نہ پوچھ اے ہم نشیں مجھ سے …

انسان اپنے آپ کو اس راہ پر گامزن کرے جس سے وہ اللہ کی قربت حاصل کرسکے



مملکت خداداد پاکستان ہماری جِند جان ہے ہمارے دِلوں کی دھڑکن ہے یہ دھرتی ہمارے اسلاف کے شوقِ جہاد و شہادت و فتح مندی اور ایمان کی آبیاری ِ کے لیے ہجرت در ہجرت کی امین وگواہ ہے۔

ہماری نسلوں کی امیری نہیں بلکہ ان کے ایمان کا روشن مستقبل اِسی وطن سے وابستہ ہے جبکہ پاکستان کا عظیم الشان اور پائیدار مستقبل صرف اور صرف دین اسلام کے بنیادی اصولوں پر وضع کردہ نظام کے کما حقہ نفاذ سے وابستہ ہے۔

ایک زمانہ تھا مسلمان کے ارادوں میں مشیت ِایزدی پوشیدہ تھی، تائیدِ ایزدی ان کے ساتھ ہوتی تھی۔ جب مسلمانوں نے احکامِ الہی سے روگردانی کر لی تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا۔ آج مسلمان عملِ صالح سے کنارہ کر کے تقدیر پر بھروسہ کیے بیٹھے ہیں، حالانکہ خدا کی تقدیر یعنی اس کا قانون یہ ہے کہ :

انسان کو اللہ وہی عطا کرتا ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔

قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ تبارک تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ

1۔ جو لوگ ہمارے معاملے میں جدوجہد اور کوشش سے کام لیتے ہیں، ہم ان پر اپنے راستے عیاں کردیتے ہیں۔

2۔ یقینا اللہ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔

3۔ بلکہ اللہ نے ان پر ان کے انکار کے سبب مہریں لگا دیں۔

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے مسئلہ جبر و قدر دونوں چیزوں کو ایک ہی شعر میں بڑی خوبصورتی سے یوں پرویا ہے۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال پورے یقین سے کہتے ہیں کہ انسانی تجربہ سلسلہ اعمال کی کڑیوں میں سے ہے، ہر عمل ایک دوسرے سے باہم مربوط ہے اور ایک کے بعد دوسرا عمل مجبورا ہوتا چلا جاتا ہے جوکہ ایک باہمی وحدت مقصد میں منسلک ہوتا ہے۔

علامہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسانی خودی کا اور تقدیر کا آپس میں گہرا تعلق ہے، اگر انسان نفس کی تربیت میں ان اصولوں کو مدنظر رکھے تو اس کے اندر اندرونی صلاحیتیں ابھرتی ہیں جس سے وہ اپنی تقدیر کا مالک بن جاتا ہے۔

تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا

عجب نہیں ہے کہ یہ چار سو بدل جائے

ناچیز جہانِ مہہ و پر ویں ترے آگے

وہ عالمِ مجبور ہے، تو عالمِ آزاد

(اقبال)

فرد ملت کا متوازن ربط صرف اسلام ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں فرد اور ملت کا رشتہ نسل یا وطن کے روابط کی بنیاد پر استوار نہیں ہوتا بلکہ توحید اور رسالت کا وسیع اور ہمہ گیر عقیدہ اس کی بنیاد بنتا ہے۔

ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ فرد کو حقیقی آزادی ملت اسلامیہ کے اندر ہی حاصل ہوئی کیونکہ اسی ملت نے نوع انسان کو حقیقی معنوں میں حریت، مساوات اور اخوت کا نمونہ دکھایا۔ توحید کے عقیدہ نے نسل و انسب کے امتیاز کو مٹا دیا۔ غریبوں کو امیروں اور زیر دستوں کو زبردستوں کے تسلط سے آزاد کرکے عدل و انصاف کے اعلیٰ ترین معیارکو قائم کیے اور اسلام کے رشتوں سے انسانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا۔

اللہ سے بڑا غیرت مند کوئی نہیں، وہ کِسی کا قرض اپنے اوپر ادھار نہیں رکھتا یہ کیسے ممکن ہے کہ جس اللہ کے نام پر ہمارے بڑوں نے اپنے بزرگوں کی نسل در نسل قائم یادگاریں ( قبریں ) غیروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیں صدیوں سے آباد اپنی خوبصورت اور آباد مساجد کی قربانی دی اور پاکستان کو دنیا بھر کے مسلمانوں کا وطن اور دِین اسلام کا قلعہ بنانے کے لیے ہجرتِ مدینہ کی ایمانی ہجرت کو زندہ کیا۔ کِس لیے اور کِس کے لیے؟

صرف اور صرف اللہ و رسول اور دین اسلام کی خاطر۔ ایمان کی عظمت اور پاکستان کی سربلندی کے لیے... تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اللہ ہمیں اور ہمارے وطن کو تنہا چھوڑ دے۔ ہاں! یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ ہم نے جتنی قربانیاں پیش کرنی تھیں ان کی تکمیل سے پہلے ہی ہمارے کچھ لوگوں نے صبرکا دامن چھوڑ دیا ہو۔ جس کا خمیازہ ہم سب بھگت رہے ہیں۔

اے اہل ِ وطن! انسان جب اپنے جسم اور صورت کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ڈھال لیتا ہے اور خود کو اس طرح بنا لیتا ہے، جیسے میرے پیارے آقا ﷺ تھے۔ تو پھر خود اللہ پاک قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اللہ پاک اس کے ہاتھ بن جاتا ہے اور وہ وہی کرتا ہے جو اللہ پاک چاہتا ہے اور اسی چیز کو چھوتا ہے جسے اللہ پاک نے اس کے لیے حلال کیا ہوتا ہے اور اللہ پاک اس کی آنکھیں بن جاتا ہے، اور وہ صرف اسی چیزکو دیکھتا ہے جسے اللہ پاک دیکھنے کا حکم دیتا ہے اور اس کے کان بن جاتا ہے اور وہی آواز سنتا ہے جسے اللہ پاک سننے کا حکم دیتا ہے۔ جب انسان کو یہ مقام مل جاتا ہے اور اللہ پاک اس کے کان اور آنکھ بن جاتا ہے تو پھر اللہ پاک وہی تقدیر لکھتا ہے جو بندے کی خواہش ہوتی ہے۔

آج ہم مسلمانوں کی حالت بہت ابتر ہے کہ ہماری خودی اور ہمارا نفس ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے اور ہم ہر وہ غلط کام کرتے ہیں جس کا اللہ پاک نے نا کرنے کا حکم دیا ہے اور ہر وہ برائی ہم میں پائی جاتی ہے جس سے اللہ پاک نے سختی سے منع فرمایا ہے۔

اگر ہم ملک کو درپیش مشکلات مسائل اور بحرانوں سے نکلنا چاہتے ہیں۔ دنیا میں باوقار قوم کی طرح آگے بڑھنے کے خواہش مند ہیں اپنی آیندہ نسلوں کو ایک محفوظ مستقبل دینا چاہتے ہیں۔ دشمنان پاکستان کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے مخلص ہیں تو پھر ہمیں اپنے نفس کوکنٹرول کرنا اور اپنے اندر موجود خودی کو اجاگرکرنا ہوگا، اپنی زندگیوں کو قرآن وسنت کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔

یاد رکھیں زندگی کا آغاز، وسط اور انجام سبھی کچھ انسان کی سوچوں پر منحصر ہے۔ فرد و ملت کی ترقی و تنزل، زندگی کا تحفظ اور استحکام۔ ازل سے ابد تک انسان کی ذاتی سوچ اور عمل کی ہی کار فرمائی ہے جن کے بنا پر وہ زندگی کا عروج بھی حاصل کرسکتا ہے یا پھر زوال سے بھی ہمکنار ہوسکتا ہے۔ غرضیکہ انسان کی ساری کامیابیوں کا انحصار نفس کی پرورش و تربیت پر ہے۔ قوت اور تربیت یافتہ نفس ہی کی بدولت انسان نے حق و باطل کی جنگ میں فتح پائی ہے۔ نفس زندہ اور پائندہ ہو تو فقر میں شہنشائی کی شان پیدا ہوجاتی ہے اورکائنات کا ذرہ ذرہ اس کی تصرف میں آجاتا ہے۔

نظر آئیں مجھے تقدیرکی گہرائیاں اس میں

نہ پوچھ اے ہم نشیں مجھ سے وہ چشمِ سرمہ سا کیا ہے

انسان کی جدوجہد و عمل اس کے کردار کی تعمیر کرتا ہے۔ بے قید و بے ترتیب نفس کی مثال شیطان کی سی ہے جو صراط مستقیم سے بھٹک چکی ہو۔ دنیا و آخرت میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لیے اطاعت الٰہی، ضبط نفس اور نیابت الٰہی اولین شرط ہے۔ غرض عشق حقیقی سے سرشار ہوکر انسان اپنے آپ کو اس راہ پر گامزن کرے جس سے وہ اللہ کی قربت حاصل کرسکے۔

اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اسے عقل و شعور عطا کیا ہے تاکہ وہ اپنے عمل اور کردار سے اللہ کی خوشنودی اور رضا حاصل کرے اسی میں اس کی کامیابی ہے اور اسی میں ہمارے تمام مسائل و مشکلات کا حل بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔