موسمیاتی تبدیلیاں اور حفاظتی اقدامات
موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث تیزی سے بدلتے ہوئے موسم کے باعث غیر متوقع بارشیں ہورہی ہیں
مغربی ہواؤں کا ایک اور سسٹم پاکستان میں داخل ہوچکا ہے، جس کے باعث بلوچستان، پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا میں بارشیں جاری ہیں۔
موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث تیزی سے بدلتے ہوئے موسم کے باعث غیر متوقع بارشیں ہورہی ہیں۔ بارش کے باعث متعدد علاقوں میں بجلی کے فیڈرز ٹرپ کرگئے جب کہ بارش سے گندم کی فصل کو بھی نقصان پہنچا ہے، جب کہ سیلابی ریلوں میں بہہ جانے اور آسمانی بجلی گرنے سے متعدد افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔
بارشیں ہمارے لیے قدرت کا تحفہ ہیں تاہم بعض اوقات زیادہ بارشوں کی وجہ سے ندی نالوں میں طغیانی آ جاتی ہے اور کچے مکانات گر جاتے ہیں اسی طرح سیلاب بھی قدرتی آفات میں سے ایک آفت ہے۔ اس آفت میں پانی کا ایک زور دار بہاؤ یا ریلا جو اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے جہاں سے بھی سیلاب کا گزر ہوتا ہے وہاں تباہی یقینی ہوتی ہے۔
لاکھوں افراد بے گھر ہوجاتے ہیں اور مالی نقصان کا اندازہ فوری طور پر لگانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ سیلاب معاشی طور پر ملک کو بہت نقصان پہنچا کر پستی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وسیع پیمانے پر متاثرین میں کئی وبائی بیماریاں بھی پھوٹ پڑتی ہیں۔ موسمِ گرما میں برسات کا سیزن اور مون سون کی گھنٹوں جاری رہنی والی تیز بارشیں آج بھی شہروں کے نقشے بدل دیتی ہیں۔
دراصل گزشتہ کچھ برسوں سے دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن کی لپیٹ میں پاکستان بھی آیا ہوا ہے۔ اب پاکستان کا موسم بھی زیادہ گرم ہوتا جارہا ہے اور سیلاب سمیت دیگر قدرتی آفات جن میں خشک سالی، زلزلے اور طوفانی بارشیں شامل ہیں، پہلے کی نسبت زیادہ وقوع پذیر ہونے لگے ہیں۔
اس موسمیاتی تبدیلی نے زرعی پیداوار کو براہ راست متاثر کیا ہے۔ بارش کی کمی، زیادتی یا شدید گرمی اور سردی فصلوں کو نقصان پہنچا رہی ہے اور چونکہ ہمارا کسان موسم کے ان تغیرات سے آگاہی نہیں رکھتا، اس لیے وہ اپنی فصل کو موسمی تبدیلیوں سے بچا نہیں پاتا' لہٰذا اس کی محنت اور کمائی ضایع ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
گرمی کی شدت میں اضافے کے باعث ہر سال قیمتی انسانی زندگیاں ضایع ہوجاتی ہیں لیکن پھر بھی ہماری حکومت کی حکمت عملی نہیں بن پا رہی۔ ماہرین موسمیاتی تغیرات سے بچنے کا آسان ترین حل شجر کاری کو قرار دیتے ہیں لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں نئے درخت لگانا تو درکنار لگے ہوئے درخت بھی کاٹے جارہے ہیں۔
دریاؤں کے کناروں پر موجود درخت سیلاب سے بچاؤ کا بہترین اور قدرتی ذریعہ ہیں لیکن یہاں بھی ہم کوتاہ اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان درختوں کو کاٹ دیتے ہیں۔ ہر سال کتنے ہی ایکڑ زرعی ا راضی، رہائشی مکانات، مویشی اور انسانی جانیں سیلاب کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں لیکن ہم بیرونی امداد کے آسرے پر حفاظتی اقدامات نہیں کرتے۔
گلوبل وارمنگ، موسمیاتی تغیر اور خطے کی آب و ہوا میں تبدیلی کے باعث ماہرین کے مطابق بارشوں کی شدت میں اضافہ اور سیلاب کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں اور اب ایک مرتبہ پھر موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید بارشوں اور بڑے پیمانے پر سیلاب کے خطرات کو محسوس کیا جا رہا ہے، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ممکنہ حالات سے بچاؤ کے لیے حکومت نے اب تک کیا حکمت عملی اختیار کی ہے؟
پاکستان نے گزرے بارہ برس کے دوران تاریخ کے دو بدترین سیلابوں کا سامنا کیا ہے مگر اس تباہی کے باوجود سرکاری پلیٹ فارمز کے ذریعے ملکی و عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی اور ملک کو اس سے لاحق خطرات کے پیش نظر خاطر خواہ پالیسی یا حکمت عملی مرتب نہیں کی گئی ہے۔
پاکستان کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن ہم موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی آفات کے نشانے پر ہیں۔ یہ خطرے کی بات ہے کہ پاکستان میں سات ہزار سے زیادہ گلیشیئرز موجود ہیں جب کہ ہمالیہ اور ہندو کش پہاڑی سلسلے میں گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔
گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے علاقوں میں لگ بھگ تین ہزار گلیشیئرز لیکس بن گئی ہیں، یعنی یہ نہریں گلیشیئرزکے پگھلنے کے باعث بنی ہیں۔ ان تین ہزار میں سے تین درجن کے قریب ایسی نہریں ہیں جو کسی بھی وقت سیلاب کی صورت اختیار کرسکتی ہیں۔ درحقیقت موسمیاتی تبدیلی کو روکا تو نہیں جاسکتا مگر اس کے آگے بند ضرور باندھا جاسکتا ہے۔
ہم نے پہلے جنگلات کو بے دریغ کاٹنا شروع کیا، دریاؤں سے بے تحاشہ ریت بجری اٹھانی شروع کی، جس سے دریاؤں کی سطح میں کھارا پانی عود آیا۔ پاکستان میں کوئلہ عام طور پر اینٹوں کے بھٹوں میں استعمال کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ کارخانوں کے بوائلروں اور خصوصاً بجلی پیدا کرنے والے تھرمل پلانٹ میں جلایا جارہا ہے، اس کے علاوہ گھروں میں ایندھن کے طور پر جلنے والی گیس عرف عام میں سوئی گیس کا استعمال بھی پاکستان میں عام ہے۔
اس کے استعمال سے دھواں بخارات، فضا، صحت اور عمارات کے لیے مضر اور نقصان دہ ہیں۔ صنعتی علاقوں میں اکثر دھند چھا جاتی ہے جسے فوگ یا اسموگ کہتے ہیں، اس سے دیکھنے اور سانس لینے کے عمل میں مشکلات ہوتی ہیں اور بصارت کم ہوجاتی ہے۔ اس دھند کے محرکات میں آب و ہوا اور موسم کی تبدیلی کے علاوہ صنعتی دھواں بھی شامل ہے، دراصل پانی کے بخارات اس پر جم کر اسموگ پیدا کرتے ہیں۔
کچھ عرصے سے کراچی اور لاہور میں آنکھوں کی جلن، سانس میں دشواری، کھانسی، گلے، ناک اور کان کی بیماریاں اور پھیپھڑوں کی بیماریاں عام پھیل رہی ہیں اور الرجی کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، لاتعداد افراد ان بیماریوں کا شکار ہوچکے ہیں اور بتدریج ہورہے ہیں، یہ زہریلی گیس کس طرح ہمارے ماحول اور ہماری صحت کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ ہم اس کے تدارک کے بجائے دن رات ماحول کو آلودہ بنانے میں مصروف ہیں۔
ہم نے صنعتوں سے خارج ہونے والی گیس اور فضلے کو ٹھکانے لگانے کے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے جو فضا کو آلودہ کرنے کے ساتھ ساتھ پانی میں شامل ہوکر انسانی زندگی کے لیے خطرے کا باعث بن رہے ہیں کیونکہ اکثر فیکٹریاں اپنا صنعتی فضلہ غیر محفوظ طریقے سے پھینک دیتی ہیں اور چونکہ سرکاری سطح پر یہاں بھی ناقص منصوبہ بندی اور حکمت عملی کا دور دورہ ہے، اس لیے اکثر یہ زہریلا مواد صنعتی علاقوں کے قرب و جوار کی آبادیوں میں متعدد بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا ایک سبب یہ زہریلی اور مضر صحت گیس اور مادہ بھی ہیں جس کی طرف کسی کا دھیان نہیں ہے۔
اربن فلڈنگ نکاسی کے نظام اور ندی نالوں کا ایک فطری رد ِعمل ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب نکاسی آب کے راستے بھر جاتے ہیں۔ ندیاں اور نالے شدید موسمی حالات سے پیدا ہونے والے ضرورت سے زیادہ پانی کو مزید ایڈجسٹ نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد نکاسی آب کے راستے اپنے قدرتی یا مصنوعی کناروں سے اوپر ہو جاتے ہیں اور پانی آس پاس کے علاقوں میں داخل ہو کر اربن فلڈنگ اور سیلابی صورتحال کا باعث بنتا ہے، جب کہ وہ انسانی سرگرمیاں جو ماحول کو نقصان پہنچاتی ہیں، مثال کے طور پر سبزے کا نہ ہونا، جنگلات کی کٹائی اورکچرے کو ٹھکانے لگانے کے ناقص انتظامات خطرات کو بڑھاتے ہیں۔
پانی کے انتظام کو بہتر بنانے اور سیوریج سسٹم کو نقصان سے بچانے کے لیے، شہروں میں زیر زمین پائپ لائنز اور نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانے جیسے اقدامات کی ضرورت ہے۔ بارش کے پانی کی سیوریج سسٹم سے علیحدگی بھاری مقدار میں بارش کے پانی کا بوجھ سہے بغیر مناسب طریقے سے کام کرنے کے قابل ہوتی ہے۔
گٹر اور نالوں کی صفائی ایک انتہائی ضروری امر ہے جن پر باقاعدگی سے کام کیے جانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا ایک شہر کے باسیوں کے لیے پینے کے پانی کی فراہمی اس کے علاوہ سیوریج سسٹم فضلہ، ملبہ، شاپنگ بیگز، درختوں کی جڑوں اور پتوں سے بھر سکتا ہے۔ اسی طرح پرانے، بوسیدہ، پھٹے ہوئے اور زنگ آلود پائپ اور ڈرینز کے خراب ہونے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے، جس سے مسئلہ مزید بڑھ جاتا ہے لہٰذا میعاد کے خاتمے سے قبل انھیں تبدیل کرنا نہایت ضروری ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ سنجیدگی اور مستقل مزاجی کے ساتھ ماحولیاتی پروگرام اور پروجیکٹس کو پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ ماحولیات کی حفاظت کے لیے منظور شدہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے اور موجودہ ماحولیاتی صورتحال کی مناسبت سے قوانین میں ترامیم اور نئے قوانین منظور کروائے جائیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے قومی ماحولیاتی ماہرین کے ساتھ ساتھ غیر ملکی ماہرین سے بھی مشاورت کی جائے، اگر ان خطرات کو سنجیدہ نہ لیا گیا اور بروقت اقدامات نہ اٹھائے گئے تو مستقبل میں شدید موسمیاتی واقعات دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔
موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث تیزی سے بدلتے ہوئے موسم کے باعث غیر متوقع بارشیں ہورہی ہیں۔ بارش کے باعث متعدد علاقوں میں بجلی کے فیڈرز ٹرپ کرگئے جب کہ بارش سے گندم کی فصل کو بھی نقصان پہنچا ہے، جب کہ سیلابی ریلوں میں بہہ جانے اور آسمانی بجلی گرنے سے متعدد افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔
بارشیں ہمارے لیے قدرت کا تحفہ ہیں تاہم بعض اوقات زیادہ بارشوں کی وجہ سے ندی نالوں میں طغیانی آ جاتی ہے اور کچے مکانات گر جاتے ہیں اسی طرح سیلاب بھی قدرتی آفات میں سے ایک آفت ہے۔ اس آفت میں پانی کا ایک زور دار بہاؤ یا ریلا جو اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے جہاں سے بھی سیلاب کا گزر ہوتا ہے وہاں تباہی یقینی ہوتی ہے۔
لاکھوں افراد بے گھر ہوجاتے ہیں اور مالی نقصان کا اندازہ فوری طور پر لگانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ سیلاب معاشی طور پر ملک کو بہت نقصان پہنچا کر پستی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وسیع پیمانے پر متاثرین میں کئی وبائی بیماریاں بھی پھوٹ پڑتی ہیں۔ موسمِ گرما میں برسات کا سیزن اور مون سون کی گھنٹوں جاری رہنی والی تیز بارشیں آج بھی شہروں کے نقشے بدل دیتی ہیں۔
دراصل گزشتہ کچھ برسوں سے دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن کی لپیٹ میں پاکستان بھی آیا ہوا ہے۔ اب پاکستان کا موسم بھی زیادہ گرم ہوتا جارہا ہے اور سیلاب سمیت دیگر قدرتی آفات جن میں خشک سالی، زلزلے اور طوفانی بارشیں شامل ہیں، پہلے کی نسبت زیادہ وقوع پذیر ہونے لگے ہیں۔
اس موسمیاتی تبدیلی نے زرعی پیداوار کو براہ راست متاثر کیا ہے۔ بارش کی کمی، زیادتی یا شدید گرمی اور سردی فصلوں کو نقصان پہنچا رہی ہے اور چونکہ ہمارا کسان موسم کے ان تغیرات سے آگاہی نہیں رکھتا، اس لیے وہ اپنی فصل کو موسمی تبدیلیوں سے بچا نہیں پاتا' لہٰذا اس کی محنت اور کمائی ضایع ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
گرمی کی شدت میں اضافے کے باعث ہر سال قیمتی انسانی زندگیاں ضایع ہوجاتی ہیں لیکن پھر بھی ہماری حکومت کی حکمت عملی نہیں بن پا رہی۔ ماہرین موسمیاتی تغیرات سے بچنے کا آسان ترین حل شجر کاری کو قرار دیتے ہیں لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں نئے درخت لگانا تو درکنار لگے ہوئے درخت بھی کاٹے جارہے ہیں۔
دریاؤں کے کناروں پر موجود درخت سیلاب سے بچاؤ کا بہترین اور قدرتی ذریعہ ہیں لیکن یہاں بھی ہم کوتاہ اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان درختوں کو کاٹ دیتے ہیں۔ ہر سال کتنے ہی ایکڑ زرعی ا راضی، رہائشی مکانات، مویشی اور انسانی جانیں سیلاب کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں لیکن ہم بیرونی امداد کے آسرے پر حفاظتی اقدامات نہیں کرتے۔
گلوبل وارمنگ، موسمیاتی تغیر اور خطے کی آب و ہوا میں تبدیلی کے باعث ماہرین کے مطابق بارشوں کی شدت میں اضافہ اور سیلاب کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں اور اب ایک مرتبہ پھر موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید بارشوں اور بڑے پیمانے پر سیلاب کے خطرات کو محسوس کیا جا رہا ہے، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ممکنہ حالات سے بچاؤ کے لیے حکومت نے اب تک کیا حکمت عملی اختیار کی ہے؟
پاکستان نے گزرے بارہ برس کے دوران تاریخ کے دو بدترین سیلابوں کا سامنا کیا ہے مگر اس تباہی کے باوجود سرکاری پلیٹ فارمز کے ذریعے ملکی و عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی اور ملک کو اس سے لاحق خطرات کے پیش نظر خاطر خواہ پالیسی یا حکمت عملی مرتب نہیں کی گئی ہے۔
پاکستان کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن ہم موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی آفات کے نشانے پر ہیں۔ یہ خطرے کی بات ہے کہ پاکستان میں سات ہزار سے زیادہ گلیشیئرز موجود ہیں جب کہ ہمالیہ اور ہندو کش پہاڑی سلسلے میں گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔
گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے علاقوں میں لگ بھگ تین ہزار گلیشیئرز لیکس بن گئی ہیں، یعنی یہ نہریں گلیشیئرزکے پگھلنے کے باعث بنی ہیں۔ ان تین ہزار میں سے تین درجن کے قریب ایسی نہریں ہیں جو کسی بھی وقت سیلاب کی صورت اختیار کرسکتی ہیں۔ درحقیقت موسمیاتی تبدیلی کو روکا تو نہیں جاسکتا مگر اس کے آگے بند ضرور باندھا جاسکتا ہے۔
ہم نے پہلے جنگلات کو بے دریغ کاٹنا شروع کیا، دریاؤں سے بے تحاشہ ریت بجری اٹھانی شروع کی، جس سے دریاؤں کی سطح میں کھارا پانی عود آیا۔ پاکستان میں کوئلہ عام طور پر اینٹوں کے بھٹوں میں استعمال کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ کارخانوں کے بوائلروں اور خصوصاً بجلی پیدا کرنے والے تھرمل پلانٹ میں جلایا جارہا ہے، اس کے علاوہ گھروں میں ایندھن کے طور پر جلنے والی گیس عرف عام میں سوئی گیس کا استعمال بھی پاکستان میں عام ہے۔
اس کے استعمال سے دھواں بخارات، فضا، صحت اور عمارات کے لیے مضر اور نقصان دہ ہیں۔ صنعتی علاقوں میں اکثر دھند چھا جاتی ہے جسے فوگ یا اسموگ کہتے ہیں، اس سے دیکھنے اور سانس لینے کے عمل میں مشکلات ہوتی ہیں اور بصارت کم ہوجاتی ہے۔ اس دھند کے محرکات میں آب و ہوا اور موسم کی تبدیلی کے علاوہ صنعتی دھواں بھی شامل ہے، دراصل پانی کے بخارات اس پر جم کر اسموگ پیدا کرتے ہیں۔
کچھ عرصے سے کراچی اور لاہور میں آنکھوں کی جلن، سانس میں دشواری، کھانسی، گلے، ناک اور کان کی بیماریاں اور پھیپھڑوں کی بیماریاں عام پھیل رہی ہیں اور الرجی کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، لاتعداد افراد ان بیماریوں کا شکار ہوچکے ہیں اور بتدریج ہورہے ہیں، یہ زہریلی گیس کس طرح ہمارے ماحول اور ہماری صحت کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ ہم اس کے تدارک کے بجائے دن رات ماحول کو آلودہ بنانے میں مصروف ہیں۔
ہم نے صنعتوں سے خارج ہونے والی گیس اور فضلے کو ٹھکانے لگانے کے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے جو فضا کو آلودہ کرنے کے ساتھ ساتھ پانی میں شامل ہوکر انسانی زندگی کے لیے خطرے کا باعث بن رہے ہیں کیونکہ اکثر فیکٹریاں اپنا صنعتی فضلہ غیر محفوظ طریقے سے پھینک دیتی ہیں اور چونکہ سرکاری سطح پر یہاں بھی ناقص منصوبہ بندی اور حکمت عملی کا دور دورہ ہے، اس لیے اکثر یہ زہریلا مواد صنعتی علاقوں کے قرب و جوار کی آبادیوں میں متعدد بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا ایک سبب یہ زہریلی اور مضر صحت گیس اور مادہ بھی ہیں جس کی طرف کسی کا دھیان نہیں ہے۔
اربن فلڈنگ نکاسی کے نظام اور ندی نالوں کا ایک فطری رد ِعمل ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب نکاسی آب کے راستے بھر جاتے ہیں۔ ندیاں اور نالے شدید موسمی حالات سے پیدا ہونے والے ضرورت سے زیادہ پانی کو مزید ایڈجسٹ نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد نکاسی آب کے راستے اپنے قدرتی یا مصنوعی کناروں سے اوپر ہو جاتے ہیں اور پانی آس پاس کے علاقوں میں داخل ہو کر اربن فلڈنگ اور سیلابی صورتحال کا باعث بنتا ہے، جب کہ وہ انسانی سرگرمیاں جو ماحول کو نقصان پہنچاتی ہیں، مثال کے طور پر سبزے کا نہ ہونا، جنگلات کی کٹائی اورکچرے کو ٹھکانے لگانے کے ناقص انتظامات خطرات کو بڑھاتے ہیں۔
پانی کے انتظام کو بہتر بنانے اور سیوریج سسٹم کو نقصان سے بچانے کے لیے، شہروں میں زیر زمین پائپ لائنز اور نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانے جیسے اقدامات کی ضرورت ہے۔ بارش کے پانی کی سیوریج سسٹم سے علیحدگی بھاری مقدار میں بارش کے پانی کا بوجھ سہے بغیر مناسب طریقے سے کام کرنے کے قابل ہوتی ہے۔
گٹر اور نالوں کی صفائی ایک انتہائی ضروری امر ہے جن پر باقاعدگی سے کام کیے جانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا ایک شہر کے باسیوں کے لیے پینے کے پانی کی فراہمی اس کے علاوہ سیوریج سسٹم فضلہ، ملبہ، شاپنگ بیگز، درختوں کی جڑوں اور پتوں سے بھر سکتا ہے۔ اسی طرح پرانے، بوسیدہ، پھٹے ہوئے اور زنگ آلود پائپ اور ڈرینز کے خراب ہونے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے، جس سے مسئلہ مزید بڑھ جاتا ہے لہٰذا میعاد کے خاتمے سے قبل انھیں تبدیل کرنا نہایت ضروری ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ سنجیدگی اور مستقل مزاجی کے ساتھ ماحولیاتی پروگرام اور پروجیکٹس کو پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ ماحولیات کی حفاظت کے لیے منظور شدہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے اور موجودہ ماحولیاتی صورتحال کی مناسبت سے قوانین میں ترامیم اور نئے قوانین منظور کروائے جائیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے قومی ماحولیاتی ماہرین کے ساتھ ساتھ غیر ملکی ماہرین سے بھی مشاورت کی جائے، اگر ان خطرات کو سنجیدہ نہ لیا گیا اور بروقت اقدامات نہ اٹھائے گئے تو مستقبل میں شدید موسمیاتی واقعات دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔