امتحانات میں ناکامی کی عمومی وجوہات

امتحانات کے نزدیک اکثر طالب علم ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتے ہیں اور کئی طبی مسائل بھی جنم لینے لگتے ہیں

امتحانات کی ناکامی میں بہت سے داخلی، خارجی اور نفسیاتی عوامل شامل ہیں۔ (فوٹو: فائل)

امتحانات میں طالب علموں کی ناکامی ایک بہت وسیع موضوع ہے اور اس کی بہت سی عمومی وجوہات ہیں۔ زیر نظر مضمون میں ہم انہی چیدہ چیدہ نکات کا جائزہ لیں گے تاکہ یہ علم ہوسکے کہ طالب علم آخرکار امتحان میں فیل کیوں ہوتے ہیں۔



طلبا کی پڑھائی میں عدم دلچسپی


درحقیقت ہر بچہ پڑھنے والا نہیں ہوتا اور یہی ایک سچ ہے۔ ہمارے ہاں بہت سے طالب علم اسکول اور کالج جانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ کلاس میں بھی کئی طالب علم غائب دماغی کا شکار رہتے ہیں۔ اس عدم دلچسپی کی وجہ سے وہ امتحانات کے دنوں میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ وہ پڑھائی میں دلچسپی نہیں لیتے اور روز کا سبق روز یاد نہیں کرتے۔



درست مضامین کا انتخاب نہ کرنا


اکثر طالب علموں کو ان کی مرضی کے مضامین کا انتخاب نہیں کرنے دیا جاتا، جس کی بنیادی وجہ والدین کی جانب سے دباؤ ہے۔ اکثر والدین سوچے سمجھے بنا یہی چاہتے ہیں کہ بچوں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈاکٹر یا انجینئر بنائیں، جبکہ ہوسکتا ہے کہ بچہ فائن آرٹس لینا چاہتا ہو یا انگریزی ادب کا شوق رکھتا ہو۔ جب بچوں کو ان کی مرضی کے مطابق مضامین لینے نہیں دیے جاتے تو وہ پڑھائی کو بوجھ سمجھ کر سر سے اتارنا چاہتے ہیں اور جب پڑھائی بوجھ کی صورت لگے تو اس میں ناکامی ہی ہوتی ہے۔



وسائل کی کمی اور غربت


غربت ہمارے ملک کا بڑا المیہ ہے۔ لاکھوں بچے اسکول سے باہر ہیں اور اکثر طالب علم ایسے ہیں جن کے پاس مناسب وسائل کی کمی ہے، یعنی گائیڈز بک تو الگ رہیں وہ ٹیکسٹ بکس تک نہیں خرید سکتے۔ ایسی صورت میں جب آپ کے پاس مکمل نصابی کتابیں نہ ہوں، اسٹیشنری نہ ہو، نوٹس نہ ہوں تو بالکل بھی تدریس جاری نہیں رکھی جاسکتی اور طلبا امتحانات میں ناکام ہوجاتے ہیں۔



اساتذہ کا طالب علموں کی ذہنی استعداد نہ سمجھنا


ایک ہی کلاس روم میں مختلف ذہانت رکھنے والے طالب علم موجود ہوتے ہیں لیکن اساتذہ ایک ہی طرح سے تمام بچوں کو پڑھا دیتے ہیں، جب کہ کسی بچے کو زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اور کوئی سبق جلدی یاد کرلیتا ہے۔ ایسے میں تمام کو ایک ہی لحاظ سے رکھنا بالکل درست نہیں ہوتا اور جن بچوں کو خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے جب انھیں بھی عمومی توجہ ملتی ہے تو وہ امتحانات میں اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکتے۔



والدین کا بے خبر ہونا اور اساتذہ کو الزام دینا


بچوں کی کامیابی میں والدین اور اساتذہ دونوں کا ہی ہاتھ ہوتا ہے لیکن ہمارے اکثر والدین صرف نتیجے والے دن ہی بچے کی کارکردگی سے خود کو آگاہ کرنا ضروری سجمھتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسکول، کالج یا اکیڈمی کی فیس دے دی گئی تو بس اب سب فرض استادوں کا ہی ہے۔ جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ بچوں کو گھر میں پڑھنے کےلیے شاذ و نادر ہی والدین کبھی کہتے ہیں، حالانکہ نویں اور دسویں دو ایسی جماعتیں ہیں جن کے اوپر بچے کا سارا کیرئیر منحصر ہے۔ اگر اس وقت بھی والدین بچوں کی مانٹیرنگ نہیں کرتے اور بچوں کو پڑھائی کی تلقین نہیں کرتے تو بچے امتحانات میں اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکتے۔



استادوں کا کلاس کو کم توجہ دینا


کئی استادوں نے اپنی اکیڈمیاں اور ٹیوشن سینٹر کھول رکھے ہیں۔ مانا کہ یہ غلط نہیں، لیکن ایسے اساتذہ اپنے ٹیوشن سینٹرز میں آنے والے بچوں کو اچھا پڑھاتے ہیں اور کلاس میں اتنی توجہ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ اس سے بھی جو بچے نظر انداز ہوتے ہیں وہ بمشکل امتحانات میں پاس ہوتے ہیں۔



سوشل میڈیا اور دیگر برقی آلات کا استعمال


مان لیا کہ جدید دور سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہماری نئی نسل ہر وقت موبائل سے چپکی رہتی ہے۔ لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ موبائل کا استعمال تفریح کےلیے زیادہ کیا جاتا ہے اور پڑھائی کےلیے کم۔ بچوں کی توجہ پڑھائی کے دوران بھی انہی آلات پر مرکوز رہتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ناکام ہوجاتے ہیں۔



امتحانات کا خوف


امتحان ایک ایسی چیز ہے جس کا کم و بیش ہر طالب علم کو خوف ہوتا ہے، اب چاہے وہ کتنے لائق ترین ہی کیوں نہ ہوں۔ ایگزام فوبیا ایک تلخ سچائی ہے۔ بہت سے طالب علم عام دنوں میں اچھی پڑھائی کرتے ہیں لیکن کمرہ امتحان میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ اس لیے نہیں کرسکتے کہ وہ امتحانات کے خوف میں مبتلا ہوتے ہیں اور جو بھی انھیں یاد ہوتا ہے وہ سب بھول جاتے ہیں۔




پرچہ حل کرنے کی تکنیک کا علم نہ ہونا


ہر مضمون کا پرچہ حل کرنے کی ایک تکینک ہوتی ہے اور بدقسمتی سے ہمارے اداروں میں یہ تکنیک سکھائی نہیں جاتی۔ بچوں کو یہ بتایا جائے کہ اگر ایم سی کیوز ہیں تو ان کےلیے کس طرح اور کتنا وقت درکار ہوگا، اگر کوئی موضوعاتی اعتبار سے پرچہ ہے تو اس کو حل کرنے کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ ٹائم مینجمنٹ، سوال کو بہتر انداز سے سمجھنا اور پھر حل کرنا کامیابی کی طرف گامزن کرتا ہے۔



آن لائن تعلیم


بہت سے لوگ آن لائن طریقہ تعلیم کو کامیابی سمجھتے ہیں، جب کہ میرے خیال میں ایسا نہیں۔ کورونا وبا کے دوران دنیا بھر کے اسکول احتیاطی تدابیر کے ساتھ کھلے رہے لیکن پاکستان میں آن لائن نظام تعلیم پر بہت زور دیا گیا۔ استاد چاہے کتنی ہی محنت کیوں نہ کرلیں طالب علموں کےلیے مکتب، مدرس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم رہے گی۔ جسمانی طور پر استاد کا کلاس میں موجود ہونا اور پڑھانا اور آن لائن تعلیم میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔



ذہنی تناؤ اور طبی مسائل


امتحانات کے آتے ہی اکثر طالب علم ذہنی تناؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ کئی طبی مسائل بھی جنم لینے لگتے ہیں، خاص پر سر چکرانا، بدہضمی اور جسمانی کمزوری جیسے مسائل۔ کئی طالب علم کمرہ امتحان میں طبعیت کی خرابی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ امتحانات کا بوجھ ہی اتنا ہوتا ہے جس کا پریشر وہ برداشت نہیں کرسکتے اور بیمار ہوجاتے ہیں۔



سمجھے بغیر رٹا لگا کر پڑھنا


دیکھا جائے تو عام طور پر نصاب نہ تو جدید طریقوں سے ہم آہنگ ہوتا ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ نصابی کتب زیادہ تر بور ہوتی ہیں۔ طالب علم جب بوریت کا شکار ہوجاتے ہیں تو چیزوں اور ان کے تصورات کو سمجھے بغیر رٹا لگا کر پڑھتے اور یاد کرتے ہیں۔ اس سے یہ ہوتا ہے کہ صرف یادداشت کا ہی امتحان ہوتا ہے۔ بعض مرتبہ تو ایسا ہوتا ہے کہ کمرہ امتحان میں ایک سوال کا پہلا لفظ جو رٹا لگایا ہوتا ہے بھول جاتا ہے تو سارا جواب ہی بھول جاتا ہے اور طالب علم پرچوں میں فیل ہوجاتے ہیں۔



والدین کا دوسرے بچوں سے تقابل


ہمارے معاشرے کی ایک خرابی یہ ہے کہ والدین ہمیشہ بچوں کا ان کے بہن بھائیوں یا خاندان کے بچوں سے مقابلہ کرتے ہیں، بلکہ کئی اساتذہ بھی ایسا کرتے ہیں۔ اس سے طالب علموں میں اچھا رویہ جنم نہیں لیتا۔ وہ صرف اس لیے پڑھنا چاہتے اور نمبر لانا چاہتے ہیں کہ ان کے فلاں بہن بھائی یا کزن کے نمبر ان سے زیادہ تھے تو اب ان کو بھی یہی کرنا ہوگا۔



والدین کی طرف سے دباؤ


والدین امتحانات کے قریب بچوں پر کافی دباؤ ڈالتے ہیں اور کئی گھروں میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر تم فیل ہوگئے اور اچھے نمبروں سے اتنے گریڈز نہیں لائے تو خاندان میں ہماری ناک کٹ جائے گی یا تمھیں کسی کاروبار پر بٹھا دیا جائے گا۔ یہ چیز طالب علموں پر ایک نفسیاتی حملہ کی طرح ہوتی ہے، والدین سمجھتے ہیں کہ اس کا رزلٹ اچھا نکلے گا لیکن نتیجہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔



حل شدہ پرچہ جات اور گائیڈز


عام طور پر گائیڈز اور پانچ سالہ حل شدہ پرچہ جات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو گائیڈز میں نسبتاً آسان سوالات حل کیے ہوئے ہوتے ہیں اور مشکل کے بارے میں یہی لکھا ہوتا ہے کہ اسی طرح سے باقی سوالات بھی حل کرلیں۔ اب ایک طالب علم جسے سوال مشکل لگ رہا ہے اور گائیڈ میں بھی نہیں مل رہا، اس سے امتحان میں پاس ہونے کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔



المختصر امتحانات میں ناکامی کی بہت سی وجوہات ہیں، جن میں بہت سے داخلی، خارجی اور نفسیاتی عوامل بھی ہیں۔ اساتذہ اور والدین دونوں کا بچوں کی کامیابی میں اہم کردار ہوتا ہے لہٰذا دونوں کو ہی بچوں پر یکساں توجہ دینی چاہیے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔


Load Next Story