سندھ میں تعلیم کی زبوں حالی اور بجٹ
سابق وزیر تعلیم پیر مظہرالحق کے دور میں محکمہ تعلیم میں میرٹ کو جس طرح پامال کیا گیا وہ سندھ کی تاریخ کا بدترین باب ہے
سندھ کے بجٹ میں 145بلین روپے تعلیم کے لیے مختص کیے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے اگلے مالیاتی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سکھر میں وومن یونیورسٹی ، لیاری میں بلاول انجینئرنگ کالج اور آصفہ انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹرونکس قائم ہوگا،مگر سندھ کے بجٹ میں حیدرآباد شہر میں یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ نظر انداز کردیا گیا۔ بجٹ میں گزشتہ سال تعلیم کے لیے 135.55بلین روپے مختص کیے گئے تھے یوں اس سال تعلیم کے بجٹ میں 10فیصد اضافہ کیا گیا اس اضافی رقم میں سے 550ملین روپے کمپری ہنسواسکول اسکیم کے لیے دیے گئے ہیں ۔
محکمہ تعلیم گزشتہ سال اس منصوبے پر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکا تھا ۔ سندھ میں تعلیم کا شعبہ پسماندگی کا شکار ہے ۔ اسکول میں داخلے کی عمر کو پہنچنے والے بچوں میں سے آدھے اسکول نہیں جاتے اور اسکول چھوڑنے والے بچوں کی شرح خاصی زیادہ ہے یوں اس بات کی توقع تھی کہ سندھ کے بجٹ میںتعلیم کے پھیلائو پر توجہ دی جائے گی مگر سندھ کا بجٹ مایوسی کا اظہار کرتا ہے۔ حیدر آباد سندھ کا دوسرا بڑاشہر ہے جس کی آبادی25 لاکھ کے قریب ہے ۔
اس شہر کے رہنے والوں کا اس صدی کے آغاز سے مطالبہ ہے کہ شہر میں ایک سرکاری یونیورسٹی کی ضرورت ہے، پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے اپنے آبائی اسکول کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا مگر پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے وزیراعظم کے اعلان کی پاسداری نہیں کی جب کہ سندھ کے ہر ضلع میں ایک ایک یونیورسٹی موجود ہے بعض میں دو یونیوسٹیاں ہیں اب پھر سکھر میں وومن یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا ہے جو کہ قابل ستائش ہے جب کہ حیدرآباد شہر کو نظر انداز کرنے کا مطلب کچھ اور حقائق ظاہر کرتا ہے۔
جب قائم علی شاہ 2008میں وزیر اعلیٰ بنے تھے اور شہری علاقوں کی نمایندگی کرنے والی جماعت ایم کیو ایم ان کی حکومت کا حصہ تھی تو حکومت نے حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ تسلیم کیا تھا مگر ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی کے بعد یہ معاملہ داخل دفتر کردیا گیا ، بہت سے لوگوں کو امید تھی کہ اس مالیاتی بجٹ میں یہ معاملہ حل ہوجائے گا مگر 13جون کو پیش کیے جانے والے بجٹ میں یہ خوش فہمی دور ہوگئی ۔
سندھ کا تعلیمی نظام دوسرے صوبوں کے مقابلے میں زبوں حالی کا شکار ہے ۔ غیر سرکاری تنظیم الف اعلان کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ میں کل اسکولوں کی تعداد میں سے 90فیصد 47.394اسکول پرائمری اسکول میں صرف ایک فیصد اسکولوں میں سیکنڈری سطح تک تعلیم دی جاتی ہے ، سرکاری اسکولوں میں سے بیشتر میں پینے کے پانی اور بیت الخلاء کی سہولتیں موجود نہیں ہیں اس طرح اسکول بغیر چار دیواری کے تعمیرکیے جاتے ہیں اور بہت سے اسکولوں میں بجلی کے کنکشن بھی نہیں ہیں، لوڈ شیڈنگ کی صورت میں توانائی کی فراہمی کا کوئی متبادل ذریعہ موجود نہیں ہے ۔
جون جولائی کی تعطیلات میں گرمی اور اگست سے اکتوبر میں شدید گرمی ہوتی ہے پھر جنوری سے مارچ تک سردی تہلکہ مچاتی ہے مگر اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنیوالے بچے اور اساتذہ موسم کی سختی کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں ۔ خاص طور پر امتحانات کا زمانہ قیامت کا زمانہ ہوتاہے ، بچے پسینے میں شرابور ہوکر امتحان دیتے ہیں او ر سردیوں میں اندھیرے میں علم حاصل کرنے کا شوق پورا کرتے ہیں۔اب بھی اساتذہ کی کمی بہت اہم مسئلہ ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں تو حالات بہت زیادہ خراب ہے ، محکمہ تعلیم میں جدید طرز حکومت پر عمل پیرا ہونے کا کوئی تصور نہیں ہے ، سفارش اور چمک کی بناء پر بڑے شہروں کے بڑے اسکولوں میں مقررہ فارمولے سے ہٹ کر اساتذہ کی تقرری کی جاتی ہے۔
کراچی کے بعض اسکولوں میں تو طالب علموں سے زیادہ اساتذہ تعینات ہیں ، جن اسکولوں میں اساتذہ کی اکثریت ہیں وہاں بھی اساتذہ مکمل طورپر اپنے فرائض انجام نہیں دیتے ، اقتدار کی طاقت کی بنیاد پر تقرر ہونے والے اساتذہ ایک نہیں کئی کئی ملازمتیں کرتے ہیں مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسکولوں کے اساتذہ انتخابات میں پریزائڈنگ افسراور پولنگ افسر کے فرائض انجام دیتے ہیں اس بناء پر برسر اقتدار جماعت کے اراکین اسمبلی ان کے تقرر اورتبادلوں میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں پھر اساتذہ کی تقرریوں کا معاملہ سفارش اور رشوت سے منسلک ہے۔
سابق وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کے دور میں محکمہ تعلیم میں میرٹ کو جس طرح پامال کیا گیا وہ سندھ کی تاریخ کا بدترین باب ہے ان کے دور میں لاکھوں روپے لے کر بہت سے افراد کا اساتذہ کی حیثیت سے تقرر کیا گیا جن کا تعلق دور دور تک تعلیم سے نہیں تھا۔اور یہ معاملات سندھ ہائی کورٹ میں زیر التواء ہیں ، محکمہ تعلیم نے ان تقرریوں کی ذمے داری محض چند افسروں پر ڈال کر آنکھوں میں دھول جھوکنے کی کوشش ہے۔
یہ معاملات پیر مظہر الحق اور ان کی ٹیم سے منسلک تھے حکومت سندھ کو اس معاملے پر واضح پالیسی اختیار کرنی چاہیے، اصولی طور پر عالمی بینک کی شرائط کے مطابق اساتذہ کے تقرر کے لیے کسی دوسرے ادارے کی خدمات حاصل کرنی چاہیے اور اس ادارے کی سفارشات پر فوری طور پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ Human Resources کے کئی بین الاقوامی معیار کے ادارے ملک میںکام کررہے ہیں ان کی خدمات حاصل کرنی چاہیے۔
گزشتہ دو ر میں بھرتی ہونے والے اساتذہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی جمع پونجی خرچ کرکے تقررنامے حاصل کیے ہیں اور اب ان کے پاس کچھ نہیں بچا یہ انتہائی سنجیدہ الزام ہے ، سندھ حکومت اگر مستقبل میں بدعنوانی کی خاتمے میں سنجیدہ ہے تو ان تمام افراد سے درخواستیں وصول کی جائیں اور محکمہ انٹی کرپشن کو ہدایات جاری کی جائیں کہ جن لوگوں نے پیسے لیے تھے انھیں فوری گرفتار کیا جائے اور انھیں پیشکش کی جائے کہ اگر وہ ان غریب افراد کی رقم لوٹا دیں تو فوجداری مقدمات قائم نہیں ہونگے، دوسری صورت میں ان افراد کو عدالتوں سے سزائیں دلوائی جائیں پھر وزیر تعلیم اسمبلی میں واضح طور پر اعلان کریں کہ تمام اسکولوں کے ہیڈ ماسٹر اور کالجوں کے پرنسپلز کا تقرر سینیارٹی کے اصولوں پرہوگا اگر کوئی شخص میرٹ پر پورا نہیں اترے گا تو اس ضمن میں تمام قانونی کارروائی مکمل کی جائے گی۔
کراچی کی قدیم آبادی داؤد گوٹھ کی آبادی ایک لاکھ سے زیادہ ہے ۔ آبادی کا ایک حصہ ہندو اقلیت پر مشتمل ہے اس علاقے کے مکینوں کا روزگار ٹھیلے لگانا اور چھوٹے موٹے کام کرنا ہے اس علاقے میں کوئی اسکول نہیں ہے ، بچے تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاک بحریہ کے علاقے میں جاتے ہیں جہاں داخلہ کے لیے صاف ستھرے کپڑے اور شناختی کارڈ لازمی ہوتا ہے ۔ پاک بحریہ کے علاقے میں جانے والے بچوں کے پاس بس کا کرایہ نہیں ہوتا وہ پیدل جاتے ہیں، بلدیہ ٹاؤن میںلڑکیوں کے 3 سیکنڈری اسکول ہیں۔کیا وزیر تعلیم اسمبلی میں دائود گوٹھ میں اسکول کے قیام کا اعلان کریں گے۔
18ویں ترمیم کے بعد سندھ کی یونیورسٹیاں صوبے کی تحویل میں آگئی ہیں ، اب وائس چانسلر کے تقرر کے لیے گورنر سندھ وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس کے پابند ہیں ، اس طرح سندھ میں ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم ہوچکا ہے جس کے سربراہ زرداری صاحب کے قریبی دوست ڈاکٹر عاصم ہیں ۔ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو کی ہدایت پر نافذ ہونے والے قانون کے ملک کی تمام یونیورسٹیوں کی جو خود مختاری دی تھی حکومت سندھ نے ایک قانون کے تحت یہ خود مختاری ختم کردی ہے یوں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر ، اسکولوں کے ہیڈ ماسٹر اور کالج کے پرنسپل کے اختیارات تقریباََ ایک جیسے ہی ہوگئے ہیں۔
اساتذہ اس قانون کے خلاف سراپا احتجاج ہیں حکومت سندھ بار بار اس قانون میں تبدیلی کا وعدہ کرتی ہے مگر معاملہ التواء کا شکار ہوجاتا ہے ۔ وزیر تعلیم کو اپنی تقریر میں اس قانون کی منسوخی کے علاوہ حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام ، اسکول کے حالات کی زبوں حالی کمپرینسو اسکول اسکیم پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے کے بارے میں واضح اعلانات کرنے چاہیے۔ اگر وزیر تعلیم اپنی تقریر میں اراکین کو مطمئن نہ کرسکیں تو سندھ کے بجٹ کا تعلیم کاحصہ پر ہونے والے اخراجات کی منظوری نہیں ہونی چاہیے۔اس طرح عوام جمہوری اداروں کی اہمیت سے واقف ہونگے۔