بیرونی سرمایہ کاری معیشت کے لیے اہم

وزیر اعظم شہباز شریف نے اقتدار سنبھالتے ہی معیشت کی ڈگمگاتی کشتی کو مضبوط معاشی پالیسیوں سے سنبھالا دیا ہے

وزیر اعظم شہباز شریف نے اقتدار سنبھالتے ہی معیشت کی ڈگمگاتی کشتی کو مضبوط معاشی پالیسیوں سے سنبھالا دیا ہے۔ فوٹو انٹرنیٹ

وزیراعظم شہباز شریف کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات ہوئی ہے، ریاض میں ہونے والی ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور اور پاکستان کے لیے سرمایہ کاری پیکیج پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

قبل ازیں عالمی اقتصادی فورم کے خصوصی اجلاس کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان معیشت کی بہتری کے لیے بنیادی اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، دوسری جانب وزیر اعظم نے اپنے ایک بیان میں آئی ایم ایف کی قسط جاری ہونے پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے کہا کہ 1.1ارب ڈالرکی آخری قسط ملنے سے معاشی استحکام آئے گا، پاکستان کے معاشی تحفظ کے لیے تلخ اور مشکل فیصلے کیے، ثمرات معاشی استحکام کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے اقتدار سنبھالتے ہی معیشت کی ڈگمگاتی کشتی کو مضبوط معاشی پالیسیوں سے سنبھالا دیا ہے، پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے وسیع فوائد حاصل ہوں گے، کیونکہ حکومت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ہرقسم کی سہولیات فراہم کر رہیہے۔ جس کے خاطرخواہ مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کا دورہ سعودی عرب ملک میں سرمایہ کاری کے اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

پاکستان کے سعودی عرب سے تجارتی معاہدے بین الاقوامی اعتماد بڑھائیں گے۔ ملکی معیشت کو اس وقت قرض کے بجائے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، جس کے لیے عالمی اقتصادی فورم کی سائیڈ لائن ملاقاتوں میں وزیراعظم بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ پاکستان سعودی سرمایہ کاروں کے لیے بہترین مارکیٹ ہے، دو طرفہ تجارتی حجم بڑھانے کے لیے نجی شعبہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔

پاکستان میں زراعت، آئی ٹی، معدنیات اور سیاحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کے مواقعے ہیں، جس کو مدنظر رکھتے ہوئے عرب ممالک کی حکومتوں سے جی ٹو جی بنیادوں پر بھی سرمایہ کاری کے معاہدے کیے جاسکتے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ میں بہتری سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے، عرب ممالک کے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے کوشاں ہیں، سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان سرمایہ کاری اور تجارتی تبادلے سب سے اہم ہے۔ ملکی معیشت کی مضبوطی کے لیے مزید سرمایہ کار دوست پالیسیوں کی ضرورت ہے۔

دور حاضر میں تصورات اور نظریات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ جنگ اب میدان میں نہیں، ابلاغی اور معاشی محاذ پر لڑی جاتی ہے۔ مضبوط معیشت کسی بھی ملک کو سپر پاورکا درجہ دے سکتی ہے۔

1990میں جنوبی ایشیا کے ممالک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری شروع ہوئی اور نئی منڈیوں کی تلاش میں سرگرداں مغربی کمپنیوں نے بھارت چین سمیت خطے کے تمام ممالک میں اپنی فیکٹریاں اور آؤٹ لیٹ بنانے شروع کردیے، مگر بدقسمتی سے پاکستانی معیشت سیاسی اتار چڑھاؤ اور خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے غیر یقینی کا شکار رہی ہے۔

اس وقت سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات نئے دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا نیا باب ہے، حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان اعتماد کا رشتہ گہرا ہوا ہے، نئے قرضے کے حصول میں اب کوئی رکاوٹ دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے دیرینہ دوستوں کی جانب سے اب پاکستان میں مختلف شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کے اشارے مل رہے ہیں ،سعودی عرب کے سرمایہ کاروں کی جانب سے پاکستان میں اربوں ڈالرزکی سرمایہ کاری کے حوالے سے معاملات میں پیش رفت سامنے آرہی ہے، جس سے نہ صرف پاکستان میں ترقی کے نئے درکھلیں گے۔


بے روزگاری کے خاتمے میں مدد ملے گی، بلکہ عوام کی خوشحالی یقینی بنانے میں مدد ملے گی، ادھر قطر جیسے دوست ملک کے ساتھ بھی مختلف سیکٹرز میں تعاون کے حوالے سے منصوبے بنائے جا رہے ہیں، جن میں خاص طور پر پاکستانی ہنر مندوں کی قطر میں خدمات کے لیے پاکستان سے ہزاروں کی تعداد میں لیبر اور تجربہ کار افرادی قوت سے استفادہ کرنے کی منصوبہ بندی بھی شامل ہے جو قطر میں خدمات انجام دے کر نہ صرف بھاری مقدار میں زرمبادلہ پاکستان بھیجنے میں اہم کردار ادا کریں گے ۔

عالمی بینک نے بھی پاکستان کے معاشی اصلاحات کی حمایت کرتے ہوئے دس سال کے لیے رولنگ کنٹری فریم ورک پلان پر اتفاق کیا ہے جو پاکستان کی اقتصادی پالیسیوں کی قدر افزائی ہے، پاکستان اسٹاک ایکسچینج بھی مستحکم ہورہا ہے۔ جو پاکستانی مارکیٹ پر سرمایہ کاروں کے اعتماد کی واضح نشانی ہے، تاہم پاکستان کی معیشت میں بہتری کے ان آثار پر کچھ سیاسی حلقے چیں بہ جبیں ہیں اور یکطرفہ طور پر منفی بیان بازی سے حالات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جسے منفی سیاست کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے۔

ان عناصر کو معیشت پر سیاست کرنے کے کام کو اب ترک کردینا چاہیے، یہی ملکی عوام کے مفاد میں ہے، پاکستانی معیشت میں کسی حد تک توازن آیا ہے۔ غیرملکی سر مایہ کاری کے لیے حالات مزید سازگار بنانے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہیے، سیاسی استحکام جتنا پائیدار اور دورس ہوگا، معاشی وکاروباری سرگرمیاں اتنا ہی زیادہ ہوں گی ، روزگار میں اضافہ ہوگا اور معاشرتی ہم آہنگی بڑھے گی ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ سیاست اور معیشت کو افزائش کی طرف لے جایا جائے جو اس طرح ممکن ہے کہ ٹیکنالوجی اور قدر افرودہ (value added) صنعتوں میں سرمایہ کاری کریں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کو مقامی ضروریات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ان پر عمل پیرا ہوں۔

ان میں سب سے پیشتر ہمیں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی پالیسیوں کوکافی سوچ سمجھ کر بتدریج اور اس وقت لاگو کرنا ہے جب پاکستان کی معیشت کی مسابقتی حیثیت بین الاقوامی طور پر مستحکم ہو جائے۔ مزید ہمیں ورلڈ بینک اور انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ کے تصورات کو مقامی حا لات کے مطابق اور معیشت کی افزودگی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنانا ہے۔ ہمیں بین الاقوامی سوچ و فکر کو مقامی عزم کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے۔

جنوبی کوریا اور ملائیشیا جیسے ملکوں کی مثال یہ ثابت کرتی ہے کہ بدحالی کو خوش حالی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان نے بھی سیاسی استحکام حاصل کرکے معاشی ترقی کی ہے، اب وہاں مڈل کلاس بڑی ہورہی ہے اور اس کا ٹیکس بھی بڑھ رہا ہے۔ بڑی بڑی صنعتیں ٹیکسکا حجم بڑھانے میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔

بھارت کی آٹو انڈسٹری نے ترقی کی ہے، بھارت گاڑیاں اسمبل نہیں کررہا بلکہ گاڑیاں بنا رہا ہے، گاڑیوں کے تمام سپیرپارٹس کی تیاری اور قدر افزودگی (value addition) مقام سطح پر ہورہی ہے ۔ محض پرزوں کو جوڑ کر گاڑیا ں تیار کر کے نہیں۔ ملکی وسائل نے جس میں بہترین افرادی قوت اور فعال کاروباری طبقہ شامل ہے 4 فیصد جملہ قومی پیداوار میں افزودگی کو اس وقت ممکن بنایا جب کہ معاشرتی اور معاشی مشکلات حائل تھیں۔ قومی پیداوار میں افزودگی اس وقت ممکن ہوئی جب کہ مختلف وجوہ کے باعث غیر یقینی صورت حال تھی، لیکن حکومت کی حکمت عملی واضح تھی۔

پاکستان کو نجی شعبے کی زیر قیادت سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے، جو پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے نمٹنے کو یقینی بنائے گا اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کو زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے۔ یہی وہ معاشی ماڈل ہے جس کی وجہ سے ہندوستان نے اقتصادی ترقی کے لیے1990 کی دہائی میں اصلاحات کو فروغ دیا اور وسیع البنیاد سرمایہ کاری کے لیے سیاسی نظام میں استحکام پیدا کیا، سیاسی استحکام پاکستان میں بلکل غائب ہے۔

ایک بار جب لوگوں کے پاس ہنر اور تعلیم آجائے تو وہ چیزوں کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ ایک بار جب نظام میں کاروباری اور پیداواری فنانسنگ کی خواہش اورگنجائش ہو جائے تو، نجی شعبہ کان کنی، زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز کام کر سکتا ہے۔ وقت بہت کم ہے، کیونکہ اگلے 3 تا 5 برس معاشی ترقی کی رفتار کو تبدیل کرنے کے لیے بہت اہم ہیں۔ معیشت بتدریج نیچے کی جانب گامزن ہے۔ اگلے چند سالوں کی پیشین گوئی سنگین ہے۔ یہ امن و امان کی خرابی اور مزید پولرائزیشن کا باعث بن سکتا ہے،کیونکہ ریاستی رٹ منتخب عناصر کے خلاف مرکوز ہے، اگر چیزوں کو اصلاحی راستے پر نہ ڈالا گیا تو سنگین صورتحال کا سامنا ہوگا۔

بہتر رہنمائی، تجربہ، مہارت اور دور اندیشی کے ساتھ ہمیں یقین کرنا چاہیے کہ یہ قومی مسائل حل کر لیے جائیں گے۔ دیر یا بدیر۔ جس میں سرمایہ کاری ہمارے پڑھے لکھے طبقے کو روزگار مہیا کرنا اور حکومت کی آمدنی اور اخراجات کو ساتھ لے کر چلنا شامل ہے تاکہ ہم معیشت کو افزودگی کی طرف لے جائیں جو سماجی اور سیاسی ہم آہنگی کا باعث ہو۔
Load Next Story