200 سے زائد پُرانی کتب پر زہریلی دھاتوں کے نقوش دریافت
سبز جِلد رکھنے والی 19 ویں صدی کی کتابوں میں تشویش ناک حد تک آرسینک پایا گیا ہے
سائنس دانوں کو دنیا بھر میں 200 سے زائد کتابوں کے جِلد سے زہریلی دھات آرسینک کے نقوش دریافت ہوئے ہیں۔
گرین جِلد رکھنے والی 19 ویں صدی کی کتابوں میں تشویش ناک حد آرسینک پایا گیا ہے، جس کے بعد چند لائبریریوں سے ان کتابوں کو ہٹانے کی ترغیب دی گئی ہے۔
امریکی شہر نیوآرک میں قائم یونیورسٹی آف ڈیلاویئر کے محققین نے ایکس رے کا استعمال کرتے ہوئے ایسی لال اور پیلی جِلدوں کی نشان دہی بھی کی جن پر پارہ اور سیسہ موجود تھا۔
خطرے کی نشان دہی کے بعد سائنس دان لوگوں کو تنبیہ کر رہے ہیں کہ لوگ ان زہریلی دھاتوں سے آلودہ کتابوں سے محتاط رہیں۔ یہ دھاتیں تنفس کے مسائل، جِلد پر خارش اور کینسر کا سبب ہوسکتی ہیں۔
وکٹوریا دور کے پبلشرز نے 19 ویں صدی میں بڑے پیمانے پر کتاب کی چھپائی کا کام شروع کیا لیکن یہ کام کافی مہنگا ہوگیا کیوں کہ کتابوں کے عنوان چمڑے کی جِلد سے بنائے جاتے تھے۔
کتاب چھاپنے والوں نے بعد ازاں چمڑے کے بجائے ہرے رنگ کی جِلد سے کتابیں بنانے شروع کیں کیوں کہ یہ چمڑے کے مقابلے میں سستا متبادل تھا۔ البتہ، ان لوگوں یہ نہیں معلوم تھا کہ رنگ بنانے کے لیے جو آرسینک استعمال ہوا تھا وہ مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔
گرین جِلد رکھنے والی 19 ویں صدی کی کتابوں میں تشویش ناک حد آرسینک پایا گیا ہے، جس کے بعد چند لائبریریوں سے ان کتابوں کو ہٹانے کی ترغیب دی گئی ہے۔
امریکی شہر نیوآرک میں قائم یونیورسٹی آف ڈیلاویئر کے محققین نے ایکس رے کا استعمال کرتے ہوئے ایسی لال اور پیلی جِلدوں کی نشان دہی بھی کی جن پر پارہ اور سیسہ موجود تھا۔
خطرے کی نشان دہی کے بعد سائنس دان لوگوں کو تنبیہ کر رہے ہیں کہ لوگ ان زہریلی دھاتوں سے آلودہ کتابوں سے محتاط رہیں۔ یہ دھاتیں تنفس کے مسائل، جِلد پر خارش اور کینسر کا سبب ہوسکتی ہیں۔
وکٹوریا دور کے پبلشرز نے 19 ویں صدی میں بڑے پیمانے پر کتاب کی چھپائی کا کام شروع کیا لیکن یہ کام کافی مہنگا ہوگیا کیوں کہ کتابوں کے عنوان چمڑے کی جِلد سے بنائے جاتے تھے۔
کتاب چھاپنے والوں نے بعد ازاں چمڑے کے بجائے ہرے رنگ کی جِلد سے کتابیں بنانے شروع کیں کیوں کہ یہ چمڑے کے مقابلے میں سستا متبادل تھا۔ البتہ، ان لوگوں یہ نہیں معلوم تھا کہ رنگ بنانے کے لیے جو آرسینک استعمال ہوا تھا وہ مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔