ٹیکس کلچر معیشت بحالی میں مددگار
فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ملک بھر میں ٹیکس چوروں کے خلاف باقاعدہ سخت کارروائی شروع کردی، جس کے تحت پہلے مرحلے میں قابل ٹیکس آمدنی رکھنے کے باوجود انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والے 5 لاکھ چھ ہزار چھ سو 71 لوگوں کی موبائل فون سمیں بلاک کی گئی ہیں۔ دوسری جانب اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر موصول ہوگئے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے آخری مالیاتی قسط کے جاری ہونے پر اطمینان ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں مزید معاشی استحکام آئے گا۔
پاکستان میں امیروں اور طاقتوروں نے نہ صرف خود کو ٹیکس کے دائرے سے باہر رکھا ہے بلکہ وہ دوسروں کو یہ بتانے میں بھی فخر محسوس کرتے ہیں کہ ٹیکس حکام ان سے سوال کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔ ان کے لیے ذاتی طاقت کا مظاہرہ اس بات پر زور دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عام لوگوں سے برتر کیوں ہیں؟ اور اسی طرح ان کو حکمرانی کا ناقابل چیلنج حق بھی حاصل ہے۔
اعداد وشمار کے مطابق بہت سے پاکستانی اپنی جائیدادیں چھپاتے ہیں، اپنے کاروبار کو ظاہر نہیں کرتے ہیں، جس سے سرکاری خزانے میں دولت جمع نہیں ہوتی۔ موجودہ حالات میں ملک کو اسی وجہ سے سنبھالا دینے میں شدید مشکلات در پیش ہیں اور ملک قرضوں کے بوجھ سے نکل نہیں پا رہا۔
کسی بھی ملک کی ترقی میں ٹیکس کا اہم کردار ہے، جب تک ٹیکس ریونیو اکٹھا نہیں ہوتا ملک ترقی نہیں کرسکتا، یہاں جس کی جتنی طاقت ہے وہ ٹیکس چھپاتا ہے، ہم کرنٹ اخراجات بھی اپنے ریونیو سے پورا نہیں کر پا رہے۔
ملک کے ہر متمول فرد کی یہ قومی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ٹیکس ادا کرے۔ ترقی یافتہ اور یورپی ممالک کی صنعتوں کی ترقی، زرعی ترقی، معاشی ترقی کو دیکھ لیں، ٹیکس کلچر کے سبب ہی یہ سب کچھ ممکن ہوا، لیکن پاکستان میں پچیس کروڑ کی آبادی میں سے صرف چند لاکھ افراد ہی ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں، ان میں بھی ایک بڑی تعداد سرکاری اور نجی ملازمین کی ہے جن کی تنخواہوں سے سرکار ٹیکس از خود کاٹ لیتی ہے۔
دنیا میں بھر میں حکومتوں کو دفاع، سیکیورٹی، نظم و ضبط اور عوام الناس کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے جس رقم کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ٹیکسوں ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ ٹیکسوں کی وصولی ایک سنجیدہ اور گنجلک عمل ہے ۔ ٹیکس کی چوری ، ٹیکسوں سے بچنا اور پورا ٹیکس نہ دینا، کاروباری طبقے کی روایت ہے۔
اعلیٰ سرکاری عہدیدار اپنے اختیارات کی بنا پر ٹیکس سے بچے رہتے ہیں۔ ترقی یافتہ اور جمہوری ممالک میں ایسا منظم، مربوط اورشفاف نظام قائم کردیا ہے، جس میں ٹیکس چوری کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اس نظام کو پرکھنے کا ایک پیمانہ ہے جسے مجموعی قومی پیداوار میں ٹیکس کا تناسب (Tax to GDP Reality) کہا جاتا ہے۔ یہ تناسب جتنا بلند ہوگا، اتنا ہی ٹیکسوں کا نظام اس ملک میں بہتر ہوگا اور اسی حساب سے عوام کو پانی، بجلی، ٹرانسپورٹ، صحت، تعلیم، صفائی اور سیوریج کی سہولتیں بہتر ملیں گی۔
یورپی ممالک میںیہ تناسب 30 سے 40 فی صد ہے، ویتنام میں 19 فی صد، چین میں 17 فی صد، سری لنکا میں 15 فی صد، انڈیا میں 18 فی صد، بنگلا دیش میں 8 فی صد اور پاکستان میں 10 فی صد ہے۔ پاکستان کے بااثر، بالادست اور امیر طبقات کا طرز زندگی شاہانہ ہے،مہنگی ترین گاڑیاں زیر استعمال ہوتی ہیں،ان طبقات کی فیملیز ترقی یافتہ ملکوں کی نیشنلیٹی رکھتی ہے، بیرون ملک جائیدادیں اور کاروبار ہیں لیکن پاکستان میں سیاست کرنے، حکمرانی کرنے، اعلیٰ ریاستی و حکومتی عہدے حاصل کرنے کے لیے خاندان کے ایک دو افراد پاکستان کا پاسپورٹ رکھتے ہیں۔
یہ بااثر طبقہ پاکستان میں ہر قسم کی مراعات حاصل کررہا ہے لیکن ٹیکس نہیں دیتا۔پاکستان کی اسمبلیوں میں کئی ایسے ممبران ہیں جو انکم ٹیکس کی مد میں چند ہزار روپے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ یہ تو افراد کا معاملہ ہے جب کہ دوسری طرف معیشت کے دو اہم شعبے یعنی زراعت اور خدمات، ان کا ٹیکسوں کی ادائیگی میں بہت کم حصہ ہے مثلاً خدمات یا سروسز جن کا مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں تقریباً 60 فی صد حصہ ہے لیکن ٹیکس ادائیگی میں صرف 8 فی صد ہے۔ مثلاً ریٹیل اور ہول سیل سیکٹر کا حجم بہت زیادہ ہے جب کہ ٹیکسوںکا حجم بہت کم ہے۔
سونے، قیمتی دھاتوں، جواہرات کا کاروبار کرنے والے اپنی کمائی کے مقابلے میں کم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ٹیکس وصولی میں کمی کی بے شمار وجوہات ہیں لیکن سب سے اہم وجہ ملازمین میں کرپشن بہت بڑھ گئی ہے۔ ٹیکس قوانین میں ابہام اورکمزوریاں ہیں، اگر انھیں دور کردیا جائے تو ٹیکسوں کی وصولی کی شرح بڑھ سکتی ہے۔ مزید یہ کہ ٹیکس بنیاد میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان میں تنخواہ دار طبقے اور کمپنیز یا کارپوریشنز پر ہی تمام ٹیکسوں کا بوجھ ہے۔ ملک کا بااثر اور بالادست طبقہ اپنے حصے کا مکمل ٹیکس دے تو پاکستان کی قسمت بدل سکتی ہے۔
ٹیکس لینا اور ٹیکس کو عوام کے لیے مناسب طریقہ سے خرچ کرنا ریاست اور حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے۔ کچھ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ان کا ٹیکس عوام پر نہیں لگے گا، بلکہ سیاست اور کرپشن کی نذر ہو گا، جس کے سبب وہ ٹیکس دینے کا ارادہ ہونے کے باوجود ٹیکس نہیں دیتے۔ جب قوم کو یقین ہو جاتا ہے کہ کروڑوں کے ٹیکس کی رقم کو حکومت نے استعمال میں لا کر عوام کو ریلیف دینا ہے تو ٹیکس کلچر خود بخود پروان چڑھتا ہے۔
آئی ایم ایف سے تین چار سال کے لیے آٹھ ارب ڈالر کے قرضے کی بات چیت امید افزا انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ قرض حاصل کرلینا کوئی اچھی بات تو نہیں ہے لیکن جب آپ کی معیشت وینٹی لیٹر پر ہو تو جان بچانے کے لیے ادھار کی سانسیں لینا ہی پڑتی ہیں، سعودی عرب نے پچیس سے تیس ارب ڈالر کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے اطلاعات یہ بھی ہیں کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے معاملات بتدریج بہتر ہورہے ہیں۔ روپے کی قدر بہترہونے کے بھی اشارے مل رہے ہیں۔
لوگ آرزو مند ہیں کہ معیشت کے حوالے سے وہ کوئی اچھی خبر سنیں۔ملک میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی کمی نہیں۔ جو ہاتھ میں ڈگریاں اور ڈپلومے لیے پھرتے ہیں۔ بیشتر پوزیشن ہولڈرز بھی ہیں، لیکن روزگار نہیں ہے۔ نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہی نہیں کیے جا رہے جس سے غربت اور جرائم میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ پاکستان، ملکی معیشت کو رواں رکھنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈز اور دوست ملکوں پر انحصار کرتا ہے، جن میں خصوصی طور پر چین اور سعودی عرب شامل ہیں جو تجارتی اور مالیاتی حوالے سے پاکستان کے مستقل شراکت دار ہیں۔
بہت سے جغرافیائی اور سیاسی چیلنجز ہیں۔ جو، اب پاکستان کے لیے بڑھ گئے ہیں۔ امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا، یوکرین پر روسی حملہ، اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ نے عالمی سطح پر صورت حال کو بدلا ہے۔ عالمی معیشت بھی متاثر ہوئی ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک بھی مہنگائی کے طوفان سے نہیں بچ سکے۔ غریب ممالک کا تو بُرا ہی حال ہے۔
موجودہ عالمی صورت حال سے معیشت پر اس کے بُرے اثرات پڑے ہیں۔ ہمیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے باہر سے جو چیزیں منگوانی پڑتی ہیں، اُن کے ریٹ آسمان سے باتیں کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ روپے کی قدر کم ہوگئی ہے۔ بعض اشیاء کی امپورٹ ضروری ہے، مہنگائی ہماری معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
پاکستانی پالیسی سازوں کو معاشی اصلاحات کو اس طریقے سے آگے بڑھانا چاہیے کہ جس سے معاشی استحکام آئے۔ پالیسی سازو ں کو معاشی ترقی کے روایتی تصورات سے باہر نکل کر نئے معاشی ماڈل کے ساتھ آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ انسانی وسائل کی ترقی پر توجہ دینی ہوگی، زرعی پالیسی کا فوکس چھوٹا کسان ہونا چاہیے، چند نقد آور فصلوںکی کاشت کو زراعت نہیں سمجھنا چاہیے۔
مویشی اور درخت بھی زراعت کا لازم جز ہیں۔ زراعت کے بغیردودھ، مکھن اورگھی کا تصور ہی غلط ہے ، گوشت اور چمڑے کا کاروبار زراعت کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ درخت اور کھیت لازم و ملزوم ہیں، کسان کو خوشحال اور دیہات کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے زراعت سے وابستہ تمام شعبوں پر توجہ دینا ہوگی۔اس سے کاشتکاروں اور دیہی ہنرمندوں کے ذرایع آمدنی میں اضافہ ہوجائے گا۔
مثلاً کسی سیزن میںکاشتکارکو فصل کی پوری قیمت نہیں ملتی ، اگر اس کے کھیت میں درخت زیادہ لگے ہوں گے، اس کے پاس گائے، بھینس ہوگی تو وہ دودھ وغیرہ کی تجارت سے پیسے کماتا رہے گا، بھیڑ بکریاں، کٹے وچھے بیچ کر نقصانات کا ازالہ کرسکتا ہے، درخت کی ٹہنیوں اورگوبر کی پاتھیوں سے مفت ایندھنحاصل کرسکتا ہے۔دیہی ہنر مند بھی بے روزگار نہیں ہوگا۔
پاکستان کو اپنے معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے کثیر الجہتی منصوبوں پر عمل کرنا چاہیے۔ اس طریقے سے ہی ہم اپنے معاشی بحران پر قابو پا سکتے ہیں۔ مارکیٹ میں معیشت کی بہتری کے لیے جن اصلاحات کی ضرورت ہے، ہمیں وہ ضرور کرنی چاہئیں۔ یہ حکومت اور عوامی نمایندوں کا کام ہے کہ وہ اس حوالے سے مناسب اور جامع قانون سازی کریں تاکہ معاشی اصلاحات کو آئینی تحفظ حاصل ہو۔
وزیراعظم شہباز شریف نے آخری مالیاتی قسط کے جاری ہونے پر اطمینان ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں مزید معاشی استحکام آئے گا۔
پاکستان میں امیروں اور طاقتوروں نے نہ صرف خود کو ٹیکس کے دائرے سے باہر رکھا ہے بلکہ وہ دوسروں کو یہ بتانے میں بھی فخر محسوس کرتے ہیں کہ ٹیکس حکام ان سے سوال کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔ ان کے لیے ذاتی طاقت کا مظاہرہ اس بات پر زور دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عام لوگوں سے برتر کیوں ہیں؟ اور اسی طرح ان کو حکمرانی کا ناقابل چیلنج حق بھی حاصل ہے۔
اعداد وشمار کے مطابق بہت سے پاکستانی اپنی جائیدادیں چھپاتے ہیں، اپنے کاروبار کو ظاہر نہیں کرتے ہیں، جس سے سرکاری خزانے میں دولت جمع نہیں ہوتی۔ موجودہ حالات میں ملک کو اسی وجہ سے سنبھالا دینے میں شدید مشکلات در پیش ہیں اور ملک قرضوں کے بوجھ سے نکل نہیں پا رہا۔
کسی بھی ملک کی ترقی میں ٹیکس کا اہم کردار ہے، جب تک ٹیکس ریونیو اکٹھا نہیں ہوتا ملک ترقی نہیں کرسکتا، یہاں جس کی جتنی طاقت ہے وہ ٹیکس چھپاتا ہے، ہم کرنٹ اخراجات بھی اپنے ریونیو سے پورا نہیں کر پا رہے۔
ملک کے ہر متمول فرد کی یہ قومی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ٹیکس ادا کرے۔ ترقی یافتہ اور یورپی ممالک کی صنعتوں کی ترقی، زرعی ترقی، معاشی ترقی کو دیکھ لیں، ٹیکس کلچر کے سبب ہی یہ سب کچھ ممکن ہوا، لیکن پاکستان میں پچیس کروڑ کی آبادی میں سے صرف چند لاکھ افراد ہی ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں، ان میں بھی ایک بڑی تعداد سرکاری اور نجی ملازمین کی ہے جن کی تنخواہوں سے سرکار ٹیکس از خود کاٹ لیتی ہے۔
دنیا میں بھر میں حکومتوں کو دفاع، سیکیورٹی، نظم و ضبط اور عوام الناس کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے جس رقم کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ٹیکسوں ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ ٹیکسوں کی وصولی ایک سنجیدہ اور گنجلک عمل ہے ۔ ٹیکس کی چوری ، ٹیکسوں سے بچنا اور پورا ٹیکس نہ دینا، کاروباری طبقے کی روایت ہے۔
اعلیٰ سرکاری عہدیدار اپنے اختیارات کی بنا پر ٹیکس سے بچے رہتے ہیں۔ ترقی یافتہ اور جمہوری ممالک میں ایسا منظم، مربوط اورشفاف نظام قائم کردیا ہے، جس میں ٹیکس چوری کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اس نظام کو پرکھنے کا ایک پیمانہ ہے جسے مجموعی قومی پیداوار میں ٹیکس کا تناسب (Tax to GDP Reality) کہا جاتا ہے۔ یہ تناسب جتنا بلند ہوگا، اتنا ہی ٹیکسوں کا نظام اس ملک میں بہتر ہوگا اور اسی حساب سے عوام کو پانی، بجلی، ٹرانسپورٹ، صحت، تعلیم، صفائی اور سیوریج کی سہولتیں بہتر ملیں گی۔
یورپی ممالک میںیہ تناسب 30 سے 40 فی صد ہے، ویتنام میں 19 فی صد، چین میں 17 فی صد، سری لنکا میں 15 فی صد، انڈیا میں 18 فی صد، بنگلا دیش میں 8 فی صد اور پاکستان میں 10 فی صد ہے۔ پاکستان کے بااثر، بالادست اور امیر طبقات کا طرز زندگی شاہانہ ہے،مہنگی ترین گاڑیاں زیر استعمال ہوتی ہیں،ان طبقات کی فیملیز ترقی یافتہ ملکوں کی نیشنلیٹی رکھتی ہے، بیرون ملک جائیدادیں اور کاروبار ہیں لیکن پاکستان میں سیاست کرنے، حکمرانی کرنے، اعلیٰ ریاستی و حکومتی عہدے حاصل کرنے کے لیے خاندان کے ایک دو افراد پاکستان کا پاسپورٹ رکھتے ہیں۔
یہ بااثر طبقہ پاکستان میں ہر قسم کی مراعات حاصل کررہا ہے لیکن ٹیکس نہیں دیتا۔پاکستان کی اسمبلیوں میں کئی ایسے ممبران ہیں جو انکم ٹیکس کی مد میں چند ہزار روپے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ یہ تو افراد کا معاملہ ہے جب کہ دوسری طرف معیشت کے دو اہم شعبے یعنی زراعت اور خدمات، ان کا ٹیکسوں کی ادائیگی میں بہت کم حصہ ہے مثلاً خدمات یا سروسز جن کا مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں تقریباً 60 فی صد حصہ ہے لیکن ٹیکس ادائیگی میں صرف 8 فی صد ہے۔ مثلاً ریٹیل اور ہول سیل سیکٹر کا حجم بہت زیادہ ہے جب کہ ٹیکسوںکا حجم بہت کم ہے۔
سونے، قیمتی دھاتوں، جواہرات کا کاروبار کرنے والے اپنی کمائی کے مقابلے میں کم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ٹیکس وصولی میں کمی کی بے شمار وجوہات ہیں لیکن سب سے اہم وجہ ملازمین میں کرپشن بہت بڑھ گئی ہے۔ ٹیکس قوانین میں ابہام اورکمزوریاں ہیں، اگر انھیں دور کردیا جائے تو ٹیکسوں کی وصولی کی شرح بڑھ سکتی ہے۔ مزید یہ کہ ٹیکس بنیاد میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان میں تنخواہ دار طبقے اور کمپنیز یا کارپوریشنز پر ہی تمام ٹیکسوں کا بوجھ ہے۔ ملک کا بااثر اور بالادست طبقہ اپنے حصے کا مکمل ٹیکس دے تو پاکستان کی قسمت بدل سکتی ہے۔
ٹیکس لینا اور ٹیکس کو عوام کے لیے مناسب طریقہ سے خرچ کرنا ریاست اور حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے۔ کچھ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ان کا ٹیکس عوام پر نہیں لگے گا، بلکہ سیاست اور کرپشن کی نذر ہو گا، جس کے سبب وہ ٹیکس دینے کا ارادہ ہونے کے باوجود ٹیکس نہیں دیتے۔ جب قوم کو یقین ہو جاتا ہے کہ کروڑوں کے ٹیکس کی رقم کو حکومت نے استعمال میں لا کر عوام کو ریلیف دینا ہے تو ٹیکس کلچر خود بخود پروان چڑھتا ہے۔
آئی ایم ایف سے تین چار سال کے لیے آٹھ ارب ڈالر کے قرضے کی بات چیت امید افزا انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ قرض حاصل کرلینا کوئی اچھی بات تو نہیں ہے لیکن جب آپ کی معیشت وینٹی لیٹر پر ہو تو جان بچانے کے لیے ادھار کی سانسیں لینا ہی پڑتی ہیں، سعودی عرب نے پچیس سے تیس ارب ڈالر کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے اطلاعات یہ بھی ہیں کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے معاملات بتدریج بہتر ہورہے ہیں۔ روپے کی قدر بہترہونے کے بھی اشارے مل رہے ہیں۔
لوگ آرزو مند ہیں کہ معیشت کے حوالے سے وہ کوئی اچھی خبر سنیں۔ملک میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی کمی نہیں۔ جو ہاتھ میں ڈگریاں اور ڈپلومے لیے پھرتے ہیں۔ بیشتر پوزیشن ہولڈرز بھی ہیں، لیکن روزگار نہیں ہے۔ نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہی نہیں کیے جا رہے جس سے غربت اور جرائم میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ پاکستان، ملکی معیشت کو رواں رکھنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈز اور دوست ملکوں پر انحصار کرتا ہے، جن میں خصوصی طور پر چین اور سعودی عرب شامل ہیں جو تجارتی اور مالیاتی حوالے سے پاکستان کے مستقل شراکت دار ہیں۔
بہت سے جغرافیائی اور سیاسی چیلنجز ہیں۔ جو، اب پاکستان کے لیے بڑھ گئے ہیں۔ امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا، یوکرین پر روسی حملہ، اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ نے عالمی سطح پر صورت حال کو بدلا ہے۔ عالمی معیشت بھی متاثر ہوئی ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک بھی مہنگائی کے طوفان سے نہیں بچ سکے۔ غریب ممالک کا تو بُرا ہی حال ہے۔
موجودہ عالمی صورت حال سے معیشت پر اس کے بُرے اثرات پڑے ہیں۔ ہمیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے باہر سے جو چیزیں منگوانی پڑتی ہیں، اُن کے ریٹ آسمان سے باتیں کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ روپے کی قدر کم ہوگئی ہے۔ بعض اشیاء کی امپورٹ ضروری ہے، مہنگائی ہماری معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
پاکستانی پالیسی سازوں کو معاشی اصلاحات کو اس طریقے سے آگے بڑھانا چاہیے کہ جس سے معاشی استحکام آئے۔ پالیسی سازو ں کو معاشی ترقی کے روایتی تصورات سے باہر نکل کر نئے معاشی ماڈل کے ساتھ آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ انسانی وسائل کی ترقی پر توجہ دینی ہوگی، زرعی پالیسی کا فوکس چھوٹا کسان ہونا چاہیے، چند نقد آور فصلوںکی کاشت کو زراعت نہیں سمجھنا چاہیے۔
مویشی اور درخت بھی زراعت کا لازم جز ہیں۔ زراعت کے بغیردودھ، مکھن اورگھی کا تصور ہی غلط ہے ، گوشت اور چمڑے کا کاروبار زراعت کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ درخت اور کھیت لازم و ملزوم ہیں، کسان کو خوشحال اور دیہات کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے زراعت سے وابستہ تمام شعبوں پر توجہ دینا ہوگی۔اس سے کاشتکاروں اور دیہی ہنرمندوں کے ذرایع آمدنی میں اضافہ ہوجائے گا۔
مثلاً کسی سیزن میںکاشتکارکو فصل کی پوری قیمت نہیں ملتی ، اگر اس کے کھیت میں درخت زیادہ لگے ہوں گے، اس کے پاس گائے، بھینس ہوگی تو وہ دودھ وغیرہ کی تجارت سے پیسے کماتا رہے گا، بھیڑ بکریاں، کٹے وچھے بیچ کر نقصانات کا ازالہ کرسکتا ہے، درخت کی ٹہنیوں اورگوبر کی پاتھیوں سے مفت ایندھنحاصل کرسکتا ہے۔دیہی ہنر مند بھی بے روزگار نہیں ہوگا۔
پاکستان کو اپنے معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے کثیر الجہتی منصوبوں پر عمل کرنا چاہیے۔ اس طریقے سے ہی ہم اپنے معاشی بحران پر قابو پا سکتے ہیں۔ مارکیٹ میں معیشت کی بہتری کے لیے جن اصلاحات کی ضرورت ہے، ہمیں وہ ضرور کرنی چاہئیں۔ یہ حکومت اور عوامی نمایندوں کا کام ہے کہ وہ اس حوالے سے مناسب اور جامع قانون سازی کریں تاکہ معاشی اصلاحات کو آئینی تحفظ حاصل ہو۔