مزدور خوشحال ملک خوشحال انقلابی اقدامات اٹھانا ہونگے

 ’’عالمی یوم مزدور‘‘ کی مناسبت سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم ‘‘میں شرکاء کا اظہار خیال

عکاسی: وسیم نیاز

یکم مئی کو دنیا بھر میں مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ اس روز نہ صرف مزدوروںکی عظمت کو سلام اور محنت کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے بلکہ ان کی صورتحال کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے تاکہ ان کی بہتری کیلئے اقدامات کیے جاسکیں۔

اس دن کی مناسبت سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، سول سوسائٹی اور مزدور نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

سیدہ کلثوم حئی

(ڈائریکٹر جنرل لیبر پنجاب)

مزدوروں اور تمام ورکرز کی فلاح حکومتی ترجیحات میں شامل ہے۔ اس حوالے سے ہمارے ساتھ وزیر اعلیٰ مریم نواز نے میٹنگ کی اور بتایا کہ وہ کیا چاہتی ہیں۔ ہم نے یوم مزدور پر تقریب میں انہیں مدعو کیا ہے، اس روز ہم مزدور کی عظمت کو سلام پیش کریں گے۔ نگران حکومت کے دور میں مزدور کی کم از کم تنخواہ میں 25 فیصد اضافہ کرکے 32 ہزار روپے ماہانہ کر دی گئی۔ اسے یقینی بنانے کیلئے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ محکمہ لیبر نے مزدوروں کی رہنمائی کیلئے خصوصی ہیلپ لائن 1314 قائم کی ہے جہاں وہ اپنی شکایات درج کرواسکتے ہیں۔

مزدوروں کے معاملات کو صرف تنخواہ اور سہولیات کے حوالے سے نہیں دیکھا جاسکتا بلکہ اسے انسانی حقوق کے ساتھ جوڑنا چاہیے۔ ہماری ہیلپ لائن پر مزدور کی اجرت، چائلڈ لیبر، بانڈڈ لیبر، ہراسمنٹ، تشدد، زیادتی سمیت دیگر شکایات درج کروائی جاسکتی ہیں۔ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ اسے ڈیل کر رہا ہے جو متعلقہ علاقے میں موجود سٹاف سے لنک کرتا ہے جو 7 دن کے اندر اندر مسئلے کا حل کرنے کے پابند ہیں۔

ہیلپ لائن ابھی نئی ہے، اس کی تشہیر کی جا رہی ہے۔ اب تک لاکھوں شکایات موصول ہوچکی ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہے جس کے باعث وسائل کم اور مسائل زیادہ ہو رہے ہیں، آبادی کنٹرول کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔ پیسی فارمل سیکٹر کو ڈیل کرتا ہے، اسے مزدوروں کی رقم ملتی ہے جس کے بدلے انہیں سہولیات دی جاتی ہیں۔

ڈومیسٹک ورکرز، دیہاڑی دار، مزدور، غیر رسمی شعبے ہیں، ان کی کمپنسیشن کہاں سے لی جائے؟ ورکزر کو دیتھ گرانٹ، تعلیم، صحت، شادی گرانٹ سمیت دیگر سہولیات دینے کیلئے خاطر خواہ رقم چاہیے جو بڑا چیلنج ہے، حکومت انڈومنٹ فنڈ کے قیام پر غور کر رہی ہے، اس حوالے سے معاملات طے کیے جا رہے ہیں۔

2019ء میں پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ بنا، اس کے رولز آف بزنس پر کام جاری ہے۔ 'آئی ایل او' کے تعاون سے پنجاب میں لیبر کورٹس بنانے جا رہے ہیں جہاں مزدوروں کے مسائل حل کیے جائیں گے۔ ہمارے بیشتر قوانین بہت پرانے ہیں، انگریز دور کے قوانین آج بھی یہاں رائج ہیں۔

اب تمام قوانین کا جائزہ لیا جا رہا ہے، انہیں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے، قوانین کو یکساں بنایا جا رہا ہے، جہاں خرابیاں ہیں انہیں دور اور جہاں ضرورت ہے وہاں بہتری لائی جارہی ہے۔ ہم قانون سازی میں بڑی اصلاحات لا رہے ہیں۔ چائلڈ لیبر کے حوالے سے مختلف قوانین میں عمر کی حد مختلف ہے۔ آئین پاکستان میں 16 برس تک کی عمر کو بچہ قرار دیا گیا ہے لہٰذااب تمام قوانین میں یہ عمر 16 برس کی جائے گی۔

چائلڈ لیبر کا معاملہ پیچیدہ ہے، اگر مالک پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو والدین پر بھی ہونی چاہیے۔ پہلی مرتبہ مالک کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ ہمیں اس چیز کا ادراک ہے کہ غربت کی وجہ سے والدین مجبور ہیں، ہم سوشل سیفٹی نیٹ کا میکنزم بنا رہے ہیں۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیبر بعض مخصوص حالات میں ملنے والے مزدور بچے کو فلاحی اداروں کو ریفر کریں گے تاکہ بچے کا مستقبل محفوظ بنایا جاسکے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کے کنونشن برائے حقوق اطفال کی توثیق کر رکھی ہے۔ ہمیں بچوں کو محفوظ اور سازگار ماحول دینا ہوگا۔

بدقسمتی سے اس وقت 3 کروڑ بچے تعلیم کے زیور سے محروم ہیں۔ چائلڈ لیبر اور بانڈڈ لیبر میں اضافہ ہوا ہے۔جنوبی پنجاب اس حوالے سے سرفہرست ہے۔ رحیم یارخان، بھکر، ساہیوال اور اوکاڑہ میں چائلڈ لیبر کی تعداد زیادہ ہے۔ ان بچوں کیلئے ٹیکنیکل اور ووکیشنل ٹریننگ سمیت دیگر منصوبے لائے جا رہے ہیں۔ جاب سینٹرز بھی بنائے جا رہے ہیں، آن لائن جاب پورٹل بنایا گیا ہے جس کے ذریعے ان بچوں کی ہنرمند اور 16 برس سے زائد ہونے کے بعد پلیسمنٹ کی جائے گی۔ 1992ء میں ایڈوانس رقم منع تھی ، 2016 ء میں اس کی اجازت دے دی گئی۔ ایڈوانس رقم کی وجہ سے جبری مشقت لی جاتی ہے، بھٹوں پر اس کی شرح زیادہ ہے، پورا خاندان بچوں سمیت جبری مشقت پر مجبور ہوتا ہے۔

اب قانون سازی کی جارہی ہے جس کے بعد 3 سے زائد ایڈوانس نہ لے سکتے ہیں نہ دے سکتے ہیں۔ ایڈوانس کو بینکنگ چینل سے لنک کیا جائے گا تاکہ مزدور کے پاس بھی ریکارڈ ہو کہ اس نے کتنی رقم واپس کر دی ہے۔ اس ضمن میں موبائل بینکنگ سسٹم زیر غور ہے۔ تعمیراتی اور زرعی شعبوں میں لیبر کی تعداد سب سے زیادہ ہے مگر ان پر لیبر لاز کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے بھی اقدامات زیر غور ہیں کہ ان مزدوروں کو قانون کے دائرے میں لاکر سہولیات دی جائیں۔ کم از کم اجرت کے ساتھ ساتھ اب 'فی آئٹم' ریٹ بھی مقرر کیا جائے گا۔

مثال کے طور پر بھٹہ مالکان 20روپے کی اینٹ میں سے 1 روپیہ مزدور خاندان کو دیتے ہیں جبکہ 19 روپے اپنی جیب میں ڈالتے ہیں۔ ہم یہ ریٹ بھی مقرر کریں گے، مزدور کو اس کا جائز حصہ دیا جائے گا۔ ہمارے ہاں ایک مسئلہ یہ ہے کہ مزدوروں کا ڈیٹا موجود نہیں۔ اس حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب نے متعلقہ محکموں کو ہدایات جاری کر دی ہیں۔ یہ ادارے سروے کے ذریعے ڈیتا اکٹھا کریں گے، اس طرح بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ افراد کے علاوہ نیا ڈیٹا ملے گا۔ اس ڈیٹا کی مدد سے پنجاب سوشیو اکنامک ڈائریکٹری بنائی جائے گی جس کی روشنی میں اقدامات کیے جائیں گے۔

حکومت نے عوام کو گھر دینے کی سکیم کا آغاز کیا ہے۔ محکمہ لیبر نے مزدوروں کے لیے لیبر کالونیاں بنائی ہیں جنہیں وسعت دی جا رہی ہے اور نئی کالونیاں بھی بنائی جا رہی ہیں۔ پنجاب ورکرز ویلفیئر فنڈ سے یہ کام ہو رہا ہے۔ انڈسٹریل اسٹیٹس کے ساتھ لیبر کالونیاں قائم کی جا رہی ہیں۔ ٹیکسلا میں بیلٹنگ کا مرحلہ قریب ہے۔ ملازمت کیلئے کسی بھی امتیاز کی کوئی اجازت نہیں ہے۔

اس حوالے سے باقاعدہ دفتر قائم کیا گیا ہے جہاں رنگ، نسل، صنف، زبان، زچگی و کسی بھی حوالے سے روا رکھے گئے امتیازی سلوک کی شکات کی جاسکتی ہے۔ یہ آفس نہ صرف انہیں رہنمائی دیتا ہے بلکہ مفت قانونی معاونت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ لیبر انسپکشن اور جرمانے کا نظام بھی بہتر بنایا جا رہا ہے۔

رجسٹرار ٹریڈ یونین کی حیثیت سے میں نے پہلی ڈومیسٹک ورکرز ایسوسی ایشن اور ہوم بیسڈ ورکرز ایسوسی ایشن رجسٹر کی تاکہ یہ خود کو منظم کرسکیں اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا سکیں۔ کام کی جگہ پر تحفظ اور صحت کے حوالے سے بھی قانون موجود ہے۔ اس حوالے سے آگاہی بھی دی جا رہی ہے۔ ڈے کیئر سینٹرز یقینی بنائے جا رہے ہیں۔

آن لائن پلیٹ فارمز سے منسلک رائڈرز، ڈرائیورز، فری لانسرز و دیگر کو بھی قانونی تحفظ دینے پر کام جاری ہے ، ان کی رجسٹریشن کا جلد آغاز کیا جائے گا۔ ہم نے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز سے تعاون کا کہا، وہاں مختلف آگاہی سیشنز بھی منعقد کیے۔ کم از کم اجرت 32 ہزار کے اطلاق میں موجود رکاوٹوں کو بھی بزنس کمیونٹی کی مشاورت سے دور کیا جارہا ہے۔

ہمیں درپیش مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ کم سٹاف کا ہے۔ ہمارا کام زیادہ ہے۔ اگر ایک لیبر انسپکٹر پورا سال انسپکشن کرے تو کسی فیکٹری میں سال بعد ہی دوبارہ جاسکے گا۔ ہم جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا کر ڈیجیٹائزیشن کی طرف جا رہے ہیں۔ فیکٹریوں کی آن لائن انسپکشن، رئیل ٹائم جیو ٹیگنگ، OSHA سمیت بیشتر معاملات کو آن لائن ہی ڈیل کیا جاسکے گا۔ ہم ہر بزنس اور خیراتی اداروں کو بھی رجسٹریشن کا کہہ رہے ہیں۔

ہمارے پاس جب تمام ملازمین کا ڈیٹا آن لائن موجود ہوگا تو اس میں ملازمت کی ضرورت، ملازمین کی ٹریفکنگ سمیت بیشتر معاملات کو مانیٹر اور ہینڈل کرنے میں مدد ملے گی۔ حکومت کی جانب سے ملازمین کا جو ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے، اس کی روشنی میں تمام متعلقہ اداروں کی مشاورت سے آگے بڑھا جائے گا۔

ہم ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ پر بھی کام کر رہے ہیں تاکہ ورکرز کو بیرون ملک بھی بھیجا جا سکے۔ ہم انٹر پرینیورز کو بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ ہمارے پورٹل پر رجسٹر ہو، وہاں اپنی سروسز اور پراڈکٹس کی تفصیل دیں، متعلقہ کمپنیاں اور ڈیلرز آپ سے رابطہ کریں گے، اس طرح کاروبار کو فروغ ملے گا۔

اظہر منہاس

(ڈائریکٹر جنرل پیسی)

محنت کرنے والے اللہ کے دوست ہیں اور پیسی اللہ کے دوستوں کیلئے کام کرتا ہے۔ ہم تمام رجسٹرڈ ورکرز کو سہولیات کی فراہمی کیلئے ہر ممکن کام کرتے ہیں۔ نئے ہسپتال بنائے جا رہے ہیں جبکہ پہلے سے موجود ڈسپینسریز کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔ پنجاب میں ساڑھے 57 ہزار انڈسٹریز ہیں جن میں 12 لاکھ 60 ہزار 991 ورکرز کام کرتے ہیں۔ ہمیں انہیں مفت سہولیات دے رہے ہیں۔ دوران ملازمت اگر فیکٹری میں کوئی حادثہ ہوجائے تو زخمی کو 100 فیصد جبکہ بیمار کو 75 فیصد تنخواہ دی جاتی ہے۔ اسی طرح زچگی سے 3 ماہ پہلے اور 3 ماہ بعد تک معاوضہ دیا جاتا ہے۔

ہم فیکٹریوں کی ڈور ٹو ڈور چیکنگ کرتے ہیں۔ کمشنر کی ہدایت پر مزدوروں کو رجسٹر نہ کروانے والی فیکٹریوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جا رہا ہے، اس حوالے سے زیرو ٹالرنس کی پالیسی ہے۔ ہم نے گزشتہ 4 ماہ میں ڈیفالٹرز سے 2 ارب 20 کروڑ روپے ریکور کیے ہیں۔ہم نے ورکرز کی کنٹریبیوشن کو آن لائن کر دیا ہے۔ ایسے فیکٹری مالکان جو ورکرز کی رجسٹریشن نہیں کرواتے ان کے حوالے قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔ 3 ماہ قید اور جرمانہ بھی کیا جاتا ہے۔ جرمانے کی رقم 2 ہزار سے بڑھا کر 20 ہزار کی جا رہی ہے۔ پنجاب میں ہمارے 20 ہسپتال ہیں۔


ہمارے ڈاکٹر محنتی ہیں جو مریضوں کی بہترین دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ پیسی میں سوائے انٹری کے، مریض کو علاج کے لیے کوئی رقم نہیں دینی پڑتی۔ حادثے کی صورت میں نقصان کا اندازہ لگانے کے بعد تاحیات 100 فیصد تک پینشن دی جاتی ہے۔ ہم اپنے ہسپتالوں کی تعداد اور کپیسٹی بڑھا رہے ہیں۔

شیخوپورہ میں ہسپتال کی ایکسٹینشن کی جا رہی ہے، سرگودھا میں نیا ہسپتال بنایا جا رہا ہے جبکہ ملتان میں شعبہ ایمرجنسی کو وسعت دی جا رہی ہے۔ لاہور کے ایک ہسپتال میں 500 مریض روزانہ تک کی کپیسٹی ہے۔ ہم نے ایمبولینس کی سہولت بھی دی ہے، نجی ایمبولینس کی صورت میں 5 روپے فی کلومیٹر دیے جاتے ہیں۔

ہمارا دل کا ہسپتال بھی قائم ہے جو سٹیٹ آف دی آرٹ ہے۔ ہم ہر رجسٹرڈ مزدور کو علاج معالجے کی بہترین سہولیات کی فراہمی کیلئے کوشاں ہیں۔ پنجاب میں ہمارے 22 لوکل آفس اور 10 سب آفس ہیں۔ کمشنر کی ہدایت ہے کہ کوئی بھی ورکر محروم نہ رہے۔ یہاں ڈومیسٹک ورکرز کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ اس حوالے سے قانون سازی ہو رہی ہے جس کے بعد انہیں سوشل سکیورٹی کارڈ جاری کیے جائیں گے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ فیکٹری مالکان ہمیں اپنے ورکرز کیلیے مختص رقم دیتے ہیں جس کے بدلے میں مزدوروں کو سہولیات فراہم کی جاتی ہے۔ ڈومیسٹک ورکرز ایک ہی وقت میں مختلف گھروں میں کام کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ان میں سے کون سا مالک آنرشپ لے گا؟ہر ڈومیسٹک ورکر کیلئے 1920روپے ماہانہ دینا پڑے گے۔

آمنہ افضل

(نمائندہ سول سوسائٹی)

عالمی یوم مزدور پر میں ان تمام افراد کو جو ذہنی اورجسمانی طور پر کام کرتے ہیں خراج تحسین پیش کرتی ہوں۔ مزدوروں کا عالمی دن اور ان کے حقوق، شکاگو کے مزدوروں کی کاوشوں کا ثمر ہیں۔ موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو بدقسمتی سے محنت کش طبقے کو اس کے لیے بنائے گئے قوانین اور اٹھائے گئے اقدامات کے ثمرات نہیں پہنچ رہے۔ اس میں نظام کی خرابی ایک بڑی وجہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہماری اپنی خامیاں اور کمزوریاں بھی ہیں۔

ہم دوسرے کی حق تلفی کرنا چاہتے ہیں اور یہ بھی کہ اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر آواز نہیں اٹھاتے۔ آئین پاکستان مزدوروں کے حقوق کو تحفظ دیتا ہے۔ ایسے ورکرز موجود ہیں جو نہ صرف اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی سپورٹ کرتے ہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک ناانصافی اور حقوق کی پامالی پر آواز نہیں اٹھائیں گے تب تک مسائل حل نہیں ہونگے۔ ہمارا ادارہ ڈومیسٹک ورکرز کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔ 2019ء میں جب پنجاب میں ڈومیسٹک ورکرز کا قانون بنایا گیا تو ہم نے اس کی آگاہی اور فروغ کیلئے کام کیا اور آج تک کر رہے ہیں۔

ہم نے پنجاب کی پہلی ڈومیسٹک ورکرز یونین بنانے کیلئے بھی ڈومیسٹک ورکرز کو سپورٹ کیا۔ ہم اخبارات، میڈیا اور سوشل میڈیا کی مانیٹرنگ کے ذریعے ڈومیسٹک ورکرز پر ہونے والے تشدد کی رپورٹ مرتب کرتے ہیں۔ یہ باعث افسوس ہے کہ ہر ماہ تین، چار ڈومیسٹک ورکرز کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اس میں گھروں میں کام کرنے والے بچے بھی شامل ہیں، اموات کی افسوسناک خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔

اب تک ہم 2 رپورٹس شائع کرچکے ہیں، تیسری پر کام جاری ہے۔ آئین کا آرٹیکل 25(اے) مفت اور لازمی تعلیم کی گارنٹی دیتا ہے مگر یہاں تعلیم کے بجائے لیبر ہو رہی ہے، چائلڈ لیبر کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو افسوسناک ہے۔ اسی طرح خواتین کیلئے محفوظ اور سازگار ماحول نہیں ہے۔

8 گھنٹے سے زیادہ مشقت لی جا رہی ہے۔ بعض شعبے تو ایسے ہیں جہاں زیادہ وقت کام لینا معمول ہے۔ بھٹہ مزدور، ڈومیسٹک ورکرز و دیگر کم معاوضہ پر زیادہ کام کرنے پر مجبور ہیں۔ حکومت نے مزدور کی کم از کم اجرت 32 ہزار روپے ماہانہ مقرر کی لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ اس جدید دور میں بھی بانڈڈ لیبر ہو رہی ہے، نسل در نسل مزدور یہ کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ محنت کشوں کے پاس سوشل سیکورٹی کارڈ کا نہ ہونا ہے۔

ڈومیسٹک ورکرز کو کوئی سہولت نہیں ہے، زچگی کے دوران انہیں کوئی معاوضہ نہیں ملتا، ملازمت سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ مہنگائی کے دور میں غریب کیلئے زندگی گزارنا مشکل ہوگیا ہے۔ حکومت کو قوانین پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا۔ آج کے دن ہم جہاں شکاگو کے مزدوروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں وہاں حکومت سے درج ذیل مطالبات بھی ہیں تاکہ مزدوروں کی حالت بہتر بنائی جاسکے:

-1 مزدوروں سے متعلق تمام قوانین پر موثر عملدرآمد کیا جائے۔

-2 ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019ء کے رولز آف بزنس بنائے جائیں۔

3 - حکومت کی مقرر کردہ کم از کم اجرت کا اطلاق یقینی بنایا جائے۔ ڈومیسٹک ورکرز کیلئے گھنٹوں کے حساب سے مقرر کردہ کم از کم اجرت کو بھی یقینی بنایا جائے۔

-4 مہنگائی کے تناسب سے کم از کم اجرت میں اضافہ کیا جائے۔

-5 تمام اداروں اور کام کی جگہوں پر ہراسمنٹ کمیٹیاں یقینی بنائی جائیں۔

-6 چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیا جائے۔ گھریلو ملازم بچوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ چائلڈ لیبر انسپکٹرز تعینات کیے جائیں۔

-7 ڈومیسٹک ورکرز کو سوشل سکیورٹی کارڈ جاری کیے جائیں، معیاری صحت کی سہولیات اور زچگی کی چھٹیاں دی جائیں۔

-8 مزدوروں کو مفت قانونی معاونت دی جائے۔

شہناز اجمل

(صدر ویمن ڈومیسٹک ورکرز یونین پنجاب)

استحصالی نظام میں ورکرز کی کوئی آواز نہیں تھی اور نہ ہی کہیں ان کی شنوائی ہوتی تھی۔ اس پر مزدوروں نے سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا، آواز اٹھائی ، بھرپور احتجاج کیا اور تب تک نہیں ہٹے جب تک ان کے مطالبات نہیں مانے گئے۔ آج دنیا بھر کے مزدور، شکاگو کے ان مزدوروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے دنیا بھر کے مزدوروں کو حقوق ملے ہیں۔ مزدوروں میں ایک طبقہ ڈومیسٹک ورکرز کا ہے جو اپنے تمام حقوق سے محروم ہے۔

ہمیں اپنے بچوں کی دیکھ بھال کا مسئلہ ہے، ان کے لیے ڈے کیئر سینٹرز موجود نہیں ہیں۔ ہمیں کام کی اجرت بھی انتہائی کم ملتی ہے۔ 15ہزار ماہانہ میں کرائے کے گھر کے ساتھ کیسے گزارہ ہوسکتا ہے۔ ہم سے 24 گھنٹے کام لیا جاتا ہے، آرام کا وقت نہیں ملتا اور نہ ہی سہولیات۔ ہمیں حکومت کی مقرر کردہ کم از کم اجرت 32 ہزار روپے ماہانہ بھی نہیں ملتی۔ ہمارا مطالبہ ہے ہم سے ہماری ہمت سے زیادہ کام نہ لیا جائے۔

آپ کے گھر کام کرنے والی خاتون کا اپنا گھر بھی ہے، اس کے بھی بچے ہیں جن کی دیکھ بھال کرنی ہوتی ہے۔ ڈومیسٹک ورکرز کے پاس سوشل سکیورٹی کارڈ نہیں ہے، انہیں جلد از جلد مہیا کیے جائیں۔ مہنگائی کے اس دور میں ہم بمشکل گزارہ کر رہے ہیں، ہمارے بچوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔ انہیں مفت تعلیم اور کتابیں بھی دستیاب نہیں۔ حکومت ماہ رمضان میں راشن دیتی ہے لیکن ہمارے حالات تو پورا سال ایک جیسے ہی رہتے ہیں لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ گھریلو ملازمین کو مفت یا پھر سستا راشن سال بھر فراہم کیا جائے۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت غریبوں کو رقم تو مل رہی ہے لیکن لائنوں میں لگا کر تذلیل کی جاتی ہے۔ اس کیلئے آن لائن بینکنگ کا طریقہ اپنایا جائے۔ غرباء اور مستحقین کی زندگی میںآسانیاں پیدا کی جائیں۔ وزیراعلیٰ مریم نواز سے ہمارا مطالبہ ہے کہ غریبوں کی زندگی بہتر کرنے کا وعدہ پورا کریں، ویمن ڈومیسٹک ورکرز کے حوالے سے قانون سازی پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے اور ورکرز کا ڈیٹا اکٹھا کرکے ان کیلئے اقدمات کیے جائیں۔
Load Next Story