پولیس جب قہر بن کر ٹوٹی

منہاج القرآن سیکریٹریٹ ماڈل ٹاؤن لاہور پر قانون کے رکھوالوں کی یلغار کی داستان

منہاج القرآن سیکریٹریٹ ماڈل ٹاؤن لاہور پر قانون کے رکھوالوں کی یلغار کی داستان۔ فوٹو : محمود قریشی/ ایکسپریس

لاہور:
ماڈل ٹاؤن لاہور میں تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کے مسئلے پر جو افسوسناک واقعہ پیش آیا، اس سے ہرفرد کا دل شدید زخمی ہوا ہے اور ہرکسی نے اس کی شدید مذمت کی ہے۔

بظاہر محض رکاوٹیں ہٹانے کے ایک چھوٹے سے مسئلے پر دوخواتین سمیت آٹھ افراد کی ہلاکت ریاستی اداروں کے جبر کی بدترین مثال ہے۔ واقعہ پیر منگل کی درمیان شب اس وقت پیش آیا جب پولیس کی جانب سے لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کی کوشش کی گئی۔

عوامی تحریک کے کارکن اس میں مزاحم ہوئے، جس کے بعد پولیس اور مظاہرین کے درمیان رات بھر مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا۔ مذاکرات کی ناکامی کا نتیجہ پولیس اور عوامی تحریک کے کارکنوں کے درمیان تصادم کی صورت میں سامنے آیا، پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے ہوائی فائرنگ، لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔ مشتعل افراد کی جانب سے بھی پولیس پر فائرنگ کی گئی اور پٹرول بم بھی پھینکے گئے۔

پولیس حکام کا دعویٰ ہے کہ علاقہ مکینوں کی درخواست پر ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کی کوشش کی گئی کیونکہ ان رکاوٹوں کی وجہ سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا تھا، عدالتی احکامات کے مطابق شہر میں کسی بھی جگہ رکاوٹیں کھڑی نہیں کی جا سکتیں۔



پولیس کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائشگاہ کے باہر قائم بیرئیر اور کنکریٹ بلاکس کی وجہ سے یہ علاقہ ''نو گو ایریا'' بنا ہوا تھا ۔ پولیس اور ایلیٹ فورس کے اہلکاروں نے بھاری مشینری کی مدد سے ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے باہر سے ان بیرئیرز اور کنکریٹ بلاکس کو ہٹا کر علاقے کو کلیئر کیا۔

سی سی پی او لاہور چوہدری شفیق گجر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ عوامی تحریک کے کارکنوں نے پولیس پر پہلے فائرنگ کی جبکہ 56 گرفتار کارکنوں سے جدید خودکار ہتھیار بھی برآمد ہوئے ہیں، پولیس جب ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے پہنچی تو پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کی جانب سے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں ایک ڈی ایس پی، 5 انسپکٹر اور 22 اہکار سمیت متعدد افراد زخمی ہو ئے۔

پولیس کی جانب سے اپنے دفاع میں کارروائی کی گئی اور مشتعل افراد کو منتشر کرنے کے لئے ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔ وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے ہمیشہ کی طرح اس واقعہ کا بھی نوٹس لیتے ہوئے جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا ہے جبکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ میاں صاحب نے ایک ہنگامی اجلاس میں پولیس کی سخت سرزنش بھی کی ہے ۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی میاں شہباز شریف سے فون پر رابطہ کر کے تفصیلات معلوم کیں۔

ڈاکٹر طاہرالقادری کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب ڈھونگ رچا رہے ہیں کہ وہ اس پورے واقعے سے لاعلم ہیں، ان کے حکم کے بغیر اتنی بڑی قیامت کیسے بپا ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا واقعے میں شہید ہونے والے کارکنوں کے خون کی ایف آئی آر نواز شریف، شہباز شریف، چوہدری نثار، خواجہ سعد رفیق، عابد شیر علی، رانا ثنااللہ، پرویز رشید، آئی جی پنجاب اور ڈی آئی جی سمیت ماڈل ٹاؤن کے موجودہ ایس پی کے خلاف درج کرائی جائے گی۔

یہ مقدمہ تاریخ کا سب سے بڑا مقدمہ ہوگا اور تاریخ دیکھے گی کارکنوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت پنجاب جھوٹ بول رہی ہے، منہاج القرآن سیکریٹریٹ کے باہر کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور جو بیریئرز لگے ہوئے ہیں وہ گھر کی حدود میں ہیں جس سے آنے جانے والے لوگوں کو کوئی شکایت نہیں اور نہ ہی گزشتہ 4 سالوں کے دوران اس پر کسی نے اعتراض کیا۔ طاہرالقادری نے کہا کہ رکاوٹیں عدالت کے حکم پر پولیس کی موجودگی میں لگائی گئی تھیں لیکن آج ان کا مقصد رکاوٹیں ہٹانا نہیں بلکہ حکومت کا مقصد میری پاکستان آمد سے قبل کارکنوں کو ہراساں کرنا تھا تاکہ وہ تحریک میں شریک نہ ہوں ۔ عوامی تحریک کے قائد کا کہنا تھا کہ احتجاج کے دوران مظاہرین پر پولیس کی جانب سے سیدھی فائرنگ کی گئی۔

پاکستان عوامی تحریک کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لئے باقاعدہ عدالتی اجازت نامہ حاصل کر رکھا ہے۔ اگر عوامی تحریک کا موقف درست ہے تو پھر پولیس کی اس کارروائی کو ریاستی جبر کی ایک بدترین مثال قراردیا جائے گا۔



اس واقعہ کے بعد عوامی تحریک کے کارکنوں کی جانب سے اسلام آباد اور راولپنڈی سمیت مختلف شہروں میں حکومت مخالف دھرنے دیئے گئے اور شاہراہیں بلاک کر دیں جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی اور سڑکوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ راولپنڈی میں عوامی تحریک کے کارکنوں نے فیض آباد انٹر چینج پر دھرنا دیا جب کہ گوجرانوالہ میں عوامی تحریک کی خواتین نے انسانی ہاتھوں کی رنجیر بھی بنائی۔ اس کے علاوہ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں نے سیالکوٹ، حافظ آباد اور ملتان میں بھی دھرنے دیئے۔ حکومتی حلقوں نے بھی بڑھتے ہوئے شدید ردعمل کو محسوس کیا۔


یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے اسمبلی اجلاس میں شریک وزیرقانون راناثناء اللہ اور اعلیٰ پولیس حکام کو وزیراعلیٰ ہاؤس میں طلب کیا ، اس کے بعد وزیراعلیٰ نے بذات خود پریس کانفرنس کی جس میں ایک جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم مسلم لیگ ن کے ناقدین نے اس جوڈیشل کمیشن کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب، وزیر قانون اور وزیرداخلہ سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ میاں شہبازشریف نے کہا کہ وہ استعفیٰ دے سکتے ہیں، اگر جوڈیشل کمیشن انھیں ذمہ دار قراردے۔

وزیراعلیٰ پنجاب استعفیٰ دیں یا نہ دیں تاہم انھیں پولیس کے شعبے میں بڑے پیمانے پر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ پولیس کے جبر کے واقعات روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ میاں شہباز شریف کسی بھی طور پر دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ان کے صوبے کی پولیس مہذب ملکوں کی پولیس جیسا رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ میاں صاحب پولیس کے شعبے کو بہتر بنانے کی ضرورت محسوس کریں، اس پر خصوصی طور پر توجہ دیں۔ پولیس کی اصلاح نہ ہوئی تو حکومت وقت کو ایسی شرمندگی کا روز ہی سامنا کرنا پڑے گا۔

ماڈل ٹاؤن آپریشن نے بھی مسلم لیگ ن اور پنجاب حکومت کو واقعتاً شدید دباؤ کا شکارکیا، بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں جن کا جواب نہیں دیا جا رہا۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ اگر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے اردگرد کا علاقہ نوگوایریا بنا ہوا تھا، تو یہ گزشتہ کئی برسوں سے تھا، آخر 23 جون (ڈاکٹرطاہرالقادری کی کینیڈا واپسی کا دن) سے چند روز پہلے ہی یہ نوگوایریا کیوں نظرآیا؟ اگرلوگ یہ سوال کر رہے ہیں تو وہ حق بجانب ہیں۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ محض رکاوٹیں ہٹانے کے لئے اس قدر زیادہ تشدد کی ضرورت ہی کیا تھی، اس واقعے کی ایسی تصاویر سامنے آئی ہیں کہ جن میں خواتین کے چہروں پر گولیاں برسائی گئی ہیں۔ ٹی وی چینلز نے بھی روح فرسا مناظر دکھائے ہیں جن میں سفید ڈاڑھیوں والے بزرگوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور انھیں گھسیٹا جارہا تھا۔ یہ واقعات دیکھ کر پندرہ برس قبل جماعت اسلامی کے احتجاج پر بدترین پولیس تشدد کی یادتازہ ہوگئی۔ تب بھی کسی بزرگ کی بزرگی کا خیال نہیں رکھا تھا۔ ان مناظر میں لاہور پولیس کم ازکم کسی مہذب ملک کی پولیس نظر نہیں آرہی تھی۔

لاہور پولیس کے ماڈل ٹاؤن آپریشن نے مسلم لیگ ن کی حکومت کے لئے اچانک مشکلات زیادہ کردی ہیں۔ ابھی وہ سوچ رہی تھی کہ 23 جون کو ڈاکٹرطاہرالقادری کی اسلام آباد آمد سے کیسے نمٹا جائے کہ یہ آپریشن ہوگیا۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں بھی ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے حامیوں کی ایک بڑی تعداد کو اسلام آباد میں جمع کر لیا تھا۔ اس وقت کی حکومت کو یہ دھرنا ختم کرنے میں خاصی مشکل پیش آئی تھی۔ تب ڈاکٹر طاہرالقادری کے تیور بتا رہے تھے کہ وہ شدید سردی اور بارش کے باوجود حکومت وقت کو ختم کرکے واپس لوٹیں گے لیکن پیپلز پارٹی کی مذاکراتی ٹیم سے مذاکرات کے بعد ڈاکٹر طاہرالقادری نے لچک کا مظاہرہ کیا اور کچھ مطالبات کے ساتھ دھرناختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ بدقسمتی سے ان کے مطالبات بعد ازاں پورے نہ کئے گئے۔



ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان آمد کے بعد اسلام آباد ایک بارپھر عوامی تحریک کے کارکنوں سے بھرنے کی کوشش کریں گے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ طاہرالقادری کسی خاص قوت کے اشارے اور پروگرام کے مطابق پاکستان آرہے ہیں۔ ان دنوں وزیراعظم نوازشریف اور فوج کے درمیان اختلافات کی کہانیاں بھی سامنے آرہی ہیں، مسلم لیگ (ن) کے داخلی خلفشار کی خبریں بھی ہیں، اگر یہ ساری کہانیاں درست ہیں تو ماڈل آپریشن کا وقوع پذیر ہونا شریف حکومت کے لئے خطرے سے خالی نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں حکومت کو تمام سیاسی جماعتوں کی تنقید کا نشانہ بننا پڑا ہے اور شدید مخالف جماعتیں آپس میں ملنے کی کوشش کریں گی۔ اس واقعے کے تناظر میں بعض حلقے اس گرینڈ الائنس کو بنتا ہوا دیکھ بھی رہے ہیں۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن پر سیاسی اکابرین کیا کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟
لاہور میں پولیس گردی کے واقعہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر و مرکزی رہنما پیپلزپارٹی خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ لاہور میں کارکنوں کو مار کر حکمران جمہوریت کی کون سی خدمت کر رہے ہیں،کیا حکمران جمہوریت کی بساط لپیٹنا چاہتے ہیں؟۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے لاہور واقعے پر وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور صوبائی وزیر قانون رانا ثنااللہ سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بیرئیر پورے ملک اور رائیونڈ میں بھی لگے ہوئے ہیں لیکن نشانہ صرف تحریک منہاج القرآن کو بنایا گیا۔

تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں پر تشدد سے دکھ پہنچا ہے، بے دردی سے لوگوں کو مارا گیا، جس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ طاہرالقادری کو خوفزدہ کرنا شریف برادران کا منصوبہ تھا، حکمرانوں نے پنجاب پولیس سے ہمیشہ غلط اور غیر قانونی کام لیا۔ پنجاب پولیس کو ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کرنا شریف برادران کا معمول بن چکا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صدر و سابق وزیراعظم سینیٹر چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ سانحہ لاہور کے بعد اگر طاہرالقادری چاہتے تو ملک کے اندر آگ لگا سکتے تھے، لیکن انہوں نے بڑے حوصلے اور تحمل کے ساتھ بڑے پن کا ثبوت دیا اور اس خونی کارروائی کیخلاف احتجاج کرنے والوں کو پرامن رہنے کی تلقین کی ہے۔

ہماری جماعت اس مشکل گھڑی میں علامہ طاہر القادری کے ساتھ ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے رہنما و سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے لاہور میں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کی ہلاکت کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکمرانوں نے ظلم کی انتہا کردی ہے اور پنجاب کے نریندرمودی شہبازشریف بتائیں وہ نہتے شہریوں سے کیا چاہتے ہیں۔ نہتے شہریوں پر گولیاں برسائی گئیں جبکہ پولیس نے خواتین کو بھی زدوکوب کیا۔ ہماری تحریک میں کارکنوں کا خون شامل ہوگیا ہے، اب ان شہیدوں کا خون رنگ لائے گا۔ متحدہ قومی موومنٹ نے لاہور میں پولیس کے ہاتھوں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کی ہلاکت کے خلاف آج ملک بھر میں یوم سوگ منانے کا اعلان کردیا ہے۔

ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے لاہور میں پولیس کی جانب سے منہاج القرآن سیکریٹریٹ اور ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کا گھیراؤ کرنے اور کارکنوں پر تشدد کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ اور منہاج القرآن سیکریٹریٹ کے گرد لگے حفاظتی بیریئر ہٹانے اور کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ رہنما ایم کیو ایم ڈاکٹر فاروق ستار نے اس ضمن میں کہا کہ پنجاب پولیس کے اقدامات پر پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں نے پرامن دھرنے دیئے لیکن پنجاب حکومت نے جارحیت کامظاہرہ کیا، پْرامن مظاہرین پر گولیاں برسائی گئیں۔ پنجاب پولیس کے اس اقدام کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کا قتل قابل مذمت ہے۔ یہ عمل جمہوریت اور مذہب کے خلاف ہے، پولیس نے معصو م لوگوں کو تشددکا نشانہ بنا کر شہید کیا۔ وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے پرتشدد واقعہ کے حقائق سامنے لائے جائیں گے لیکن طاہر القادری کو پنجاب میں نوگوایریاز نہیں بنانے دیں گے۔ یہ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے، جس کی مذمت کرتے ہوئے قوم کو یقین دلاتے ہیں کہ ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی ہو گی۔ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ لاہورمیں بے گناہ افراد کا قتل قابل مذمت ہے،کل لاہور میں ساری انتظامیہ کی تبدیلی کا مقصد بھی یہی تھا۔

جمہوریت کے بھیڑیئے بے نقاب ہو چکے، جس کے بعد حکومت کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ لاہور میں 8 جانوں کے ضیاع پر یوم سوگ کا اعلان کرکے الطاف حسین نے احسان فراموشی کی۔ الطاف حسین کو لاہور میں 8 جانوں کے ضیاع پر سوگ یاد آگیا لیکن اگر ہم ایم کیو ایم کے ہاتھوں کراچی میں مرنے والوں کا سوگ منائیں تو 365 دن بھی کم پڑجائیں۔ مسلم لیگ (ن) کو عوامی تحریک کے کارکنان کے جاں بحق اور زخمی ہونے پر دلی دکھ اور غم ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی لاہور میں پولیس گردی کے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے حکمرانوں سے واقعہ کی مکمل اور شفاف انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔
Load Next Story