مکارم اخلاق

چھوٹوںپرشفقت،بڑوںکااحترام کیجیے۔ مشکلات، آزمائشوں اور پریشانیوں کی تپش جھلسا رہی ہوتو فوراً صبر کے سائے میں آجائیے

فوٹو : فائل

اسلام کی روشن و منور تعلیمات میں سے بہت ہی حسین پیغام اور حسنِ معاشرت کا بڑا پیارا اصول رسول اﷲ ﷺ کا یہ فرمان بھی ہے:

''اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔''

اﷲ کے آخری نبی ﷺ کا یہ فرمان مخلوق کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنے کی وصیت پر مشتمل ہے۔ خلق حَسن سے مراد ایسی پختہ عادت ہے جس سے سارے کام آسانی سے ہوجائیں، اسے ''خلق حَسن'' یعنی حسنِ اخلاق کہتے ہیں۔ نیز خلق حَسن کا ایک معنی مسکرا کر ملنا، تکلیف دہ چیز دور کرنا اور نیک کام میں خرچ کرنا ہے۔ نیز اس کی شرح میں یہ بھی فرمایا گیا کہ لوگوں کے ساتھ اس طرح پیش آؤ جس طرح تمہیں پسند ہے کہ وہ تمہارے ساتھ پیش آئیں۔

اِس وضاحت سے معلوم ہُوا کہ وقتی طور پر کوئی اچھا کام ہوجائے جیسے بے جا غصہ آنے پر اسے کبھی قابو کرلینا اگرچہ اچھا کام ہے لیکن اِسے حسنِ اخلاق اسی صورت میں کہیں گے جب یہ طبیعت کا حصّہ بن جائے۔

علامہ مولانا الیاس عطّار قادری فرماتے ہیں: ''عام طور پر اچھے اَخلاق والا اسے کہا جاتا ہے جو مسکرا کر خوب گرم جوشی سے ملاقات کرے۔ مسکرا کر گرم جوشی سے ملاقات کرنا بھی اگرچہ اچھے اَخلاق کا حصہ ہے لیکن اس میں حسنِ معاشرت، دوسروں کو نفع (فائدہ) پہنچانا اور نقصان سے بچانا وغیرہ چیزیں بھی داخل ہیں۔

کئی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو مسکرا کر گرم جوشی سے مِل رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی دوسروں کو نقصان بھی پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی بات ان کے مزاج کے خلاف ہو جائے تو وہ غصے میں آپے سے باہر ہو جاتے ہیں مثلاً کسی نے آپ کے ساتھ مسکرا کر گرم جوشی سے ملاقات کی اور پھر بڑی محبت کے ساتھ بریانی کی پلیٹ لا کر آپ کو پیش کی، اس دَوران آپ نے کوئی بات اس کے مزاج کے خلاف کر دی تو اس نے وہی پلیٹ آپ کے منہ پر مار دی تو اسے حسنِ اَخلاق نہیں بل کہ بَداخلاقی کہیں گے۔

اچھے اَخلاق اور خوب مسکرا مسکرا کر تو بعض تاجِر حضرات بھی ملتے ہیں اور چائے بوتل کے ذَریعے گاہک کی خوب آؤ بھگت بھی کرتے ہیں، مگر سودا نہ ہونے یا ان کے مزاج کے خلاف بھاؤ لگا دینے سے غصے میں آ جاتے ہیں تو ایسے تاجِر بھی بااَخلاق نہیں بل کہ مَفاد پَرست ہوتے ہیں۔ ان کا یہ اَخلاق اﷲ پاک کی رضا کے لیے نہیں بل کہ گاہک کو پھنسانے کے لیے ہوتا ہے۔ اچھے اَخلاق اور مسکرا کر ملنے کا ثواب اسی صورت میں ملے گا جب یہ کام اﷲ پاک کی رضا کے لیے کیے جائیں، ان میں اپنا کوئی ذاتی مَفاد مثلاً میری چیز فروخت ہو جائے، لوگ مجھے مِلن سار یا بااَخلاق کہیں اور میری ذات سے متاثر ہوجائیں وغیرہ وغیرہ کچھ نہ ہو۔''

جس طرح گہرے پانی میں موجود کشتی کا معمولی سوراخوں کی وجہ سے ڈوبنا یقینی ہوجاتا ہے ایسے ہی زندگی کی کشتی بداخلاقی کے سوراخ کے سبب ڈوب جاتی ہے، اپنی کشتی کنارے تک پہنچانے کے لیے ''خوش اخلاقی'' اپنانا سب سے زیادہ کارآمد ثابت ہوتا ہے۔

''اچھے اخلاق'' کردار کو اچھا بنانے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، کیوں کہ اچھا یا بُرا انسان اپنے اخلاق سے پہچانا جاتا ہے، اگر اخلاق اچھے ہوں تو بندے کی غلطیوں کے درست ہونے کی امید لگی رہتی ہے، اگر اخلاق بُرے ہوں تو بندے کی دیگر خوبیوں کے ختم ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ جس کے اخلاق جتنے زیادہ اچھے ہوں گے اس کا کردار بھی اتنا ہی اچھا ہوگا، اچھے اخلاق والے کی ہر کوئی عزت کرتا ہے اور ہر جگہ اس کی قدر کی جاتی ہے جب کہ بُرے اخلاق والے کی دل سے نہ کوئی عزت کرتا ہے اور نہ ہی کوئی قدر، بل کہ الٹا اس سے جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ہمارے پیارے نبی ﷺ دنیا و آخرت میں سب سے بہترین اخلاق والے ہیں، اﷲ پاک نے آپ ﷺ کے اخلاق کی تعریف قرآنِ کریم میں بھی فرمائی ہے۔ آخری نبی ﷺ حسنِ اخلاق اور اچھے اعمال کی تکمیل کے لیے دنیا میں تشریف لائے چناں چہ آپ ﷺ فرماتے ہیں:

''بے شک! اﷲ نے مجھے حسن ِ اخلاق اور اچھے اعمال کو تمام و کمال تک پہنچانے کے لیے بھیجا ہے۔''


حسنِ اخلاق کے فضائل:

رسولِ اکرم ﷺ نے اچھے اخلاق کے یہ فضائل بیان فرمائے:

( 1) بے شک! بندہ حسنِ اخلاق کے ذریعے دِن میں روزہ رکھنے اور رات میں قِیام (یعنی عبادت) کرنے والوں کے درجے کو پا لیتا ہے۔''

(2) بارگاہ ِ رسالت ﷺ میں پوچھا گیا کہ مسلمان کو سب سے بہترین چیز کیا دی گئی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: حسن اخلاق۔

( 3) میزانِ عمل (یعنی ترازو) میں حسنِ اَخلاق سے زیادہ وزنی کوئی چیز نہیں۔''

(4) رحمتِ عالَم ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے، مفہوم: ''اے اﷲ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں منافَرت (لوگوں سے نفرت کرنا) منافقت اور بُرے اخلاق سے۔''

(5) اﷲ کے آخری نبی ﷺ سے اکثر لوگوں کے جنّت میں جانے کی وجہ پوچھی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: اﷲ کا خوف اور اچھے اخلاق۔ (یعنی اﷲ کا خوف اور اچھے اخلاق لوگوں کو سب سے زیادہ جنّت میں داخل کریں گے)

اچھے اخلاق اپنانے کی کوشش کیجیے:

اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ اچھے اخلاق ہماری دنیا و آخرت کام یاب بنانے کے بہترین ذرائع ہیں، ہمیں چاہیے کہ کسی سے غلطی ہوجائے تو اسے ڈانٹنے، جھاڑنے اور دل دکھانے والی باتیں کرکے تکلیف نہ پہنچائیں بل کہ دل بڑا کرکے غلطی معاف کرنے کی عادت بنائیں، جہاں بولنا ضروری ہو وہاں چپ رہنے کی عادت ختم کیجیے اور جہاں چپ رہنا ضروری ہو وہاں بولنے سے بچیے کیوں کہ کبھی بول دینے سے مسائل ختم ہوتے ہیں اور کبھی چپ اس لیے رہا جاتا ہے تاکہ مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔

مسکراہٹ کی کشش مقناطیس سے بھی زیادہ ہے لہٰذا مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجا کر رکھنے کی کوشش کیجیے۔ کسی گرتے کو سہارا دیجیے، اگر آپ میں کوئی صلاحیت ہے تو اس پر تکبّر کرنے کے بہ جائے عاجزی اختیار کیجیے۔ چھوٹوں پر شفقت کیجیے، بڑوں کا احترام کیجیے۔ مشکلات، آزمائشوں اور پریشانیوں کی تپش جھلسا رہی ہو تو فوراً صبر کے سائے میں آجائیے یوں بے صبری سے بھی بچ جائیں گے اور راحت و سکون بھی پائیں گے۔

قرآن وحدیث اور بزرگوں کی کتابوں میں حسنِ اخلاق کی حکایات موجود ہیں جن کو پڑھنا بہت ہی بابرکت ہے لیکن نیک لوگوں کو دیکھ کر حسنِ اخلاق سیکھنا زیادہ مفید رہتا ہے۔
Load Next Story