی اتحاد کونسل، سندھ میں پیپلز پارٹی اور بلوچستان میں بلوچستان نیشنل پارٹی نے اپنی اکثریت برقرار رکھی۔ دو سال قبل جب میاں شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت اسلام آباد میں قائم ہوئی تھی تو پنجاب میں حمزہ شہبازکی حکومت تھی اور مسلم لیگ پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں ساری نشستیں کھو بیٹھی تھی۔

اب مریم نواز کی قیادت میں مسلم لیگ حکومت تیز رفتاری سے دوڑ رہی ہے تو کیا یہ تصورکیا جاسکتا ہے کہ اب انتخابات میں کامیابی کے متغیرات Variables مسلم لیگ ن کے حق میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی کامیابی کے اسباب کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو ایک وجہ تو واضح طور پر نظر آتی ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف جب لندن سے واپسی کے بعد لاہور میں قیام پذیر تھے تو میاں نواز شریف نے ذاتی طور پر مسلم لیگ ن کی تنظیمِ نو میں دلچسپی لینا شروع کی۔

ماضی کی انتخابی مہم کے دوران ہونے والی خامیوں کو دورکیا گیا اور ایک کامیاب ابلاغی حکمت عملی اختیارکی گئی۔ مریم نواز نے اچھی طرز حکومت کے ماڈل کے بیانیہ کو منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے ملک کو معاشی بحران سے بچانے کے اقدامات کو بھی مریم نواز کے بیانیہ کے ساتھ منسلک کیا ، یوں نوجوانوں کا ایک بڑا حصہ جو اڈیالہ جیل میں مقیم قیدی نمبر 804 کی شخصیت کا اسیر تھا اب اپنے ذہن کو تبدیل کر رہا ہے۔ اس بناء پر اب پنجاب کی فضاء تبدیل ہو رہی ہے۔

بعض صحافی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اب پنجاب کی بیوروکریسی میں وہ گروپ جو تحریک انصاف کے لیے نرم گوشہ رکھتا تھا وہ غیر مؤثر ہوگیا ہے۔ اس بناء پر اب مسلم لیگ ن کی حکومت کے لیے گو بیوروکریسی میں اب مزاحمت موجود نہیں۔ ان ضمنی انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹی وی چینلز پر مسلم لیگی رہنماؤں کے جو متضاد مؤقف سامنے آتے رہے ہیں جس سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت انتشار کا شکار ہے، ان انتخابات کے بعد یہ تاثر اب ختم ہوجانا چاہیے۔

مسلم لیگ ن کی اس کامیابی سے فروری کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا تاثر بھی زائل ہوجائے گا، مگر یہ سب کچھ تصویر کا ایک رخ ہے۔ مسلم لیگ ن کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے امیدوار ممتاز چنگ نے رحیم یار خان سے صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں کامیابی حاصل کی ہے۔

ممتاز چنگ نے اس کامیابی کے بعدمقامی انتظامیہ اور پولیس پر الزامات لگائے۔ ان ضمنی انتخابات میں گجرات سے پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے صاحبزادہ مؤنس الٰہی کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان دونوں امیدواروں کو ان کے قریبی عزیز چوہدری ظہور الٰہی کے پوتوں نے شکست دی۔ اگرچہ چوہدریوں کا یہ خاندان تقسیم ہوچکا ہے مگر چوہدری پرویز الٰہی گزشتہ سال سے جیل میں قید ہیں اور ان کے صاحبزادہ مؤنس الٰہی یورپ میں مقیم ہیں مگر ان دونوں امیدواروں کو اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لیے ایک طویل عدالتی جنگ لڑنی پڑی تھی۔ اگر لاہور ہائی کورٹ مداخلت نہ کرتی تو دونوں باپ بیٹا انتخابات میں حصہ نہ لے پاتے۔


اس حقیقت کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ گزشتہ سال 9مئی کے دہشت گردی کے واقعے کے بعد تحریک انصاف پنجاب کی قیادت جیلوں میں بند ہے۔ ان رہنماؤں میں ڈاکٹر یاسمین راشد جیسی رہنما بھی شامل ہیں جن کی جرات اور شجاعت کی ان کے مخالفین بھی داد دیتے ہیں۔ یوں یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت تو گزشتہ فروری کے انتخابات میں بھی انتخابی مہم میں موجود نہیں تھی اور بہت سے امیدواروں کو تو انتخابی مہم چلانے کا موقع بھی نہیں ملا، مگر ووٹروں کو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے پسند کے امیدواروں کا نام اور ان کے انتخابی نشان سے آگہی دی گئی، یوں یہ امیدوارکامیاب ہوئے تھے، شاید اس دفعہ ایسا نا ہوسکا۔

اس دفعہ موبائل سروس، انٹرنیٹ کی بندش، کارکنوں کی گرفتاریوں اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کے مسلسل دھاندلی کے الزامات کے باوجود صرف مسلم لیگ ن کی قیادت ہی تو نہیں مخلوط حکومت میں شامل سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی کو بھی اس کامیابی پر خوش نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان حقائق پر ضرور توجہ دینی چاہیے۔

یہ حقیقت ہے کہ میاں شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت کے قیام کے بعد امریکا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور برطانیہ وغیرہ سے مثبت سگنل ملنے لگے ہیں اور اب آسانی کے ساتھ آئی ایم ایف سے اسٹاف کی سطح پر معاہدے کی راہ میں رکاوٹیں دور ہوگئی ہیں۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ کے دورے میں اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری کا وعدہ ہوا۔ اب یو اے ای کی حکومت بھی اسی طرح کی سرمایہ کاری کرے گی۔ ایک کامیاب سفارت کاری کی بنیاد پر مشرق وسطیٰ کی خطرناک صورتحال میں ایران کے صدر کا دورہ اہم قدم ہے۔ پھر عثمان بزدار دور کی بری طرزِ حکومت کے مقابلے میں پنجاب میں ایک فعال حکومت قائم ہے، البتہ ان تما م پالیسیوں کے باوجود معاشی بحران بڑھتا جارہا ہے۔

ہر ماہ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی کی زندگی تنگ ہوتی جارہی ہے اور صاحبِ اقتدار اس صورتحال کی تبدیلی کی خوش خبری بھی سناتے ہیں۔ اشیاء پر آنے والی بڑھتی ہوئی لاگت کی بناء پر برآمدات نہیں بڑھ پا رہی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کے جی ایس پی پلس کے درجہ کے باوجود پاکستان کی برآمدات بڑھ نہیں پارہیں۔ اس معاشی بحران کا حل محض آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضہ حاصل کرکے نہیں تلاش نہیں جاسکتا بلکہ جدید ریاستوں کی طرح پاکستان کی معاشی تنظیمِ نو وقت کی ضرورت ہے۔

بحران پر قابو پانے کے لیے ریاستی ڈھانچہ کے اخراجات کم از کم آدھے ہونا ضروری ہیں۔ اس کے ساتھ ہی دفاعی اخراجات سمیت غیر پیداواری اخراجات انتہائی کم سطح پر لانا بھی ضروری اقدامات میں شامل ہیں۔ اگرچہ صدر، وزیر اعظم اور پنجاب کی وزیر اعلیٰ نے تنخواہیں نا لینے کا اعلان کیا ہے مگر ضرورت تو اس بات کی ہے کہ صدر، وزیر اعظم اور وزراء اور بیوروکریسی کے افسران اسی طرح چھوٹی گاڑیوں میں سفر کرنا شروع کردیں جس طرح سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دورِ اقتدار میں ہوا تھا۔

عوام کے لیے یہ خبر بڑی حیرت کی باعث تھی کہ ایک طرف وفاقی اداروں میں تنخواہوں کا بحران ہے تو دوسری طرف وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے افسروں کو قرضے لے کر چار چار اضافی تنخواہیں ادا کی جارہی ہیں، اب تو خبر یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے بھی اس پر اعتراض کیا ہے۔ پھر یہ بھی درست ہے کہ پی آئی اے، اسٹیل ملز سمیت دیگر بڑے اداروں کی نج کاری اور ایئر پورٹس کو آؤٹ سورس کرنے سے قومی خزانہ پر بوجھ تو کم ہوگا لیکن جو سیکڑوں لوگ بے روزگار ہونگے ان کے لیے متبادل روزگار نہیں ہوگا۔

ہمیشہ کی طرح ان اداروں کی فروخت کے اسکینڈل سوشل میڈیا کے ذریعہ لوگوں کے دماغوں میں زہر بھریں گے اور پھر یہ بھی تو یہ ایک اہم سوال ہے کہ اس کے باوجود بھی مالیاتی بحران پر قابو نا پایا جاسکا تو اس وقت کی حکومت کون سے اثاثے فروخت کرے گی؟ ان تمام حقائق سے ایک ہی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ اگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی واقعی عوام کے دلوں کو جیتنا چاہتی ہیں تو ریاستی اداروں کی تنظیمِ نو ، ریاستی اداروں کا حجم کم کرنے اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ادارہ جاتی اقدامات پر توجہ دینی ہوگی۔
Load Next Story