بھارت الیکشن 2024ء
بھارت کے مسلمان بہت الجھن میں ہیں، صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ عیسائی اور دیگر اقلیت کے لوگ اس زد پر ہیں
غزہ میں بہت برا ہو رہا ہے، مسلمانوں کو جس بے دردی سے نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ بہت اذیت ناک ہے لیکن ہمارے پڑوس میں بھی کچھ ایسا ہی کرنے کی تیاریاں ہیں،کیا ہم واقعی اتنے بے خبر ہیں کہ اپنے پڑوسی بھارت کی خبروں سے لاعلم ہیں؟
ان دنوں بھارت کے مسلمان بہت الجھن میں ہیں، صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ عیسائی اور دیگر اقلیت کے لوگ اس زد پر ہیں۔ اس وقت بھارت میں مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد زندگی بسر کر رہی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو قیام پاکستان سے قبل بھی وہاں رہتے تھے۔ ان کے آبا و اجداد نے وہاں اپنی زندگیاں گزاری تھیں لیکن نریندر مودی نے جب سے سیاست میں قدم رکھا انھوں نے اپنی متعصبانہ حکمت عملی سے پہلے گجرات میں اور اب پورے بھارت میں ہلچل مچا رکھی ہے اس کا نشانہ خاص کر مسلمان ہی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان ہی کیوں؟ تو بدقسمتی سے نریندر مودی اس چھوٹے دماغ کے حامل انسان ہیں جنھیں کم عمری سے ہی تعصب نے آگھیرا تھا، اس لیے انھوں نے آر ایس ایس جوائن کی تھی یہ وہ تنظیم یا پارٹی ہے جو اب بھی بھارت میں صرف ایک مذہبی فرقے یعنی ہندومت کے ماننے والوں کو دیکھنا چاہتی ہے۔ اس تنظیم کی تشکیل قیام پاکستان کے وقت صرف جوش سے بھرے نوجوانوں پر مشتمل تھی جو اپنی لاٹھیوں کے زور سے بھارت کے دوسرے مذہبی فرقوں اور خاص کر مسلمانوں کو نکال باہر کرنا چاہتے تھے۔
اتفاق سے یا یہ بھارت کی خوش نصیبی تھی کہ وہاں کانگریس کی حکومت نے اسے پھلنے پھولنے کا موقع نہ دیا تھا لیکن وقت کے دھارے کے ساتھ شدت پسندی کے بخار نے اسے اتنا بڑھایا کہ جس نے یکے بعد دیگرے بھارت میں کئی متعصب حادثات کو جنم دیا۔ گجرات میں اپنی وزارت کے دوران نریندر مودی نے اپنے اختیارات کے پہلے پانسے میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی تھی، یہ وہی دور تھا جب سوشل اور پڑھے لکھے ہندو طبقے میں مودی پر تنقید کی گئی تھی جس کا ان پر کوئی اثر نہ پڑا تھا۔
الیکشن کے نام پر بھارت میں بھی بہت کچھ ہوتا رہا تھا لیکن یہ قدرت کی جانب سے اشارہ ہے کہ نریندر مودی کو ان کی تمام تر شرارتوں کے باوجود یکے بعد دیگرے اعلیٰ وزارت کی کرسی سے نوازا گیا جس پر وہ کچھ اور بھی شیر ہوگئے ہیں پہلے دو اہم قوانین کی منسوخی سے کشمیر کے حق کو ہڑپ کر لینے کے منصوبے کے بعد اب مزید پیر پھیلا لیے ہیں۔
یہ بھی درست ہے کہ آئی ٹی کے شعبے میں جو ترقی بھارت کو نصیب ہوئی وہ پہلے پاکستان کے سامنے پلیٹ میں رکھ کر پیش کی جا رہی تھی اس پلیٹ کو کیوں پرے کیا گیا، اس کے سوال جواب سے اب کیا فائدہ کہ وقت کے پہیے کو پیچھے کی جانب دھکیلا نہیں جا سکتا لیکن جو اس وقت ہو رہا ہے وہ پاکستان کے لیے غربت اور بھارت کے لیے ترقی کے اجالے لایا ہے۔
بھارت میں ترقی کے معیار بڑی طاقتوں کو دانت دکھاتے آگے بڑھنے اور اپنی ہی آبادی میں بستے اقلیتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے آگے نکلتے مودی سرکار اب آگے کے لیے خواب دیکھ رہے ہیں جو انتہائی خوفناک ہیں۔ واضح طور پر کہا جائے تو مسلمانوں کے حقوق غصب کرنے کے اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کی تیاریاں جاری ہیں۔ ان تیاریوں کو کاغذی شکل میں ترتیب دینے کے لیے 2024 کے الیکشن کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بیرونی طاقتوں نے بھی خاص کر مسلمان ریاستوں نے جس طرح نریندر مودی کو آشیر باد دی ہے اس سے ان کے عزائم میں اور بھی سختی پیدا ہوئی ہے۔ جس سرزمین پر صدیوں پہلے بتوں کو توڑا گیا تھا اور یہ عمل کس بابرکت ہستی نے شروع کیا تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اس کے پیچھے ایک طاقت ور پوائنٹ تھا کہ جو اپنی حفاظت نہ کر سکے اپنی زبان سے کچھ نہ کہہ سکے وہ عام انسانوں کی حفاظت کیسے کر سکتا ہے؟
اسی نقطے کو آج بھی بہت سے دانشور ہندو طبقے سمجھتے ہیں اور یقین بھی کرتے ہیں اب جسے رب العزت توفیق دے لیکن اس وقت انتخابات کے میدان میں ہمارے اپنے مسلمان رہنماؤں نے اپنی سرزمین پر ان بتوں کے نصب کرنے پر جو اعتماد بخشا وہ ایک خوفناک صورت لے کر بھارت میں جلوہ گر ہورہا ہے۔
مودی نے پہلے طلاق کے قوانین پر اپنی صفائی دکھائی اگرچہ وہ درست بھی ہے لیکن اس پہلے قدم کے بعد ہونے والے اقدامات کی ایک طویل فہرست تو ان کی جیب میں تھی جس میں وقف بورڈ کو ختم کرنے کی سازش، اقلیتی کمیشن ختم کرنا، عبادت گاہوں کو ختم کرنے کا ایکٹ ( مساجد اور گرجا گھر)، مدارس پر پابندی، اقلیتی وزارتیں اور ریاستی حکومتوں کا اختتام، آبادی کنٹرول قانون (دو بچوں)، سول کوڈ (مسلمانوں پر شریعت پر عمل کرنے کی پابندی)، جائیداد ضبط جیسے اقدامات شامل ہیں۔
آج ہم بھارت کی ترقی کے گیت گا رہے ہیں کہ وہاں کیا کچھ ہو رہا ہے اس کے درپردہ اور کیا کچھ ہو رہا ہے وہ ہمیں دکھائی نہیں دے رہا۔ مودی اپنی مخالف جماعتوں کے ساتھ کیا کچھ کر رہا ہے اس وقت ہمیں وہ دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ ان کا الیکٹرانک میڈیا سرکار کے قبضے میں ہے اور یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ بھارت کے چینلز ان تمام حالات سے پرے ویسے بھی چیخ پکار کرکے اپنے آپ کو نمایاں سمجھنے کے عادی ہیں۔
تعصبات کی عینک لگائے بھارتی سرکار جس انداز سے مسلمانوں کو نشانہ بنائے میدان سے آؤٹ کر دینے کا کھیل شروع کر رہی ہے، اسے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ابھی ایک اور پاکستان آزاد ہونا باقی ہے۔ ماضی میں انگریزوں نے اسی تعصب کے تحت ہندوؤں کو اپنے ساتھ ملا کر کچھ ایسا ہی کھیلا تھا۔
اس کھیل میں کون جیتتا ہے کون ہارتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن مسلمانوں کے لیے اب بھی موقع ہے کہ عقل کے ناخن لیں اور گمراہیوں سے نکلیں کہ ہم سب کو بھی ایک دن حساب کتاب کرنے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا وقتی طور پر دوستیاں نبھانے کے بجائے پختہ بنیادوں پر اپنے اور اپنے بھائیوں کے لیے بھی سوچیں اور عمل کریں کہ اتفاق میں ہی برکت ہے۔
ان دنوں بھارت کے مسلمان بہت الجھن میں ہیں، صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ عیسائی اور دیگر اقلیت کے لوگ اس زد پر ہیں۔ اس وقت بھارت میں مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد زندگی بسر کر رہی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو قیام پاکستان سے قبل بھی وہاں رہتے تھے۔ ان کے آبا و اجداد نے وہاں اپنی زندگیاں گزاری تھیں لیکن نریندر مودی نے جب سے سیاست میں قدم رکھا انھوں نے اپنی متعصبانہ حکمت عملی سے پہلے گجرات میں اور اب پورے بھارت میں ہلچل مچا رکھی ہے اس کا نشانہ خاص کر مسلمان ہی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان ہی کیوں؟ تو بدقسمتی سے نریندر مودی اس چھوٹے دماغ کے حامل انسان ہیں جنھیں کم عمری سے ہی تعصب نے آگھیرا تھا، اس لیے انھوں نے آر ایس ایس جوائن کی تھی یہ وہ تنظیم یا پارٹی ہے جو اب بھی بھارت میں صرف ایک مذہبی فرقے یعنی ہندومت کے ماننے والوں کو دیکھنا چاہتی ہے۔ اس تنظیم کی تشکیل قیام پاکستان کے وقت صرف جوش سے بھرے نوجوانوں پر مشتمل تھی جو اپنی لاٹھیوں کے زور سے بھارت کے دوسرے مذہبی فرقوں اور خاص کر مسلمانوں کو نکال باہر کرنا چاہتے تھے۔
اتفاق سے یا یہ بھارت کی خوش نصیبی تھی کہ وہاں کانگریس کی حکومت نے اسے پھلنے پھولنے کا موقع نہ دیا تھا لیکن وقت کے دھارے کے ساتھ شدت پسندی کے بخار نے اسے اتنا بڑھایا کہ جس نے یکے بعد دیگرے بھارت میں کئی متعصب حادثات کو جنم دیا۔ گجرات میں اپنی وزارت کے دوران نریندر مودی نے اپنے اختیارات کے پہلے پانسے میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی تھی، یہ وہی دور تھا جب سوشل اور پڑھے لکھے ہندو طبقے میں مودی پر تنقید کی گئی تھی جس کا ان پر کوئی اثر نہ پڑا تھا۔
الیکشن کے نام پر بھارت میں بھی بہت کچھ ہوتا رہا تھا لیکن یہ قدرت کی جانب سے اشارہ ہے کہ نریندر مودی کو ان کی تمام تر شرارتوں کے باوجود یکے بعد دیگرے اعلیٰ وزارت کی کرسی سے نوازا گیا جس پر وہ کچھ اور بھی شیر ہوگئے ہیں پہلے دو اہم قوانین کی منسوخی سے کشمیر کے حق کو ہڑپ کر لینے کے منصوبے کے بعد اب مزید پیر پھیلا لیے ہیں۔
یہ بھی درست ہے کہ آئی ٹی کے شعبے میں جو ترقی بھارت کو نصیب ہوئی وہ پہلے پاکستان کے سامنے پلیٹ میں رکھ کر پیش کی جا رہی تھی اس پلیٹ کو کیوں پرے کیا گیا، اس کے سوال جواب سے اب کیا فائدہ کہ وقت کے پہیے کو پیچھے کی جانب دھکیلا نہیں جا سکتا لیکن جو اس وقت ہو رہا ہے وہ پاکستان کے لیے غربت اور بھارت کے لیے ترقی کے اجالے لایا ہے۔
بھارت میں ترقی کے معیار بڑی طاقتوں کو دانت دکھاتے آگے بڑھنے اور اپنی ہی آبادی میں بستے اقلیتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے آگے نکلتے مودی سرکار اب آگے کے لیے خواب دیکھ رہے ہیں جو انتہائی خوفناک ہیں۔ واضح طور پر کہا جائے تو مسلمانوں کے حقوق غصب کرنے کے اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کی تیاریاں جاری ہیں۔ ان تیاریوں کو کاغذی شکل میں ترتیب دینے کے لیے 2024 کے الیکشن کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بیرونی طاقتوں نے بھی خاص کر مسلمان ریاستوں نے جس طرح نریندر مودی کو آشیر باد دی ہے اس سے ان کے عزائم میں اور بھی سختی پیدا ہوئی ہے۔ جس سرزمین پر صدیوں پہلے بتوں کو توڑا گیا تھا اور یہ عمل کس بابرکت ہستی نے شروع کیا تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اس کے پیچھے ایک طاقت ور پوائنٹ تھا کہ جو اپنی حفاظت نہ کر سکے اپنی زبان سے کچھ نہ کہہ سکے وہ عام انسانوں کی حفاظت کیسے کر سکتا ہے؟
اسی نقطے کو آج بھی بہت سے دانشور ہندو طبقے سمجھتے ہیں اور یقین بھی کرتے ہیں اب جسے رب العزت توفیق دے لیکن اس وقت انتخابات کے میدان میں ہمارے اپنے مسلمان رہنماؤں نے اپنی سرزمین پر ان بتوں کے نصب کرنے پر جو اعتماد بخشا وہ ایک خوفناک صورت لے کر بھارت میں جلوہ گر ہورہا ہے۔
مودی نے پہلے طلاق کے قوانین پر اپنی صفائی دکھائی اگرچہ وہ درست بھی ہے لیکن اس پہلے قدم کے بعد ہونے والے اقدامات کی ایک طویل فہرست تو ان کی جیب میں تھی جس میں وقف بورڈ کو ختم کرنے کی سازش، اقلیتی کمیشن ختم کرنا، عبادت گاہوں کو ختم کرنے کا ایکٹ ( مساجد اور گرجا گھر)، مدارس پر پابندی، اقلیتی وزارتیں اور ریاستی حکومتوں کا اختتام، آبادی کنٹرول قانون (دو بچوں)، سول کوڈ (مسلمانوں پر شریعت پر عمل کرنے کی پابندی)، جائیداد ضبط جیسے اقدامات شامل ہیں۔
آج ہم بھارت کی ترقی کے گیت گا رہے ہیں کہ وہاں کیا کچھ ہو رہا ہے اس کے درپردہ اور کیا کچھ ہو رہا ہے وہ ہمیں دکھائی نہیں دے رہا۔ مودی اپنی مخالف جماعتوں کے ساتھ کیا کچھ کر رہا ہے اس وقت ہمیں وہ دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ ان کا الیکٹرانک میڈیا سرکار کے قبضے میں ہے اور یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ بھارت کے چینلز ان تمام حالات سے پرے ویسے بھی چیخ پکار کرکے اپنے آپ کو نمایاں سمجھنے کے عادی ہیں۔
تعصبات کی عینک لگائے بھارتی سرکار جس انداز سے مسلمانوں کو نشانہ بنائے میدان سے آؤٹ کر دینے کا کھیل شروع کر رہی ہے، اسے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ابھی ایک اور پاکستان آزاد ہونا باقی ہے۔ ماضی میں انگریزوں نے اسی تعصب کے تحت ہندوؤں کو اپنے ساتھ ملا کر کچھ ایسا ہی کھیلا تھا۔
اس کھیل میں کون جیتتا ہے کون ہارتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن مسلمانوں کے لیے اب بھی موقع ہے کہ عقل کے ناخن لیں اور گمراہیوں سے نکلیں کہ ہم سب کو بھی ایک دن حساب کتاب کرنے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا وقتی طور پر دوستیاں نبھانے کے بجائے پختہ بنیادوں پر اپنے اور اپنے بھائیوں کے لیے بھی سوچیں اور عمل کریں کہ اتفاق میں ہی برکت ہے۔