کرشن چندر کا سیاسی شعور پہلا حصہ
لاہور اور کشمیر نے کیا کمال کا پھل پیدا کیا اور وہ کرشن چندر کے نام سے اردو اور ہندی ادب کی دنیا میں مشہور ہوا
لاہور اور کشمیر نے کیا کمال کا پھل پیدا کیا اور وہ کرشن چندر کے نام سے اردو اور ہندی ادب کی دنیا میں مشہور ہوا۔ انھوں نے کمال کے اور بے مثال افسانے لکھے۔
وہ سفید کاغذ پر لکھتے چلے جاتے یا شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اپنے قلم کی نوک سے لفظوں کی مالا پروتے چلے جاتے۔ ان کے پڑھنے والے ان کے لکھے ہوئے ایک ایک لفظ کو سر آنکھوں پر رکھتے ہیں۔ انھوں نے تقسیم سے پہلے اور بعد کے سیاسی حالات پر نہایت طنزیہ اور فکاہیہ تحریریں لکھیں۔ ان کا سلسلہ وار ناول '' گدھے کی سرگزشت'' ایک بے مثال طنز ہے۔
شاید گدھے کو باپ بنالینے کی اس سے بہتر کوئی مثال نہیں مل سکتی۔ ان کا مختصر ناول '' چڑیوں کی الف لیلیٰ'' گزرے ہوئے کل اور آج کی سیاست پرطنز ملیح ہے۔ داستان یوں شروع ہوتی ہے۔
'' ایک دفعہ کا ذکر ہے ۔ رونسی ندی کے کنارے بانسوں کا ایک بہت بڑاجنگل تھا۔ اس جنگل میں چڑیوں کا ایک بہت بڑا غول رہتا تھا۔ چڑیوں کا یہ غول تھا بھی بڑا خوبصورت۔ ان کے پر سفید اور چمکیلے تھے۔دھڑ اور سینہ بھی برف کی طرح سفید اور ملائم اورجب یہ غول اپنے راجہ اور رانی کے پیچھے پیچھے ہوا میں اڑتا تو ایسا معلوم ہوتا گویا بادل کا ایک بہت ہی نازک اور ملائم ٹکڑا تیر رہا ہے۔
زمین پر بیٹھے ہوئے شکاری بڑی حسرت سے اس غول کو دیکھتے اور دل میں سوچتے کہ اگر وہ کسی طرح اس غول کو پکڑ لیں تو اسے لے جا کر اپنے شہر کے راجہ کے باغ میں قید کر دیں۔ ان خوبصورت ہنستی گاتی چڑیوں کو دیکھ کر شہر کا راجہ کس قدر خوش ہوگا اور شکاریوں کو دھن دولت سے مالا مال کردے گا مگر سفید چڑیوں کا یہ غول بہت سیانا تھا، وہ ندی کے اوپر بہت اونچا اڑتے تھے اور کسی شکاری کے جال میں نہیں پھنستے تھے۔
کچھ دنوں بعد جب چڑیوں کو یہ پتہ چلا کہ ان کی چڑیا رانی نے سات انڈے دیے ہیں تو انھوں نے اس خوشی میں ایک بہت بڑاجلوس نکالا اور راجہ کے گھونسلے کی طرف چلے۔ چڑیوں کا جلوس انڈوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوا ۔گیتوں کے شور کے درمیان انھوں نے چڑیا رانی کو انڈے سینے کے لیے انڈوں پر بٹھا دیا اور راجہ کے گھونسلے کے چاروں طرف اور دور دور تک بانس کے جھنڈوں میں پہرا لگا دیا تاکہ کوئی خطرناک پرندہ یا انڈے کھانے والا جانور ادھر نہ آنکلے۔ چنانچہ جگہ جگہ سپاہی اور چوکیدار بانس کی اونچی اونچی شاخوں پر کھڑے ہو کر پہرہ دینے لگے اور بڑی بے صبری سے اس دن کا انتظار کرنے لگے جب ان سات انڈوں میں سے سات راج کمار نکلیں گے اور اپنی قوم اور ملک کی خدمت کریں گے۔
آخر وہ دن بھی آپہنچا اور اس دن سارے جنگل میں ڈھنڈورا پیٹ دیا گیا کہ کل شام چار بجے شاہی محل میں راج کماروں کا جنم ہوگا۔ اس موقع پر ہر چڑیا کا فرض ہے کہ وہ شاہی محل میں پہنچ کر راج کماروں کے درشن کرے اور نذرانہ پیش کرے۔ چنانچہ دوسرے دن شام چار بجے سے پہلے ہی ہزاروں سفید چڑیوں کے غول کے غول بانسوں کے شاہی جھنڈ میں ہر شاخ اور ہر ٹہنی پر بیٹھ کر بڑی بے صبری سے راج کماروں کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔ چار بجے چڑیا رانی اپنے انڈوں سے اٹھ کر اپنے راجہ کے پاس جا بیٹھی۔
پہلا راج کمار انڈے کو توڑ کر باہر نکلا لیکن یکایک چڑیوں کی خوشی حیرت اور غم میں تبدیل ہوگئی جب انھوں نے دیکھا کہ پہلے انڈے سے باہر آنے والا راج کمار ان کی طرح سفید نہیں، سر سے پاؤں تک کالا ہے۔ چڑے راجہ نے گھور کر چڑیا رانی کی طرف دیکھا۔ رانی نے شرمندہ ہو کر آنکھیں جھکالیں۔ پھر اسی طرح ایک کے بعد ایک چھے انڈوں سے کالے چڑے نکلے۔ اب آخری اور ساتویں انڈے کی باری آئی۔ چڑیوں کے دل دھک دھک کرنے لگے ان سب کی نظریں ساتویں انڈے پر تھیں۔ ہولے ہولے بڑی مشکل سے انڈا پھوٹا لیکن اس میں سے ایک دبلی پتلی مریل سی چڑیا نکلی مگر یہ بھی بالکل کالی تھی، سر سے پاؤں تک کالی۔ سفید چڑیاں غصے سے چلائیں '' یہ کالے ہیں ہم سفید ہیں یہ ہمارے راج کمار نہیں ہوسکتے ۔ اس دھوکے باز رانی کو ابھی گھر سے نکال دو۔''
چڑیا رانی نے بہت منت سماجت کی مگر چڑا راجہ نہ مانا۔ رانی اپنے چھ بیٹوں اورساتویں بیٹی کو لے کر وہاں سے روانہ ہوئی۔ ان کے ساتھ دس چڑے چوکیدار اور سپاہی بھی گئے جو انھیں جنگل کی سرحد سے باہر چھوڑ آئے۔ رونسی ندی کے پاس بیروں کے ایک چھوٹے سے جھنڈ میںانھیں پناہ ملی۔ چلتے چلتے چوکیدار نے رانی سے کہہ دیا،'' اگرکبھی تم یا تمہارے کسی کالے بچے نے جنگل کا رخ کیا تو جان سے مار دیے جاؤ گے۔ '' بے چاری چڑیا یہ دھمکی سن کر سہم گئی اور اپنے بچوں کو اپنے پروں کے نیچے سنبھال کر دبک گئی۔
وقت گزرتا گیا چڑیا کے ساتوں بچے جوان ہوگئے۔ راج کماری جوان ہو کر بڑی خوبصورت نکلی۔ یہ چھیوں راج کمار اپنی بہن کو لے کر رونسی ندی کے کنارے کنارے گھومتے رہتے یا برگد کے پیڑ پر چلے جاتے جو کئی سو سال پرانا درخت تھا اور جس کی بڑی بڑی شاخوں سے لٹک کر سیکڑوں بندر جھولا جھولتے تھے اور سرکس کے بندروں کی طرح کرتب دکھاتے تھے، جب ان کا دل برگد کے پیڑسے اکتا جاتا تو وہ ہوا میں تیرتے ہوئے دور اُن آموں کے جھنڈ کی طرف نکل جاتے جس کے آگے گھنے بانسوں کا جنگل شروع ہوتاتھا۔ جھنڈ سے آگے جانے کے لیے ان کی ماں نے منع کر رکھا تھا۔ نوجوان چڑوں کو اپنی ماں کی بات سمجھ میں نہ آئی مگر چونکہ وہ فرماں بردار بچے تھے اس لیے کبھی ادھر نہیں گئے جدھر بانسوں کا جنگل شروع ہوتا جس کے اندر سفید چڑیوں کا غول تھا۔
ادھر سفید چڑیوں کے راجہ نے دوسری شادی کر لی تھی۔ شادی کے تھوڑے دنوں کے بعد راجہ کے گھر میں ایک سفید راج کمار پیدا ہوا یہ سر سے پاؤں تک سفید تھا،چونکہ یہ اپنے ماں باپ کا ایک ہی بچہ تھا اس لیے سب کا لاڈلہ تھا لیکن ماں باپ کے لاڈ نے اس کی عادتیں بگاڑ دی تھیں۔ تھوڑے ہی دنوں میں وہ بہت مغرور ہوگیا۔ بڑے بڑے بوڑھے چڑے جنھیں راجہ نے اس کے پڑھانے کے لیے رکھا تھا، اس کی شرارتوں سے تنگ آکر اسے پڑھانا چھوڑ چکے تھے اور وہ دن بھر اپنے دوستوں کے ساتھ آوارہ گھوما کرتا۔ وہ لوگ کیڑے مکوڑے دانہ دنکا اکٹھا کرتے اور وہ اپنی چونچ کھول دیتا، بچوں کی طرح وہ اسے چوگا کھلاتے۔ حرام کی کمائی کھا کھا کر یہ راج کمار بہت موٹا ہوگیا اور اکثر دن بھر سویارہتا۔ (جاری ہے)
وہ سفید کاغذ پر لکھتے چلے جاتے یا شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اپنے قلم کی نوک سے لفظوں کی مالا پروتے چلے جاتے۔ ان کے پڑھنے والے ان کے لکھے ہوئے ایک ایک لفظ کو سر آنکھوں پر رکھتے ہیں۔ انھوں نے تقسیم سے پہلے اور بعد کے سیاسی حالات پر نہایت طنزیہ اور فکاہیہ تحریریں لکھیں۔ ان کا سلسلہ وار ناول '' گدھے کی سرگزشت'' ایک بے مثال طنز ہے۔
شاید گدھے کو باپ بنالینے کی اس سے بہتر کوئی مثال نہیں مل سکتی۔ ان کا مختصر ناول '' چڑیوں کی الف لیلیٰ'' گزرے ہوئے کل اور آج کی سیاست پرطنز ملیح ہے۔ داستان یوں شروع ہوتی ہے۔
'' ایک دفعہ کا ذکر ہے ۔ رونسی ندی کے کنارے بانسوں کا ایک بہت بڑاجنگل تھا۔ اس جنگل میں چڑیوں کا ایک بہت بڑا غول رہتا تھا۔ چڑیوں کا یہ غول تھا بھی بڑا خوبصورت۔ ان کے پر سفید اور چمکیلے تھے۔دھڑ اور سینہ بھی برف کی طرح سفید اور ملائم اورجب یہ غول اپنے راجہ اور رانی کے پیچھے پیچھے ہوا میں اڑتا تو ایسا معلوم ہوتا گویا بادل کا ایک بہت ہی نازک اور ملائم ٹکڑا تیر رہا ہے۔
زمین پر بیٹھے ہوئے شکاری بڑی حسرت سے اس غول کو دیکھتے اور دل میں سوچتے کہ اگر وہ کسی طرح اس غول کو پکڑ لیں تو اسے لے جا کر اپنے شہر کے راجہ کے باغ میں قید کر دیں۔ ان خوبصورت ہنستی گاتی چڑیوں کو دیکھ کر شہر کا راجہ کس قدر خوش ہوگا اور شکاریوں کو دھن دولت سے مالا مال کردے گا مگر سفید چڑیوں کا یہ غول بہت سیانا تھا، وہ ندی کے اوپر بہت اونچا اڑتے تھے اور کسی شکاری کے جال میں نہیں پھنستے تھے۔
کچھ دنوں بعد جب چڑیوں کو یہ پتہ چلا کہ ان کی چڑیا رانی نے سات انڈے دیے ہیں تو انھوں نے اس خوشی میں ایک بہت بڑاجلوس نکالا اور راجہ کے گھونسلے کی طرف چلے۔ چڑیوں کا جلوس انڈوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوا ۔گیتوں کے شور کے درمیان انھوں نے چڑیا رانی کو انڈے سینے کے لیے انڈوں پر بٹھا دیا اور راجہ کے گھونسلے کے چاروں طرف اور دور دور تک بانس کے جھنڈوں میں پہرا لگا دیا تاکہ کوئی خطرناک پرندہ یا انڈے کھانے والا جانور ادھر نہ آنکلے۔ چنانچہ جگہ جگہ سپاہی اور چوکیدار بانس کی اونچی اونچی شاخوں پر کھڑے ہو کر پہرہ دینے لگے اور بڑی بے صبری سے اس دن کا انتظار کرنے لگے جب ان سات انڈوں میں سے سات راج کمار نکلیں گے اور اپنی قوم اور ملک کی خدمت کریں گے۔
آخر وہ دن بھی آپہنچا اور اس دن سارے جنگل میں ڈھنڈورا پیٹ دیا گیا کہ کل شام چار بجے شاہی محل میں راج کماروں کا جنم ہوگا۔ اس موقع پر ہر چڑیا کا فرض ہے کہ وہ شاہی محل میں پہنچ کر راج کماروں کے درشن کرے اور نذرانہ پیش کرے۔ چنانچہ دوسرے دن شام چار بجے سے پہلے ہی ہزاروں سفید چڑیوں کے غول کے غول بانسوں کے شاہی جھنڈ میں ہر شاخ اور ہر ٹہنی پر بیٹھ کر بڑی بے صبری سے راج کماروں کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔ چار بجے چڑیا رانی اپنے انڈوں سے اٹھ کر اپنے راجہ کے پاس جا بیٹھی۔
پہلا راج کمار انڈے کو توڑ کر باہر نکلا لیکن یکایک چڑیوں کی خوشی حیرت اور غم میں تبدیل ہوگئی جب انھوں نے دیکھا کہ پہلے انڈے سے باہر آنے والا راج کمار ان کی طرح سفید نہیں، سر سے پاؤں تک کالا ہے۔ چڑے راجہ نے گھور کر چڑیا رانی کی طرف دیکھا۔ رانی نے شرمندہ ہو کر آنکھیں جھکالیں۔ پھر اسی طرح ایک کے بعد ایک چھے انڈوں سے کالے چڑے نکلے۔ اب آخری اور ساتویں انڈے کی باری آئی۔ چڑیوں کے دل دھک دھک کرنے لگے ان سب کی نظریں ساتویں انڈے پر تھیں۔ ہولے ہولے بڑی مشکل سے انڈا پھوٹا لیکن اس میں سے ایک دبلی پتلی مریل سی چڑیا نکلی مگر یہ بھی بالکل کالی تھی، سر سے پاؤں تک کالی۔ سفید چڑیاں غصے سے چلائیں '' یہ کالے ہیں ہم سفید ہیں یہ ہمارے راج کمار نہیں ہوسکتے ۔ اس دھوکے باز رانی کو ابھی گھر سے نکال دو۔''
چڑیا رانی نے بہت منت سماجت کی مگر چڑا راجہ نہ مانا۔ رانی اپنے چھ بیٹوں اورساتویں بیٹی کو لے کر وہاں سے روانہ ہوئی۔ ان کے ساتھ دس چڑے چوکیدار اور سپاہی بھی گئے جو انھیں جنگل کی سرحد سے باہر چھوڑ آئے۔ رونسی ندی کے پاس بیروں کے ایک چھوٹے سے جھنڈ میںانھیں پناہ ملی۔ چلتے چلتے چوکیدار نے رانی سے کہہ دیا،'' اگرکبھی تم یا تمہارے کسی کالے بچے نے جنگل کا رخ کیا تو جان سے مار دیے جاؤ گے۔ '' بے چاری چڑیا یہ دھمکی سن کر سہم گئی اور اپنے بچوں کو اپنے پروں کے نیچے سنبھال کر دبک گئی۔
وقت گزرتا گیا چڑیا کے ساتوں بچے جوان ہوگئے۔ راج کماری جوان ہو کر بڑی خوبصورت نکلی۔ یہ چھیوں راج کمار اپنی بہن کو لے کر رونسی ندی کے کنارے کنارے گھومتے رہتے یا برگد کے پیڑ پر چلے جاتے جو کئی سو سال پرانا درخت تھا اور جس کی بڑی بڑی شاخوں سے لٹک کر سیکڑوں بندر جھولا جھولتے تھے اور سرکس کے بندروں کی طرح کرتب دکھاتے تھے، جب ان کا دل برگد کے پیڑسے اکتا جاتا تو وہ ہوا میں تیرتے ہوئے دور اُن آموں کے جھنڈ کی طرف نکل جاتے جس کے آگے گھنے بانسوں کا جنگل شروع ہوتاتھا۔ جھنڈ سے آگے جانے کے لیے ان کی ماں نے منع کر رکھا تھا۔ نوجوان چڑوں کو اپنی ماں کی بات سمجھ میں نہ آئی مگر چونکہ وہ فرماں بردار بچے تھے اس لیے کبھی ادھر نہیں گئے جدھر بانسوں کا جنگل شروع ہوتا جس کے اندر سفید چڑیوں کا غول تھا۔
ادھر سفید چڑیوں کے راجہ نے دوسری شادی کر لی تھی۔ شادی کے تھوڑے دنوں کے بعد راجہ کے گھر میں ایک سفید راج کمار پیدا ہوا یہ سر سے پاؤں تک سفید تھا،چونکہ یہ اپنے ماں باپ کا ایک ہی بچہ تھا اس لیے سب کا لاڈلہ تھا لیکن ماں باپ کے لاڈ نے اس کی عادتیں بگاڑ دی تھیں۔ تھوڑے ہی دنوں میں وہ بہت مغرور ہوگیا۔ بڑے بڑے بوڑھے چڑے جنھیں راجہ نے اس کے پڑھانے کے لیے رکھا تھا، اس کی شرارتوں سے تنگ آکر اسے پڑھانا چھوڑ چکے تھے اور وہ دن بھر اپنے دوستوں کے ساتھ آوارہ گھوما کرتا۔ وہ لوگ کیڑے مکوڑے دانہ دنکا اکٹھا کرتے اور وہ اپنی چونچ کھول دیتا، بچوں کی طرح وہ اسے چوگا کھلاتے۔ حرام کی کمائی کھا کھا کر یہ راج کمار بہت موٹا ہوگیا اور اکثر دن بھر سویارہتا۔ (جاری ہے)