بھارت کا سیاسی منظر نامہ
بی جے پی نے 2014 میں برسر اقتدار آنے کے بعد سیاسی غنڈہ گردی کے تمام سابقہ ریکارڈز کو توڑ کر نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں
بھارت کی انتہا پسند ہندو جماعتوں آر ایس ایس، ہندو مہاسبھا اور جن سنگھ وغیرہ کی ماں بی جے پی نے 2014 میں برسر اقتدار آنے کے بعد سیاسی غنڈہ گردی کے تمام سابقہ ریکارڈز کو توڑ کر نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ اس نے بھارت کے سیکولر ازم اور آئین کی بالادستی کو تہس نہس کر دیا ہے اور بھارتی جمہوریت کا منہ کالا کر کے دنیا بھر میں اس کی بدنامی اور رسوائی کا سامان کیا ہے۔
بی جے پی کے سرغنہ اور بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی کے 10 سالہ دور اقتدار میں جو مظالم ڈھائے گئے ہیں انھوں نے جرمنی کے ڈکٹیٹر ہٹلر کے دور کی یاد تازہ کر دی ہے۔ بھارت کی خفیہ ایجنسیوں نے حزب اختلاف کے لیڈروں کا ناطقہ بند اور جینا حرام کر دیا ہے۔ آزاد میڈیا جو جمہوریت کا اصل جوہر ہے اس کی زبان پر پابندیوں کے تالے لگے ہوئے ہیں اور سیاسی بھونپوؤں کو بکواس کرنے کی کھلی آزادی حاصل ہے۔
سوشل میڈیا کی ہمت و جرات کی داد دینا پڑے گی، جس نے انتہائی نامساعد حالات میں بھارتی جنتا کو حالات اور واقعات سے باخبر رکھنے کا فریضہ انجام دیا ہے۔ بی جے پی طاقت کے نشے میں یہ سوچ کر اطمینان سے بیٹھی ہوئی تھی کہ اس کا کوئی مد مقابل نہیں اور میدان صاف ہے لیکن کانگریس اور اس کے اتحادیوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت حکمت عملی تیار کر کے اس کے ہوش اڑا دیے جس سے بی جے پی کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی ہے اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔
راہول گاندھی جو آندھی طوفان بن کر بھارت جوڑو کی مہم کے ساتھ ملک گیر دورے پر ہیں، بھارت کی جنتا سے براہ راست ملاقات اور خطاب کر کے اپنی کامیابی اور مقبولیت کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ رہی سہی کسر بھارت کے عظیم وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی کی پوتی پریانکا گاندھی نے پوری کر دی ہے، جو بھارتیہ جنتا پارٹی پر آسمانی بجلی بن کرگری ہیں۔ اُن کے مغربی یو پی کے حالیہ دورے نے سیاست کا پانسہ کانگریس کے حق میں پلٹ دیا ہے۔
یاد رہے کہ چناؤ کے نقطہ نظر سے یہ علاقہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اسی علاقے کی حمایت سے سابقہ انتخابات میں بی جے پی کو برتری حاصل کرنے میں سب سے زیادہ مدد حاصل ہوئی تھی۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ بی جے پی کے دن گنے جاچکے ہیں اور ان کی گنتی شروع ہوگئی ہے۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ مغربی یو پی کے اضلاع سہارنپور اور مظفر نگر بی جے پی کے گڑھ ہیں، جہاں ہندو مسلم فسادات کرا کے بی جے پی نے سیاسی فائدہ اٹھایا تھا۔
تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ اب ان ضلعوں میں کانگریس کی کامیابی کی بہت بڑی توقعات ہیں۔ دوسری جانب کرناٹک اور تلنگانہ میں کانگریس کی زبردست کامیابی نے بی جے پی کے چھکے چھڑا دیے ہیں۔دھمکاؤ، ڈراؤ اور دباؤ پر مبنی بی جے پی کی پالیسی بری طرح فیل ہوچکی ہے، جس کی تازہ ترین مثال عام آدمی کے مرکزی رہنما اروند کیجریوال پابند سلاسل کرنے کی صورت میں موجود ہے۔ کیجریوال کا حوصلہ داد طلب ہے۔ ان کی ہمت پست ہونے کے بجائے اور زیادہ قوی ہوگئی ہے۔
بھارت کی تمام ہوش مند آوازیں اس حقیقت کی تائید میں بلند ہو رہی ہیں کہ مودی ایک فاشسٹ، سفاک آمر اور خود سر لیڈر ہے، جسے شرافت اور انسانیت چھو کر بھی نہیں گزری۔ وہ ایک بے رحم جلاد اور طاقت کے نشے میں دھت اور نفسیاتی مریض ہے جو اپنے آگے کسی اورکو نہیں گردانتا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت منی پورکا انسانیت سوز واقعہ ہے جہاں ایک بے بس خاتون پر تشدد کیا گیا اور اس کی عصمت کھلے عام لوٹی گئی۔
امیت شا سے اس کا گہرا یارانہ ہے۔ دونوں کی گاڑھی چھنتی ہے اورکیوں نہ ہوکہ دونوں ایک دوسرے کے ہم صحبت ہیں۔ چورکا بھائی گرہ کٹ والی مثال امیت شا پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ امیت شا نے مودی کا جھوٹا کھایا ہوا ہے۔ فارسی کی مثل مشہور ہے:
کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر، باز با باز
ٹک کر نہ بیٹھنا مودی کی خصلت ہے۔ اسے ہر لمحہ کوئی نہ کوئی نئی بات سوجھتی رہتی ہے۔ اس کا دماغ شیطان کا کارخانہ ہے۔ دور کی کوڑی لانا اس کی خصلت ہے۔
چھوٹے سے چھوٹے کسی بھی منصوبے کو بروئے کار لانے کے لیے کچھ نہ کچھ رقم درکار ہوتی ہے اور بی جے پی جیسی جماعت کو چلانے کے لیے بھاری فنڈزکی ضرورت یقیناً ایک بہت بڑا مسئلہ تھا جسے حل کرنے کے لیے موٹی اسامیوں کو تلاش کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا، چناچہ مودی نے ایڈوانی اور امبانی تک پہنچ حاصل کی۔
دوسری جانب دونوں بڑے سرمایہ کاروں کو بھی بی جے پی جیسی سیاسی پارٹی کی سرپرستی میں اپنا فائدہ نظر آیا چناچہ دونوں کا میل ملاپ ہوگیا۔ ہوا وہی جو ہونا تھا بی جے پی نے چناؤ میں بھاری اکثریت حاصل کر کے دونوں بیوپاریوں کے لیے کھلا میدان مہیا کردیا اور یوں دونوں کے وارے نیارے ہوگئے۔
بھارت میں اس وقت انتخابات کی گہما گہمی ہے۔ ایک طرف مودی سرکار ہے جو فتح حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے اور دوسری جانب کانگریس کے جھنڈے تلے مختلف سیاسی جماعتوں پر مشتمل حزب اختلاف ہے جو مودی سرکار کا تختہ الٹنے کے لیے بھرپور انتخابی مہم چلا رہا ہے۔
بی جے پی کے سرغنہ اور بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی کے 10 سالہ دور اقتدار میں جو مظالم ڈھائے گئے ہیں انھوں نے جرمنی کے ڈکٹیٹر ہٹلر کے دور کی یاد تازہ کر دی ہے۔ بھارت کی خفیہ ایجنسیوں نے حزب اختلاف کے لیڈروں کا ناطقہ بند اور جینا حرام کر دیا ہے۔ آزاد میڈیا جو جمہوریت کا اصل جوہر ہے اس کی زبان پر پابندیوں کے تالے لگے ہوئے ہیں اور سیاسی بھونپوؤں کو بکواس کرنے کی کھلی آزادی حاصل ہے۔
سوشل میڈیا کی ہمت و جرات کی داد دینا پڑے گی، جس نے انتہائی نامساعد حالات میں بھارتی جنتا کو حالات اور واقعات سے باخبر رکھنے کا فریضہ انجام دیا ہے۔ بی جے پی طاقت کے نشے میں یہ سوچ کر اطمینان سے بیٹھی ہوئی تھی کہ اس کا کوئی مد مقابل نہیں اور میدان صاف ہے لیکن کانگریس اور اس کے اتحادیوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت حکمت عملی تیار کر کے اس کے ہوش اڑا دیے جس سے بی جے پی کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی ہے اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔
راہول گاندھی جو آندھی طوفان بن کر بھارت جوڑو کی مہم کے ساتھ ملک گیر دورے پر ہیں، بھارت کی جنتا سے براہ راست ملاقات اور خطاب کر کے اپنی کامیابی اور مقبولیت کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ رہی سہی کسر بھارت کے عظیم وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی کی پوتی پریانکا گاندھی نے پوری کر دی ہے، جو بھارتیہ جنتا پارٹی پر آسمانی بجلی بن کرگری ہیں۔ اُن کے مغربی یو پی کے حالیہ دورے نے سیاست کا پانسہ کانگریس کے حق میں پلٹ دیا ہے۔
یاد رہے کہ چناؤ کے نقطہ نظر سے یہ علاقہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اسی علاقے کی حمایت سے سابقہ انتخابات میں بی جے پی کو برتری حاصل کرنے میں سب سے زیادہ مدد حاصل ہوئی تھی۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ بی جے پی کے دن گنے جاچکے ہیں اور ان کی گنتی شروع ہوگئی ہے۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ مغربی یو پی کے اضلاع سہارنپور اور مظفر نگر بی جے پی کے گڑھ ہیں، جہاں ہندو مسلم فسادات کرا کے بی جے پی نے سیاسی فائدہ اٹھایا تھا۔
تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ اب ان ضلعوں میں کانگریس کی کامیابی کی بہت بڑی توقعات ہیں۔ دوسری جانب کرناٹک اور تلنگانہ میں کانگریس کی زبردست کامیابی نے بی جے پی کے چھکے چھڑا دیے ہیں۔دھمکاؤ، ڈراؤ اور دباؤ پر مبنی بی جے پی کی پالیسی بری طرح فیل ہوچکی ہے، جس کی تازہ ترین مثال عام آدمی کے مرکزی رہنما اروند کیجریوال پابند سلاسل کرنے کی صورت میں موجود ہے۔ کیجریوال کا حوصلہ داد طلب ہے۔ ان کی ہمت پست ہونے کے بجائے اور زیادہ قوی ہوگئی ہے۔
بھارت کی تمام ہوش مند آوازیں اس حقیقت کی تائید میں بلند ہو رہی ہیں کہ مودی ایک فاشسٹ، سفاک آمر اور خود سر لیڈر ہے، جسے شرافت اور انسانیت چھو کر بھی نہیں گزری۔ وہ ایک بے رحم جلاد اور طاقت کے نشے میں دھت اور نفسیاتی مریض ہے جو اپنے آگے کسی اورکو نہیں گردانتا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت منی پورکا انسانیت سوز واقعہ ہے جہاں ایک بے بس خاتون پر تشدد کیا گیا اور اس کی عصمت کھلے عام لوٹی گئی۔
امیت شا سے اس کا گہرا یارانہ ہے۔ دونوں کی گاڑھی چھنتی ہے اورکیوں نہ ہوکہ دونوں ایک دوسرے کے ہم صحبت ہیں۔ چورکا بھائی گرہ کٹ والی مثال امیت شا پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ امیت شا نے مودی کا جھوٹا کھایا ہوا ہے۔ فارسی کی مثل مشہور ہے:
کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر، باز با باز
ٹک کر نہ بیٹھنا مودی کی خصلت ہے۔ اسے ہر لمحہ کوئی نہ کوئی نئی بات سوجھتی رہتی ہے۔ اس کا دماغ شیطان کا کارخانہ ہے۔ دور کی کوڑی لانا اس کی خصلت ہے۔
چھوٹے سے چھوٹے کسی بھی منصوبے کو بروئے کار لانے کے لیے کچھ نہ کچھ رقم درکار ہوتی ہے اور بی جے پی جیسی جماعت کو چلانے کے لیے بھاری فنڈزکی ضرورت یقیناً ایک بہت بڑا مسئلہ تھا جسے حل کرنے کے لیے موٹی اسامیوں کو تلاش کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا، چناچہ مودی نے ایڈوانی اور امبانی تک پہنچ حاصل کی۔
دوسری جانب دونوں بڑے سرمایہ کاروں کو بھی بی جے پی جیسی سیاسی پارٹی کی سرپرستی میں اپنا فائدہ نظر آیا چناچہ دونوں کا میل ملاپ ہوگیا۔ ہوا وہی جو ہونا تھا بی جے پی نے چناؤ میں بھاری اکثریت حاصل کر کے دونوں بیوپاریوں کے لیے کھلا میدان مہیا کردیا اور یوں دونوں کے وارے نیارے ہوگئے۔
بھارت میں اس وقت انتخابات کی گہما گہمی ہے۔ ایک طرف مودی سرکار ہے جو فتح حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے اور دوسری جانب کانگریس کے جھنڈے تلے مختلف سیاسی جماعتوں پر مشتمل حزب اختلاف ہے جو مودی سرکار کا تختہ الٹنے کے لیے بھرپور انتخابی مہم چلا رہا ہے۔