بشریٰ بی بی کی اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

قیدی کی مرضی کے خلاف اسکی پراپرٹی کو سب جیل کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ جسٹس حسن اورنگزیب

قیدی کی مرضی کے خلاف اسکی پراپرٹی کو سب جیل کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ جسٹس حسن اورنگزیب

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بشریٰ بی بی کو بنی گالہ سے اڈیالہ جیل منتقل کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

ہائی کورٹ میں بشری بی بی کی بنی گالہ سب جیل سے اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

بشری بی بی کے وکیل نے بتایا کہ بشری بی بی کو توشہ خانہ اور عدت نکاح کیس میں سزا ہوئی ، جس کے بعد وارنٹ آف اریسٹ جاری ہوتا ہے جو سپرنٹینڈنٹ جیل کو جاتا ہے ، سزا سنانے کے وقت بشری بی بی کورٹ میں موجود نہیں تھیں ، انھوں نے خود سرنڈر کیا ، اسکے بعد انھیں چیف کمشنر کے آرڈر پر بنی گالہ گھر کو سب جیل بنا کر وہاں منتقل کردیا گیا۔


وکیل نے دلائل دیے کہ بشری بی بی ٹرائل کورٹ کے آرڈر کے مطابق اڈیالہ جیل گئیں جو سپرٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو بھیجا گیا تھا ، بعد میں وزارت داخلہ کے حکم پر چیف کمشنر نے منتقلی کا غیر قانونی نوٹیفکیشن جاری کیا ، اڈیالہ جیل سے بنی گالہ سب جیل منتقلی سے متعلق حکام کی کوئی ہدایت شامل نہیں تھی ، چیف کمشنر نے جو نوٹیفکیشن جاری کیا وہ متعلقہ حکام یعنی سپرٹینڈنٹ اڈیالہ جیل کی ہدایات نہیں تھیں، نہ صوبائی حکومت نے کوئی ایسی ہدایت جاری کی نہ آئی جی جیل خانہ جات نہ کوئی ہدایت کی ، بنی گالہ سب جیل منتقلی کا چیف کمشنر کا نوٹیفکیشن غیر قانونی ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے حکومتی وکیل سے کہا کہ ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ عدالتوں میں سیکیورٹی خطرہ ہے جیل میں سماعت ہوگی، دوسری جانب آپ کہتے ہیں جیل میں سکیورٹی خطرہ ہے اس لیے بنی گالہ گھر میں منتقل کیا ہے، میرا تو خیال ہے یہ پہلے سے طے کیا جا چکا تھا کہ بشریٰ بی بی کو بنی گالہ منتقل کرنا ہے، اگر میری مرضی سے مجھے گھر میں قید کیا جائے تو میں بہت خوش ہوں گا، قیدی کی مرضی کے خلاف اسکی پراپرٹی کو سب جیل کیسے بنایا جا سکتا ہے؟۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
Load Next Story