بھارتی سیکولرازم کی موت
مودی کی مسلم کش پالیسی آر ایس ایس کے منشور سے مطابقت رکھتی ہے
کیا مودی پھر جیتے گا؟ بھارتی تجزیہ کار تو یہی کہتے ہیں کہ ہاں وہ ضرور جیتے گا، اس لیے کہ اس نے بھارت کے برہمنوں اور آر ایس ایس کو نئی زندگی عطا کی ہے، پھر اس نے برسوں سے اٹکے ہوئے بابری مسجد کے مسئلے کو مہینوں میں حل کرا کے اس قدیم مسجد کو رام مندر میں ہی تبدیل کر دیا ہے ، اب وہ بھارت کو ایک مکمل ہندو ریاست بنانے جا رہا ہے۔
وہ محض اپنے کٹر مذہبی رجحانات کی بنا پر ہی ایک چائے بیچنے والے سے ترقی کرتا ہوا، پہلے آر ایس ایس کا نامی گرامی مسلم دشمن نیتا بنا ،اسی بنیاد پر اسے بھارتی جنتا پارٹی میں جگہ دی گئی اور وہاں یہ واجپائی کی سیکولر اور ہندوتوا مکس نظریاتی حکومت کو خالص ہندوتوا نظریات میں بدل کر بھارتی پارلیمنٹ کا ممبر بن گیا۔
وہاں اسے ایڈوانی جیسے سخت گیر مسلم دشمن لیڈر کی رہنمائی حاصل ہوئی، جس نے اسے راتوں رات صفحہ اول کا بی جے پی کا لیڈر بنا دیا اور پھر اسی کی سفارش پر اسے گجرات کا وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔ وہاں اس نے 2002 میں مسلمانوں کا قتل عام کرا یا، آر ایس ایس نے اس کے اس قتل عام کو سراہا گوکہ باجپائی اسے اس جرم کی پاداش میں گجرات کی وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانا چاہتے تھے مگر ایڈوانی پھر اس کی مدد کو آگئے اور اس پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔
مودی کی مسلم کش پالیسی آر ایس ایس کے منشور سے مطابقت رکھتی ہے۔ آر ایس ایس کا منشور کھلے الفاظ میں کہتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو رہنے کا کوئی حق نہیں ہے وہ باہری لوگ ہیں انھوں نے بھارت پر قبضہ کیا ہے چنانچہ انھیں ہندوستان سے باہرکر دیا جائے اور اگر وہ بھارت سے نکلنے میں مزاحمت کریں تو انھیں سوکھی لکڑی کی طرح جلا کر راکھ کر دیا جائے۔
آر ایس ایس کی بنیاد 1925 میں اس وقت رکھی گئی جب ہندوستان میں انگریزوں کو اپنی بقا خطرے میں نظر آ رہی تھی، ایک طرف تحریک خلافت جاری تھی ادھر سبھاش چندربوس انگریزوں کے خلاف آزاد ہند فوج ترتیب دے رہے تھے، اس کے علاوہ دیگر ہندو مسلمان آزادی کے متوالے آزادی کا نعرہ بلند کر رہے تھے اور انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر رہے تھے کانگریس بھی جو پہلے انگریزوں کے حق میں کام کر رہی تھی، اس لیے کہ انھوں نے ہی اسے بنایا تھا مگر بعد میں گاندھی اور جناح جیسے لیڈروں کے اس میں شامل ہونے کی وجہ سے یہ آزادی کے لیے ملک گیر تحریک چلا رہی تھی۔
ایسے میں انگریزوں کو ہندوستان میں اپنا تسلط برقرار رکھنا بہت مشکل نظر آ رہا تھا، چنانچہ انھوں نے ہندوستان کو مزید لوٹنے کے لیے ٹکنے کا سہارا تلاش کرنا شروع کردیا اور انھیں ساورکر کی صورت میں ایک پڑھا لکھا قوم پرست ہندو مل گیا جو پہلے انگریزوں کے خلاف کتابچے لکھتا اور آزادی کا نعرہ بلند کر رہا تھا۔ اس نے ایک دفعہ ایک ریلوے اسٹیشن میں آگ لگوا دی تھی جس کی پاداش میں اسے کالا پانی بھیج دیا گیا تھا۔
ساورکر ویسے تو نظریاتی انسان تھا مگر جسمانی طور پر بہت کمزور واقع ہوا تھا، وہ کالے پانی کی سخت سزا برداشت نہ کر سکا اور اس نے اس قید سے نجات پانے کے لیے انگریز حکومت کو اپنے معافی ناموں پر مبنی درخواستیں ارسال کرنا شروع کیں۔ انگریزوں نے اسے اس شرط پر رہا کرنے کا عندیہ دیا کہ اگر وہ پکا وعدہ کرے اور لکھ کر بھی دے کہ وہ کالے پانی سے رہائی کے بعد انگریز حکومت سے دشمنی چھوڑ کر یہ دشمنی مسلمانوں کی جانب شفٹ کرے گا اور ہندو مسلمان جو اس وقت مل کر انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کی مہم چلا رہے ہیں، اس کا رخ ہندو مسلمانوں میں نفرت اور تصادم میں تبدیل کردے گا۔
ساورکر نے انگریزوں کی مرضی کے مطابق کام کرنے کا عہد کرکے کالے پانی سے رہائی پائی۔ اس نے جلد ہی راشٹریہ سیوک سنگھ نامی ایک مسلم دشمن تنظیم میں شمولیت کر لی جس کی فنڈنگ انگریز سرکارکرتی تھی۔ انگریز اس سے پہلے بھی ہندو مہاسبھا نامی مسلم کش تنظیم بنا چکے تھے، یہ تنظیم بھی ہندو مسلمانوں کے درمیان تلخیاں بڑھانے کے لیے کام کر رہی تھی۔ آر ایس ایس نے ہندو مسلمانوں کے درمیان خون ریز معرکے شروع کرا دیے۔
وائسرائے لارڈ کرزن نے ہندو مسلمانوں میں مزید تلخی پیدا کرنے کے لیے ایک ایسا بیان جاری کیا تھا جس نے ہندوؤں کی سوچ کو ہی بدل کر رکھ دیا تھا۔ اس نے کہا کہ '' ہندو ایک بزدل قوم ہے وہ مسلمانوں کے کئی سو سال تک غلام رہے ہیں وہ آگے بھی مسلمانوں کے غلام ہی رہنا چاہتے ہیں وہ مسلمانوں کی غلامی سے کبھی باہر نہیں نکل سکتے۔'' اس کے بعد ساورکر نے اپنی تنظیم آر ایس ایس کے ذریعے مسلمانوں کے مذہبی عقائد پر حملے شروع کردیے۔ کتابیں اور کتابچے لکھے جانے لگے۔ اس سے مسلمانوں میں بھی اشتعال پیدا ہوا۔
یوں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت بڑھی اور معاملہ لڑائی مار کٹائی تک پہنچ گیا۔ اس کے بعد مسلمانوں کی جانب سے یہ آوازیں اٹھنے لگیں کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے اور ہمیں اپنا علیحدہ ملک بنانا پڑے گا۔ اس طرح انگریزوں کے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے لیے آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا نے اپنا حق ادا کر دیا تھا اور اس کے ساتھ ہی کانگریس کے مسلمانوں کو ساتھ ملا کر پورے ہندوستان کو آزاد کرانے کا خواب چکنا چور ہو گیا۔
بھارت کی آزادی کے بعد آر ایس ایس نے اپنی سیاسی شاخ پہلے جن سنگھ کے نام سے بنائی مگر بعد میں اسے بھارتی جنتا پارٹی کا نام دیا گیا۔ مودی اسی زہریلی تنظیم آر ایس ایس میں پلا بڑھا ہے وہ نوجوانی میں ہی اس میں شامل ہو گیا تھا۔ اب وہ ہندوتوا اور اکھنڈ بھارت کا ایک بڑا پرچارک ہے۔ وہ ساورکر اور ناتھو رام گوڈسے کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مسلمانوں سے سخت نفرت کرتا ہے۔
احمد آباد میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد اس کے لیے وزیر اعلیٰ سے وزیر اعظم بننے کا راستہ ہموار ہو چکا تھا۔ وہ 2014 میں مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف سخت نفرت پھیلا کر پہلی بار وزیر اعظم ہند بنا۔ پچھلے دو عام انتخابات میں کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد اب تیسری بار بھی اس نے وزیر اعظم بننے کے لیے مسلم مخالف زہر اگلنا شروع کر دیا ہے۔ وہ پاکستان مخالف کارڈ بھی استعمال کر رہا ہے جس سے اس کی جیت اب زیادہ دور نظر نہیں آ رہی ہے کیونکہ اعلیٰ ذات کے تمام ہندو اس کے گرد جمع ہو گئے ہیں۔
وہ محض اپنے کٹر مذہبی رجحانات کی بنا پر ہی ایک چائے بیچنے والے سے ترقی کرتا ہوا، پہلے آر ایس ایس کا نامی گرامی مسلم دشمن نیتا بنا ،اسی بنیاد پر اسے بھارتی جنتا پارٹی میں جگہ دی گئی اور وہاں یہ واجپائی کی سیکولر اور ہندوتوا مکس نظریاتی حکومت کو خالص ہندوتوا نظریات میں بدل کر بھارتی پارلیمنٹ کا ممبر بن گیا۔
وہاں اسے ایڈوانی جیسے سخت گیر مسلم دشمن لیڈر کی رہنمائی حاصل ہوئی، جس نے اسے راتوں رات صفحہ اول کا بی جے پی کا لیڈر بنا دیا اور پھر اسی کی سفارش پر اسے گجرات کا وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔ وہاں اس نے 2002 میں مسلمانوں کا قتل عام کرا یا، آر ایس ایس نے اس کے اس قتل عام کو سراہا گوکہ باجپائی اسے اس جرم کی پاداش میں گجرات کی وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانا چاہتے تھے مگر ایڈوانی پھر اس کی مدد کو آگئے اور اس پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔
مودی کی مسلم کش پالیسی آر ایس ایس کے منشور سے مطابقت رکھتی ہے۔ آر ایس ایس کا منشور کھلے الفاظ میں کہتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو رہنے کا کوئی حق نہیں ہے وہ باہری لوگ ہیں انھوں نے بھارت پر قبضہ کیا ہے چنانچہ انھیں ہندوستان سے باہرکر دیا جائے اور اگر وہ بھارت سے نکلنے میں مزاحمت کریں تو انھیں سوکھی لکڑی کی طرح جلا کر راکھ کر دیا جائے۔
آر ایس ایس کی بنیاد 1925 میں اس وقت رکھی گئی جب ہندوستان میں انگریزوں کو اپنی بقا خطرے میں نظر آ رہی تھی، ایک طرف تحریک خلافت جاری تھی ادھر سبھاش چندربوس انگریزوں کے خلاف آزاد ہند فوج ترتیب دے رہے تھے، اس کے علاوہ دیگر ہندو مسلمان آزادی کے متوالے آزادی کا نعرہ بلند کر رہے تھے اور انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر رہے تھے کانگریس بھی جو پہلے انگریزوں کے حق میں کام کر رہی تھی، اس لیے کہ انھوں نے ہی اسے بنایا تھا مگر بعد میں گاندھی اور جناح جیسے لیڈروں کے اس میں شامل ہونے کی وجہ سے یہ آزادی کے لیے ملک گیر تحریک چلا رہی تھی۔
ایسے میں انگریزوں کو ہندوستان میں اپنا تسلط برقرار رکھنا بہت مشکل نظر آ رہا تھا، چنانچہ انھوں نے ہندوستان کو مزید لوٹنے کے لیے ٹکنے کا سہارا تلاش کرنا شروع کردیا اور انھیں ساورکر کی صورت میں ایک پڑھا لکھا قوم پرست ہندو مل گیا جو پہلے انگریزوں کے خلاف کتابچے لکھتا اور آزادی کا نعرہ بلند کر رہا تھا۔ اس نے ایک دفعہ ایک ریلوے اسٹیشن میں آگ لگوا دی تھی جس کی پاداش میں اسے کالا پانی بھیج دیا گیا تھا۔
ساورکر ویسے تو نظریاتی انسان تھا مگر جسمانی طور پر بہت کمزور واقع ہوا تھا، وہ کالے پانی کی سخت سزا برداشت نہ کر سکا اور اس نے اس قید سے نجات پانے کے لیے انگریز حکومت کو اپنے معافی ناموں پر مبنی درخواستیں ارسال کرنا شروع کیں۔ انگریزوں نے اسے اس شرط پر رہا کرنے کا عندیہ دیا کہ اگر وہ پکا وعدہ کرے اور لکھ کر بھی دے کہ وہ کالے پانی سے رہائی کے بعد انگریز حکومت سے دشمنی چھوڑ کر یہ دشمنی مسلمانوں کی جانب شفٹ کرے گا اور ہندو مسلمان جو اس وقت مل کر انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کی مہم چلا رہے ہیں، اس کا رخ ہندو مسلمانوں میں نفرت اور تصادم میں تبدیل کردے گا۔
ساورکر نے انگریزوں کی مرضی کے مطابق کام کرنے کا عہد کرکے کالے پانی سے رہائی پائی۔ اس نے جلد ہی راشٹریہ سیوک سنگھ نامی ایک مسلم دشمن تنظیم میں شمولیت کر لی جس کی فنڈنگ انگریز سرکارکرتی تھی۔ انگریز اس سے پہلے بھی ہندو مہاسبھا نامی مسلم کش تنظیم بنا چکے تھے، یہ تنظیم بھی ہندو مسلمانوں کے درمیان تلخیاں بڑھانے کے لیے کام کر رہی تھی۔ آر ایس ایس نے ہندو مسلمانوں کے درمیان خون ریز معرکے شروع کرا دیے۔
وائسرائے لارڈ کرزن نے ہندو مسلمانوں میں مزید تلخی پیدا کرنے کے لیے ایک ایسا بیان جاری کیا تھا جس نے ہندوؤں کی سوچ کو ہی بدل کر رکھ دیا تھا۔ اس نے کہا کہ '' ہندو ایک بزدل قوم ہے وہ مسلمانوں کے کئی سو سال تک غلام رہے ہیں وہ آگے بھی مسلمانوں کے غلام ہی رہنا چاہتے ہیں وہ مسلمانوں کی غلامی سے کبھی باہر نہیں نکل سکتے۔'' اس کے بعد ساورکر نے اپنی تنظیم آر ایس ایس کے ذریعے مسلمانوں کے مذہبی عقائد پر حملے شروع کردیے۔ کتابیں اور کتابچے لکھے جانے لگے۔ اس سے مسلمانوں میں بھی اشتعال پیدا ہوا۔
یوں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت بڑھی اور معاملہ لڑائی مار کٹائی تک پہنچ گیا۔ اس کے بعد مسلمانوں کی جانب سے یہ آوازیں اٹھنے لگیں کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے اور ہمیں اپنا علیحدہ ملک بنانا پڑے گا۔ اس طرح انگریزوں کے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے لیے آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا نے اپنا حق ادا کر دیا تھا اور اس کے ساتھ ہی کانگریس کے مسلمانوں کو ساتھ ملا کر پورے ہندوستان کو آزاد کرانے کا خواب چکنا چور ہو گیا۔
بھارت کی آزادی کے بعد آر ایس ایس نے اپنی سیاسی شاخ پہلے جن سنگھ کے نام سے بنائی مگر بعد میں اسے بھارتی جنتا پارٹی کا نام دیا گیا۔ مودی اسی زہریلی تنظیم آر ایس ایس میں پلا بڑھا ہے وہ نوجوانی میں ہی اس میں شامل ہو گیا تھا۔ اب وہ ہندوتوا اور اکھنڈ بھارت کا ایک بڑا پرچارک ہے۔ وہ ساورکر اور ناتھو رام گوڈسے کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مسلمانوں سے سخت نفرت کرتا ہے۔
احمد آباد میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد اس کے لیے وزیر اعلیٰ سے وزیر اعظم بننے کا راستہ ہموار ہو چکا تھا۔ وہ 2014 میں مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف سخت نفرت پھیلا کر پہلی بار وزیر اعظم ہند بنا۔ پچھلے دو عام انتخابات میں کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد اب تیسری بار بھی اس نے وزیر اعظم بننے کے لیے مسلم مخالف زہر اگلنا شروع کر دیا ہے۔ وہ پاکستان مخالف کارڈ بھی استعمال کر رہا ہے جس سے اس کی جیت اب زیادہ دور نظر نہیں آ رہی ہے کیونکہ اعلیٰ ذات کے تمام ہندو اس کے گرد جمع ہو گئے ہیں۔