ایئر پورٹ سانحہ آخر کیوں

سیکیورٹی اہلکاروں کی حب الوطنی، جرأت مندی و بہادری سے انکار نہیں کہ اکثر واقعات میں وہ خود بھی دہشت گردی۔۔۔۔


MJ Gohar June 18, 2014
[email protected]

پاکستان کے معاشی مرکز اور عالمی پہچان رکھنے والے معروف شہر کراچی کو گزشتہ ایک عشرے سے زائد عرصے سے یہاں جاری دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، بم دھماکوں، خودکش حملوں اور سرکاری و حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے کے پے در پے رونما ہونے والے واقعات نے نہایت حساس اور غیر محفوظ شہر بنا دیا ہے۔

ملک کا سب سے بڑا صنعتی، تجارتی، ثقافتی اور60 فیصد ریونیو دینے والا شہر جرائم پیشہ، شرپسند اور تخریب کار ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث عناصر کی محفوظ پناہ گاہ بنتا جا رہا ہے۔ کراچی میں گزشتہ چھ ماہ سے آپریشن جاری ہے اور اس وقت یہ آپریشن آخری و حتمی مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔ سیکڑوں شرپسند عناصر کو گرفتار کیا جا چکا ہے، پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری یہاں موجود ہے، رات دن پٹرولنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے اس کے باوجود دہشت گردی کی وارداتوں پر قابو نہ پایا جانا باعث حیرت اور افسوس ناک اور سرکاری اہلکاروں اور خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

سیکیورٹی اہلکاروں کی حب الوطنی، جرأت مندی و بہادری سے انکار نہیں کہ اکثر واقعات میں وہ خود بھی دہشت گردی کا نشانہ بنتے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہے ہیں اور ایسا ہی ایک اور شاندار مظاہرہ گزشتہ ہفتے کراچی ایئرپورٹ پر ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کے دوران دیکھنے میں آیا جب رات کے اندھیرے میں دس مسلح دہشت گردوں نے ٹرمینل ون سے ایئرپورٹ کے اندر داخل ہو کر مختلف جگہوں پر پوزیشن سنبھال لیں، قریب تھا کہ یہ دہشت گرد اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے جناح ٹرمینل کی جانب پیش قدمی کرتے اور مسافروں، ایئرپورٹ کے عملے کو یرغمال بناتے یا پرواز کے لیے تیار کسی جہاز پر قبضہ کرکے ہائی جیک کرتے اور پوری دنیا میں سیکیورٹی و امن و امان کے حوالے سے وطن عزیز کی رسوائی و بدنامی کا ذریعہ بنتے، لیکن پہلے ہی مرحلے میں اے ایس ایف کے بہادر جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر ان کے مذموم ارادوں کی راہ میں دیوار کھڑی کر دی۔

بعد ازاں پولیس، رینجرز اور پاک فوج کے جری و بہادر جوانوں نے جس جرأت مندی، دلیری اور حکمت عملی کے تحت اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر وطن عزیز کی حرمت اور دفاع کی خاطر دہشت گردوں کا دلیرانہ مقابلہ کر کے انھیں کیفر کردار تک پہنچایا وہ بلا شبہ قابل تحسین ہے۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بجا طور پر ایئرپورٹ حملے کی کارروائی میں حصہ لینے والے جوانوں کے عزم و حوصلے کو سراہا کیوں کہ ان جوانوں کی بہادری نے ہمیں ایک بڑی تباہی، رسوائی اور ناکامی سے بچا لیا ہے جس پر انھیں سلام پیش نہ کرنا زیادتی ہوگی۔

آپ ایئرپورٹ حملے کی سنگینی و حساسیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف بذات خود پوری رات جاگتے رہے اور لمحہ بہ لمحہ حالات کی خبر لیتے رہے بعینہ وزیر اعظم نواز شریف اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو بھی صورت حال سے با خبر رکھا گیا جب کہ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے صورت حال کی نزاکت کے پیش نظر معمول کی تمام سرگرمیاں ترک کر دیں اور پروٹوکول کی پرواہ کیے بغیر فوری طور پر ایئرپورٹ پہنچ گئے اور تمام کارروائی کو خود مانیٹر کرتے رہے۔

وزیر اعلیٰ ایئر پورٹ آپریشن مکمل ہونے تک اے ایس ایف کے ہیڈ کوارٹر میں موجود رہے اس اندوہناک سانحے میں تمام 10 دہشت گرد ہلاک اور سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 11افراد نے جام شہادت نوش کیا۔ تاہم سب سے افسوس ناک و دلخراش لمحہ کولڈ اسٹوریج میں پھنسے ہوئے افراد کی ہلاکت کا ہے جو بلا شبہ انتظامی نا اہلی کا مظہر ہے ان کے لواحقین کو جواب کون دے گا؟ مرحومین کے بچوں کے مستقبل کی ذمے داری کس پر عائد ہو گی، ان کے زخموں کا مرہم کون بنے گا۔ کولڈ اسٹوریج سانحے کی ایماندارانہ تحقیقات کی جانی چاہیے اور ذمے داروں کو قرار واقعی سزا بھی دی جانی چاہیے کہ انصاف کا تقاضا یہی ہے۔

کراچی ایئرپورٹ حملے کی ذمے داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت کا بدلہ لے لیا ہے اور ساتھ ہی یہ پیغام بھی دیا ہے کہ ابھی یہ ابتدا ء ہے مزید حملے کریں گے ان کا یہ پیغام حکمرانوں بالخصوص طالبان سے مذاکرات کے حامی عناصر کے لیے واقعی ایک زبردست ''جھٹکا'' ہے گویا یہ طے ہے کہ ٹی ٹی پی اپنے قائد حکیم اﷲ محسود کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال، حکومت سے مذاکرات میں ناکامی اور شمالی وزیرستان میں پاک فوج کی کارروائیوں کے جواب میں ملک کی حساس تنصیبات اور اہم شخصیات کو نشانہ بنا سکتی ہے۔

نتیجتاً ملک کے اہم شہروں، کراچی، لاہور، کوئٹہ، پشاور اور اسلام آباد میں دہشت گردی کی خوفناک کارروائیوں کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ارباب اختیار نے ٹی ٹی پی کے امکانی حملوں کو روکنے کے لیے پیش بندی اور حکمت عملی مرتب کر لی ہے، کیا حکومت نے امن کے قیام، عوام کے جان و مال کے تحفظ، حساس قومی تنصیبات کی حفاظت کے لیے کوئی جامع، ہمہ گیر اور ہمہ جہت منصوبہ بنا لیا ہے اور کیا اس پر عمل در آمد کے حوالے سے حکومت، پاک فوج اور دیگر سیکیورٹی ادارے پوری طرح یکسو اور ہم آہنگ ہو چکے ہیں۔

کیا ارکان پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے لیا گیا ہے کیا ایئرپورٹ حملے کے بعد حکومتی ارکان کے امن و امان یقینی بنانے، دہشت گردی کے خاتمے، عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے بلند و بانگ دعوئوں کے بعد مطمئن ہو جائیں کہ اب ہمارے حکمران سنجیدگی کے ساتھ دہشت گردوں کے عزائم خاک میں ملانے کے لیے پوری طرح کمیٹڈ ہیں۔ افسوس کہ ان سوالوں کا جواب ''ہاں'' میں نہیں دیا جا سکتا کیوں کہ ایئرپورٹ پر پہلا واقعہ نہیں، اکتوبر 2009 میں آرمی ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کو نشانہ بنایا گیا۔ مئی 2011 میں بحریہ کے مہران بیس کراچی پر حملہ ہوا۔ اگست 2012 میں پاک فضائیہ کے ایئربیس کامرہ کو نشانہ بنایا گیا اور اب جون 2014 میں کراچی ایئرپورٹ دہشت گردوں کا نشانہ بنا ہے، ہماری ناکامیوں کی فہرست طویل ہے اور کوتاہیوں کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے، ہر دلخراش سانحے کے بعد جیسے جاگ جاتے ہیں۔

اخباری بیانات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ہر ادارہ اپنی کوتاہیاں چھپانے کے لیے دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے لگتا ہے اور آیندہ ایسے واقعات نہ ہونے کی یقین دہانیاں کرائی جانے لگتی ہیں لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ ''وقتی جوش'' دکھانے کے بعد پھر گہرا سکوت طاری ہو جاتا ہے معمولات زندگی اور کاروبار سلطنت پھر پرانی ڈگر پر چلنے لگتا ہے، نتیجتاً پھر ایک نیا سانحہ ہمارے دعوئوں کی چغلی کھانے لگتا ہے او نہ صرف پوری دنیا میں ملک و قوم کی رسوائی و بدنامی کا باعث بنتا ہے بلکہ حکمرانوں کے دعوئوں کی قلعی بھی کھل جاتی ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم پھر بھی کسی سانحے سے سبق نہیں حاصل کرتے۔ آخر کیوں!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں