ہیں تلخ بہت بندۂ مزدورکے اوقات
حکومت کو لیبرقوانین پر موثر عملدرآمد کے ذریعے مزدوروں کے بچوں کوتعلیم، علاج اور روزگار کی سہولیات فراہم کرنی چاہئیں
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ مزدور کو درپیش مسائل کا ادراک ہے، حکومت آئندہ بجٹ میں مزدوروں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے گی، مزدور کو جائز حق نہیں ملے گا تو ملک ترقی نہیں کرسکتا۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے عالمی یوم مزدور کے موقعے پر اپنی رہائش گاہ پر مزدوروں کے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیر ِاعظم نے کہا کہ بندہ مزدور کے اوقات بہت سخت ہیں، مجھ سے زیادہ مزدوروں کے مسائل کو کون جان سکتا ہے، میرے والد مرحوم بھی ایک مزدور تھے۔
یکم مئی کے دن پوری قوم نے محنت کش طبقے کو شاندار خراج تحسین پیش کیا، اسی تناظر میں وزیراعظم شہباز شریف نے مزدوروں کو اپنی قیام گاہ پر مدعو کر کے ملک کی ترقی میں ان کے کردار اور معاونت کو سراہا۔ بلاشبہ مزدور خوشحال ہوگا تو ملک خوشحالی و ترقی کی راہوں پر گامزن ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ دیگر طبقوں کے مسائل کے حل کی طرح محنت کش طبقے کو بھی اہمیت دے محنت کش افراد کو ملازمتیں اور معاشرے کا اہم فرد بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے۔
ہمارے مزدوروں کا 80 فیصد جن علاقوں میں رہائش پذیر ہے وہاں بجلی، پانی اور گیس کی سہولیات میسر نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو اس کا نظام نہایت ناقص ہے۔ مہنگائی اور ناجائز منافع خوری نے مزدوروں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ خراب گورننس کی وجہ سے ہر بااثر شخص عوام کا استحصال کرنے میں آزاد ہے۔ مزدوروں کے حالات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری حکومت نے کم از کم محنت ( مزدوری) کی جو حد مقرر کر رکھی ہے۔
مزدور طبقے کا ایک بڑا حصہ اس سے بھی محروم ہے۔ مالی سال 2023-2024 کے مطابق غیر تربیت یافتہ ورکر زکا کم از کم معاوضہ 32 ہزار روپے ماہانہ مقرر کیا گیا تھا، لیکن سوال یہ ہے کہ آیا اس قانون پر عمل درآمد ہو رہا ہے، اگر عملدرآمد ہو بھی رہا ہو تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ 32 ہزار روپے میں کوئی محنت کش اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال سکتا ہے؟
مہنگائی اس تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ متوسط اور متمول طبقات کے لیے بھی اپنے مہینہ بھر کے اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں رہا اور لوگوں کو اپنی ایک ضرورت پوری کرنے کے لیے اپنی کسی دوسری ضرورت کا گلا گھونٹنا پڑ رہا ہے۔ مزدوروں اور ملازموں کی اْجرت اس قدر ہونی چاہیے کہ کم از کم خوراک اور پوشاک کے معاملے میں ان کا معیارِ زندگی مالکوں اور آقاؤں کے قریب قریب ہو۔ دوسرے یہ کہ اجرت کی مقدار اتنی ہونی چاہیے کہ مزدور و خادم اہل و عیال کی اچھی طرح پرورش کرسکے اور اْن کی ضروریاتِ زندگی پوری کرسکے۔
مزدور دل کا بڑا سخی ہوتا کیونکہ وہ جتنا غریب ہوتا ہے، اس کا دل اتنا ہی امیر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس امیر جتنا مالدار ہوتا ہے وہ دل کا اتنا ہی غریب ہوتا ہے۔ مزدور ایک سادہ روٹی 20 روپے اور چائے کا کپ 60 روپے میں خرید رہا ہے جبکہ اس کی ایک دن کی مزدوری نو سو سے ایک ہزار روپے ہے جبکہ ہمارے حکمران جو اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں، ان کیفے ٹیریا کے مینیو اور ان کی قیمت دیکھ لیں تو یقین ہو جائے گا کہ مزدور سخی ہے یا حکمران۔ ارکان اسمبلی اتنا سستا کھانا کھاتے ہیں اور مزدور معمولی سی رقم لیکر بھی مہنگی روٹی کھا کر سوتا ہے۔ مزدور کے حالات کو کرسی پر بیٹھنے والے نہیں سمجھ سکتے۔
مزدوری کرنا کوئی جرم نہیں مگر مزدور کا حق مارنا بہت بڑا جرم ہے۔ اب تو جو کم تنخواہ دار طبقہ ہے وہ بجلی کا بل دیتا ہے تو بچوں کو پڑھا نہیں سکتا، گیس کا بل دیتا ہے تو گھرکا خرچہ چلانا اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا بچوں کی فیس دیتا ہے تو پھر روزی روٹی کیسے چلائے بدترین صورتحال ہے، چیزیں لوگوں کو فراہم نہیں ہو رہیں، زندگی کی بنیادی چیزیں میسر نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ مزدور تحریک جو لیبر یونینز کے ذریعے سے زندہ تھی اس پر پابندی لگا دی گئی، مزدور تحریک کو کچل دیا گیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج مزدور بدترین حالات میں زندگی گزارنے کے باوجود جدوجہد کرنے کے قابل نہیں، مزدور لیڈرشپ ختم ہوچکی ہے، جس طرح کے حالات ہمارے ملک میں ہیں اگر ایسے حالات کسی ایسے زمانے میں ہوتے جب مزدور تہذیب زندہ ہوتی تو شاید انقلاب آ جاتا۔
اسی طرح جو ملازمتوں پر ہیں ان کی کم سے کم تنخواہ کا ایک معیار مقرر ہونا چاہیے،اس وقت مزدور کی کم سے کم تنخواہ60 ہزار روپے ہونی چاہیے اور سفید پوش طبقہ جو ظاہر ہے کہ جس کے اخراجات وغیرہ تھوڑے سے زیادہ ہوتے ہیں اس کی کم سے کم تنخواہ کا معیار 80 ہزار روپے رکھنا چاہیے، تب آدمی جا کے تھوڑا سا پرسکون انداز میں اپنی زندگی گزارنے کا اہتمام کرسکتا ہے، آئین اور قانون میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق سے بھی مزدور محروم ہیں، لیبر اور سماجی بہبود کے قوانین پہلے ہی ناکافی تھے اور ان پر بھی عمل درآمد نہیں ہورہا، ٹریڈ یونینز کی مسلسل حوصلہ شکنی کی جارہی ہے، لیبر فورس کی بھاری تعداد یومیہ اجرت پر کام کرتی ہے۔ مزدور تو یوم مزدور کے موقعے پر بھی چھٹی سے محروم رہتے ہیں۔
لیبر قوانین، سوشل سیکیورٹی، ای او بی آئی اور ورکرز ویلفیئر فنڈ کا نفاذ 25 سے 35 لاکھ لیبر پر ہے اور وہ بھی مکمل نہیں ہے، سوشل سیکیورٹی، ای او بی آئی، ورکرز ویلفیئر فنڈ کی مکمل مراعات نہیں ملتیں، کم از کم اجرت گردن توڑ مہنگائی کے تناسب سے انتہائی کم ہے اور اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہوتا، مستقل ملازمتیں نہیں دی جاتیں، ٹھیکیداری نظام کے ذریعے مزدوروں کو تمام قانونی حقوق سے محروم کیا جاتا ہے اور لیبر کی وزارتیں اور متعلق حکومتی اداروں کے اہلکار ظالموں کا ہتھیار ہیں جس سے مزدوروں کا معاشی استحصال کیا جاتا ہے جبکہ ان کام مزدوروں کے حقوق کی حفاظت اور عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے۔ مزدوروں کے ساڑھے 4 کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔
نجی شعبے میں کام کرنے والے لاکھوں محنت کشوں کو آج بھی صحت کی سہولتوں سمیت سوشل سیکیورٹی تک دستیاب نہیں، مہنگائی کے دور میں بچوں کو پڑھانا اور دو وقت کی روٹی کھلانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ پاکستان میں حکومتی دعوؤں کے باوجود کوئلے اور دیگر معدنیات کی کانوں میں کارکنوں کو درپیش خطرات ختم نہیں ہو سکے۔
ماہرین کے بقول متعلقہ کمپنیوں اور ریگولیٹرز کی غفلت کے باعث حفاظتی انتظامات جدید تقاضوں کے مطابق نہیں ہورہے ہیں۔ کانوں میں ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں۔ بلوچستان سے نکا لا جانے والا کوئلہ بلوچستان کے ساتھ ساتھ پنجاب، سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں سیمنٹ کے کارخانوں، بجلی گھروں اور کئی دیگر شعبوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
کوئٹہ اور بولان سمیت صوبے کے شمال مشرقی علاقوں دکی، چمالانگ، لورالائی اور ہرنائی میں واقع ایسی کانوں سے نکلنے والا کوئلہ پاکستان کا بہترین کوئلہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں مختلف قسم کی کانوں میں سالانہ بیسیوں کان کن ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ان کارکنوں کی جانوں کو درپیش خطرات دور کرنے کے لیے اب تک جو اقدامات کیے گئے ہیں، وہ کافی حد تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔ کان کنی کے مزدوروں کو معاوضہ بھی ان کی محنت کے تناسب سے ادا نہیں کیا جاتا۔
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ آئین پاکستان اور عالمی ادارہ محنت کے توثیق شدہ کنونشن پر نہ صرف محنت کشوں کو معقول اجرت، صحت مند حالات کار اور معقول پنشن کی ادائیگی یقینی بنائے بلکہ محنت کشوں کی تنظیم سازی و اجتماعی سودا کاری کے بنیادی حق کو ہر ادارے میں ان پر عمل کرائے۔
آئی ایل او کے توثیق شدہ کنونشن نمبر 144 کے مطابق پالیسی ساز اداروں میں آجروں اور حکومت کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کو نمائندگی دیں۔ ملک کو اپنی مدد آپ کے تحت قومی صنعت، زراعت، تجارت کو ترقی دے کر ملک میں غربت، بے روزگاری سے نجات دلائے۔
حکومت کو لیبر قوانین پر موثر عملدرآمد کے ذریعے مزدوروں کے بچوں کو تعلیم، علاج اور روزگار کی سہولیات فراہم کرنی چاہئیں، صنعتوں اور کاروباری شعبہ ہائے زندگی کو بلندیوں تک لے جانے کے لیے مزدور کا اہم ترین کردار ہے۔ ہمیں عہد کرنا ہو گا کہ ہم اپنے ملازمین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی ضروریات کا خیال رکھیں گے۔
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں ملک ہے اور ساتواں ایٹمی طاقت رکھنے والا ملک ہے لیکن ملک میں جمہوریت اور سماجی انصاف کا فقدان ہونے کی وجہ سے قوم غربت، مہنگائی اور جہالت کا شکار ہو رہی ہے۔ ان حالات میں محنت کشوں کی جدوجہد ہے کہ وہ ملک کی تعمیر و ترقی اور عوام کی سربلندی اور محنت کشوں کی عظمت کو بلند کریں تاکہ ملک میں بے روزگاری غربت، جہالت اور سماجی انصاف کا فقدان جلد از جلد ختم ہو سکے۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے عالمی یوم مزدور کے موقعے پر اپنی رہائش گاہ پر مزدوروں کے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیر ِاعظم نے کہا کہ بندہ مزدور کے اوقات بہت سخت ہیں، مجھ سے زیادہ مزدوروں کے مسائل کو کون جان سکتا ہے، میرے والد مرحوم بھی ایک مزدور تھے۔
یکم مئی کے دن پوری قوم نے محنت کش طبقے کو شاندار خراج تحسین پیش کیا، اسی تناظر میں وزیراعظم شہباز شریف نے مزدوروں کو اپنی قیام گاہ پر مدعو کر کے ملک کی ترقی میں ان کے کردار اور معاونت کو سراہا۔ بلاشبہ مزدور خوشحال ہوگا تو ملک خوشحالی و ترقی کی راہوں پر گامزن ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ دیگر طبقوں کے مسائل کے حل کی طرح محنت کش طبقے کو بھی اہمیت دے محنت کش افراد کو ملازمتیں اور معاشرے کا اہم فرد بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے۔
ہمارے مزدوروں کا 80 فیصد جن علاقوں میں رہائش پذیر ہے وہاں بجلی، پانی اور گیس کی سہولیات میسر نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو اس کا نظام نہایت ناقص ہے۔ مہنگائی اور ناجائز منافع خوری نے مزدوروں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ خراب گورننس کی وجہ سے ہر بااثر شخص عوام کا استحصال کرنے میں آزاد ہے۔ مزدوروں کے حالات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری حکومت نے کم از کم محنت ( مزدوری) کی جو حد مقرر کر رکھی ہے۔
مزدور طبقے کا ایک بڑا حصہ اس سے بھی محروم ہے۔ مالی سال 2023-2024 کے مطابق غیر تربیت یافتہ ورکر زکا کم از کم معاوضہ 32 ہزار روپے ماہانہ مقرر کیا گیا تھا، لیکن سوال یہ ہے کہ آیا اس قانون پر عمل درآمد ہو رہا ہے، اگر عملدرآمد ہو بھی رہا ہو تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ 32 ہزار روپے میں کوئی محنت کش اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال سکتا ہے؟
مہنگائی اس تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ متوسط اور متمول طبقات کے لیے بھی اپنے مہینہ بھر کے اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں رہا اور لوگوں کو اپنی ایک ضرورت پوری کرنے کے لیے اپنی کسی دوسری ضرورت کا گلا گھونٹنا پڑ رہا ہے۔ مزدوروں اور ملازموں کی اْجرت اس قدر ہونی چاہیے کہ کم از کم خوراک اور پوشاک کے معاملے میں ان کا معیارِ زندگی مالکوں اور آقاؤں کے قریب قریب ہو۔ دوسرے یہ کہ اجرت کی مقدار اتنی ہونی چاہیے کہ مزدور و خادم اہل و عیال کی اچھی طرح پرورش کرسکے اور اْن کی ضروریاتِ زندگی پوری کرسکے۔
مزدور دل کا بڑا سخی ہوتا کیونکہ وہ جتنا غریب ہوتا ہے، اس کا دل اتنا ہی امیر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس امیر جتنا مالدار ہوتا ہے وہ دل کا اتنا ہی غریب ہوتا ہے۔ مزدور ایک سادہ روٹی 20 روپے اور چائے کا کپ 60 روپے میں خرید رہا ہے جبکہ اس کی ایک دن کی مزدوری نو سو سے ایک ہزار روپے ہے جبکہ ہمارے حکمران جو اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں، ان کیفے ٹیریا کے مینیو اور ان کی قیمت دیکھ لیں تو یقین ہو جائے گا کہ مزدور سخی ہے یا حکمران۔ ارکان اسمبلی اتنا سستا کھانا کھاتے ہیں اور مزدور معمولی سی رقم لیکر بھی مہنگی روٹی کھا کر سوتا ہے۔ مزدور کے حالات کو کرسی پر بیٹھنے والے نہیں سمجھ سکتے۔
مزدوری کرنا کوئی جرم نہیں مگر مزدور کا حق مارنا بہت بڑا جرم ہے۔ اب تو جو کم تنخواہ دار طبقہ ہے وہ بجلی کا بل دیتا ہے تو بچوں کو پڑھا نہیں سکتا، گیس کا بل دیتا ہے تو گھرکا خرچہ چلانا اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا بچوں کی فیس دیتا ہے تو پھر روزی روٹی کیسے چلائے بدترین صورتحال ہے، چیزیں لوگوں کو فراہم نہیں ہو رہیں، زندگی کی بنیادی چیزیں میسر نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ مزدور تحریک جو لیبر یونینز کے ذریعے سے زندہ تھی اس پر پابندی لگا دی گئی، مزدور تحریک کو کچل دیا گیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج مزدور بدترین حالات میں زندگی گزارنے کے باوجود جدوجہد کرنے کے قابل نہیں، مزدور لیڈرشپ ختم ہوچکی ہے، جس طرح کے حالات ہمارے ملک میں ہیں اگر ایسے حالات کسی ایسے زمانے میں ہوتے جب مزدور تہذیب زندہ ہوتی تو شاید انقلاب آ جاتا۔
اسی طرح جو ملازمتوں پر ہیں ان کی کم سے کم تنخواہ کا ایک معیار مقرر ہونا چاہیے،اس وقت مزدور کی کم سے کم تنخواہ60 ہزار روپے ہونی چاہیے اور سفید پوش طبقہ جو ظاہر ہے کہ جس کے اخراجات وغیرہ تھوڑے سے زیادہ ہوتے ہیں اس کی کم سے کم تنخواہ کا معیار 80 ہزار روپے رکھنا چاہیے، تب آدمی جا کے تھوڑا سا پرسکون انداز میں اپنی زندگی گزارنے کا اہتمام کرسکتا ہے، آئین اور قانون میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق سے بھی مزدور محروم ہیں، لیبر اور سماجی بہبود کے قوانین پہلے ہی ناکافی تھے اور ان پر بھی عمل درآمد نہیں ہورہا، ٹریڈ یونینز کی مسلسل حوصلہ شکنی کی جارہی ہے، لیبر فورس کی بھاری تعداد یومیہ اجرت پر کام کرتی ہے۔ مزدور تو یوم مزدور کے موقعے پر بھی چھٹی سے محروم رہتے ہیں۔
لیبر قوانین، سوشل سیکیورٹی، ای او بی آئی اور ورکرز ویلفیئر فنڈ کا نفاذ 25 سے 35 لاکھ لیبر پر ہے اور وہ بھی مکمل نہیں ہے، سوشل سیکیورٹی، ای او بی آئی، ورکرز ویلفیئر فنڈ کی مکمل مراعات نہیں ملتیں، کم از کم اجرت گردن توڑ مہنگائی کے تناسب سے انتہائی کم ہے اور اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہوتا، مستقل ملازمتیں نہیں دی جاتیں، ٹھیکیداری نظام کے ذریعے مزدوروں کو تمام قانونی حقوق سے محروم کیا جاتا ہے اور لیبر کی وزارتیں اور متعلق حکومتی اداروں کے اہلکار ظالموں کا ہتھیار ہیں جس سے مزدوروں کا معاشی استحصال کیا جاتا ہے جبکہ ان کام مزدوروں کے حقوق کی حفاظت اور عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے۔ مزدوروں کے ساڑھے 4 کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔
نجی شعبے میں کام کرنے والے لاکھوں محنت کشوں کو آج بھی صحت کی سہولتوں سمیت سوشل سیکیورٹی تک دستیاب نہیں، مہنگائی کے دور میں بچوں کو پڑھانا اور دو وقت کی روٹی کھلانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ پاکستان میں حکومتی دعوؤں کے باوجود کوئلے اور دیگر معدنیات کی کانوں میں کارکنوں کو درپیش خطرات ختم نہیں ہو سکے۔
ماہرین کے بقول متعلقہ کمپنیوں اور ریگولیٹرز کی غفلت کے باعث حفاظتی انتظامات جدید تقاضوں کے مطابق نہیں ہورہے ہیں۔ کانوں میں ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں۔ بلوچستان سے نکا لا جانے والا کوئلہ بلوچستان کے ساتھ ساتھ پنجاب، سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں سیمنٹ کے کارخانوں، بجلی گھروں اور کئی دیگر شعبوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
کوئٹہ اور بولان سمیت صوبے کے شمال مشرقی علاقوں دکی، چمالانگ، لورالائی اور ہرنائی میں واقع ایسی کانوں سے نکلنے والا کوئلہ پاکستان کا بہترین کوئلہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں مختلف قسم کی کانوں میں سالانہ بیسیوں کان کن ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ان کارکنوں کی جانوں کو درپیش خطرات دور کرنے کے لیے اب تک جو اقدامات کیے گئے ہیں، وہ کافی حد تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔ کان کنی کے مزدوروں کو معاوضہ بھی ان کی محنت کے تناسب سے ادا نہیں کیا جاتا۔
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ آئین پاکستان اور عالمی ادارہ محنت کے توثیق شدہ کنونشن پر نہ صرف محنت کشوں کو معقول اجرت، صحت مند حالات کار اور معقول پنشن کی ادائیگی یقینی بنائے بلکہ محنت کشوں کی تنظیم سازی و اجتماعی سودا کاری کے بنیادی حق کو ہر ادارے میں ان پر عمل کرائے۔
آئی ایل او کے توثیق شدہ کنونشن نمبر 144 کے مطابق پالیسی ساز اداروں میں آجروں اور حکومت کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کو نمائندگی دیں۔ ملک کو اپنی مدد آپ کے تحت قومی صنعت، زراعت، تجارت کو ترقی دے کر ملک میں غربت، بے روزگاری سے نجات دلائے۔
حکومت کو لیبر قوانین پر موثر عملدرآمد کے ذریعے مزدوروں کے بچوں کو تعلیم، علاج اور روزگار کی سہولیات فراہم کرنی چاہئیں، صنعتوں اور کاروباری شعبہ ہائے زندگی کو بلندیوں تک لے جانے کے لیے مزدور کا اہم ترین کردار ہے۔ ہمیں عہد کرنا ہو گا کہ ہم اپنے ملازمین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی ضروریات کا خیال رکھیں گے۔
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں ملک ہے اور ساتواں ایٹمی طاقت رکھنے والا ملک ہے لیکن ملک میں جمہوریت اور سماجی انصاف کا فقدان ہونے کی وجہ سے قوم غربت، مہنگائی اور جہالت کا شکار ہو رہی ہے۔ ان حالات میں محنت کشوں کی جدوجہد ہے کہ وہ ملک کی تعمیر و ترقی اور عوام کی سربلندی اور محنت کشوں کی عظمت کو بلند کریں تاکہ ملک میں بے روزگاری غربت، جہالت اور سماجی انصاف کا فقدان جلد از جلد ختم ہو سکے۔