وساکھی اور کسان کا نوحہ
جب گندم کی فصل تیار ہو جاتی ہے توکسان اللہ تعالیٰ سے اسے خیرو عافیت سے برداشت کرنے کے لیے سر بسجود ہو جاتا ہے
وساکھی کا لفظ وساکھ سے نکلا ہے جو دیسی مہینے چیت کے بعد آتا ہے۔ چیت کا مہینہ بہار کے آغاز کا مہینہ کہلاتا ہے جب پھول کھلتے ہیں اور ان کی خوشبو سے فضاء مہک جاتی ہے ۔ وساکھ کے مہینے کی مناسبت سے وساکھی کا تہورا منایا جاتا ہے جس کو گندم کی کٹائی کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔
کسان جتنی بھی فصلیں اگا لیں لیکن ان کی گندم سے محبت لازوال ہے کیونکہ کسان یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس کے گھر میں گندم موجود ہے تو پھر وہ بے فکری سے سال بھر گزار سکتا ہے ۔ وساکھی کے تہوار کی مناسبت سے لاہور میں پنجابی ادارہ ثقافت ، زبان و فن کے زیر اہتمام رنگلی وساکھی کے نام سے ایک تقریب منعقد کی گئی ۔ جس میں وادی سون سکیسر کے روائتی لوک سنگیت اور ڈھول و شہنائی کے فن کاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ۔
ادارے کی سربراہ محترمہ بینش فاطمہ ساہی کو داد دینی پڑے گی کہ انھوں نے لاہور میں ایک شاندار تقریب منعقد کر کے وساکھی کے قدیم تہوار کو زندہ رکھا ہے۔ پنجابی سنگت کے افضل ساحر نے سامعین کو اپنی ساحرانہ گفتگو میں جکڑے رکھا۔ ادھر ساکھی کی یہ رنگا رنگ تقریب منعقد کی جارہی تھی اسی روز لاہور کے مال روڈ پر کسان نوحہ کناں تھے۔
ان کے ہاتھوں میں خشک فصل کے سنہری خوشے تھے جنھیں وہ شہر کے باسیوں کو دکھانے کے لیے لائے تھے کہ حکومت اپنے مقررہ کردہ نرخوں پر خود بھی خریداری سے گریزاں ہے۔ خبروں کی مطابق ان کو پنجاب اسمبلی کے اس ایوان تک پہنچنے سے بھی روک دیا گیا جس ایوان میں ان کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمایندے موجود تھے اور ان میں سے بیشتر کاشتکار تھے لیکن چونکہ حکومتیں اپنی حکمرانی میں کسی قسم کا خلل برداشت کرنے کی عادی نہیں ہوتیں، اس عدم برداشت کا شکار یہ کسان بھی بن گئے جو آس اور امید پر لاہور پہنچے تھے کہ شاید حکومت تک ان کی آواز پہنچ جائے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ البتہ اپوزیشن کو اقتدار کی کسی ٹوٹی ہوئی دیوار کی دراڑ سے یہ آواز سنائی دے گئی، اپوزیشن اراکین نے پنجاب اسمبلی کی حدود میں احتجاج کیا اور بعد ازاں کسی عقلمند کے مشورے پر کسانوں کے دھرنے میں بھی پہنچ گئے ۔
شہری بابو کسانوں کی مشکلات کے متعلق کیا جانیں، وہ تو بازار جا کر اپنے پسند کی اشیاء خرید لاتے ہیں لیکن جو کسان یہ اجناس اُگا رہے ہیں ،ان کی محنت کا عشر عشیر بھی انھیں وصول نہیں ہوتا چونکہ ہمارے ملک کا کسان منڈیوں میں آڑھتی کے استحصال کا شکار رہتا ہے اور اب اس استحصال میں حکومت بھی فریق بن گئی ہے، شاید جدید زمانے کی تجارت کے یہی ضابطے ہیں۔ حکومت کو البتہ یہ تحقیق ضرور کرنی چاہیے کہ و ہ کون لوگ تھے جنھوں نے گندم کی فصل کی تیاری سے چند ماہ قبل ہی اتنی زیادہ مقدار اور مہنگے داموں گندم درآمد کر لی کہ اپنے ملک کا کسان احتجاج پر مجبور ہو گیا ہے۔
گندم کی فصل کسانوں کی سال بھر کی کمائی ہوتی ہے اور اس سے وہ اپنا سال بھر کا رزق اکٹھا کرتے ہیں۔ پنجابی کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ ''جنہاں دے گھر دانے انہاں دے کملے وی سیانے'' کہ جن کے گھر سال بھر کی گندم کا ذخیرہ موجود ہو تویہ سمجھا جاتا ہے کہ زندگی کے باقی معاملات تو چلتے رہیں گے لیکن چونکہ سال بھر کی روٹی کا بندوبست ہو چکا ہے۔
اس لیے اب اطمینان سے سال گزر جائے گا۔ گندم کی فصل کسانوں کے لیے ایک صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے چونکہ ایک تو اس کی بوائی سے لے کر کٹائی تک چھ مہینے لگ جاتے ہیں اور اس دوران ہر طرح کے موسمی حالات سے اس فصل کے ساتھ کسان کو بھی گزرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ اپنا سب کچھ مٹی میں ملا کر اﷲ کی رحمت کے انتظار میں بیٹھ جاتا ہے اور آج کی اس بے رحم دنیا میں اگر کوئی اﷲ کی ذات پر سب سے زیادہ توکل کرتا ہے تو وہ یہی کسان ہے جو اپنی جمع پونجی مٹی کے سپرد کر دیتا ہے اور آیندہ کے پروگرام فصل کی کٹائی کے بعد سے مشروط کر دیتا ہے ۔
امیدوں کا ایک سمندر ہوتا ہے جو اس کے اندر موجزن ہوتا ہے ، اس کا انتظار کرتا ہے کہ کب فصل کے دن پورے ہوں گے اور وہ اپنے دل میں سجائے گئے ارمانوں کی تکمیل کر سکے گاجو کہ اس فصل کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی سے پورے ہونے کی امید ہوتی ہے ۔
جب گندم کی فصل تیار ہو جاتی ہے توکسان اللہ تعالیٰ سے اسے خیرو عافیت سے برداشت کرنے کے لیے سر بسجود ہو جاتا ہے اگر اس دوران بارش ہو جائے تو اس کی سال بھر کی کمائی ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو جاتاہے اسی لیے کسان کہتے ہیں اس موقع پر ہمیں سونے کی بارش کی بھی ضرورت نہیںہے۔
خبروں کے مطابق محترمہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے گندم کی سنہری فصل کے خوشوں پر سنہری درانتی چلا کر گندم کی کٹائی کا آغاز کرچکی ہیں لیکن کسانوں کی پریشانی کم نہیں ہورہی ہے۔ انھیں فصل کی مقررہ سرکاری قیمت مل رہی ہے اور نہ ہی باردانہ مل رہا ہے ۔ لیکن کسانوں کی کہیں شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔
کسان جتنی بھی فصلیں اگا لیں لیکن ان کی گندم سے محبت لازوال ہے کیونکہ کسان یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس کے گھر میں گندم موجود ہے تو پھر وہ بے فکری سے سال بھر گزار سکتا ہے ۔ وساکھی کے تہوار کی مناسبت سے لاہور میں پنجابی ادارہ ثقافت ، زبان و فن کے زیر اہتمام رنگلی وساکھی کے نام سے ایک تقریب منعقد کی گئی ۔ جس میں وادی سون سکیسر کے روائتی لوک سنگیت اور ڈھول و شہنائی کے فن کاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ۔
ادارے کی سربراہ محترمہ بینش فاطمہ ساہی کو داد دینی پڑے گی کہ انھوں نے لاہور میں ایک شاندار تقریب منعقد کر کے وساکھی کے قدیم تہوار کو زندہ رکھا ہے۔ پنجابی سنگت کے افضل ساحر نے سامعین کو اپنی ساحرانہ گفتگو میں جکڑے رکھا۔ ادھر ساکھی کی یہ رنگا رنگ تقریب منعقد کی جارہی تھی اسی روز لاہور کے مال روڈ پر کسان نوحہ کناں تھے۔
ان کے ہاتھوں میں خشک فصل کے سنہری خوشے تھے جنھیں وہ شہر کے باسیوں کو دکھانے کے لیے لائے تھے کہ حکومت اپنے مقررہ کردہ نرخوں پر خود بھی خریداری سے گریزاں ہے۔ خبروں کی مطابق ان کو پنجاب اسمبلی کے اس ایوان تک پہنچنے سے بھی روک دیا گیا جس ایوان میں ان کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمایندے موجود تھے اور ان میں سے بیشتر کاشتکار تھے لیکن چونکہ حکومتیں اپنی حکمرانی میں کسی قسم کا خلل برداشت کرنے کی عادی نہیں ہوتیں، اس عدم برداشت کا شکار یہ کسان بھی بن گئے جو آس اور امید پر لاہور پہنچے تھے کہ شاید حکومت تک ان کی آواز پہنچ جائے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ البتہ اپوزیشن کو اقتدار کی کسی ٹوٹی ہوئی دیوار کی دراڑ سے یہ آواز سنائی دے گئی، اپوزیشن اراکین نے پنجاب اسمبلی کی حدود میں احتجاج کیا اور بعد ازاں کسی عقلمند کے مشورے پر کسانوں کے دھرنے میں بھی پہنچ گئے ۔
شہری بابو کسانوں کی مشکلات کے متعلق کیا جانیں، وہ تو بازار جا کر اپنے پسند کی اشیاء خرید لاتے ہیں لیکن جو کسان یہ اجناس اُگا رہے ہیں ،ان کی محنت کا عشر عشیر بھی انھیں وصول نہیں ہوتا چونکہ ہمارے ملک کا کسان منڈیوں میں آڑھتی کے استحصال کا شکار رہتا ہے اور اب اس استحصال میں حکومت بھی فریق بن گئی ہے، شاید جدید زمانے کی تجارت کے یہی ضابطے ہیں۔ حکومت کو البتہ یہ تحقیق ضرور کرنی چاہیے کہ و ہ کون لوگ تھے جنھوں نے گندم کی فصل کی تیاری سے چند ماہ قبل ہی اتنی زیادہ مقدار اور مہنگے داموں گندم درآمد کر لی کہ اپنے ملک کا کسان احتجاج پر مجبور ہو گیا ہے۔
گندم کی فصل کسانوں کی سال بھر کی کمائی ہوتی ہے اور اس سے وہ اپنا سال بھر کا رزق اکٹھا کرتے ہیں۔ پنجابی کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ ''جنہاں دے گھر دانے انہاں دے کملے وی سیانے'' کہ جن کے گھر سال بھر کی گندم کا ذخیرہ موجود ہو تویہ سمجھا جاتا ہے کہ زندگی کے باقی معاملات تو چلتے رہیں گے لیکن چونکہ سال بھر کی روٹی کا بندوبست ہو چکا ہے۔
اس لیے اب اطمینان سے سال گزر جائے گا۔ گندم کی فصل کسانوں کے لیے ایک صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے چونکہ ایک تو اس کی بوائی سے لے کر کٹائی تک چھ مہینے لگ جاتے ہیں اور اس دوران ہر طرح کے موسمی حالات سے اس فصل کے ساتھ کسان کو بھی گزرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ اپنا سب کچھ مٹی میں ملا کر اﷲ کی رحمت کے انتظار میں بیٹھ جاتا ہے اور آج کی اس بے رحم دنیا میں اگر کوئی اﷲ کی ذات پر سب سے زیادہ توکل کرتا ہے تو وہ یہی کسان ہے جو اپنی جمع پونجی مٹی کے سپرد کر دیتا ہے اور آیندہ کے پروگرام فصل کی کٹائی کے بعد سے مشروط کر دیتا ہے ۔
امیدوں کا ایک سمندر ہوتا ہے جو اس کے اندر موجزن ہوتا ہے ، اس کا انتظار کرتا ہے کہ کب فصل کے دن پورے ہوں گے اور وہ اپنے دل میں سجائے گئے ارمانوں کی تکمیل کر سکے گاجو کہ اس فصل کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی سے پورے ہونے کی امید ہوتی ہے ۔
جب گندم کی فصل تیار ہو جاتی ہے توکسان اللہ تعالیٰ سے اسے خیرو عافیت سے برداشت کرنے کے لیے سر بسجود ہو جاتا ہے اگر اس دوران بارش ہو جائے تو اس کی سال بھر کی کمائی ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو جاتاہے اسی لیے کسان کہتے ہیں اس موقع پر ہمیں سونے کی بارش کی بھی ضرورت نہیںہے۔
خبروں کے مطابق محترمہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے گندم کی سنہری فصل کے خوشوں پر سنہری درانتی چلا کر گندم کی کٹائی کا آغاز کرچکی ہیں لیکن کسانوں کی پریشانی کم نہیں ہورہی ہے۔ انھیں فصل کی مقررہ سرکاری قیمت مل رہی ہے اور نہ ہی باردانہ مل رہا ہے ۔ لیکن کسانوں کی کہیں شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔