چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

علی امجد ایڈووکیٹ نے مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی جنگ لڑنے کی ایک تاریخ رقم کی ہے

tauceeph@gmail.com

شکاگو کے مزدوروں نے 1886 میں اوقات کار کو بہتر بنانے کے لیے جانوں کی قربانیاں دیں اور 8 گھنٹے کام کا حق منوا لیا تھا مگر آج ملک بھر میں مزدور طبقہ ہی نہیں بلکہ متوسط طبقے کے پروفیشنلز سے بھی 10 سے 12 گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔

ہندوستان اور پاکستان میں مزدور طبقہ نے طویل جدوجہد کی۔ علی امجد ایڈووکیٹ نے مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی جنگ لڑنے کی ایک تاریخ رقم کی ہے۔ انھوں نے Labour legislation trade unions India and Pakistan کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی تھی۔ یہ کتاب نئی صدی کے ابتدائی برسوں میں شایع ہوئی اور آج مزدور یونین کے قوانین اور مزدور تحریکوں کے تناظر میں ایک اہم کتاب سمجھی جاتی ہے۔

علی امجد ایڈووکیٹ بھارتی ریاست بہار کے شہر پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ علی امجد 1968 میں پاکستان آگئے اور وکالت شروع کردی۔ اس کتاب میں لکھا گیا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی ملوں میں کا م کرنے والے مردوں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ انتہائی بے رحمانہ سلوک کیا جاتا تھا۔ ان مردوں سے 15 سے 16 گھنٹے کام لیا جاتا تھا، کام کے دوران وقفے کا تصور نہ تھا۔ ہفتہ وار چھٹی کا تصور نہیں تھا۔ خواتین کو بھی اسی طرح کام کرنا پڑتا تھا۔

1881میں حکومت نے پہلا فیکٹری ایکٹ نافذ کیا جس کے تحت 7 سے 12 سال کے بچوں سے 9گھنٹے تک کام لیا جاسکتا تھا۔ مزدوروں نے 1827 میں پہلی ہڑتال کی۔ ٹیکسی ڈرائیوروں نے بھی اپنے حالات کو بہتر بنانے کے لیے ہڑتال کی۔ 8 گھنٹے کام کے حق کے لیے حورا ریلوے اسٹیشن کے 1200 کارکنوں نے ہڑتال کی۔

علی امجد نے لکھا ہے کہ 20ویں صدی کے پہلے 14 برسوں میں استحصال کا شکار ہندوستان کے مزدوروں نے کئی دفعہ ہڑتال کا حق استعمال کیا۔ مصنف کا کہنا ہے کہ 1907 اور 1911 کے فیکٹری ایکٹ کے تحت مزدوروں کو کچھ حقوق حاصل ہوئے مگر کان کنوں کے اوقات کارکا تعین نہیں کیا گیا۔ 1911 میں انقلابِ روس کے بعد ہندوستان کی مزدور تحریک میں ایک نئی قوت پیدا ہوئی اور مزدور یونینوں کی ایک متحدہ تنظیم آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس قائم ہوئی۔

اس کانگریس کے قائدین میں قوم پرست رہنما تلک، لالہ رنجیت رائے اور سی ایف اینڈریوز وغیرہ شامل تھے، یوں حکومت نے مزدوروں کو کچھ حقوق دینے کے لیے کئی قوانین نافذ کیے جن میں فیکٹریز ایکٹ 1922، مائنز ایکٹ 1923 اور مرچنٹ شپنگ ایکٹ 1923 اور ورکرز کمبی نیشن ایکٹ 1923 شامل تھے۔

1947 تک ورکرز کمبی نیشن ایکٹ پر عملدرآمد ہوا تھا۔ اس قانون کا اطلاق کارخانوں، بندرگاہ، ریلوے، ٹرام وے، ٹیلی فون اینڈ ٹیلی گراف کے شعبوں میں 300 روپے ماہانہ تک تنخواہ پانے والے ملازمین پر ہوتا تھا۔ اس قانون پر عملدرآمد کے لیے کمپنسیشن کمشنر Compensation Commissionerکو سول جج کے اختیارات تفویض کیے گئے۔

ایک اندازے کے مطابق اس قانون کی بناء پر 9 ملین مزدوروں کو فائدہ ہوا۔ اس وقت تک انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن ILO کا قیام عمل میں آیا اور ہندوستان کی حکومت نے آئی ایل او کے کنونشن کی توثیق کی تھی جو آئی ایل او کے کنونشنز کے تحت اس قانون کا نفاذ ضروری تھا۔ یوں مزدور یونین کو تسلیم کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔


اگست 1947میں ہندوستان کے بٹوارے کے بعد انڈیپنڈنٹ ایکٹ 1947کے قانون کے تحت وہ تمام قوانین جو برطانوی ہند حکومت کے دور میں نافذ تھے وہ پاکستان میں بھی نافذ رہے۔ برسراقتدار حکومتوں نے کچھ قوانین میں نئی ضروریات کے تحت تبدیلیاں کیں اور کمیونسٹ پارٹی اور اس کی ذیلی مزدور تنظیموں پر پابندی لگادی۔

1958 میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد ہڑتال اور لاک آؤٹ پر پابندی لگادی گئی۔ 1963 میں کراچی میں سائٹ کے مزدوروں نے تاریخی ہڑتال کی۔ جنرل ایوب خان کی حکومت نے پولیس کے ذریعے مزدوروں کا قتلِ عام کیا۔ 1968 میں جنرل ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک میں مزدور تنظیموں نے اہم کردار ادا کیا۔ جنرل یحییٰ خان کے دورکا غاز ہوااورایک نیا قانون نافذ کیاگیا۔

اس قانون کے تحت ایک ادارے میں دو یونینوں کے قیام کو قانونی قرار دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے یکم مئی کو چھٹی دینے کا فیصلہ کیا۔ سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن EOBI جیسے اہم ادارے قائم ہوئے اور انڈسٹریل ریلیشن کمیشن کے تحت کئی مزدوروں کی ملازمت سے برطرفی کے لیے ایک قانونی طریقہ کار طے کیا گیا۔

پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں سائٹ میں مزدوروں کے حقوق کے لیے چلائی جانے والی تحریک کو کچل دیا گیا اور اس تحریک کے رہنماؤں عثمان بلوچ اور دیگر مزدوروں کو برسوں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ اکتوبر 1972میں لانڈھی کی مزدور تحریک کو بھی ریاستی طاقت کے ذریعے کچلا گیا۔

جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں مزدور یونین سے ہڑتال کا حق چھین لیا گیا اور ٹھیکیداری نظام مسلط کیا گیا، جو اب تک چل رہا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں کالونی ٹیکسٹائل مل ملتان میں پولیس نے اپنے حقوق کے لیے مطالبہ کرنے والے مزدوروں پر فائرنگ کردی جس سے متعدد ہلاکتیں بھی ہوئیں کیا۔

90ء کی دہائی میں سوویت یونین کے خاتمے اور مارکیٹ اکانومی کے نفاذ سے مزدور تحریک کمزور ہوگئی جس کا براہِ راست نقصان مزدوروں کے علاوہ متوسط طبقے کو بھی ہوا۔ اگرچہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہر سال کم از کم اجرت کا اعلان کرتی ہیں مگر اس اعلان پرکبھی عمل نہیں ہوا۔

پچیس پچیس سال ملازمت کرنے والوں کو بغیر گریجویٹی اور دیگر فنڈز دیے ملازمت سے رخصت کردیا جاتا ہے۔ مزدور تحریک کمزور ہورہی ہے جس کا نقصان صرف مزدوروں کو نہیں بلکہ متوسط طبقے اور سیکولر جمہوری اداروں کو بھی ہوا ہے ۔ یکم مئی کے مزدوروں کی شہادت سے ایک ہی سبق ملتا ہے جسے عظیم شاعر فیض احمد فیض نے کچھ یوں بیان کیا ہے۔

نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
Load Next Story