پاکستان ایک نظر میں میاں صاحب کی دلی یاترا
عقل کل نے چند لمحے ہماری بےچینی کو آزمایا پھر رازدارانہ انداز میں کہا کہ مودی نے بلکل آخر میں گڑ بڑ کر دی۔
ہم آفس پنہچے تو پتا چلا ہمارے دوست جن کو ہمارے حلقہ احباب میں " عقل کل " کے نام سے جانا جاتا ہے کوئی دس بار چکر لگا چکے ہیں۔ ہم نے سوچا الله خیر کرے مو صوف کو کیا ایسی ایمرجنسی آن پڑی ہے کہ چین ہی نہیں ہے۔ خیر ابھی ہم اپنی کرسی پہ ٹکے ہی تھے کہ مو صوف پھر آ ن دھمکے اور ناراض ہو کے بولے تمہاری عادتیں بہت بگڑ گئی ہیں۔ ہم نے پوچھا وہ کیسے؟ بولے پہلے چائے منگواؤ۔
ہم نے چائے کا کہا تو کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر نیم وا آنکھوں سے ہمیں دیکھتے ہوئے کہنے لگے ایک تو تمہاری لیٹ آنے کی عادت بہت بری ہے، اسکول سے کالج اور کالج سے آفس تک پہنچ گئے مگر حر کتیں تم نے نہ بدلیں۔ پھر کہتے ہو گوروں کی ترقی کا راز کیا ہے اب گوروں کے بھی یہی کرتوت ہوتے جو تمہارے ہیں تو وہ بھی تمہاری طرح مکھی پہ مکھی مار رہے ہوتے۔ دوسری بری عادت جو تمھیں بچپن سے ہے وہ یہ کہ مہمان نوازی میں انتہائی پرلے درجے کے کنجوس ثابت ہوئے ہو، بھلا چائے کے ایک کپ اور چند سموسوں سے تم کو ن سے دیوالیہ ہو جا و گے؟۔
عقل کل سے بحث بلکل فضول ہے کہ آپ جناب کا " کان چٹا " ہی ہے چاہے مخالف کتنے ہی مؤثر دلائل کیوں نہ دے۔ یہی وجہ تھی کہ کالج کے زمانے سے ہی ان کا نام عقل کل پڑ گیا۔ حضرت جب بھی بحث کرتے تھے تو تان یہاں پہ ٹوٹتی تھی کہ بھئ یہ تو پوری قوم ہی اپنے آپ کو عقل کل سمجھتی ہے ان کو سمجھانا یا ان سے بحث کرنا فضول ہے۔ بس یہیں سے یار دوستوں نے ان کا نام عقل کل رکھ دیا- ہمارے یہ دوست سیاست سے لے کر گلی ڈنڈے تک ہر موضوع پہ سیر حاصل بحث کرتے سکتے ہیں۔ بس گلہ ان کو یہی ہوتا ہے کہان کے دلائل پہ غور ہی نہیں کرتے۔
ہم نے عقل کل کے الزامات کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیا۔ وہ فوراََ بولے تم نے بھی حکومت والی حرکتیں اپنا لی ہیں۔ میری باتوں پہ ایسے ہی کان بند کر لیتے ہو جیسے اسپیکر اسمبلی حکومت کے کانوں پہ ناگوار گزرنے وا لے جملوں پہ حزب اختلاف کے لیڈر کا مائیک بند کر دیتے ہیں۔ ویسے حکومت بھی اسی کا نام ہے اگر آپ نے پاکستان میں حکومت میں 5 سال پورے کرنے ہیں تو بس کان بند کر لیں۔کسی کی بھی نہ سنیں۔ آپ کچھ عرصہ ایسا کر کے تو دیکھیں یقین کریں آپ کو ایسی پریکٹس ہو جائے گی کہ آپ کو اپنی بات بھی سنائی نہیں دے گی۔ یہی تو وہ گیدڑ سنگھی تھی جس کو استعمال کر کے پیپلز پارٹی نے 5 سال مکمل کئے۔ اور اب لگتا ہے یہی گیدڑ سنگھی انھوں نے میاں صاحبان کو بھی دی ہے۔ جس طرح زرداری حکومت نے سوئس حکام کو خط لکھنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کی باتوں پہ کان نہیں دھرا ، یہی کچھ اب ن لیگ کی حکومت عمران خان کے مطالبات پر کر رہی ہے۔ پرویز رشید کو تو میاں صاحبان کی طرح یقین ہے کہ عمران خان کوئی بڑا طوفان کھڑا نہیں کریں گے مگر سعد رفیق اور ایاز صادق کو کچھ ایسا اعتبار نہیں۔
ہم نے عقل کل کی باتوں سے بور ہو کر جماہی لی تو موصوف جلدی سے موضوع بدلتے ہوئے بولے۔ تمھیں پتا ہے میاں صاحب جس کام کیلئے بھارت گئے وہ تو ہوا ہی نہیں۔۔ وہ بیچارے تو بڑی آس لے کر گئے تھے۔ ہم نے کہا کہ یہ جو الیکٹرانک میڈیا سے لے کر پرنٹ میڈیا تک ان پہ تنقید ہو رہی ہے اور اتنا شورو غوغا مچا ہوا ہے اس میں تو کسی ایسی آس کا ذکر نہیں ہے۔ یہاں تک کہ انھوں نے تو مودی کو خط بھی لکھ ڈالا اور مودی کا جواب بھی آ گیا۔
اسی وقت عقل کل شیطانی انداز میں مسکرائے اور آگے جھک کر سرگوشی کی'' تم شکل کے بھولے ہو یا میاں صاحب کی طرح سادے لگتے ہو؟'' اب ایسے فضول سوال کا کوئی جواب تو بنتا نہیں تو ہم بس کھسیانی ہنسی ہنس دئیے۔ ہمیں بھی اندر ہی اندر سے یہ بیچینی ہو رہی تھی کہ وہ آخر کون سی آس تھی میاں صاحب کی جو بھارت دورے میں پوری نہ ہوئی؟ جہاں تک ہمارا خیال تھا تو میاں صاحب کی اس کے علاوہ کوئی آس نہیں تھی کہ وہ مودی کی تقریب حلف برداری میں شریک ہو۔ اب چاہے دشمن اس کو ناکام دورہ ہی کیوں نہ کہتے رہیں حکومت کی نظر میں تو یہ کامیاب ہی ہے ویسے بھی ہماری تاریخ میں حکمرانوں کے دوروں کا دوسرا نام ہی "کامیابی" ہے۔ ۔
خیر عقل کل نے چند لمحے ہماری بےچینی کو آزمایا پھر رازدارانہ انداز میں کہا کہ مودی نے بلکل آخر میں گڑ بڑ کر دی میاں صاحب بڑی چاہت سے گئے تھے کہ بالی ووڈ سٹار امیتابھ بچن سے ملاقات کریں گے مگر ان کی یہ حسرت دل ہی دل میں رہ گئی۔ مودی نے امیتابھ کو عین وقت پہ تقریب میں آنے سے روک دیا۔ ہم نے یہ بات سن کر عقل کل کو بے یقینی سے گھورا۔انھوں نے اپنے کندھے اچکائے اور کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ہم نے چائے کا کہا تو کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر نیم وا آنکھوں سے ہمیں دیکھتے ہوئے کہنے لگے ایک تو تمہاری لیٹ آنے کی عادت بہت بری ہے، اسکول سے کالج اور کالج سے آفس تک پہنچ گئے مگر حر کتیں تم نے نہ بدلیں۔ پھر کہتے ہو گوروں کی ترقی کا راز کیا ہے اب گوروں کے بھی یہی کرتوت ہوتے جو تمہارے ہیں تو وہ بھی تمہاری طرح مکھی پہ مکھی مار رہے ہوتے۔ دوسری بری عادت جو تمھیں بچپن سے ہے وہ یہ کہ مہمان نوازی میں انتہائی پرلے درجے کے کنجوس ثابت ہوئے ہو، بھلا چائے کے ایک کپ اور چند سموسوں سے تم کو ن سے دیوالیہ ہو جا و گے؟۔
عقل کل سے بحث بلکل فضول ہے کہ آپ جناب کا " کان چٹا " ہی ہے چاہے مخالف کتنے ہی مؤثر دلائل کیوں نہ دے۔ یہی وجہ تھی کہ کالج کے زمانے سے ہی ان کا نام عقل کل پڑ گیا۔ حضرت جب بھی بحث کرتے تھے تو تان یہاں پہ ٹوٹتی تھی کہ بھئ یہ تو پوری قوم ہی اپنے آپ کو عقل کل سمجھتی ہے ان کو سمجھانا یا ان سے بحث کرنا فضول ہے۔ بس یہیں سے یار دوستوں نے ان کا نام عقل کل رکھ دیا- ہمارے یہ دوست سیاست سے لے کر گلی ڈنڈے تک ہر موضوع پہ سیر حاصل بحث کرتے سکتے ہیں۔ بس گلہ ان کو یہی ہوتا ہے کہان کے دلائل پہ غور ہی نہیں کرتے۔
ہم نے عقل کل کے الزامات کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیا۔ وہ فوراََ بولے تم نے بھی حکومت والی حرکتیں اپنا لی ہیں۔ میری باتوں پہ ایسے ہی کان بند کر لیتے ہو جیسے اسپیکر اسمبلی حکومت کے کانوں پہ ناگوار گزرنے وا لے جملوں پہ حزب اختلاف کے لیڈر کا مائیک بند کر دیتے ہیں۔ ویسے حکومت بھی اسی کا نام ہے اگر آپ نے پاکستان میں حکومت میں 5 سال پورے کرنے ہیں تو بس کان بند کر لیں۔کسی کی بھی نہ سنیں۔ آپ کچھ عرصہ ایسا کر کے تو دیکھیں یقین کریں آپ کو ایسی پریکٹس ہو جائے گی کہ آپ کو اپنی بات بھی سنائی نہیں دے گی۔ یہی تو وہ گیدڑ سنگھی تھی جس کو استعمال کر کے پیپلز پارٹی نے 5 سال مکمل کئے۔ اور اب لگتا ہے یہی گیدڑ سنگھی انھوں نے میاں صاحبان کو بھی دی ہے۔ جس طرح زرداری حکومت نے سوئس حکام کو خط لکھنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کی باتوں پہ کان نہیں دھرا ، یہی کچھ اب ن لیگ کی حکومت عمران خان کے مطالبات پر کر رہی ہے۔ پرویز رشید کو تو میاں صاحبان کی طرح یقین ہے کہ عمران خان کوئی بڑا طوفان کھڑا نہیں کریں گے مگر سعد رفیق اور ایاز صادق کو کچھ ایسا اعتبار نہیں۔
ہم نے عقل کل کی باتوں سے بور ہو کر جماہی لی تو موصوف جلدی سے موضوع بدلتے ہوئے بولے۔ تمھیں پتا ہے میاں صاحب جس کام کیلئے بھارت گئے وہ تو ہوا ہی نہیں۔۔ وہ بیچارے تو بڑی آس لے کر گئے تھے۔ ہم نے کہا کہ یہ جو الیکٹرانک میڈیا سے لے کر پرنٹ میڈیا تک ان پہ تنقید ہو رہی ہے اور اتنا شورو غوغا مچا ہوا ہے اس میں تو کسی ایسی آس کا ذکر نہیں ہے۔ یہاں تک کہ انھوں نے تو مودی کو خط بھی لکھ ڈالا اور مودی کا جواب بھی آ گیا۔
اسی وقت عقل کل شیطانی انداز میں مسکرائے اور آگے جھک کر سرگوشی کی'' تم شکل کے بھولے ہو یا میاں صاحب کی طرح سادے لگتے ہو؟'' اب ایسے فضول سوال کا کوئی جواب تو بنتا نہیں تو ہم بس کھسیانی ہنسی ہنس دئیے۔ ہمیں بھی اندر ہی اندر سے یہ بیچینی ہو رہی تھی کہ وہ آخر کون سی آس تھی میاں صاحب کی جو بھارت دورے میں پوری نہ ہوئی؟ جہاں تک ہمارا خیال تھا تو میاں صاحب کی اس کے علاوہ کوئی آس نہیں تھی کہ وہ مودی کی تقریب حلف برداری میں شریک ہو۔ اب چاہے دشمن اس کو ناکام دورہ ہی کیوں نہ کہتے رہیں حکومت کی نظر میں تو یہ کامیاب ہی ہے ویسے بھی ہماری تاریخ میں حکمرانوں کے دوروں کا دوسرا نام ہی "کامیابی" ہے۔ ۔
خیر عقل کل نے چند لمحے ہماری بےچینی کو آزمایا پھر رازدارانہ انداز میں کہا کہ مودی نے بلکل آخر میں گڑ بڑ کر دی میاں صاحب بڑی چاہت سے گئے تھے کہ بالی ووڈ سٹار امیتابھ بچن سے ملاقات کریں گے مگر ان کی یہ حسرت دل ہی دل میں رہ گئی۔ مودی نے امیتابھ کو عین وقت پہ تقریب میں آنے سے روک دیا۔ ہم نے یہ بات سن کر عقل کل کو بے یقینی سے گھورا۔انھوں نے اپنے کندھے اچکائے اور کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔