سارے رنگ بکھر گئے آخری حصہ
ابتدائی زمانے کا بلیک اینڈ وائٹ پی ٹی وی بھی ہمیں اور ہمارے جیسے لوگوں کو گرامو فون بھی یاد آتا ہے
زندگی کیا تھی اور کیسی ہوگئی، اس وقت تو اس تبدیلی کا احساس تک نہ ہوا، لیکن آج سوچتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے بزرگ قبروں سے آ کر ہمیں دیکھتے تو سوچتے کہ یاالٰہی یہ کیسا جادو کا ڈبہ ہے جس کی طرف ہر چھوٹا بڑا، مرد عورت سب آنکھیں جھپکائے بیٹھے ہیں۔
ریموٹ اٹھا کر گھمانا شروع کرو تو نہ کہیں ڈھنگ کا ڈرامہ نہ کوئی موسیقی کا اچھا سا پروگرام۔ خبریں ہیں تو اس سے بے خبری اچھی، مزاح کے نام پر وہ اوٹ پٹانگ اور مسخرہ پن۔ کراچی میں تو کم ہی گھرانوں میں آپ کو ایسے پروگرام دیکھ جاتے ہیں۔ کراچی والے محظوظ ہوتے ہیں، انور مقصود، ضیا محی الدین اور معین اختر کے مزاح سے جو شائستہ مزاح پروڈیوس کرتے تھے۔ دو تو ان میں سے اﷲ کو پیارے ہوگئے، اب رہ گئے انور مقصود جو صرف کراچی آرٹس کونسل تک محدود ہو گئے ہیں ۔
ہم آج تک بلیک اینڈ وائٹ فلموں اور پی ٹی وی کے بلیک اینڈ وائٹ ڈراموں، انگریزی فلموں اور موسیقی کے پروگراموں کو نہیں بھولے۔ کیسے کیسے ذہین اور نامور ہدایت کار تھے، نصرت ٹھاکر، شہزاد خلیل، یاور حیات، نثار حسین، ایم ظہیر خان، اسلم اظہر، امیر امام اور نہ جانے کون کون۔ آج آپ کو ایسا ایک بھی نام نہیں ملے گا ۔
اب تو صرف ڈائجسٹوں کی اوٹ پٹانگ کہانیوں پر جلدی جلدی ڈرامے بنا کر مارکیٹ میں بیچنے کے لیے تیار بیٹھے رہتے ہیں۔ اچھے اور اول درجے کے افسانہ نگاروں کے تو وہ پاس سے بھی نہیں گزرتے۔ اب ڈراموں کی فروخت اس بنیاد پر کی جاتی ہے کہ اس میں انڈین ڈراموں کی چھاپ کہاں تک ہے ۔
بچپن میں فلم دیکھ کر اکثر سینما ہال ہی میں ہیرو اور ہیروئن کی مصیبت پر میں رونے لگتی تھی، ایک فلم تھی ''آنکھیں'' جس میں نلینی جیونت، شیکھر اور بھارت بھوشن تھے، والد کے ایک دوست پروجیکٹر اور بڑا سا اسکرین اور دوسرا ساز و سامان لے کر گھر آ جاتے تھے اور ہفتہ کی رات ہم گھر پر ہی فلم دیکھ لیا کرتے تھے۔ فلم ''آنکھیں'' میں ہیرو کا گایا ہوا ایک گیت آج بھی مجھے یاد ہے۔ اس وقت کہانی کی تکون تو سمجھ میں نہ آئی مگر ہیرو کا رو رو کر گانا گانا آج تک یاد ہے۔
دل کو لگا کے میں نے یہ سکھ پایا
سدھ بدھ کھوئی چین گنوایا
آج سیکڑوں کی تعداد میں فلمیں ریلیز ہو رہی ہیں، انڈیا اس معاملے میں بادشاہ ہے، لیکن موجودہ فلمیں صرف '' مسالہ'' ہیں۔ بھلا کہاں وہ پرانی فلمیں لوگ جن کے آج تک دیوانے ہیں، پاکیزہ ، مدر انڈیا اور ''رام اور شیام'' جیسی فلمیں دیکھنے کے لیے لوگ ویزا لے کر انڈیا جاتے تھے۔ وہاں کی آرٹ موویز میں امراؤ جان، بازار، مسافر، اجازت، اسپرش، پرما، پنچ وٹی جیسی بے شمار فلمیں لوگوں کے ذہنوں میں آج بھی زندہ ہوں گی۔
نرگس، شمیم آرا، صبیحہ، نیئر سلطانہ، مدھو بالا، مینا کماری، دپتی نول، ریکھا، راکھی، نصیر الدین شاہ، محمد علی، درپن، اعجاز، فاروق شیخ، سریش اوبرائے، راج ببر، راج کپور اور راج کمار جیسے اداکاروں اور اداکاراؤں کے مقابلے میں انڈیا یا پاکستان میں کسی کو بھی کوئی نام یاد ہے؟ پاکستانی فلموں کا زوال تو زمانہ پہلے ہوگیا ، رہی سہی ''مولا جٹ'' اور '' گجروں'' پہ بنائی جانے والی فلموں نے نکال دی۔
آج ہمیں ریڈیو بھی یاد آتا ہے، ابتدائی زمانے کا بلیک اینڈ وائٹ پی ٹی وی بھی ہمیں اور ہمارے جیسے لوگوں کو گرامو فون بھی یاد آتا ہے، ریڈیو گرام بھی اور ریکارڈ پلیئر بھی۔ ہم نے گرامو فون ایک یادگار اور ڈیکوریشن پیس کے طور پر والد صاحب کے کمرے میں ضرور دیکھا تھا، جس میں چابی بھر کر چلایا جاتا تھا، ہماری دادی گرامو فون کے کالے ریکارڈ کو '' توا'' کہتی تھیں۔ ہماری یاد داشتوں میں ریڈیو گرام اور ریکارڈ پلیئر ہے جن کی اپنی ہی ایک شان ہوتی تھی۔
دس ریکارڈ اکٹھے ریکارڈ پلیئر پہ لگا دیے جاتے تھے، ایک ایک کر کے نیچے گرتا اور بجتا چلا جاتا ہے، جب دس ریکارڈ پورے ہو جاتے تو انھیں پلٹ کر لگا دیا جاتا، تین منٹ کا ایک گانا ہوتا تھا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے ریڈیو سے کمرشل سروس کا آغاز ہو گیا، یہ ایک نیا تجربہ تھا، اب فرمائشی پروگرام ختم کر دیا گیا، لیکن ریڈیو سیلون سے '' بناکا گیت مالا '' کا سحر مسلسل قائم رہا۔ والد صاحب اپنے کمرے میں استاد بڑے غلام علی خاں، استاد برکت علی خاں اور ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم کی ٹھمری، دادرے اور ملہار سنتے۔ میاں کی توڑی اور میاں کا ملہار تو مجھے بھی بہت پسند تھا اور آج تک ہے۔ استاد برکت علی خاں کا گیت:
باغوں میں پڑے جھولے
تم بھول گئے ہم کو
ہم تم کو نہیں بھولے
کا اپنا ایک سحر ہے۔ یہ تہذیب بہت کچھ کھا گئی، بڑوں کا ادب تو جیسے قصہ پارینہ ہوا۔ چھوٹے چھوٹے بچے بزرگوں کے منہ کو آنے لگے۔ وہ دن وہ معاشرہ وہ ماحول وہ ادب آداب کہاں گیا، جب محلے کا کوئی بھی بزرگ کسی غلط بات پہ بچوں کو ڈانٹ دیتا تھا اور ماں باپ ان کے شکر گزار ہوتے تھے اور آج یہ حال ہے کہ بچوں کی بدتمیزی، جوانوں کی بد اخلاقی پر اگر کسی نے دو جملے کہہ دیے تو ماں باپ باقاعدہ لڑنے کو آجاتے ہیں۔
میری بڑی بہن جب بھی گھر آتیں تو لان میں لگے ہوئے جھولے میں ضرور بیٹھتیں، وہ دلی اور الٰہ آباد کی سہیلیوں کو یاد کرتیں، میرا کام انھیں جھونٹا دینا تھا، وہ آہستہ آہستہ گنگناتی بھی جاتی تھیں:
اماں میرے باوا کو بھیجو ری کہ ساون آیا
بیٹی تیرا باوا تو بڈھا ری کہ ساون آیا
اماں میرے ماموں کو بھیجو ری کہ ساون آیا
بیٹی تیرا ماموں تو چھیلا ری کہ ساون آیا
وہ گاتے گاتے آبدیدہ ہو جاتیں اور پھر لان میں لگے ہوئے موگرہ اور موتیا کو توڑ کر اپنے لیے گجرا بنانے لگتیں۔ کہتے ہیں تقسیم کے فوراً بعد بھی بھائی چارہ کا جذبہ تھا، لٹے پٹے مہاجر، جالندھر، انبالہ، دلی، لکھنو، الٰہ آباد، یوپی اور مشرقی پنجاب سے آئے تو ان کے دکھ سانجھے تھے۔ وہ جو چھوڑ آئے تھے انھیں یاد کرکے روتے تھے۔ لیکن اب یہ کیا ہو گیا، اپنے ہی ہم مذہب دہشت گردوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔
ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، لیکن پاکستان بننے کی معاشی وجوہات کے علاوہ یہ بھی تھا کہ مسلمان آزادی سے اپنی عبادت گاہوں میں نماز ادا کرسکیں۔ لیکن اب ہو کیا رہا ہے، کلمہ گو ایک دوسرے کو مار رہے ہیں، سنی، وہابی، شیعہ، اہل حدیث کی تقسیم۔۔۔۔ پھر اردو، پنجابی، پشتو، بلوچی، براہوی، سرائیکی، ہندکو اور گوجری کی تقسیم۔ یعنی تقسیم در تقسیم۔ وہ محبتیں وہ خلوص وہ اپنائیت کہاں گیا؟ جس کے سائے میں ہم نے پرورش پائی تھی۔ اب تو ہر طرف اندھیرا ہے، وہی بات کہ:
چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے