یکم مئی محنت کشوں کا عالمی دن
ہمارے ملک پاکستان میں آج بھی مزدور 12 اور 16 گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہیں
یکم مئی 1886 محنت کشوں کا عالمی دن ہے آج ٹھیک 138 سال قبل امریکا کے صنعتی شہر شکاگو میں محنت کشوں نے اپنے اوقات کار مقرر کروانے کے لیے بے مثال اور لازوال جدوجہد کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ دیتے 8 گھنٹے اوقات کار مقرر کروائے تھے جبکہ ہمارے ملک پاکستان میں آج بھی مزدور 12 اور 16 گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہیں دوسری جانب یورپ میں مزدور 6 گھنٹے اوقات کار بہتر تنخواہ یا اجرت کے ساتھ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔
یکم مئی کے روز دنیا بھر کے محنت کش اپنے ملکوں میں شکاگو کے ان شہید محنت کشوں کی یاد میں جلسے، جلوس، سیمینار اور ریلیاں نکال کر اس عہد اور عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ جب تک دنیا سے استحصالی نظام کا خاتمہ نہیں ہو جاتا ہماری جدوجہد جاری رہے گی ویسے مظلوموں، محنت کشوں، محکوموں، غریبوں، غلاموں کی بڑی طویل اور کٹھن صبر آزما جدوجہد صدیوں سے جاری ہے اور آج بھی جاری ہے جب سے کائنات یا دنیا وجود میں آئی ہے کشمکش جاری ہے۔
جانے کب پہلی مرتبہ زمین پر طاقتور لوگوں نے لکیریں کھینچ کر اپنی حق ملکیت کا دعویٰ کرنا شروع کردیا تھا اور کمزور بے بس، مظلوم، محکوم اور غریب عوام پر ظلم و ستم اور جبر کرکے اپنا غلام بنا لیا تھا اور جبری مشقت لینا شروع کردی خیر یہ بڑی طویل داستان ہے۔
ابتدائی معاشرہ تو بھائی چارے کا اشتراکی معاشرہ تھا مگر 18 ویں اور 19 ویں صدی میں تقریباً مزدور طبقہ وجود میں آگیا تھا اور منظم بھی ہونا شروع ہو گیا تھا یہ وہ دور تھا جب کوئلہ اور بھاپ سے چلنے والے انجن اور کارخانے مشینی دور میں داخل ہونا شروع ہوگئے تھے بڑے کم معاوضے پر مزدوروں سے جبری مشقت اور بے گار لی جاتی تھی بلکہ ان کو کارخانوں میں بند کر دیا جاتا تھا۔ اس سے قبل 1783 اور 1789 میں فرانس میں ایک انقلابی تبدیلی آ چکی تھی جسے پیرس انقلاب یا پیرس کمیون بھی کہا جاتا ہے۔
کارل مارکس کے نظریات پھیل رہے تھے اینگلز کا دور تھا داس کیپٹل نامی کتاب پورے یورپ میں آ چکی تھی کارل مارکس 1883 میں دنیا چھوڑ گئے تھے اسی دور میں محنت کشوں میں انجمن سازی بھی ہو رہی تھی محنت کشوں کے لیے کوئی قانون نہیں تھا نہ اوقات کار تھے رات گئے تک کام کرنا پڑتا تھا۔ حادثہ اور موت کی صورت میں کوئی معاوضہ بھی نہیں ملتا تھا یورپ میں نئی نئی صنعتیں لگ رہی تھیں۔ سائنس بھی ترقی کر رہی تھی کارخانوں، فیکٹریوں اور ملوں کا جال بچھایا جا رہا تھا۔
مزدور طبقہ ابھر رہا تھا اور یونین سازی کی طرف بڑھ رہا تھا سب سے پہلے برٹش راج میں برطانیہ میں مزدوروں نے جدوجہد کی یونینز بنائیں۔ فیڈریشن بنائیں کمیونسٹ لیگ پہلے ہی بن چکی تھی اس سے قبل بھی محنت کش مختلف اشکال میں جدوجہد کرتے رہے تھے مگر جو کام شکاگو کے محنت کش1886 میں کر گئے وہ رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔
138 سال قبل ایسے مزدور رہنما پیدا ہوگئے تھے جنھوں نے شکاگو میں پہلی مکمل ہڑتال کرکے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے مزدور تحریک کو ایک نیا رخ دے کر محنت کشوں کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا یہ واقعہ شکاگو کی مشہور زمانہ حے(HAY) مارکیٹ کے قریب پیش آیا۔ ان محنت کشوں نے اس وقت کے حکمرانوں، مل مالکوں، کارخانہ داروں، سرمایہ داروں کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ ظالم حکمرانوں ہم بھی انسان ہیں ہمیں بھی زندہ رہنے کا حق دو۔ ہمارے اوقات کار مقرر کرو، ہماری تنخواہوں میں اضافہ کرو، ہمیں روزگار دو۔ نعرے لگا رہے تھے۔ ''دنیا کے مزدورو۔ ایک ہو جاؤ'' وہ بلا رنگ و نسل و مذہب ایک تھے ''گو کہ وہ عیسائی یہودی تھے مگر حکمران اور مل مالکان بھی اسی نسل کے تھے۔''
پورا صنعتی شہر جام ہو گیا ملوں اور کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا بند ہو گیا تھا۔ دنیا میں پہلا موقع تھا جب محنت کرنے والوں نے اپنے اتحاد کے ذریعے علم بغاوت بلند کردیا تھا اور پھر یکم مئی 1886 ایک یادگار دن بن گیا اور پھر یکم مئی 1886 کو صبح ایک مزدوروں کے اخبار میں کسی گم نام صحافی نے اپنا انقلابی فرض ادا کرتے ہوئے صفحہ اول پر تحریر کر دیا تھا جو اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
''مزدورو! تمہاری لڑائی شروع ہو چکی فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا آگے بڑھو اپنے مطالبات منوانے کے لیے اپنے اوقات کار کے لیے، جدوجہد جاری رکھنا حاکموں کو جھکنا پڑے گا۔ جیت اور فتح تمہاری ہوگی۔ ہمت نہ ہارنا، متحد رہنا اسی میں تمہاری بقا ہے اسی میں تمہاری فتح ہے لڑتے رہنا مطالبات کی منظوری تک۔ مزدورو اتحاد زندہ باد۔''
صحافی کی اس تحریر نے محنت کشوں میں مزید جذبہ اور ابھار پیدا کردیا اور انھوں نے زوردار نعرے کے ساتھ 8 گھنٹے اوقات کار کا مطالبہ کر دیا اور یوں پہلی مرتبہ 24 گھنٹوں کو کچھ اس طرح تقسیم کیا گیا ہم 8 گھنٹے کام کریں گے، ہم 8 گھنٹے آرام کریں گے، ہم 8 گھنٹے اپنے اہل خانہ اور بیوی بچوں میں گزاریں گے۔
حکمرانوں، مل مالکوں، سرمایہ داروں کو محنت کشوں کا یہ نعرہ اور اتحاد پسند نہ آیا اور انھوں نے محنت کشوں کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہوئے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، نہتے، کمزور اور پرامن محنت کشوں کو لہولہان کر دیا، شکاگو کی سڑکوں پر مزدوروں کا خون بہنے لگا۔ محنت کشوں کا امن کا سفید پرچم سرخ ہو گیا۔
ایک محنت کش کی قمیض لال لہو سے سرخ ہو گئی پھر انھوں نے لہو میں ڈوبی ہوئی سرخ قمیض کو ہی اپنا پرچم بنا لیا اور فیصلہ کیا کہ اب یہی سرخ قمیض ہمارا جھنڈا ہوگا، اس وقت تک سے آج تک محنت کشوں کا دنیا میں یہی پرچم ہے۔ آخر کار حکمرانوں نے محنت کشوں کے مطالبات تسلیم کیے اور پہلی مرتبہ 8 گھنٹے اوقات کار تسلیم کیے گئے۔ ہمارے ملک میں آج بھی 12 اور 16 گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔
پاکستان میں محنت کشوں کے حقوق غصب کیے جا رہے ہیں۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے لیبر ونگ ہیں، ٹریڈ یونین تحریک کمزور ہو کر دم توڑ رہی ہے بلکہ اب تو نظریاتی ٹریڈ یونین ختم ہوتی نظر آ رہی ہے بعض لیبر لیڈر لیبر لارڈ بن گئے ہیں، وہ پیجارو کلچر ایئرکنڈیشنڈ یونین آفس میں بیٹھے ہیں، مزدوروں سے براہ راست رابطہ ہی نہیں رہا۔ نجکاری کا ڈنکا بج رہا ہے، قومی اداروں کو فروخت کیا جا رہا ہے، ملکی معیشت زوال پذیر ہے۔
آئیے ہم عہد کریں کہ یکم مئی 1886 کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یکم مئی 2024 کو ایک نئی تاریخ رقم کریں۔8 فروری 2024 میں نئے الیکشن ہوگئے ہیں نئی حکومت اور صوبائی حکومتیں بھی بن چکی ہیں۔ مگر ملک میں وہی غربت، وہی بے روزگاری، نجکاری، بھوک اور خودکشی کے اکثر مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں امید ہے ملک کے صدر آصف زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف اور مریم نواز سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اسی طرح بلوچستان کے اور KPK کے وزیر اعلیٰ سمیت سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری کی طرح سندھ کے عوامی گورنر کی طرح دیگر تین صوبوں کے گورنر اور وزیر اعلیٰ مل کر ملک کو غربت، جہالت، بے روزگاری، مہنگائی سے نجات دلانے کے حوالے سے یکم مئی 1886 شکاگو کے محنت کشوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے کم ازکم تنخواہوں میں اضافہ کریں گے اور اوقات میں بھی کمی کرتے ہوئے نئی مزدور پالیسی کا بھی اعلان کریں گے۔
میں اس مرتبہ یکم مئی کینیڈا کے شہر کیلگری میں کینیڈین ٹریڈ یونین کے کارکنوں اور محنت کاروں کے ساتھ منا رہا ہوں جبکہ ریلوے ورکرز یونین کے تحت ملک بھر میں یکم مئی بھرپور انتظام کے ساتھ منایا جائے گا، بقول شاعر سرور ارمان۔
چند اشیائے ضرورت کو ترستے ہوئے لوگ
آخری جنگ کا اعلان تو کر سکتے ہیں
یکم مئی کے روز دنیا بھر کے محنت کش اپنے ملکوں میں شکاگو کے ان شہید محنت کشوں کی یاد میں جلسے، جلوس، سیمینار اور ریلیاں نکال کر اس عہد اور عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ جب تک دنیا سے استحصالی نظام کا خاتمہ نہیں ہو جاتا ہماری جدوجہد جاری رہے گی ویسے مظلوموں، محنت کشوں، محکوموں، غریبوں، غلاموں کی بڑی طویل اور کٹھن صبر آزما جدوجہد صدیوں سے جاری ہے اور آج بھی جاری ہے جب سے کائنات یا دنیا وجود میں آئی ہے کشمکش جاری ہے۔
جانے کب پہلی مرتبہ زمین پر طاقتور لوگوں نے لکیریں کھینچ کر اپنی حق ملکیت کا دعویٰ کرنا شروع کردیا تھا اور کمزور بے بس، مظلوم، محکوم اور غریب عوام پر ظلم و ستم اور جبر کرکے اپنا غلام بنا لیا تھا اور جبری مشقت لینا شروع کردی خیر یہ بڑی طویل داستان ہے۔
ابتدائی معاشرہ تو بھائی چارے کا اشتراکی معاشرہ تھا مگر 18 ویں اور 19 ویں صدی میں تقریباً مزدور طبقہ وجود میں آگیا تھا اور منظم بھی ہونا شروع ہو گیا تھا یہ وہ دور تھا جب کوئلہ اور بھاپ سے چلنے والے انجن اور کارخانے مشینی دور میں داخل ہونا شروع ہوگئے تھے بڑے کم معاوضے پر مزدوروں سے جبری مشقت اور بے گار لی جاتی تھی بلکہ ان کو کارخانوں میں بند کر دیا جاتا تھا۔ اس سے قبل 1783 اور 1789 میں فرانس میں ایک انقلابی تبدیلی آ چکی تھی جسے پیرس انقلاب یا پیرس کمیون بھی کہا جاتا ہے۔
کارل مارکس کے نظریات پھیل رہے تھے اینگلز کا دور تھا داس کیپٹل نامی کتاب پورے یورپ میں آ چکی تھی کارل مارکس 1883 میں دنیا چھوڑ گئے تھے اسی دور میں محنت کشوں میں انجمن سازی بھی ہو رہی تھی محنت کشوں کے لیے کوئی قانون نہیں تھا نہ اوقات کار تھے رات گئے تک کام کرنا پڑتا تھا۔ حادثہ اور موت کی صورت میں کوئی معاوضہ بھی نہیں ملتا تھا یورپ میں نئی نئی صنعتیں لگ رہی تھیں۔ سائنس بھی ترقی کر رہی تھی کارخانوں، فیکٹریوں اور ملوں کا جال بچھایا جا رہا تھا۔
مزدور طبقہ ابھر رہا تھا اور یونین سازی کی طرف بڑھ رہا تھا سب سے پہلے برٹش راج میں برطانیہ میں مزدوروں نے جدوجہد کی یونینز بنائیں۔ فیڈریشن بنائیں کمیونسٹ لیگ پہلے ہی بن چکی تھی اس سے قبل بھی محنت کش مختلف اشکال میں جدوجہد کرتے رہے تھے مگر جو کام شکاگو کے محنت کش1886 میں کر گئے وہ رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔
138 سال قبل ایسے مزدور رہنما پیدا ہوگئے تھے جنھوں نے شکاگو میں پہلی مکمل ہڑتال کرکے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے مزدور تحریک کو ایک نیا رخ دے کر محنت کشوں کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا یہ واقعہ شکاگو کی مشہور زمانہ حے(HAY) مارکیٹ کے قریب پیش آیا۔ ان محنت کشوں نے اس وقت کے حکمرانوں، مل مالکوں، کارخانہ داروں، سرمایہ داروں کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ ظالم حکمرانوں ہم بھی انسان ہیں ہمیں بھی زندہ رہنے کا حق دو۔ ہمارے اوقات کار مقرر کرو، ہماری تنخواہوں میں اضافہ کرو، ہمیں روزگار دو۔ نعرے لگا رہے تھے۔ ''دنیا کے مزدورو۔ ایک ہو جاؤ'' وہ بلا رنگ و نسل و مذہب ایک تھے ''گو کہ وہ عیسائی یہودی تھے مگر حکمران اور مل مالکان بھی اسی نسل کے تھے۔''
پورا صنعتی شہر جام ہو گیا ملوں اور کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا بند ہو گیا تھا۔ دنیا میں پہلا موقع تھا جب محنت کرنے والوں نے اپنے اتحاد کے ذریعے علم بغاوت بلند کردیا تھا اور پھر یکم مئی 1886 ایک یادگار دن بن گیا اور پھر یکم مئی 1886 کو صبح ایک مزدوروں کے اخبار میں کسی گم نام صحافی نے اپنا انقلابی فرض ادا کرتے ہوئے صفحہ اول پر تحریر کر دیا تھا جو اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
''مزدورو! تمہاری لڑائی شروع ہو چکی فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا آگے بڑھو اپنے مطالبات منوانے کے لیے اپنے اوقات کار کے لیے، جدوجہد جاری رکھنا حاکموں کو جھکنا پڑے گا۔ جیت اور فتح تمہاری ہوگی۔ ہمت نہ ہارنا، متحد رہنا اسی میں تمہاری بقا ہے اسی میں تمہاری فتح ہے لڑتے رہنا مطالبات کی منظوری تک۔ مزدورو اتحاد زندہ باد۔''
صحافی کی اس تحریر نے محنت کشوں میں مزید جذبہ اور ابھار پیدا کردیا اور انھوں نے زوردار نعرے کے ساتھ 8 گھنٹے اوقات کار کا مطالبہ کر دیا اور یوں پہلی مرتبہ 24 گھنٹوں کو کچھ اس طرح تقسیم کیا گیا ہم 8 گھنٹے کام کریں گے، ہم 8 گھنٹے آرام کریں گے، ہم 8 گھنٹے اپنے اہل خانہ اور بیوی بچوں میں گزاریں گے۔
حکمرانوں، مل مالکوں، سرمایہ داروں کو محنت کشوں کا یہ نعرہ اور اتحاد پسند نہ آیا اور انھوں نے محنت کشوں کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہوئے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، نہتے، کمزور اور پرامن محنت کشوں کو لہولہان کر دیا، شکاگو کی سڑکوں پر مزدوروں کا خون بہنے لگا۔ محنت کشوں کا امن کا سفید پرچم سرخ ہو گیا۔
ایک محنت کش کی قمیض لال لہو سے سرخ ہو گئی پھر انھوں نے لہو میں ڈوبی ہوئی سرخ قمیض کو ہی اپنا پرچم بنا لیا اور فیصلہ کیا کہ اب یہی سرخ قمیض ہمارا جھنڈا ہوگا، اس وقت تک سے آج تک محنت کشوں کا دنیا میں یہی پرچم ہے۔ آخر کار حکمرانوں نے محنت کشوں کے مطالبات تسلیم کیے اور پہلی مرتبہ 8 گھنٹے اوقات کار تسلیم کیے گئے۔ ہمارے ملک میں آج بھی 12 اور 16 گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔
پاکستان میں محنت کشوں کے حقوق غصب کیے جا رہے ہیں۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے لیبر ونگ ہیں، ٹریڈ یونین تحریک کمزور ہو کر دم توڑ رہی ہے بلکہ اب تو نظریاتی ٹریڈ یونین ختم ہوتی نظر آ رہی ہے بعض لیبر لیڈر لیبر لارڈ بن گئے ہیں، وہ پیجارو کلچر ایئرکنڈیشنڈ یونین آفس میں بیٹھے ہیں، مزدوروں سے براہ راست رابطہ ہی نہیں رہا۔ نجکاری کا ڈنکا بج رہا ہے، قومی اداروں کو فروخت کیا جا رہا ہے، ملکی معیشت زوال پذیر ہے۔
آئیے ہم عہد کریں کہ یکم مئی 1886 کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یکم مئی 2024 کو ایک نئی تاریخ رقم کریں۔8 فروری 2024 میں نئے الیکشن ہوگئے ہیں نئی حکومت اور صوبائی حکومتیں بھی بن چکی ہیں۔ مگر ملک میں وہی غربت، وہی بے روزگاری، نجکاری، بھوک اور خودکشی کے اکثر مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں امید ہے ملک کے صدر آصف زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف اور مریم نواز سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اسی طرح بلوچستان کے اور KPK کے وزیر اعلیٰ سمیت سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری کی طرح سندھ کے عوامی گورنر کی طرح دیگر تین صوبوں کے گورنر اور وزیر اعلیٰ مل کر ملک کو غربت، جہالت، بے روزگاری، مہنگائی سے نجات دلانے کے حوالے سے یکم مئی 1886 شکاگو کے محنت کشوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے کم ازکم تنخواہوں میں اضافہ کریں گے اور اوقات میں بھی کمی کرتے ہوئے نئی مزدور پالیسی کا بھی اعلان کریں گے۔
میں اس مرتبہ یکم مئی کینیڈا کے شہر کیلگری میں کینیڈین ٹریڈ یونین کے کارکنوں اور محنت کاروں کے ساتھ منا رہا ہوں جبکہ ریلوے ورکرز یونین کے تحت ملک بھر میں یکم مئی بھرپور انتظام کے ساتھ منایا جائے گا، بقول شاعر سرور ارمان۔
چند اشیائے ضرورت کو ترستے ہوئے لوگ
آخری جنگ کا اعلان تو کر سکتے ہیں