اعلیٰ پولیس افسران سے عوام دور کیوں
ضروری ہے کہ اعلیٰ پولیس افسروں تک عام لوگوں کی رسائی ممکن بنائی جائے
سندھ پولیس کے اچھی شہرت کے حامل ایک ریٹائرڈ ایس ایس پی کا کہنا ہے کہ اعلیٰ پولیس افسروں خصوصاً اضلاع کے ڈی پی اوز اور ایس ایس پیز تک عوام کی رسائی مشکل بنا دیے جانے کی وجہ سے تھانوں کی سطح پر ہونے والے مظالم، غلط گرفتاریوں اور رشوت وصولی کی شکایات اوپر پہنچتی نہیں یا بہت کم پہنچتی ہیں جس کی وجہ سے خاص طور پر چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں کے تھانوں میں متعلقہ ایس ایچ اوز اور عملہ عوام پر مظالم ڈھاتا رہتا ہے اور اعلیٰ افسران تک ان کی شکایات نہیں پہنچتیں اور وہ لاعلم رہتے ہیں اور عوام کی اعلیٰ افسران تک رسائی ناممکن ہو چکی ہے اور ایسے لوگ محفوظ ہو جاتے ہیں۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں ملک بھر میں کھلی کچہریوں کا سلسلہ شروع کرایا تھا اور چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں متعلقہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنر ، متعلقہ پولیس سربراہ اور مختلف محکموں کے ضلعی افسران کے ہمراہ وہاں جا کر کھلی کچہریاں منعقد کرتے تھے جس کی پہلے تشہیر ہوتی تھی اور میڈیا کو بھی مدعو کیا جاتا تھا۔
جنرل ضیا الحق کے دور میں ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی کمشنر کے ہمراہ کھلی کچہری میں جا کر عوام کی شکایات سن کر عوامی مسائل موقع پر حل کراتے اور ضروری احکامات صادر کرتے تھے اور ضلع حکام بھی موجود ہوا کرتے تھے جس میں عوام آ کر اپنے مسائل اور سرکاری افسروں کی شکایات بھی کیا کرتے تھے اور سرکاری ملازمین کو بھی خطرہ رہتا تھا کہ ان کی شکایت اوپر نہ پہنچ جائے۔
راقم نے اپنے آبائی شہر شکارپور میں اعلیٰ فوجی حکام اور ڈپٹی کمشنروں کی بے شمار کھلی کچہریاں اٹینڈ کیں جہاں غریب لوگ بھی آ جاتے تھے اور ان کی درخواستیں موقع پر مختار کار وصول کرتے تھے اور اعلیٰ ضلع حکام ان درخواستوں پر آرڈر لکھ کر متعلقہ دفاتر کو بھیج دیتے تھے اور ان کے مسائل موقع پر حل بھی کرا دیے جاتے تھے۔
ان کھلی کچہریوں میں علاقے کے زمیندار بھی موجود ہوتے تھے اور ان کے مظالم کا شکار افراد کی بھی داد رسی ہو جاتی تھی۔ مارشل لا دور میں ارکان اسمبلی موجود نہیں ہوتے تھے سول افسروں اور پولیس کو بھی خوف ہوتا تھا اور عوام کو آج کی طرح تنگ نہیں ہونا پڑتا تھا۔
آج کے وزیر اعظم تو کیا ان کے وزیر تک عوام سے دور رہتے ہیں اور ارکان اسمبلی اپنے حلقوں میں کم اور بڑے شہروں میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں اور عید تہوار یا الیکشن کے موقع پر ہی انھیں عوام کا خیال آتا ہے جب کہ مارشل لا دور میں راقم نے خود صدر جنرل ضیا الحق کو شکار پور، لاڑکانہ اور سکھر میں لوگوں کے درمیان ان کے مسائل سنتے ہوئے دیکھا ہے اور جنرل ضیا الحق نے اپنے شکارپور کے دورے میں ڈپٹی کمشنر آفس سے باہر نکلتے ہوئے اپنی گاڑی رکوائی،کیونکہ خاکروب جھاڑو ہاتھوں میں اٹھائے انھیں سلام کررہے تھے ، جنرل صاحب نے ان کے پاس جا کر ان سے ہاتھ ملایا تھا اور نقد رقم کے لفافے خاکروبوں کو خود دیے تھے۔
آج وزیر اعظم کیا وزرائے اعلیٰ، صوبائی وزرا اور اضلاع کے ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی عوام سے دور ہو چکے ہیں اور وہ اپنے دفاتر سے باہر نہیں نکلتے ان کے پاس وقت صرف ارکان اسمبلی، سیاسی رہنماؤں اور بڑے لوگوں کے لیے ہوتا ہے نہ ان کے دفاتر میں عام لوگوں سے ملاقات کا وقت مقرر ہے جب کہ پہلے سرکاری حکام کے دفاتر میں عام لوگوں سے ملاقات کا وقت مقرر ہوتا تھا مگر وہ اکثر ان اوقات میں دفتر میں کم ہی موجود ہوتے تھے۔
کراچی لاہور اور بڑے شہروں میں ایس پی، ڈی ایس پی سے ملنا آسان اور تھانہ ایس ایچ او سے ملنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ ایس ایچ اوز کے دفاتر میں اے سی لگ گئے ہیں ان کے دفاتر کے دروازے اکثر بند اور باہر سپاہی کھڑا ہوتا ہے اور خاص لوگوں کو ہی اندر جانے دیا جاتا ہے اور بتایا یہی جاتا ہے کہ صاحب علاقہ گشت پر ہیں۔
ایس ایچ او ہی نہیں اب تو ایس ایس پی، ایس پی اور ڈی ایس پیز بھی ہمیشہ اپنے دفاتر دیر سے آتے ہیں اور ٹھنڈے کمروں میں جا بیٹھتے ہیں جن کے دفتر کے باہر سپاہی تعینات ہوتے ہیں اور یہ صاحبان آفس اسٹاف یا من پسند لوگوں سے ہی ملنا پسند کرتے ہیں اور عام لوگ ملنا چاہیں تو کہلوا دیا جاتا ہے کہ صاحب میٹنگ میں ہیں جب کہ صاحب دفتر میں اکیلے بیٹھے فون پر مصروف ہوتے ہیں یا ٹی وی دیکھتے رہتے ہیں۔
پولیس سے متعلق زیادہ شکایات پنجاب اور سندھ میں ہیں ۔ سندھ میں کراچی پولیس اہلکاروں کے لیے دبئی بنا ہوا ہے جہاں تعیناتی کے لیے ملک بھر کے پولیس افسر بے چین رہتے ہیں کیونکہ کراچی میں پولیس کی مصروفیات جرائم پیشہ عناصر کے بجائے کمائی پر زیادہ رہتی ہے جہاں زیادہ کمائی اور ترقی کے مواقعے زیادہ میسر ہوتے ہیں۔ اب تو کراچی میں پولیس کم اور ڈاکو زیادہ مستعد ہیں اور لوگوں کو لوٹنے کے ساتھ ساتھ مارنے پر اترے ہوئے ہیں اور مزاحمت نہ کرنے والوں کو بھی ناحق قتل کر رہے ہیں اور تین ماہ میں چار درجن سے زیادہ بے گناہ افراد ڈکیتیوں کے دوران مارے جا چکے ہیں مگر سندھ حکومت یا اعلیٰ پولیس افسروں کو کوئی فکر نہیں۔ پولیس مظالم اور کرپشن میں دنیا بھر میں بدنام ہے۔
ضروری ہے کہ اعلیٰ پولیس افسروں تک عام لوگوں کی رسائی ممکن بنائی جائے تاکہ تھانہ سطح پر کی جانے والی شکایات اعلیٰ افسران تک پہنچنے کا خوف پیدا ہو اور نچلی سطح پر کیے جانے والے مظالم کا اوپر پتا چل سکے۔ اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنرز اور ایس ایس پیز کی ہر ہفتے مختلف علاقوں میں کھلی کچہریوں کا انعقاد ممکن بنایا جائے اور ضلعی افسران وہاں جا کر عوام کی شکایات سن سکیں۔