اقوام متحدہ مبصر نے اسرائیل کو جنگی جرم کا مرتکب قرار دے دیا
بی بی سی نے اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے 2 فلسطینی بچوں کی شہادت کے واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ مرتب کرلی
برطانوی میڈیا نے اسرائیلی فوجی کے ہاتھوں فلسطینی بچے کے قتل پر تحقیقاتی رپورٹ مرتب کی جس کا جائزہ لینے کے بعد اقوام متحدہ مبصر نے اسرائیل کو جنگی جرم کا مرتکب قرار دے دیا۔
بی بی سی کے مطابق 29 نومبر 2023ء کو مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کرکے 2 بچوں 15 سالہ باسل اور 8 سالہ آدم کو شہید کردیا تھا۔
بی بی سی نے اس واقعے کے تناظر میں مغربی کنارے میں اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کے طرز عمل کی انکوائری کی، جس میں موبائل فون اور سی سی ٹی وی فوٹیج، اسرائیلی فوج کی نقل و حرکت کی معلومات جمع کی گئیں، گواہوں کے بیانات لیے گئے اور جائے وقوعہ کی تفصیلی تحقیقات کی گئیں جس میں پیمائش تک شامل تھی، ان سب معلومات سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے شواہد ملے ہیں۔
بی بی سی کو ملنے والے شواہد کا جائزہ لینے کے بعد اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے انسانی حقوق اور انسداد دہشت گردی بین ساؤل یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ آدم کی موت ایک "جنگی جرم" نظر آتی ہے۔
ایک اور قانونی ماہر ڈاکٹر لارنس ہل کاوتھورن نے اس واقعے کو اسرائیل کی جانب سے ہلاکت خیز طاقت کا "اندھا دھند" استعمال قرار دیا۔
7 اکتوبر کے بعد سے مغربی کنارے کے حالات مزید خراب ہوگئے ہیں۔ بی بی سی کو ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ فلسطینیوں کے گھروں پر حملے کیے جارہے ہیں، انہیں دھمکایا جارہا ہے اور فلسطین سے اردن ہجرت کرنے کےلیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔
29 نومبر کی ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ باسل اور آدم سمیت کچھ بچے ایک بند دکان کے پاس کھڑے ہیں تو اچانک وہاں سے گزرنے والے اسرائیلی فوجی قافلہ کا رخ ان بچوں کی طرف ہوتا ہے، بچے ڈر کر وہاں سے بھاگنے لگتے ہیں تو اچانک ایک اسرائیلی فوجی اپنی بکتر بند گاڑی کا دروازہ کھول کر اور بچوں پر برسٹ کھول دیتا ہے، جس میں دونوں بچے شہید ہوجاتے ہیں۔ 11 گولیاں چلائی جاتی ہیں۔
بی بی سی کے مطابق میڈیکل رپورٹس میں بتایا گیا کہ باسل کے سینے میں دو گولیاں لگیں جبکہ 8 سالہ آدم کے سر کے پچھلے حصے میں ایک گولی لگی۔
بی بی سی نے جائے وقوعہ کی اپنی تحقیقات کے شواہد کو متعدد آزاد ماہرین کے ساتھ شیئر کیا جن میں انسانی حقوق کے وکلاء، جنگی جرائم کے تفتیش کار اور انسداد دہشت گردی کے ماہرین ، اقوام متحدہ اور دیگر غیر جانبدار اداروں کے ارکان بھی شامل تھے۔
تمام ماہرین نے اس واقعے کی تحقیقات کروانے پر اتفاق کیا اور کچھ نے کہا کہ اس واقعے میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نظر آتی ہے۔
دوسری طرف اسرائیلی فوج نے الزام لگایا کہ باسل نے ہاتھ میں کوئی دھماکہ خیز چیز پکڑ رکھی تھی۔
انسانی حقوق اور انسداد دہشت گردی کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی بن ساؤل نے کہا کہ اگر باسل کے پاس دھماکہ خیز مواد تھا تو اس بارے میں سوالات کیے جاسکتے ہیں کہ آیا اس کے خلاف قانونی طور پر مہلک طاقت کا استعمال کیا جا سکتا تھا، لیکن جہاں تک آدم کا تعلق ہے اسے قتل کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
بی بی سی کے مطابق 29 نومبر 2023ء کو مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کرکے 2 بچوں 15 سالہ باسل اور 8 سالہ آدم کو شہید کردیا تھا۔
بی بی سی نے اس واقعے کے تناظر میں مغربی کنارے میں اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کے طرز عمل کی انکوائری کی، جس میں موبائل فون اور سی سی ٹی وی فوٹیج، اسرائیلی فوج کی نقل و حرکت کی معلومات جمع کی گئیں، گواہوں کے بیانات لیے گئے اور جائے وقوعہ کی تفصیلی تحقیقات کی گئیں جس میں پیمائش تک شامل تھی، ان سب معلومات سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے شواہد ملے ہیں۔
بی بی سی کو ملنے والے شواہد کا جائزہ لینے کے بعد اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے انسانی حقوق اور انسداد دہشت گردی بین ساؤل یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ آدم کی موت ایک "جنگی جرم" نظر آتی ہے۔
ایک اور قانونی ماہر ڈاکٹر لارنس ہل کاوتھورن نے اس واقعے کو اسرائیل کی جانب سے ہلاکت خیز طاقت کا "اندھا دھند" استعمال قرار دیا۔
7 اکتوبر کے بعد سے مغربی کنارے کے حالات مزید خراب ہوگئے ہیں۔ بی بی سی کو ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ فلسطینیوں کے گھروں پر حملے کیے جارہے ہیں، انہیں دھمکایا جارہا ہے اور فلسطین سے اردن ہجرت کرنے کےلیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔
29 نومبر کی ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ باسل اور آدم سمیت کچھ بچے ایک بند دکان کے پاس کھڑے ہیں تو اچانک وہاں سے گزرنے والے اسرائیلی فوجی قافلہ کا رخ ان بچوں کی طرف ہوتا ہے، بچے ڈر کر وہاں سے بھاگنے لگتے ہیں تو اچانک ایک اسرائیلی فوجی اپنی بکتر بند گاڑی کا دروازہ کھول کر اور بچوں پر برسٹ کھول دیتا ہے، جس میں دونوں بچے شہید ہوجاتے ہیں۔ 11 گولیاں چلائی جاتی ہیں۔
بی بی سی کے مطابق میڈیکل رپورٹس میں بتایا گیا کہ باسل کے سینے میں دو گولیاں لگیں جبکہ 8 سالہ آدم کے سر کے پچھلے حصے میں ایک گولی لگی۔
بی بی سی نے جائے وقوعہ کی اپنی تحقیقات کے شواہد کو متعدد آزاد ماہرین کے ساتھ شیئر کیا جن میں انسانی حقوق کے وکلاء، جنگی جرائم کے تفتیش کار اور انسداد دہشت گردی کے ماہرین ، اقوام متحدہ اور دیگر غیر جانبدار اداروں کے ارکان بھی شامل تھے۔
تمام ماہرین نے اس واقعے کی تحقیقات کروانے پر اتفاق کیا اور کچھ نے کہا کہ اس واقعے میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نظر آتی ہے۔
دوسری طرف اسرائیلی فوج نے الزام لگایا کہ باسل نے ہاتھ میں کوئی دھماکہ خیز چیز پکڑ رکھی تھی۔
انسانی حقوق اور انسداد دہشت گردی کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی بن ساؤل نے کہا کہ اگر باسل کے پاس دھماکہ خیز مواد تھا تو اس بارے میں سوالات کیے جاسکتے ہیں کہ آیا اس کے خلاف قانونی طور پر مہلک طاقت کا استعمال کیا جا سکتا تھا، لیکن جہاں تک آدم کا تعلق ہے اسے قتل کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔