پاک ایران تجارت



ایران کے صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی پاکستان کا تین روزہ دورہ مکمل کر کے سری لنکا روانہ ہوگئے ہیں۔ لاہور میں انھوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان توانائی اور دیگر شعبوں میں تعاون کو بڑھایا جائے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان گہرے تاریخی تہذیبی مذہبی اور ثقافتی مراسم ہیں۔

بات دراصل یہ ہے کہ پاکستان اور ایران دونوں برادر اسلامی ممالک اسلام کی آمد اور اس سے قبل ہزاروں سال سے ایک دوسرے کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے تحت رہ رہے ہیں۔ ہزاروں ایرانی النسل خاندانوں نے انگریزوں کی آمد کے بعد بھی اور اس سے قبل، کس کس دورکی بات کریں، برصغیر پاک و ہند کے مختلف علاقوں میں آ کر آباد ہوتے رہے۔ مغلیہ دور حکومت میں بھی وہاں کی بڑی بڑی علمی شخصیات نے مغل دور حکومت میں اپنی قابلیت کا سکہ جمایا۔ بہت سے ایرانی فوجی کمانڈوز اور سپاہیوں نے بھی برصغیر میں مختلف ادوار میں اور مختلف حکمرانوں کی ملازمت اختیار کی۔

مغلوں کے دور میں اور اس سے قبل اہل ایران کے لیے پاکستانی علاقے اور شہر اجنبی نہ تھے۔ لاہور، ملتان، سکھر اور دیگر شہروں اور پھر پنجاب سے گزرکر دہلی، لکھنو، مرشد آباد اور دیگر شہروں سے بھی ایرانی بھائی خوب واقف تھے اور بہت سے ایرانی شہروں کے بارے میں پاکستانی بچے اپنے بچپن سے ہی آگاہی حاصل کرتے رہے ہیں۔ مثلاً بچپن میں آپ نے بھی سنا ہوگا کہ اصفہان، نصف جہان، بہت سے ایرانی کھانوں، پکوانوں کو پاکستان میں ایسی پذیرائی ملی کہ اس کے بغیر شادی بیاہ کی دعوت ہو یا گھر یا ہوٹلوں میں دعوت کا اہتمام ہو ان کھانوں کے ساتھ دعوت کا مزہ ہی دوبالا ہو جاتا ہے۔

قیام پاکستان سے قبل کی بات کروں گا جب برصغیر کے بہت سے کاروباری خاندان چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان ہوں ان کے تجارتی روابط ایران سے بہت گہرے تھے۔ کراچی میں اور برصغیر کے دیگر علاقوں میں ایرانی کیفے بہت ہی مشہور و معروف تھے۔ کوئی بھی شخص اگر ان کیفوں سے آ کر ایرانی چائے سے لطف اندوز ہو جاتا وہ پھر اسے نہیں بھولتا تھا۔ غالباً 1977 تک 6 آنے کا ایک کپ چائے دستیاب ہو جایا کرتا تھا۔ البتہ چائے کا کپ پورا بھرا ہوا نہیں ہوتا تھا۔ برصغیر کے بے شمار تاجر خاندان ایسے تھے جو ایران کے ساتھ بیوپار کرکے یہاں کے متمول افراد بن چکے تھے۔

آج بھی پاکستان اور ایران کے درمیان باہمی تجارت کے بے انتہا مواقعے موجود ہیں۔ جس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کو ڈاکٹر کی اعزازی ڈگری دی جا رہی تھی۔ اس موقع پر گورنر سندھ یہ کہہ رہے تھے کہ انھوں نے ایران کے کئی صوبوں کا دورہ کر کے وہاں کے صنعتکاروں اور تاجروں سے ملاقات کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ایرانی سرمایہ کاروں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ پاکستان خصوصاً اس کے معاشی حب کراچی میں سرمایہ کاری کریں۔

اس موقع پر انھوں نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے کے وسائل کو استعمال کرکے اپنی معیشت کو بہتر کرنا ہوگا، اگر گورنر سندھ کے اس جملے کا پاکستان کے معاشی حکام ادراک کر لیں مثلاً اس سے قبل جب 2013 میں صدر آصف زرداری کی بے لوث جدوجہد اور کوشش کے نتیجے میں ہم پائپ لائن کے ذریعے گیس حاصل کرنے جا رہے تھے اگر آج سے کئی سال قبل یہ پروجیکٹ مکمل کر لیا جاتا اور پاکستان ایران سے سستی گیس و بجلی اور اسی طرح سستا پٹرول اور پاکستان میں گیس، پٹرول کے کنوئیں کی کھدائی سے پٹرول اور گیس حاصل کر رہا ہوتا اور ایران سے بھی سستی توانائی حاصل کر رہا ہوتا تو غور کیجیے آج پاکستان کس مقام پر کھڑا ہوتا۔ یہ مہنگائی جوکہ اس وقت 30 فی صد ہے وہ 3 فی صد بھی نہ ہوتی۔

کیونکہ ایران ہمیں بجلی، سستی گیس و پٹرول فراہم کر رہا ہوتا، ہم اس کی مدد سے کارخانوں کے پہیوں کو رکنے نہ دیتے۔ ہماری مصنوعات سستی تیار ہوتیں تو عالمی منڈی میں ہماری مصنوعات کا کوئی مقابلہ نہیں کر پاتا۔ دنیا بھر کے ممالک ہم سے سستی مصنوعات خریدنے کے متمنی ہوتے۔

ہمارے معاشی مسائل کے جڑکی ابتدا یہیں سے ہوتی ہے کہ ہم اگر توانائی کے سستے ذرایع پیدا نہیں کر سکے تو ہم نے ایران کے سستے ذرایع سے استفادہ کیوں نہیں کیا؟ گورنر سندھ کی یہ بات درست ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے وسائل کو استعمال کرکے اپنی معیشت کو بہتر کرنا ہوگا۔ ایرانی صدر کے دورہ کراچی کے موقع پر ایران کی خاتون اول کی کتاب کا اردو ترجمہ '' نسوانی زندگی کا فن'' کی رونمائی آئی بی اے سٹی کیمپس کراچی میں ہوئی۔

اس موقع پر پاکستان کی خاتون اول محترمہ آصفہ بھٹو زرداری نے بھی خصوصی شرکت کی۔ ایرانی خاتون اول نے پاکستانی خواتین کو سائنس، سوشل سائنس وغیرہ وغیرہ میں مشترکہ تحقیق کی دعوت بھی دی۔ راقم کا خیال ہے کہ پاکستان کی خاتون اول ان کی اس پیش کش کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے ذاتی اثر و رسوخ سے کام لیں اور ایسی خواتین جوکہ پاکستان میں سائنس، سوشل سائنس اور دیگر علمی میدانوں میں اگر ان کی گراں قدر خدمات ہوں تو ان کو اس پیش کش سے فائدہ اٹھانے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں